٦ ٦ ٦ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق پہچانیے، اور ادا کیجیے (4) ٥ ٥ ٥
٦ ٦ ٦ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت کی أہم نشانیاں٥ ٥ ٥
بِسمِ اللہ ، و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لَم یَکُن مَعہُ نَبِيًّا وَ لا رَسولً وَ لا مَعصُومً و لَن یَکونَ بَعدَہُ أحدً إلیٰ أبد الأبد ، وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،
شروع اللہ کے نام سے ، خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہی ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے ساتھ نہ کوئی نبی تھا، نہ کوئی رسول ، اور نہ کوئی معصوم ، اور نہ ہی اُن کے بعد ابد الابد تک کوئی اور ایسا ہوسکتا ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم ، و فداہُ نفسی و رُوحی ، کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت(جسے ہمارے کچھ کلمہ گو بھائی بہنیں غلط طور پر ،لفظ عِشق کے ذریعے ذِکر کرتے ہیں، اُس مُحبت)کے دعوے دار تو ہمارے کلمہ گو بھائیوں بہنوں میں بہت ہیں ، اور اپنے اُس دعوے کی سچائی کو ثابت کرنے کی کوشش میں دُرُست اور نا دُرُست ، حق اور نا حق عقائد اور اعمال کو اپنانے اور اُن کے مُطابق اپنے وسائل کو اِستعمال کرنے والے بھی بہت ہیں ،
جاننے ، سمجھنے اور پھر مان کر اپنانے کی بات یہ ہے کہ اِن دعویٰ داروں میں سے کون حق پر ہے اور کون نہیں ؟؟؟
میں نے سابقہ درس ،جس کاعنوان"""إِیمان کی تکمیل کی شرط، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت """ہے ،میں کہا تھا کہ"""""خُوب اچھی طرح سے سمجھنے اور سمجھ کر یاد رکھنے کی بات ہے کہ سچی مُحبت میں محبوب کی نافرمانی نہیں ہو سکتی ، اور اگر نافرمانی ہو تو وہ مُحبت سچی نہیں ہو سکتی ،پس جو لوگ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت کا گُمان رکھتے ہیں اور اِس مُحبت کا دعویٰ کرتے ہیں ، وہ لوگ اپنے اِس گُمان اور اپنے دعویٰ کی حقیقت جاننے کے لیے اپنے عقائد اور اعمال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھیں ، اگر تو وہ لوگ خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، تعلیمات کا پابند پائیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہنے والا پائیں تو پھر اِن شاء اللہ وہ مُحبان رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں سے ہیں ، اور اگر ایسا نہیں اور وہ لوگ ایسے عقائد اور اعمال کا شِکار ہیں جن کی دُرستگی کی کوئی دلیل سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی تو وہ لوگ مُحبان رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے """""،
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت کے دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے اِس مذکورہ بالا کسوٹی پر پورا اُترنا ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، تعلیمات اور حُدود کا پابند رہنا ، بنیادی نشانی ہے ،
اِس کے بعد ، اِسی نشانی کو کچھ مزید تفصیل کے ساتھ ذِکر کرتے ہوئے، اب اِس محفل میں ، اِن شاء اللہ ، آپ صاحبان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت کی دیگر تین أہم نشانیاں بیان کرتا ہوں ،
اِن شاء اللہ ، اِن نشانیوں کو جاننےکے بعد ، اِن نشانیوں کو سمجھنے کے بعد ، اِن نشانیوں کو جاننے اور سمجھنے والوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ کیا واقعتا وہ لوگ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے حقیقی مُحبت کرتے ہیں ؟؟؟یا مجرد دعویٰ مُحبت رکھتے ہیں ؟؟؟یا کسی نے اُن کی مُحبت کے نام پر انہیں غلط روش پر ڈال رکھا ہے؟؟؟
::: پہلی نشانی ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اپنی جان و مال فِدا کرنا :::
جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کیا کرتے تھے ، اور اِس کی کئی مثالیں ہیں ، جِن میں سے ایک مثال """ مثالی شخصیات """ والے سلسلے میں"""خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ ُ"""کے واقعہ میں ذِکرکی گئی ہے ، اور ایک مثال """اُم عمارۃ نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا """ کے واقعہ میں ہے ،
اور یہ دیکھیے ، یہ ابو دُجانہ رضی اللہ عنہ ُ ہیں،کافروں اور مُشرکوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر تیر برسائے جا رہے ہیں اور ابو دُجانہ رضی اللہ عنہ ُ اپنا چہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف کیے ہوئے اُنہیں چھپائے کھڑے ہیں اور سارے تیر اپنی پُشت پر کھائے چلے جا رہے ہیں ، اور کوئی حرکت تک بھی نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کوئی اذیت نہ ہو،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
اور یہ بھی دیکھیے ، یوم اُحد میں یہ ابو طلحہ الانصاری رضی اللہ عنہ ُ ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر دشمنوں پر تیر برسائے چلے جارہے ہیں اور کہے جا رہے ہیں""""" یا نَبِیَّ اللَّہِ بِابِی اَنت وَاُمِّی لَا تُشرِف لَا یُصِبکَ سَہمٌ مِن سِہَامِ القَومِ نَحرِی دُونَ نَحرِکَ ::: اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں آپ اُدھر توجہ مت فرمایے آپ کو دُشمنوں کے تیروں میں سے کوئی تیر نہیں لگے گا ، میری شہ رگ آپ کی شہ رگ سے کم تر ہے"""""، یعنی اُن کے تیر میری شہ رگ پر آئیں گے آپ پر نہیں آنے دوں گا ،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
اور یہ دیکھیے ، طلحہ بن عبید اللہ ،رضی اللہ عنہ ُ، عشرہ مبشرہ میں سے ایک ،اِسی جہادءِ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ننگے ہاتھوں پر روک رہے ہیں ، زحم کھا رہے ہیں ، یہاں تک اِن زخموں کی وجہ سے اُن کا ہاتھ شل ہو گیا ،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
اور یہ دیکھیے ، اِسی جہادءِ اُحد میں یہ ہیں سعد ابن الربیع رضی اللہ عنہ ُ ، آخری سانسیں ہیں ، زید ابن ثابت رضی اللہ عنہُ اِن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سلام لے کر پہنچے ہیں جواب میں کہتے ہیں ''' اللہ کی سلامتی ہو اللہ کے رسول پر ، اور تُم پر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کہنا مجھے جنّت کی خوشبو آ رہی ہے ، اور میری قوم انصار کو کہہ دینا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچی تو اللہ کے سامنے تُم لوگوں کے لیے کوئی عُذر نہ ہو گا '''اور روح پرواز کر جاتی ہے ،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
::::::: دُوسری نشانی ::: کِسی ڈر اور خوف کے بغیر ، اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی خِلاف ورزی کا قلع قمع کرنا :::::::
جیسا کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفاتِ پُر ملال کے بعد، اُن کے پہلے بلافصل خلیفہء راشد ، ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے زکوۃ دینے سے اِنکار کرنے والوں کے خِلاف اُسامہ ابن زید رضی اللہ عنہما کے لشکر کو روانہ کر کے کِیا ،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
::::::: تیسری نشانی ::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات پر فورا عمل کرنا :::::::
جیسا کہ جِہاد اُحد سے فارغ ہو کر آتے ہی اگلے دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ابو سُفیان کی فوجوں کے تعاقب میں حمراء الاسد کی طرف روانگی کا حُکم فرمایا ، تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم واپس آئے ہیں ، اپنے مرنے والوں کی یاد ابھی بالکل تازہ ہے ، ابھی ہمارے زخموں سے خون بھی نہیں رُکا ، وغیرہ وغیرہ ، بلکہ حُکم ملتے ہی تیار ہو گئے اور نکل کھڑے ہوئے ، رضی اللہ عنہم اجمعین ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اِس عمل کی تعریف فرماتے ہوئے اور اُن کے لیے عظیم کامیابی کی خبر دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ الَّذِینَ استَجَابُوا لِلّہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعدِ مَا اصَابَہُمُ القَرحُ لِلَّذِینَ احسَنُوا مِنہُم وَاتَّقَوا اجرٌ عَظِیمٌ O الَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوھُم فَزَادَھُم اِیمَاناً وَقَالُوا حَسبُنَا اللّہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ O فَانقَلَبُوا بِنِعمَۃٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضلٍ لَّم یَمسَسہُم سُوء ٌ وَاتَّبَعُوا رِضوَانَ اللّہِ وَاللّہُ ذُو فَضلٍ عَظِیمٍ:::جِنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مانی اِس کے بعد بھی کہ اُنہیں زخم لگے ہوئے تھے اُن میں سے جِنہوں نے نیکی کی اور تقویٰ اختیار کیا اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے(یہ)وہ لوگ (ہیں)کہ جب اِن سے (مُنافق)لوگوں نے کہا کہ (کافر)لوگوں نے تُمہارے مُقابلے میں (لشکر)جمع کر لیے ہیں ، تُم اُن سے ڈرو ، تو(مُنافقوں کی )اِس بات نے اِن کو اِیمان میں اور زیادہ کر دِیا اور اِنہوں نے کہا ہمارے لیے اللہ کافی ہے، اور وہ سب سے اچھا کار ساز ہے ( اِس کا انعام اللہ نے یہ دِیا کہ )یہ (اِیمان والے )اللہ کی نعمت اور فضل (میں سے کچھ )حاصل کر کے واپس پلٹے اور اُنہیں کِسی پریشانی نے چُھوا نہیں اُنہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی اور اللہ بہت زیادہ فضل (کرنے)والا ہے﴾سورت آل عِمران (3)/آیات 172 تا174،
یہ ہے مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، نہ کہ مُحبتء رسول کے نعرے ، دعوے اور نافرمانیوں پر مبنی شور شرابا کرتے ہوئے خود ساختہ عقائد اور اعمال کی کٹھ پتلی بننا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، فرامین اور تعلیمات کے دُشمنوں کے ساتھ دوستیاں رکھنا ،یا، اُن کے تہوار منانا،یا،اُن کے جیسے تہوار منانا، اُن کے جیسے رسم و رواج اپنانا، اُن کے جیسے حلیے بنانا، اُن کے جیسے انداز و اطوار اپنانا، اوراُن کی نقالی کرنا، وغیرہ،
لہذا اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُحبت کے نام پر ، اُس مُحبت کے زعم میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے ، اُن کی تاویلیں کرتا ہے ، یا بغیر کِسی شرعی عذر کے عمل میں دیر کرتا ہے، یا مُحبت کے نام پر ایسے عقائد اور اعمال اپناتا ہے جن کے جائز ہونے کی کوئی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب میں ملتی ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ میں ، بلکہ قران اور سُنّت کے مفاہیم کو اپنے خود ساختہ یا اپنے اختیار کردہ ، یا اپنے خاندانی اور نسبی عقائد و اعمال کو سچ دِکھانے کے لیے غلط طور پر پیش کرتا ہے ، تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ اُس کے ہاں مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حقیقی وجود نہیں ہے ، بلکہ وہ اُس مُحبت کے زعم میں کہیں اور ہی جا رہا ہے ، اور اگر اُس کے ہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کوئی مُحبت ہے بھی تو وہ مُحبت ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ درجہ سے بہت دُور بہت نیچے ہے ۔
یہ گذارشات سننے والا میرا ہر مسلمان بھائی ، ہر سننے والی میری ہر مسلمان بہن اپنی محبتء رسول کے بارے میں خود اچھے طریقے سے اندازہ کر سکتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں یہ جرأت عطاء فرمائے کہ ہم اپنی غلطیاں پہچانیں ، اور اپنے نفس کے یا کسی بھی اور غچے میں آئے بغیر ، کسی غلط فہمی کِسی تکبر میں آئے بغیر اُن غلطیوں کی اِصلاح کرنے میں کوئی تردد نہ کریں اور حق بات کو جان لیں، پہچان لیں، مان لیں اور اُسے اپنا لیں، اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے اہنی زندگیاں تمام کرنے کی بھر پُور کوشش کرتے رہیں، اس طرح کہ اللہ تبارک وتعالی ہماری وہ کوششیں قبول فرمائے ، اور جب اُس کے سامنے حاضر ہوں تو وہ ہم پر راضی ہو، اور ہم اُس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تابع فرمانوں میں شُمار ہوں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
طلبگارء دُعاء، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر،
اِس سلسلے کے دیگر مضامین درج ذیل ربط کے ذریعے، مُطالعہ کے لیے میسر ہیں :
ضرور پڑھیے گا اور اپنے دُوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی پڑھایے گا، اِن شاء اللہ خیر کا سبب ہو گا ۔
تاریخ کتابت :18/03/1429ہجری، بمُطابق،26/03/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :21/07/1437ہجری، بمُطابق،26/04/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی کتابی نُسخہ (PDF): http://bit.ly/1Szw3CZ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوتی نُسخہ (آڈیو فائل ) : https://archive.org/details/4_20200818_202008
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو ٹیوب : https://youtu.be/LD05V3PYd98
محترمین، میرے چینل میں شمولیت اختیار فرما لیجیے، اور نئی ویڈیوز کی خبر پانے ( یعنی ، نوٹیفیکیشن) میں شراکت بھی، جزاکم اللہ خیراً ، اور پیشگی شکریہ بھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔