Sunday, March 24, 2013

مُحِمد بن مَسلَمہ الأنصاری الحارثی

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے دِین کی دعوت بلند کی تو شیطان کے تابع فرمانوں کے دِلوں میں آگ لگ گئی اور وہ اپنے پیر و مُرشد کے الہامات پر عمل کرتے ہوئے اللہ کے دِین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف ہر کام کرتے اور کرواتے ، اِن میں سے کچھ تو ایسے بھی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت بھی خوب دے رکھا تھا اور اُنکے مدد گار بھی بہت تھے اور اُن سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اللہ کے دِین کے خِلاف کام کرنے کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا، اپنے مال اورساتھیوں کو اِستعمال کر کے اللہ کے دِین اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، بلکہ خود ایسے کام شروع کرواتے ، انہی میں سے ایک یہودیوں کا طاغوت کعب بن الاشرف تھا۔ اللہ نے اسے مال و دولت سے نوازا تھا ،لیکن دِین حق کی دعوت کی جلن کی وجہ سے وہ اللہ اور اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا پکا دشمن بن چکا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں گُستاخانہ شاعری بھی کیا کرتا تھا۔ مکہ اور عرب کے مشرکوں کے ساتھ دوستانہ مجلسیں ''' Friendly Meeting''' کرتا رہتا اور اُنہیں اپنے خصوصی مشیروں کے ذریعے اللہ کے دِین اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف کاروائیوں پر تیار کرتا رہتا ، جب اِسکی کاروائیاں بہت بڑھ گئیں تو ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((  مَن لِکعب بن الأشرف فإِنّہ قد آذی اللَّہ و رسولہ ::: کون ہے جوکعب بن الاشرف کو روکے کیونکہ اُس نے یقینا اللہ اور اللہ کے رسول کو دُکھ پہنچایا ہے )))))
 تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سچی محبت کرنے والوں ،اللہ کے حقیقی ولیوں کی مجلس میں سے ایک ولی اللہ، صحابیءِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کھڑے ہوئے اور عرض کیا""" اے اللہ کے رسول کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اُسے قتل کر دوں ؟"""
 ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے عرض کِیا ::: اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اُسکے سامنے آپ کے خِلاف کچھ کہوں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( کہہ سکتے ہو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت پا کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ اپنے گھر چلے آئے ، گھر پہنچ کر جب اُنہوں نے اِس معاملے پر غور کِیا یعنی پلاننگ کرنا شروع کی تو خیال آیا کہ معاملہ تو کافی نازک اور خطرناک ہے اگر مجھے اِس میں کامیابی نہ ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کیا مُنہ دِکھاؤں گا ، اِسی فِکرمیں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ
نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ،
    کچھ دِن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دیگر صحابہ سے محمد رضی اللہ عنہُ کے بارے میں دریافت فرمایا تو صحابہ نے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کوبتایا کہ وہ اپنے گھر میں بند ہے اور کچھ کھا پی بھی نہیں رہا ، رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُنکو بلایا اور پوچھا ( کیا بات ہے؟) تو انہوں نے کہاکہ :::میں نے آپ سے وعدہ توکر لیا ہے لیکن اگر میں اُسے قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو میں وعدہ خِلاف ہوجاؤں گا ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا(تمہارا کام کوشش کرنا ہے (یعنی تم کوشش کرونتیجہ اللہ نکالے گا ))
     محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ ، جب وہاں سے نکلے تو راستے میں اُنہیں ابو نائلہ سلکان بن قیس الأشھلی رضی اللہ عنہ ُ ملے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس ہی جا رہے تھے ، محمد رضی اللہ عنہ نے سلکان رضی اللہ عنہ سے کہا ''' مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کعب بن الاشرف کو قتل کرنے کا حُکم دِیا ہے اور تُم جاہلیت کے زمانے میں اُسکے قریبی دوستوں میں تھے ، وہ اب بھی تمہاری بات مانے گا لہذا تم اُسے اُسکی پناہ گاہ سے نکالنے میں میری مدد کرو تا کہ میں اُسے قتل کر سکوں اِنشاء اللہ ''' سلکان رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِسکی اجازت عطاء فرمائیں گے تو پھر میںاِنشاء اللہ ضرور تمہاری مدد کروں گا ''' پھر دونوں ملکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس آئے اور سلکان رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اِس معاملے کی بابت وہی پوچھا جو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے پوچھا تھا اور اُنہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُسی طرح اجازت دی جِس طرح محمد رضی اللہ عنہ ُ کو دی تھی ،
    پھر یہ دونوں ساتھی اپنی منصوبہ بندی اور اُسکے مُطابق تیاری کر کے ، اپنے ساتھ عباد بن بشر ، ، ابو عیسی ابن جبر ،سعد بن معاذ اور اُنکے بھتیجے الحارث رضی اللہ عنہم اجمعین ، کو لے کر کعب بن الاشرف کے عِلاقے میں پہنچے اور پہلے دو ساتھی یعنی محمد بن مسملہ اور ابو نائلہ سلکان بن قیس رضی اللہ عنھما کعب بن الأشرف کے پاس گئے وہ اُنہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور پوچھنے لگا کہ '' کیسے آئے ہو ؟'' محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''' ہم لوگ بہت مصیبت میں ہیں اور تمہارے پاس کچھ مدد لینے کے لیئے آئے ہیں ، جب سے یہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آیاہے اس نے ہم سے کہا کہ اگر تم لوگ ایمان لے آئے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور کہا صدقات دو ہم نے سب کچھ دے دیا ، اور کہا'' نماز'' پڑھو ہم نے پڑھنے لگے اور کہا ''روزہ'' رکھو ہم رکھنے لگے اور کہا میرے ساتھ ملکر ''جہاد ''کرو ہم نے کیا یہ سب کرتے ہو ئے ہمیں اتنا عرصہ گزر گیا لیکن ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر یہ معاملہ کہاں رُکے گا اور کیا نتیجہ نکلے گا ، اور اب تو ہما ری حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو کچھ کھلانے کےلیے بھی نہیں ہے، لیکن ابھی ہم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتے اور کچھ اور دیر تک دیکھنا چاہتے ہیں کہ شاید اُس کے وعدے پورے ہو جائیں اور ہماری حالت بدل جائے
تم فی الحال ہماری اتنی مدد کرو کہ ہمیں کھجور کے دو چار ٹوکرے ہی دے دو تا کہ ہم اپنے خاندان والوں کو کچھ عرصے کھانا تو دے سکیں جب ہمارے پاس واپسی کی گنجائش ہو جائے گی تو تمہارا مال تمہیں واپس کر دیں گے '''
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کی بات کے بعد سلکان رضی اللہ عنہُ نے کعب کو اپنی پرانی دوستی یاد دلائی ، کعب نے کہا ''میں کعب بن الاشرف ہوں اور تم میرے پرانے دوست ہی نہیں بلکہ رضاعی بھائی بھی ہو، میں تماری مدد ضرور کروں گا ، لیکن تم لوگ میرے مال کی واپسی کی ضمانت کے طور کے طور پر کوئی چیز میرے پاس گروی رکھوا دو '' ، محمد اور سلکان رضی اللہ عنہما نے کہا ''' کیا رکھوائیں؟ ''' کعب نے کہا '' اپنی عورتیں '' اُنہوں نے کہا ''' تُم تو عرب کے خوبصورت ترین مَردوں میں سے ہو، ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ ''' کعب نے کہا '' اچھا اپنے بچوں میں سے کسی کو چھوڑدو '' تو انہوں نے کہا ''' یہ تو بڑے عیب اور شرم والی بات ہے کل کو ہمارے بچے کیا سوچیں گے کہ ہم نے اُنکی قیمت بس کھجور کے دو ٹوکرے رکھی تھی ؟ ایسا کرتے ہیں کہ ہم تمہارے پاس اپنا اسلحہ رکھ دیتے ہیں''' بیوقوف کعب نے خوش ہو کر کہا ''' ہاں ہاں اسلحہ اسلحہ ، اسلحہ تو وفا کی نشانی ہے، بالکل ٹھیک ہے تم لوگ اپنا اسلحہ میرے پاس رکھ دو '' انہوں نے کہا ''' ٹھیک ہے شام کو ہم دو تین اور لوگوں کو ساتھ لائیں گے تا کہ کھجوریں لے جا سکیں اور کھجوریں لینے سے پہلے تمہیںاپنا اسلحہ دے دیں گے '''
     محمد اور سلکان رضی اللہ عنہما نے یہ بات اِسلیئے کی کہ کی طرف سے اجازت کی وجہ سے اسلحہ ساتھ لے کر داخل ہونے میں کوئی روکاوٹ نہ ہو، اور نہ ہی کعب کے چوکیدار اُنکی کوئی خاص نگرانی کریں '''
    شام کافی گہری ہونے کے بعدپانچوں صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین ، کعب کے قلعے کے دروازے پر پہنچے اور آواز دِی ، ''' یا کعب ''' وہ اپنے کمرے میں اپنی بیوی کے پاس لیٹا ہوا تھا ، اُنکی آواز سُن کر فوراً جواب دِیا ''آتا ہوں آتاہوں ''،اُسکی بیوی اُسکے ساتھ لٹک گئی اور کہنے لگی '' کعب ، اس وقت باہر مت نکلو ،تم نے محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) اور اُسکے ساتھیوں سے دشمنی پال رکھی ہیں اِس وقت مت جاؤ '' کعب نے کہا '' پاگل عورت ، یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے ساتھی تو ہیں لیکن میرے پاس مدد مانگنے آئے ہیں اگر میں اِن کی بات پوری کروں گا تو مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے دِین کو ناکام کرنے اور اُسکے مزید ساتھیوں کو اپنے ساتھ ملانے کا موقع ملے گا ، اور خاص طور پر یہ لوگ تو میرے دوست اور رضاعی بھائی ابو نائلہ کے ساتھ آئے ہیں، اور میں کوئی بیوقوف تو نہیں ، یہ لوگ اپنا اسلحہ بھی میرے پاس گروی رکھ رہے ہیں ، اور میں اپنے قلعے میں اپنے چوکیداروں کے سامنے ہوں یہاںکوئی میرا کُچھ نہیں بگاڑ سکتا '' اُسکی بیوی نے پھر کہا '' کعب خون بہنے کی آواز آرہی ہے، مت جاؤ '' کعب نے اپنی بیوی پر بہادری کی دھونس جماتے ہوئے کہا '' میں کعب بن الاشرف ہوں ، باعزت اور با رتبہ سردار اور اگر ایسے سردار کو اُسکے دوست آدھی رات کو قتل کرنے کے لیے بھی پکاریں تو وہ ضرور جاتا ہے '' اتنی دیر میں صحابہ نے پھر اُسکو زور سے آواز دِی ''' یا کعب ''' اُس نے بھی اونچی آواز میں کہا ''آرہا ہوں آرہا ہوں '' اور باہر آ کر اپنے چوکیداروں کو اشارہ کیا کہ دروزاہ کھول دیا جائے اور اِن لوگوں کو اسلحے سمیت اندر آنے دِیا جائے ، میں خود اُن کا اسلحہ اُن سے وصول کروں گا ،
    اُسکے چوکیداروں نے دروازہ کھول دِیا اور پانچوں صحابی رضی اللہ عنہم اندر داخل ہو گئے ، اور کعب کے پاس پہنچے اور کہا ''' کعب تمہارے پاس سے رخصت ہونے سے پہلے کچھ اور بات چیت کر لیں ، اور تھوڑی چہل قدمی کر لیں ''' اُس نے کہا '' کیوں نہیں '' اور سب ملکر ٹہلنے لگے ،
    کعب کے پاس آنے سے پہلے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ طے کر کھا تھا کہ میں بہانے سے کعب کو سر کے بالوں سے قابو کروں گا اور جب پوری طرح سے قابو کر لوں گا تو پھر تم لوگوں کو آواز دوں گا تُم لوگ اُس پر حملہ کر دینا ، اپنے اِسی منصوبے پر عمل کرنے لے لیے ہی اُنہوں نے کعب کو باتیں کرنے اور ٹہل قدمی کرنے کا کہا تھا ،
    جب وہ لوگ چلتے چلتے رہائشی عِلاقے سے کچھ دور ہوئے تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب تمہارے پاس سے بہت اچھی خُوشبُو آ رہی ہے ، کیا تُم مجھے اجازت دو گے کہ میں تمہارے بال سونگھ لوں ؟ ''' کعب جو پہلے ہی یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ آج وہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھیوں میں اپنے کچھ کو اپنے ساتھی بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے ، اِس بات پر اور خوش ہوا اور بڑے فخر سے کہا '' میرے پاس عرب کی سب سے بہترین عِطر تیار کرنے والی عورتیں ہیں ، ضرور تُم اِس خُوشبُو کو سُونگھو '' محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے اُسکے قریب ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اُس کے بالوں میں داخل کیے اور اُسکے بالوں کو سونگھا ، اور پھر چھوڑ دِیا ، اور کہا ، ''' کعب میرے ساتھیوں کو بھی اجازت دو کہ اِس خُوشبُو کو سونگھ سکیں ''' کعب اور زیادہ اکڑا اور کہا '' کیوں نہیں ضرور '' ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کِیا اُنہوں نے بھی باری باری کعب کا سر سونگھا اور پیچھے ہٹ گئے     یہ ساری کاروائی کعب کے چوکیداروں کو دِکھانے کےلیے کی جا رہی تھی تا کہ وہ کعب کی طرف سے بے فکر ہو جائیں اور یہ سمجھ لیں کہ کعب اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کر رہا ہے اور اُسے اِن لوگوں سے کوئی خطرہ نہیں ، کچھ اور دور جا کر پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب مجھے تمہاری خُوشبُو پر صبر نہیں آ رہا ''' کعب نے پھر خوش ہو کر کہا ''' تو کیا ہوا پھر سونگھ لو ''' ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے پھر پہلے جیسا کام کیا ، کچھ دیر بعد جب وہ لوگ چوکیداروں سے کافی مُناسب حد تک دور ہو گئے ، تو پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب بس اب آخری دفعہ اپنا سر سونگھنے کی اجازت دے دو ''' کعب نے بڑے تکبر کے ساتھ مسکراتے ہو ئے کہا ''' ہاں ضرور ، سونگھ لو اور جان لو کہ میرے پاس عرب کی سب سے بہترین خوشبو ہوتی ہے ''
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ والہانہ انداز میں آگے بڑھے اور اپنے دونوں ہاتھ کعب کے کانوں کے پاس سے اُسکے سر میں داخل کر کے اُسکے سر کے بالوں کو انتہائی مضبوطی سے قابو کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو پکار کر کہا ''' مار ڈالو اللہ کے دُشمن کو ''' ساتھیوں نے اپنے ہتیاروں سے اُس پر حملہ کر دِیا ، وہ لوگ اُس وقت اندھیرے میں تھے لہذا کِسی کا بھی وار اِس حد تک کار گر نہ ہوا کہ اللہ کا دُشمن اُسی وقت ہلاک ہو جاتا ، صحابہ کے وار پڑنے پر وہ انتہائی اُونچی آواز میں چیخ رہا تھا ، اُسکی چیخیں سُن کر اُسکے چوکیدار اپنی اپنی مشعلیں جلا کربھاگتے ہوئے اُس طرف کو آئے قلعے کے اوپر والی رہائشی حصے میں سے اُس کی بیوی اور دوسری عورتیں بھی اُس کی چیخ و پکار سن کر چیخنے لگیں ،
اُسکے چوکیدار بہت قریب پہنچ چکے تھے ، اور اللہ کا وہ دُشمن اُس وقت تک مرا نہیں تھا بلکہ اُسکو کوئی ایسا زخم بھی نہیں آیا تھا جو اُسکے لیے جان لیوا ہوتا ،
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور اپنے ترکش میں سے ایک تِیر نِکال کر اُس کی چونچ والا حصہ کعب کے پیٹ کے نچلے حصے پر رکھ کر تکبیر بُلند کرتے ہوئے اپنا پورا وزن تیر کے دوسرے سِرے پر ڈال دِیا ، تِیر کعب کا پیٹ پھاڑ کر اندر داخل ہوتا چلا گیا ، اوراللہ کا دُشمن کعب ایک زور دار چیخ نکال کر خاموش ہو گیا ،
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تکلیف دینے والے یہودیوں کے طاغوت کعب بن الاشرف کے مرنے کی تاکید کی ، اتنی دیر میں قلعے میں موجود تمام تر چوکیدار اور دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے ھتیار لے کر وہاں پہنچ چکے تھے ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ اور اُنکے باقی ساتھی رضی اللہ عنہم اجمعین دشمنوں سے لڑتے ہوئے اُن کا گھیرا توڑ کر وہاں سے کامیابی کے ساتھ نکل آئے ،
    اللہ ، اُس کے دِین اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کے دُشمن اور اُن کی شان میں گُستاخی کرنے والے ، یہودیوں کے طاغوت کو فدائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے قتل کرنے کے بعد جب محمد بن مسلمہ اور اُن کے باقی چار ساتھی رضی اللہ عنھُم اجمعین واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن کو دیکھ کر خوش ہوئے اور آخرت کی کامیابی کی خوشخبری سُناتے ہوئے فرمایا ( أفلَحَت الوُجُوہ ::: کامیاب ہو گئے (یہ ) چہرے ) ، تو اِنہوں نے جواب میں عرض کیا '''و وجھک یا رسول اللہ ::: اور آپ کا چہرہ مبارک بھی اے اللہ کے رسول ''' الطبقات الکبریٰ /جز ٢ / صفحہ ٣١/سریۃ قتل کعب بن الاشرف،
یہ فرمان ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ کے ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کو قتل کرنے کے واقعہ میں بھی ہے الطبقات الکبریٰ /جز ٢ / صفحہ ٩١/سریۃعبداللہ بن عتیک الی ابی رافع
    اِس واقعے میں بہت سے اہم سبق ملتے ہیں ، (١) دیگر بہت سے واقعات کی طرح اِس واقعے میں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم غیب کا عِلم نہیں جانتے تھے ، لہذا اپنے ساتھی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کے غیر حاضر ہونے کا سبب نہ جان سکے ، (٢) یہودی ہمیشہ سے خائن اور بُزدل ہوتے ہیں ، اور اِسلام کے آغاز سے ہی وہ اِسلام اور مسلمان دُشمنی میں اپنا وقت اور مال خرچ کر رہے ہیں ، خود صِرف وہاں سامنے آ کر لڑتے ہیں جہاں اُنہیں یہ یقین ہو کہ اُنہیں کوئی جانی نُقصان نہیں ہو گا ،جہاں مار پڑنے کا اندیشہ ہو وہاں وہ دوسروں کو استعمال کرتے ہیں ، (٣ ) کِسی مسلمان کا نام صرف ''' محمد ''' رکھنے میں کوئی گُناہ یا بے ادبی نہیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں خیال کیا جاتا ہے اور کِسی کا نام صرف ''' محمد ''' نہیں رکھا جاتا ، کہ صِرف یہ نام رکھنا بے ادبی ہے اور کوئی اور نام بھی اکیلا رکھنا برا خیال کیا جاتا ہے جِسکی وجہ خاص دِین دار طبقے کے لوگ ایک حدیث بتاتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے ( من ولد لہ ثلاثہ فلم یسمِّ أحدھم محمداً فقد جھل )
( جِسکو تین بیٹے ہوئے اور کِسی کا نام بھی محمد نہ رکھا تو وہ جاھل ہے ) یہ حدیث جھوٹی ہے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث ٤٣٧، اِس پر اور اِس جیسی جھوٹی باتوں اور مَن گھڑت فلسفوں پر عمل کرتے ہوئے ہمارے معاشرے میں بچے کو کوئی اور نام دے کر اُسکے ساتھ '' محمد '' یا '' أحمد '' یا '' علی ''، ''حسن '' ، '' حسین '' وغیرہ جوڑا جاتا ہے اور اِس جوڑ کے چکر میں نام کی حد تک تو شرک کو جوڑ ہی لیا جاتا ہے ،مثلاً '' غلام محمد '' ، '' غلام رسول '' '' غلام نبی '' '' غلام علی '' '' زاہد علی ''، ''کلبِ حسین ''،'' عابد حسن '' وغیرہ وغیرہ اور عورتوں کے ناموں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے
مثلاً '' کنیز فاطمہ ''، '' نور فاطمہ '' وغیرہ، بات ہو رہی تھی نام ''''' محمد ''''' رکھنے کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے ( سمُّوا باِسمِی و لا تَکنَّوا بکُنِیتیِ ) ( میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کُنیت پر کُنیت مت رکھو ) مُتفقٌ علیہ ، لہذا صِرف ''' محمد ''' نام رکھنے میں کوئی گناہ یا بے ادبی نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ اپنے اِس عظیم مجاہد صحابی محمد بن مسملہ کا نام تبدیل فرما دیتے ، جِس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ سوائے غزوہ تبوک کے ہر معرکے میں حصہ لیا اور غزوہ اُحد میں جب سب لوگ ادھر اُدھر ہو رہے تھے اور کافروں نے ہر طرف سے رسول اللہصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمپر حملہ کر دِیا تھا تو کافروں کے ہر وار کو اپنے جسموں پر روکنے والے چند سچے عاشقانِ رسول میںیہ بھی تھے ۔
اللہ ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔     
مصادر و مراجع ::: المستدرک الحاکم ،  الأصابہ فی تمیز الصحابہ ،  تھذیب التھذیب ، مقدمۃ ابن خلدون ، الأستعیاب فی معرفۃ الأصحاب،  معجم  البلدان ، تاریخ الطبری ، معجم الصحابہ ، معجم مااستعجم ، فتوح الشام ، البدایہ و النھایۃ،
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔