::::: حجء
اکبر :::::
بِسَّمِ
اللہِ و الصَّلاۃُ و
السَّلامُ عَلیَ رَسولِ اللہِ و عَلیَ آلہِ و أصحابہِ و أزواجہِ أجمعین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و
برکاتہ ،
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا
ہے کہ اگر حج جمعہ کے دِن آ جائے تو اُس کا أجر و ثواب بڑھ جاتا ہے اور اُس حج کو
""" حجءِ اکبر """ کہا جاتا ہے،
یہ ایک ایسی بات ہے جس کی
کوئی دلیل ہمیں نہ تو اللہ کی کتاب میں ملتی ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاں ،
اور نہ ہی ایک لمبے عرصہ تک اُن کے بعد والوں کے ہاں ،
::::::: اللہ سُبحانہ و تعالی
نے حج کا ذِکر کسی بڑے اور چھوٹے یعنی حج اکبر یا حج اصغر کی تفریق کے بغیر ہی
فرمایا ہے ، یعنی اس کو حج اکبر فرمایا ہے جیسا کہ جیسا کہ ((((( وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَومَ الحَجِّ الأَكبَرِ ::: اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمام لوگوں
کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ ہے )))))سورہ التوبہ 9 / آیت 3 ،
::::::: اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےیہ بتایا کہ قُربانی کرنے کے دِنوں میں سے پہلا دِِن یعنی
عید الاضحیٰ والا دِن """ حج ءِاکبر """ ہے ،
جیسا کہ عبداللہ ابن عمر رضی
اللہ عنھما سے روایت ہے کہ '""""جس سال رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم نے حج اداء فرمایا تو اُس حج میں ، قُربانی والے دِن (یعنی دس
ذی الحج ،عید کے دن ) جَمرات (شیطانوں کو پتھر مارنے کے مقامات)کے درمیان کھڑے ہو
کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( ہذا یَومُ الحَجِّ الأَکبَرِ::: یہ آج کا دِن (ہی) حجءِ اکبر (والا دِن)ہے
)))))، اور نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمانا شروع کر دیا ((((( اللَّہُمَّ اشہَد ::: اے اللہ
گواہ رہنا ))))) اور لوگوں کو الوادع کیا ، تو لوگوں نے کہا یہ حج
الوادع (یعنی رخصتی والا آخری حج ) ہے """"" صحیح
البُخاری /حدیث 1655/کتاب الحج /باب131،
::::::: ہو سکتا ہے کوئی یہ
خیال کرے کہ اس آیت اور حدیث میں یہ کہیں نہیں کہ اُس دِن جمعہ نہ تھا ، تو اس کا
جواب یہ ہے کہ اگر اُس دن جمعہ ہوتا ، یا جُمعہ کے دن کو حج اکبر سمجھا جانا مقصود
ہوتا تو اس کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم ، اور تابعین کی طرف سے ہمیں ضرور
کوئی صحیح ثابت شدہ خبر ملتی ، جبکہ ایسا نہیں ہے ، اور جو خبر وہاں سے ملتی ہے وہ
اس مندرجہ بالا حدیث کے مطابق ہے ،
جیسا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ """بَعَثَنِي أبو بَكرٍ
رضي الله عنه فِيمَن يُؤَذِّنُ يوم النَّحرِ بِمِنًى لَا يَحُجُّ بَعدَ العَامِ
مُشرِكٌ ولا يَطُوفُ بِالبَيتِ عُريَانٌ وَيَومُ الحَجِّ الأَكبَرِ يَومُ النَّحرِ وَإِنَّمَا قِيلَ الأَكبَرُ من
أَجلِ قَولِ الناس الحَجُّ الأَصغَرُ ::: ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے یوم النحر
(یعنی دس ذی الحج ،قربانی کرنے والے دن )ان لوگوں کے ساتھ بھیجا جو منی میں یہ
اعلان کریں کہ """ اس سال کے بعد کوئی مُشرک حج نہ کرے گا اور نہ
ہی کوئی ننگا ہو کر کعبہ کا طواف کرے گا اور
حج اکبر یہی یوم النحر (یعنی قربانی کرنے والا دن)ہے""" اور
اس کو اکبر اس لیے کہا گیا کہ لوگ حج اصغر کہا کرتے تھے"""صحیح البُخاری
حدیث3002/کتاب الجہاد و السیر /ابواب الجزیۃ و الموادعۃ کا باب 16
، صحیح مسلم /حدیث 1347/کتاب الحج /باب78،
پہلے بلا فصل خلیفہ امیر
المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کی اس بات کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے
قبول فرمایا ، جو """الجماعت """ کے سکوتی اجماع کی
دلیل ہے،
::::::: اس کے علاوہ کتب
التفسیر اور حدیث میں صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین
کے بہت سے أقوال میسر ہیں جو یہی ثابت
کرتے ہیں کہ""" یوم النحر یعنی قُربانی والے دِن ، عید کے دِن "کو
ہی """حج اکبر """ کہا جاتا تھا ، سمجھا جاتا تھا ،
اِس کے علاوہ کوئی اور دن "حج اکبر" نہ تھا """، اور جو کُچھ اُس وقت دِین نہ تھا وہ بعد میں کسی صورت دِین نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اُس وقت اللہ نے دِین
مکمل فرمایا دیا ، جِس میں کسی بھی تبدیلی کی کوئی بھی گنجائش نہیں ۔ والسلام
علیکم۔ طلب گارء دُعا ، عادلِ سہیل ظفر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج
ذیل ربط پر میسر ہے:
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔