:::::: شُحَّ ، یعنی خیر کے کاموں کے لیے کنجوسی اور برائی والا لالچ
ہلاکت کا سبب ہے::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ
عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و
قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء
نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن
اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
اللہ
جلّ جلالہُ کا اِرشاد پاک ہے ﴿ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ
فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ :::اور جو کوئی اُس کے نفس کی کنجوسی اور لالچ سے بچا لیا گیا
تو وہی لوگ خیر (اورکامیابی) پانے والے ہیں ﴾ سُورت الحَشر (59)/آیت 9،سُورت التغابن (64)/آیت 16،
إِمام
ابن کثیر رحمہُ اللہ نے اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھا """ مَنْ
سَلِمَ مِنَ الشُحَّ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ::: یعنی جو کوئی بھی( اُس کے نفس کی) کنجوسی اور لالچ سے محفوظ رہا وہ خیر پا گیا
اور کامیاب ہو گیا """،
اللہ
سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس فرمان میں دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر اور کامیابی کی
خبر ہے ، لیکن اُن لوگوں کے لیے جو اپنے نفوس ، اپنی جانوں میں پائے جانے والے برے
لالچ سے، اور نیکی اور خیر میں کنجوسی سے
محفوظ رہے ،
عام
طور پر اُردُو تراجم میں لفظ
"""شُحَّ """ کا
ترجمہ """ لالچ """ ہی کیا جاتا ہے ، لیکن
میں ترجمے میں کنجوسی اور لالچ استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اِس صفت کا دُرُست اور
مکمل مفہوم یہی بنتا ہے ، اس مذموم اور بری صِفت کے بارے میں کچھ جاننے سے پہلے
مناسب محسوس ہوتا ہے کہ لفظ
""" شُحَّ""" کے لغوی مفہوم کے بارے میں کچھ معلومات
کا مطالعہ کر لیا جائے تا کہ اِن شاء اللہ جب کبھی بھی ہم اِس لفظ کو سنیں یا پڑھیں تو ہمیں اِس کا مفہوم یاد ہو اور ہم اِس
سے متعلق بات چیت کو اچھے اور دُرُست طور پر سمجھ سکیں ، اِن شاء اللہ ،
إِمام
النووی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث شریف کی شرح میں لفظ """ شُحَّ """ کی مختلف لغوی معانی اور مفاہیم کو
بیان کرتے ہوئے لکھا کہ """ قَالَ
الْقَاضِي يُحْتَمَلُ أَنَّ هَذَا الْهَلَاكَ هُوَ الهلاك الذي أخبر عنهم بِهِ فِي
الدُّنْيَا بِأَنَّهُمْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ هَلَاكُ الْآخِرَةِ
وَهَذَا الثَّانِي أَظْهَرُ وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ أَهْلَكَهُمْ فِي الدُّنْيَا
وَالْآخِرَةِ قَالَ جَمَاعَةُ الشُحَّ أَشَدُّ الْبُخْلِ وَأَبْلَغُ فِي الْمَنْعِ
مِنَ الْبُخْلِ وَقِيلَ هُوَ الْبُخْلُ مَعَ الْحِرْصِ وَقِيلَ الْبُخْلُ فِي
أَفْرَادِ الْأُمُورِ وَالشُحَّ عَامٌّ وَقِيلَ الْبُخْلُ فِي أَفْرَادِ
الْأُمُورِ وَالشُحَّ بِالْمَالِ وَالْمَعْرُوفِ وقيل الشح الحِرص علىٰ ماليس
عِنْدَهُ وَالْبُخْلُ بِمَا عِنْدَهُ :::قاضی(عیاض
رحمہُ اللہ ) کا کہنا ہے کہ اس (حدیث شریف )سے یہ مُراد بھی لی جا سکتی ہے کہ یہ
ھلاکت دُنیا کی وہی ھلاکت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے(اِس حدیث شریف میں )خبر فرمائی ہے کہ اُن لوگوں نے اپنے خُون بہائے ، اور
یہ مُراد بھی لی جا سکتی ہے کہ آخرت کی ھلاکت کی خبر دی گئی ہے ، اور یہ دوسری بات
زیادہ واضح ہے ،اور یہ بھی مُراد لی جا
سکتی ہے کہ "شُحَّ"نے انہیں دُنیا اور آخرت دونوں میں ہی ھلاکت میں
مبتلا کر دِیا ، (عُلماء کی ) جماعت کا کہنا ہے کہ """ شُحَّ """کنجوسی کی سب سے زیادہ سخت حالت ہوتی ہے
اور (کسی بھی )کنجوسی سے بڑھ کر روکنے والی ہوتی ہے ، اور کہا گیا کہ
""" شُحَّ """وہ کنجوسی ہے جو لالچ کے ساتھ ساتھ ہوتی
ہے ، اور کہا گیا کہ کنجوسی کاموں کو الگ الگ کرنے کی صُورت میں ہوتی ہے ، اور
""" شُحَّ"""عام ہے (یعنی اِس میں سب شامل ہے)، اور
کہا گیا کنجوسی کاموں کو الگ الگ کرنے کی
صُورت میں ہوتی ہے ، اور """ شُحَّ"""مال
، اور معروف کاموں میں ہوتا ہے ، اور کہا گیا کہ """ شُحَّ""" اُس چیز کے بارے میں لالچ ہے جو لالچ
کرنے والے کے پاس نہیں ہوتی ، اور کنجوسی اُس چیز کو خرچ کرنے یا استعمال کرنے میں
ہوتی ہے جو چیز کنجوس کے پاس ہوتی ہے """،
اور
إِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب """ الرُوح
""" میں لکھا کہ """ وأما
الشح فهو خلق ذميم يتولد من سوء الظن وضعف النفس ويمده وعد الشيطان حتى يصير هلعا
والهلع شدة الحرص على الشيء والشره به فتولد عنه المنع لبذله والجزع لفقده كما قال
تعالى إن الإنسان خلق هلوعا إذا مسه الشر جزوعا وإذا مسه الخير منوعا ::: اور """ شُحَّ """
ایک بُری خصلت ہے جو کہ (بد نیتی اور )برے گمان اور نفس کی کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ،اور شیطان کے وعدے
اُس کو تقویت دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ھلع بن جاتی ہے اور ھلع کسی چیز کو پا کر اُس
کے ذریعے شر والے کام کرنے کا لالچ ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے اُس چیز کو (خیر کے
کاموںمیں ) استعمال کرنے سے رُکنا اور اُس چیز کے کھو جانے پر شدید دُکھی ہونے،
گھبرانے اور شور شرابا کرنے کی کیفیات
پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا O إِذَا
مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا O وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ::: بے شک اِنسان کو کم حوصلہ بنایا گیا ہے O کہ اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گھبراتا اور چیختا ہے Oاور جب اُسے خوش حالی ملتی ہے تو کنجوسی پر اتر آتا ہے﴾سُورت
المعارج (70)/آیات19 تا 21 """، المسألة الحادية والعشرون وهي هل النفس
واحدة أم ثلاث فقد وقع في/فصل
وأما الفرق بين الاقتصاد والشح أن الاقتصاد خلق محمود يتولد من،
اِن
مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتاہے کہ لغوی طور پر اور قران کریم
اور صحیح ثابت شدہ سُنت مُبارکہ کی روشنی میں لفظ """ شُحَّ""" کا مفہوم صِرف لالچ ہی نہیں بنتا ، بلکہ
برائی پر مبنی لالچ اور خیر کے کاموں میں اپنے وسائل خرچ کرنے میں کنجوسی کو
""" شُحَّ """ کہا جاتا ہے ،
لہذا
اِس دُرُست مفہوم کے مطابق ہی ہمیں اللہ
اور اسکے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں مذکور
" شُحَّ" کو سمجھنا چاہیے ،
اللہ
جلّ و عُلا کے دو فرامین مُبارکہ کا ذِکر ہو
چکا ہے ، اب ہم اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین
شریفہ میں سے """ شُحَّ """کے بارے میں جانتے ہیں
،
ہمارے
محبوب ، خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ، جو کہ ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے اور
جنہوں نے نہ صِرف مُسلمانوں کو بلکہ ساری ہی
انسانیت کو أمن ،مُحبت ، اِک
دُوجے کی عِزت ،جان ،مال اور ہر ایک چیز میں بلا حق تصرف کرنے سے رکے رہنے کی
تعلیم دی اور ایسا کرنے کے خوفناک انجام سے بھی آگاہ فرمایا ،
اُن
سراپاء رحمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں اِس
خوفناک بیماری ، یعنی نفس کے لالچ کے نتائج اور انجام کے بارے میں اُن کا یہ اِرشاد شریف بھی ملتا ہے کہ ﴿ اتَّقُوا
الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاتَّقُوا الشُحَّ
فَإِنَّ الشُحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا
دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ ::: ظلم سے بچو کہ ظُلم قیامت والے دِن اندھیرے بن جائے گا ،
اور شُحَّ سے بچو کیونکہ اُس نے تُم سے پہلے
والوں کو ھلاک کر دِیا تھا ، کہ(شُحَّ نے ) اُنہیں اُن کے خون بہانے اور محرم رشتے
حلال کرنے پر لگا دِیا﴾ صحیح مُسلم /حدیث/6741کتاب البر والصلة والآدب /باب15،
اور
اِس بری صِفت یعنی""" شُحَّ """کے بارے میں یہ بھی
بتایا ہے کہ ﴿شَرُّ مَا
فِى رَجُلٍ شُحَّ هَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ ::: کِسی اِنسان میں سب سے بُری چیز گھبرانے اور چیخنے چلانے
تک لے جانے والا شُحَّ اور دِل ودماغ کو
(اِیمان ،سوچ و عقل ،قوت فیصلہ وغیرہ سے) خالی کر دینے والی بُزدِلی ہے﴾ سُنن ابو
داؤد /حدیث /2513کتاب الجھاد/باب 22، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح
قرار دِیا،
محترم
قارئین ، یاد رکھیے ، کہ ، نیکی اور خیر کے کاموں میں اپنے وسائل استعمال کرنے میں کنجوسی کرنا ، اور برائی پر مبنی
لالچ ایسی بری بیماریاں ہیں ، جو کسی انسان کو انسانیت کے گھٹیا ترین درجے پر
بھی نہیں رہنے دیتیں ، اور وہ اِنسانیت کے رُوپ میں وہ کچھ کرتا ہے کہ جِس پر
حیوان بھی شرمندگی محسوس کرنے لگیں ،
عموماً
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لالچ اور کنجوسی لازم و ملزوم ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے
ساتھ ہی ہوتے ہیں ، لیکن یہ صرف برائی کے معاملات میں ہی دُرست ہے ، کیونکہ نیکی
اوراچھائی کمانے کا لالچ رکھنے والا ، نیکی
کمانے کے لیے اپنے مال و متاع اور دیگر
وسائل میں سے کچھ بھی خرچ کرنے میں کنجوس نہیں ہوتا ،
جبکہ
برائی کا لالچ رکھنے والا اچھائی کی راہ میں توخرچ کرتا ہی نہیں ، اور برائی کی
راہ میں بھی صِرف اور صِرف اسی صُورت میں خرچ کرتا ہے جب اُس خرچ سے کہیں زیادہ
مادی فائدہ حاصل ہونے کا یقین رکھتا ہو ،
لہذا
یہ بھی سمجھ لینے والی بات ہے کہ خیر ، نیکی ، اور بھلائی کا لالچ محمود ، مطلوب و مقصود ہے ، اور اِس لالچ کے ساتھ کوئی
کنجوسی نہیں ہوتی ،
شر ،
گناہ،اور بدی کا لالچ مذموم ، غیر مطلوب و غیر مقصود ہے ، اور اِس کے ساتھ ساتھ
نیکی اور بھلائی کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے میں کنجوسی لازم موجود رہتی ہے ،
اللہ
تبارک و تعالیٰ ہمیں خیر ، نیکی اور بھلائی کا لالچ رکھنے، اور اس کی تکمیل کے لیے
اپنے وسائل استعمال کرنے والوں میں سے بنائے اور ، شر ، گناہ اور بدی کے لالچ سے
اور برائی میں اپنے وسائل استعمال کرنے سے بچنے والوں میں سے بنائے ۔ والسلام
علیکم۔
تاریخ کتابت ::: 17/02/1435ہجری ،بمطابق،21/12/2013 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے
:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔