::::: قُران وسُنت کے سایے میں :::::
::::::: شیطان لعنتی سے ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے مُقامات اور أوقات :::::::
بِسمِ
اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا
رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن
تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے
نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول
تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ،
اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ
کی پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی
اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے
اُس پر ۔
السلامُ
علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ
جلّ ثناوہُ و تقدس أسماوہُ کے اپنے مقدس ہاتھوں سے بنائے ہوئے آدم علیہ السلام کو
سجدے کرنے کے حکم سے انکار کرنے والے، اور اللہ کی ابدی لعنت کا حق دار قرار پانے
والے ابلیس، جِسے ہم عام طور پر شیطان کے نام سے جانتے ہیں، اُس ابلیس، اُس لعنتی
شیطان کو، اُس کے مانگنے پر، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے بے عیب حِکمت اور مشیئت
کے مُطابق قیامت تک کے لیے یہ اجازت دے دی کہ وہ آدم علیہ السلام، حواء علیھا
السلام کی اولاد کو بھٹکانے اور اُس کے شر میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کر لے،
اور اُس
کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ آدم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے اُس ابدی دُشمن
لعنتی شیطان اور اُس کے چیلوں، شاگردوں اور مُریدوں کا کوئی زور اللہ کے سچے
اِیمان والے بندوں پر نہیں چلے گا،
اللہ الرحمن
الرحیم نے ہمیں اُس کے اور اُس کے رسولوں کے اور ہمارے مشترکہ دُشمن ابلیس کی
چالوں اور حرکتوں کے بارے میں بہت سے خبریں عطاء فرما دِیں،
جِن کے
ذریعے ہمیں یہ پتہ چلا کہ ابلیس لعنتی اور اُس کے چلیے چانٹے، شاگرد اور مُرید ہم
پر ہر طرف سے اور ہر انداز میں وار کرتے ہیں، اور ہم کسی بھی لمحے کسی بھی پہلو سے
اُن کے کسی شر کا شِکار ہو سکتے ہیں،
یہاں تک
کہ اللہ عزّ و جلّ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
ذریعے ہمیں یہ خبر بھی کروائی کہ ابلیس
اور اُس کا قبیلہ یعنی جِنّات ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِى مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ::: بے شک شیطان انسان کے اندر اُس کے خون کے
راستوں میں چلتا ہے﴾صحیح البُخاری/حدیث7171/کتاب الاحکام/باب21،صحیح مُسلم/حدیث5807/کتاب
السلام/باب9،
الحمد
للہ،جِنّات کے بارے میں کافی معلومات ایک الگ مضمون میں نشر کی جا چکی ہیں، لہذا
یہاں اِس مضمون کے موضوع تک محدود رہتے
ہوئے میں اپنی بات عنوان کے مُطابق ہی رکھوں گا، اور یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں
پیش آنے والے مختلف مُقامات اور معاملات میں سے وہ کون سے ہیں جِن کے درپیش آنے کی
صُورت میں ہمیں شیطان ملعون سے، اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم، تربیت اور حکم دیے
گئے ہیں،
میں نے ابھی ابھی کہا کہ """ ابلیس لعنتی اور اُس
کے چلیے چانٹے، شاگرد اور مُرید ہم پر ہر طرف سے اور ہر انداز میں وار کرتے ہیں،
اور ہم کسی بھی لمحے کسی بھی پہلو سے اُن کے کسی شر کا شِکار ہو سکتے ہیں"""،
پس عمومی
طور پر ہمیں اُس کے شر سے ہر وقت ہی ہر معاملے میں ہی، اپنے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ
کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے، لیکن اللہ
تبارک و تعالیٰ نے ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
ہمیں ہماری زندگیوں میں پیش آنے والے مختلف حالات میں خصوصی طور پرشیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کے
احکام دیے ہیں ، تعلیم دی ہے ، لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بہت سے معاملات کی طرح ہماری اکثریت اِس معاملے
سے بھی لا علم ہے ، اور جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ طلب کرنا ہوتی ہے ، وہاں
وہ کچھ اور ہی کہتے ہیں ، اور بسا اوقات تو کافروں کی نقالی کرتے ہوئے بےہودہ اور
کفریہ باتیں کر دیتے ہیں،
اِس مضمون
میں ، اِن شاء اللہ ہم اُن مُقامات کو جانیں گے ، جِن حالات میں ہمیں اول فول باتیں کرنے کی بجائے ، شیطان مَردُود
سے اللہ جلّ جلالہُ کی پناہ طلب کرنا چاہیے ،
:::::
(1) ::::: قران کریم کی تلاوت
کا آغاز کرتے ہوئے :::::
جب بھی قران
کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو اُس کے لیے ، قران کریم نازل فرمانے والے ہمارے
رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے یہ حکم دِیا ہے کہ ﴿ فَإِذَا قَرَأْتَ
الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:::اور جب تُم قران پڑھو تو
اللہ کی پناہ طلب کرو دُھتکارے ہوئے شیطان سے﴾صحیح سُورت النحل(16)/آیت98،
ہم سب اِس حق پر اِیمان رکھتے ہیں
،کہ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب کے تمام احکامات پر
عمل فرمایا اور بہترین اور مکمل ترین
انداز میں عمل فرمایا ، اُن میں سے اِس حکم پر بھی عمل فرمایا ، پس اُن صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز کے طریقے والی احادیث شریفہ میں یہ خبر ملتی ہے کہ ﴿ جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رات میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے ، تو ، تکبیر کہتے ،
اور پھر فرماتے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ
وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ::: اے اللہ،تیری ہی پاکیزگی ہے اور تیری ہی تعریف
ہے (یعنی تُو تیری ذات اور صِفات میں ہر قِسم کی کمی ، نقص یا برائی سے پاک ہے ،
اور تُو اپنی ذات اور صِفات میں ہر لحاظ
سے مکمل اور بے عیب ہے، لہذا تمام تر
حقیقی تعریف کا حق دار تُو ہی ہے)اور تیرا نام میں برکت اپنی انتہاء تک موجود ہے ،
اور تیری عظمت، بڑائی اور کبریائی سب سے اعلی وبُلند ہے، اور تیرے سوا کوئی سچا
اور حقیقی معبود نہیں ہے﴾ اور پھر تین مرتبہ فرماتے لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ::: اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں،
اور پھر
تین مرتبہ فرماتے اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا::: اللہ ہی (ہر طور )سب سے بڑا ہے ،
اور پھر (تلاوت شروع کرنے سے پہلے ، اللہ تعالیٰ
کی پناہ طلب کرتے ہوئے دُعاء)فرماتے کہ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ::: میں شیطان مردُود(یعنی
اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور
اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب ہی کچھ سننے والے ، اور سب ہی کچھ کا
عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں﴾سنن ابی داؤد/ حدیث /775کتاب الصلاۃ /باب124 من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک
،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ۔
::::::خصوصی ملاحظات ::::::
::: (1) ::: اِس حدیث شریف میں نماز میں قرات قران کا آغاز
کرنے سے پہلے، شیطان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کا ذِکر ہے ، اِس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ
ایسا صِرف نماز میں قرات کے لیے ہی کیا جانا مطلوب ہے ،
جی نہیں، بلکہ اللہ عزّ و جلّ کا مذکورہ بالا حکم
ہر دفعہ قران کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے پناہ طلب کرنے کے بارے میں ہے ، خواہ یہ تلاوت نماز میں کی جانی ہو ،
یا نما ز کے عِلاوہ، بہر صُورت ، جب بھی قران کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو
اللہ القوی القدیر کے اِس حکم پر عمل کرنا واجب ہے ،
::: (2) ::: قران کریم کی تلاوت کا آغاز کرنے کے لیے سُنّت شریفہ
میں ہمیں یہ مذکورہ بالا الفاظ ، اور یہ درج ذیل الفاظ ہی ملتے ہیں﴿أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ::: میں شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے
ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر
مبنی)اشعار سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں﴾ارواءُ الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل/حدیث342۔
صرف أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ کہنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ،تفصیلات کے لیے دیکھیے
،سابقہ حوالہ۔
:::::
(2) ::::: جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ، کوئی شرارت محسوس ہو :::::
اللہ جلّ و عُلا نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کو، اور اُن کے ذریعے اُن کی اُمت کے ہر فرد کو حکم فرمایا کہ﴿
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ
مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ
الْعَلِيمُ:::اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس ہو تو اللہ کی پناہ طلب کیجیے
، بے شک اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور سب ہی کچھ کا عِلم رکھتا ہے﴾ سُورت فُصلت(41)/آیت36،
اور یہ بھی کہ﴿ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ
بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ :::اور کہیے کہ اے میرے رب ،میں تیری پناہ مانگتا
ہوں شیطانوں کے (ڈالے ہوئے)جنوں سے﴾
سُورت المؤمنون(23)/آیت97،
پس جب کبھی بھی ، جہاں کہیں بھی
ہمیں یہ محسوس ہو کہ ہمیں کوئی غلط راہ پر لگا رہا ہے ، گُمان و خیال کے ذریعے ،
قول یا فعل کے ذریعے تو ہمیں فوراً ، شیطان لعین سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ
طلب کرنا اللہ تعالیٰ کے اِن مذکورہ بالا فرامین کے مُطابق واجب ہو جاتا ہے ،
:::::
(3) ::::: خاص طور پر جب اپنے دِین اِسلام کے احکام ، عقائد اور اللہ
تبارک و تعالیٰ کی ذات و صِفات کے بارے میں کوئی وسوسہ پیش آئے :::::
مُسلمان سے تو شیطان ملعون کی خاص
دُشمنی ہے ، لہذا وہ مُسلمان کو اُس کے دِین کے بارے ، دِین کے احکام اور معاملات
کے بارے میں ، اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی ذات اور صِفات کے بارے میں طرح طرح
کے وسوسے ڈالتا ہے ،
یہ معاملہ ایسا ہے ، کہ اکثر اوقات
جِس مُسلمان کو اِس قسم کے وسوسے ڈالے جاتے ہیں وہ جان ہی نہیں پاتا کہ وہ شیطانوں
کے وسواس کا شِکار ہو رہا ہے ، بلکہ وہ اُن وسوسوں کو عِلم ، عقل ، منطق وغیرہ
سمجھ رہا ہوتا ہے ،
جب کہ درحقیقت وہ شیطان مَردُود کے
ڈالے ہوئے وسوسے ہوتے ہیں ، جیسا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اِس معاملے کی خبر عطاءفرمائی ہے ، اور نہ صِرف خبر عطاء
فرمائی ہے بلکہ اِن وسوسوں سے ، اور وسوسے ڈالنے والے بد بخت کے شر سے بچنے کا
طریقہ بھی بتاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے ﴿ يَأْتِى الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ مَنْ
خَلَقَ كَذَا ؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا ؟ حَتَّى يَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا
بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ ، وَلْيَنْتَهِ:::تُم لوگوں میں سے کسی کے پاس (کسی بھی صُورت
میں)شیطان آتا ہے، اور (اللہ کی تخلیق کے بارے میں سوالات ابھارتے ہوئے )کہتا ہے
کہ، یہ کِس نے اِس طرح سے بنایا ؟یہ کِس نے اِس طرح سے بنایا ؟یہاں تک یہ کہتا ہے
تمہارے رب کو کس نے بنایا ؟ لہذا جب تم میں کوئی اِس حد تک پہنچ جائے تو وہ اللہ
کی پناہ مانگے ،اور اُن وسوسوں کو ختم کرے﴾صحیح بُخاری/حدیث/3276کتاب بدء الخلق/باب 11،صحیح مُسلم/حدیث/362کتاب الاِیمان/باب62،
اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں یہ
بھی بتا یا کہ ﴿لَا یَزَالُ النَّاسُ یَتَسَاء
َلُونَ حتی یُقَالَ ھَذا خَلَقَ اللہ الخَلقَ فَمَن خَلَقَ اللَّہَ فَمَن وَجَدَ من
ذلک شیئا فَلیَقُل آمَنتُ بِاللَّہِ::: (اللہ کے بارے میں)لوگ ایک دوجے سے سوال کرتے رہیں
گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ یہ مخلوق تو اللہ نے بنائی ہے،لیکن اللہ کو کِس نے
بنایا ہے؟پس اگر کوئی شخص ایسی کوئی بات سُنے تو کہے،میں اللہ پر اِیمان لایا﴾
(یعنی جو اللہ نے بتایا اُس پر اِیمان رکھتا ہوں اوراُس کے عِلاوہ
کی کھوج نہیں کرتا)صحیح مُسلم/حدیث360/
کتاب الاِیمان /باب60،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف سے ہمیں
یہ پتہ چلا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کے بارے میں شکوک اور سوالات کفر میں داخل کر دینے والی چیز ہیں ،
اِس حدیث شریف کی شرح ، اور اپنے
دِین ، اِیمان اور عقیدے کے بارے میں خود
کو وسوسوں سے بچانے کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات درج ذیل مضمون میں نشر کی جا چکی ہیں :وللہ الحمد ،
:::::
(4) ::::: جب شیطان کسی مُسلمان کو نماز کے دوران وسوسے ڈالے :::::
نماز کے دوران ، نمازی کو مختلف
وسوسوں کا شِکار کرنا شیطان کے محبوب
کاموں میں سے ہے ، تا کہ نمازی کا ربط اُس کے اللہ تبارک و تعالیٰ سے نہ ہو پائے ،
اور وہ نماز پڑھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے دربار میں سے خالی ہاتھ ہی لوٹے ،
بلکہ اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹے ،
ابلیس مَردُود نے اِس کام کے لیے
اپنے خاص مُرید کو لگا رکھا ہے ، جِس کی خبر ہمارے محبوب رسول اللہ
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دی، جب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابی عُثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ُ ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہو کر گذراش کی کہ """يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِى
وَبَيْنَ صَلاَتِى وَقِرَاءَتِى يَلْبِسُهَا عَلَىَّ:::اے اللہ کے
رسول ، شیطان میرے اور میری نماز، اور میری قرأت کے درمیان حائل ہوتا ہے اور مُجھے میری قرأت بھلا
دیتا ہے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خِنْزِبٌ فَإِذَا
أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلاَثًا :::یہ وہ شیطان ہے،جس کا نام خنزب ہے ، لہذا جب تُم
اُسے (یعنی اُسے کے وسوسوں کو)محسوس کرو، تو اُس سے اللہ کی پناہ مانگو، اور اپنی
بائیں طرف تین دفعہ ہلکے سے تُھوک سا دو﴾صحیح مُسلم/حدیث/5868کتاب السلام/باب25،
عُثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ
ُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان پر عمل کیا تو میری مشکل دُور ہو گئی،
::::: ایک وضاحت
::::: اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں دی گئی خبر کو بھی شیاطین ، لوگوں میں وسوسوے
ڈالنے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں ، اور حدیث شریف کا انکار کرنے والے ، احادیث
مبارکہ پر اعتراضات کرنے والوں کو عقل، عِلم اور سمجھ داری کی آڑ میں ، کچھ اِس
قِسم کے وسوسے ڈالے جاتے ہیں کہ ،
ایک اکیلا خنزب ایک وقت میں لاکھوں
نمازیوں کے دِلوں اور دِماغوں میں کس طرح وسوسے ڈال سکتا ہے ؟
اِس کا سب سے بہترین
جواب تو یہ ہے کہ ،
اللہ تعالیٰ ، اور اُس کی وحی کے مُطابق ، اُس کے رسول کریم محمد صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو کچھ ہمیں
غیب میں سےبتایا، اُس پر چیں پٹاخ کیے بغیر جُوں کا تُوں اِیمان لانا ہی ، اصل ،
اور اللہ کے ہاں مطلوب اور مقبُول اِیمان ہے ،
پس ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین، اور اُن کے بعد والوں نے اِس قِسم کی خبروں پر کوئی سوال نہیں اُٹھائے تو
پھر جو کوئی اِس قِسم کے سوال اٹھاتا ہے وہ بلا شک اِیمان پر ڈاکہ ڈالنے والے شیاطین
میں سے ہوتا ہے ،
اور ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ ہم
ایسے سوالات اور شکوک سے دُور رہیں ، اور اللہ جلّ جلالہُ کے اور اُس کے رسول کریم
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ پر اِیمان رکھیں ، جِس کسی کی
کوئی تفصیل ، کسی اور فرمان میں میسر ہو جائے تو سونے پر سہاگہ، اور اگر نہیں تو
بھی ہمیں """اِیمان بالغیب"""کے معیار پر پورا
اُترنا ہے،
ایک اور پہلو سے ،
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ،
عین ممکن ہے ، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابلیس
کے قبیلے کے اِس فرد کو ایسی صلاحیات دے رکھی ہوں جن کو اِستعمال کر کے وہ ایک وقت
میں کئی لوگوں پر اثر انداز ہو سکتا ہو ،
یہ معاملہ تو، قران کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے جِنّات کو کئی ایسی صلاحیات دے رکھی ہیں جو اِنسانوں کی قدرت سے باہر
ہیں ، اِس موضوع کو""" جِنّات """ والے دُرُوس میں
بیان کیا جا چکا ہے ، جس کا کچھ کتابی حصہ درج ذیل ربط پر نشر کیا گیا : http://bit.ly/1at8l2z،
:::::
(5) ::::: مسجد میں داخل ہوتے وقت
:::::
مسجد میں داخل ہونے کا وقت بھی اُن
اوقات میں سے ہے جِن اوقات میں ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے ہمیں عملی طور پر شیطان مَردُود سے ، اللہ کی پناہ مانگنے کی
تعلیم و تربیت دی ،
جیسا کہ ، عبداللہ بن عَمرو بن
العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ﴿ جب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
مسجد میں داخل ہوتے تو فرمایا کرتے أَعُوذُ بِاللَّهِ
الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ:::میں سب سے بڑھ کر عظمت والے اللہ کی پناہ مانگتا
ہوں، اور اُس کے بزرگی اور عِزت والے چہرے کی پناہ مانگتا ہوں، اور اُس کی أزلی
بادشاہت کی پناہ مانگتا ہوں، دُھتکارے ہوئے شیطان سے ﴾سُنن ابو داؤد/حدیث/466کتاب
الصلاۃ /باب18،إِمام
الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
:::::
(6) ::::: صُبح و شام کے أذکار کے ساتھ :::::
جی ہاں ، ہمیں یہ بھی سِکھایا گیا
ہے کہ ہم صُبحُ و شام کے أذکار کے ساتھ، اپنے اللہ عزّ و جلّ کی پناہ مانگیں ،
ہمارے ابدی دُشمن شیطان سے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و
أرضاہُ نے ایک دفعہ رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں
درخواست کی کہ """ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِى مَا أَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتُ
وَإِذَا أَمْسَيْتُ::: اے اللہ کے رسول ، مجھے وہ کلمات سِکھایے جو میں
صُبحُ و شام کہوں"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ يَا أَبَا بَكْرٍ قُلِ
اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ لاَ
إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَىْءٍ وَمَلِيكَهُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ
نَفْسِى وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشَرَكِهِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِى
سُوءًا أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ ::: اے ابو بکر، (تم صُبحُ و شام یہ)کہا کرو،
آسمانوں اور زمین کو نئے سرے سے ایجاد کرنے والےاے اللہ ،غیب اور حاضر کے عالِم ،
تیرے عِلاوہ کوئی بھی حقیقی اور سچا معبود نہیں، (اے)ہر ایک چیز کے رب اور ہر ایک
چیز کے سب سے بڑے بادشاہ، میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں، اپنے نفس کے شر سے اور
شیطان کے شر سے اور شیطان کے شِرک سے، اور اِس بات سے میں اپنے نفس پر برائی لاؤں،
یا برائی کو کسی مُسلمان کی طرف لے جاؤں﴾سُنن الترمذی/حدیث/3878کتاب الدعوات/باب101،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
:::::
(7) ::::: جب غُصہ آئے :::::
دیکھیے ، قارئین کرام ، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتا دِیا ، سمجھا دِیا ، کہ غصہ شیطان
کی طرف سے ہوتا ہے، لہذا جب بھی کوئی مُسلمان اپنے آپ کو غُصے کی حالت میں پائے ، یا غُصہ آتا ہوا محسوس بھی کرے
تو اُسی وقت اپنے اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے اللہ کی پناہ طلب کرے شیطان لعنتی
سے ،
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ ُ نے
بتایا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے دو آدمی آپس
میں لڑ پڑے ، اور اُن میں سے ایک سخت غصے میں آ گیا ، یہاں تک اُس کی رگیں تن گئیں
اور چہرہ سُرخ ہو گیا ، تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إِنِّى لأَعْلَمُ
كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ::: یقیناً میں ایک ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر یہ
شخص وہ بات کہے تو جو کچھ وہ پا رہا ہے ، وہ کچھ (یعنی غُصہ)ختم ہو جائے، اگر وہ
کہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دُھتکارے ہوئےشیطان سے﴾صحیح بخاری / حدیث/6115کتاب الادب/باب76، صحیح مُسلم / حدیث/6813کتاب البِر
والصلۃ والادب/باب30،
:::::
(8) ::::: گدھے کے چیخنےکے
وقت :::::
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿
إِذَا سَمِعْتُمْ
صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ، فَإِنَّهَا رَأَتْ
مَلَكًا ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ
الشَّيْطَانِ ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا:::جب تُم لوگ مُرغ کی چیخ (آذان)سُنو تو اللہ سے
اللہ کے فضل(کی عطاء ہونے) کی دُعاء کرو، کیونکہ مُرغ (کے چیخنے کا سبب یہ ہوتا ہے
کہ)وہ فرشتوں کو دیکھتا ہے،اور جب تُم لوگ گدھے کے چیخنے کی آواز سُنو ، تو اللہ
کی پناہ مانگا کرو شیطان سے، کیونکہ گدھے(کے چیخنے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ)وہ شیطان
کو دیکھتا ہے﴾صحیح بخاری/حدیث/3303کتاب بدء الخلق/باب15،صحیح مُسلم/حدیث/7096کتاب الذِکر و الدُعاء والتوبہ/باب20،
:::::
(9) ::::: کُتے کے بھونکنے کے وقت :::::
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ کا
کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا
کہ ﴿إِذَا سَمِعْتُمْ
نُبَاحَ الْكِلاَبِ وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ
فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لاَ تَرَوْنَ::: جب تُم لوگ رات میں کتوں کے بھونکنے کی اور
گدھوں کے چیخنے کی آواز سُنو تو اللہ کی پناہ مانگا کرو، کیونکہ یہ کتے اور گدھے
(اِس لیے چیختے ہیں کہ)وہ کچھ دیکھتے ہیں،جو تُم لوگ نہیں دیکھتے ﴾سُنن ابو داؤد/حدیث حدیث/5105کتاب الادب/باب116،صحیح ابن حبان /حدیث حدیث/5517کتاب الزینۃ و التطیب/باب2آداب النوم،إِمام
الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،سلسلہ الصحیحہ/حدیث3184،
:::::
(10) ::::: اچانک خوف اور پریشانی محسوس ہونے کے وقت :::::
عَمرو بن العاص رضی اللہ عنھُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم ہمیں (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمیعن کو)اچانک خوف یا پریشانی محسوس ہونے یا پیش آنے کی صُورت میں یہ دُعاء کرنا
سِکھایا کرتے تھےکہ﴿ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ
عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ::: دیکھتے میں اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ طلب کرتا
ہوں، اللہ کے غُصے سے، اور اُس کے بندوں کے شر سے،اور شیطانوں کے ڈالے ہوئے جُنوں
سے، اور اِس بات سے شیطان ہم پر قابو پا لیں﴾سُنن ابو داؤد/حدیث حدیث/3895کتاب الِطب/باب19، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے حَسن قرار دِیا،سلسلہ
الصحیحہ/حدیث3184،
:::::
(11) ::::: کِسی نئی جگہ، کِسی نئے مُقام پر پہنچنے کے وقت :::::
خولہ بنت حکیم السلیمہ رضی اللہ عنھا
نے بتایا کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا ﴿ مَنْ نَزَلَ مَنْزِلاً ثُمَّ
قَالَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ. لَمْ
يَضُرُّهُ شَىْءٌ حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ:::جو کوئی کِسی منزل میں پہنچا اور پھر یہ کہا کہ
، میں اللہ کے مکمل کلامت کی پناہ مانگتا ہوں ، اللہ کی تمام مخلوق کے شر سے،تو
اُس شخص کو کوئی بھی چیز نُقصان نہیں پہنچا سکتی یہاں تک کہ وہ اُس جگہ سے چلا
جائے﴾صحیح مُسلم/حدیث حدیث/7053کتاب الذِکر و
الدُعاء و التوبہ/باب16،
:::::
(12) ::::: بیت الخلاء (ٹوائلٹ) میں داخل ہونے کے وقت :::::
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ،جب بھی رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بیت
الخلاء میں تشریف لے جاتے تو فرمایا کرتے ﴿ اللَّهُمَّ إِنِّى
أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ:::اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، مذکر اور
مؤنث شیطانوں سے﴾صحیح بخاری/حدیث حدیث/142کتاب الوضوء/باب9،صحیح
مُسلم/حدیث/857کتاب الحیض/باب32،
:::::
(13) ::::: جب کوئی مُسلمان تکلیف میں ہو، اور خُود پر دَم کرے تو اُس
وقت :::::
عُثمان بن ابی العاص
رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ"""اُنہوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں اپنے جسم میں اُس درد کی شکایت کی
جو درد انہیں اِسلام قُبول کرنے کے بعد سے شروع تھا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِى تَأَلَّمَ مِنْ
جَسَدِكَ وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ. ثَلاَثًا. وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ
بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ ::: تُمہارے جسم میں جہاں درد ہو وہاں اپنا ہاتھ
رکھو ، اور تین دفعہ بِسمِ اللہ کہو، اور (پھر اُس کے بعد )سات دفعہ کہو، میں اللہ
کی ، اور اُس کی قُدرت کی پناہ مانگتا ہوں اُس شر سے جو میں پا رہا ہوں اور جِس کا
مجھےاندیشہ رہتا ہے﴾صحیح مُسلم/حدیث/5867کتاب السلام/باب24،
صحیح ابن حبان/حدیث/2967کتاب الجنائز/ باب 2 الْمَرِيضِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ،
:::::
(14) ::::: سونے سے پہلے، یعنی ، جب سونے کے لیے بستر پر لیٹا جائے
اُس وقت :::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ،رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں یہ تعلیم فرمایا کرتے تھے کہ﴿جب تُم میں سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے
جائے تو دائیں کروٹ پر لیٹے ، اور کہے اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَرَبَّ الأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ
الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَىْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ
التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَىْءٍ
أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ اللَّهُمَّ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَىْءٌ
وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَىْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ
شَىْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَىْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ
وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ::: اے اللہ، آسمانوں اور زمین کے رب، اور عظیم عرش کے
رب، ہم سب کے اور ہر ایک چیز کے رب،دانے اور بیج کو پھاڑنے والے، اور تورات، اور
انجیل اور قران نازل کرنے والے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں، ہر اُس چیز کے شر سے
جسے تُو نے اُس کی پیشانی سے قابو کر رکھا ہے، اے اللہ،تم ہی سب سے پہلے ہو کہ تُم
سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، اور تم ہی سب سے آخری ہو، کہ تُمہارے بعد کچھ بھی نہ
ہوگا،اور تم ہی سب سے بُلند ہو کہ تُم سے اوپر کچھ بھی نہیں، اور تُم ہی سب کچھ کے
اندر تک جانتے ہو، کہ تُم سے زیادہ تُمہاری مخلوق کے اندر(کا حال کوئی جانتا)نہیں،ہمارے
قرض چُکا دے، اور ہمیں (اپنے فضل کے ساتھ)غُربت سے غنی کر دے﴾صحیح مُسلم/حدیث/7064کتاب الذِکر و
الدّعاء التوبہ/باب17،سُنن
ابو داؤد/حدیث/5053کتاب الادب/باب107،
اِس مذکورہ بالا حدیث میں اِس بات
کی دلیل بھی ہے کہ اللہ جلّ و عزّ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ جُدا اور بُلند ہے،
اپنی ذٓت پاک کے ساتھ ہر جگہ موجود نہیں،
بلکہ اُس کا عِلم اپنی تمام تر مخلوق کے اندر تک کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے کا عقیدہ غیر
اِسلامی عقیدہ ہے اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے اور اُس کے خلیل محمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کے بہت سے فرامین کا اِنکار ہے، الحمد للہ اِس موضوع کو تفصیل
کے ساتھ """اللہ کہاں
ہے؟"""میں بیان کیا جا چکا ہے،اِس کتاب کے آن لائن
مطالعہ کےلیے اور برقی نسخہ کے حصول کے لیے درج ذیل ربط کی زیارت فرمایے ::: http://bit.ly/1IxNUWR ۔
::::: (15)
::::: جب کوئی تکلیف دہ ، ڈرانے والا ، یا پریشان کرنے والا خواب دیکھا جائے :::::
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ﴿ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ وَالرُّؤْيَا السَّوْءُ مِنَ
الشَّيْطَانِ فَمَنْ رَأَى رُؤْيَا فَكَرِهَ مِنْهَا شَيْئًا فَلْيَنْفِثْ عَنْ
يَسَارِهِ وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ لاَ تَضُرُّهُ وَلاَ
يُخْبِرْ بِهَا أَحَدًا فَإِنْ رَأَى رُؤْيَا حَسَنَةً فَلْيُبْشِرْ وَلاَ
يُخْبِرْ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ:::اچھائی والا (خوش کرنے والا) خواب اللہ کی طرف
سے ہوتا ہے اور برائی والا( پریشان کرنے والا) خواب شیطان کی طرف سے ، لہذا جب تُم
میں کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے جو
اُسے پسند نہ ہو (ڈرانے والا ہو ، یا پریشان کرنے والا ہو )تو وہ شخص اپنی بائیں طرف تین دفعہ(تھوڑی سی تھوک والی)پُھونک
مارے ، اور اللہ کی پناہ مانگے ،شیطان کے شر سے تو وہ (یعنی شیطان اور اُس کا دکھایا ہوا خواب)اُس
شخص کو ہر گِز کوئی نقصان نہ پہنچائے گا، اور وہ شخص کسی کو بھی اُس خواب کے بارے
میں نہ بتائے ، اور اگر اچھا خواب دیکھا ہو تو پھر اُسے خوش خبری سمجھے اور صِرف
اُسے بتائے جسے وہ پسند کرتا ہو(یعنی جِس کے بارے میں اُسے یقین ہو کہ وہ دُوسرا
شخص اُس کا خیر خواہ ہے)﴾صحیح مُسلم/حدیث/6039کتاب الرویاء/پہلا باب،
::::::: فقہ الحدیث
::::::
قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں ہمیں عقیدے اور
غیب کے حقائق کے بارے میں بہت أہم سبق دیے گئے ہیں،
::::: (1) ::::: مُسلمان کو دکھائی دینے والے اچھے،
نیکی پر مبنی،اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات،
اور اِسلامی شرعی حُدود کے مُطابق دُرستگی پر مبنی خواب جو اُسے خوشی کا احساس
مہیا کریں، اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں،
::::: (2) ::::: مُسلمان کو دِکھائی دینے
والےبُرے، برائی پر مبنی، اِسلامی شریعت کے خِلاف معاملات پر مبنی خواب، جو اُسے
پریشان کریں،شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں،
میں نے اللہ کی طرف سے دکھائے جانے
والوں خوابوں کی صِفات میں کہا کہ""" اللہ اور اُس کے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات، اور اِسلامی شرعی حُدود کے مُطابق
دُرستگی پر مبنی خواب""" اور اِس لیے کہا کہ شیطان کی طرف سے ایسے
خواب بھی دِکھائے جاتے ہیں جو بظاہر نیکی والے کاموں پر مبنی ہوتے ہیں، مثلاً صدقہ
و خیرات کرنا، لیکن کسی قبر پر، کسی نیک اور صالح شخص کی صورت میں آکر کچھ خود
ساختہ قسم کی عِبادات، ذِکر اِذکار، چلہ کشیاں وغیرہ کرنے کا کہنا، وغیرہ،
پس اللہ کی طرف سے دِکھائے جانے
والوں خوابوں کی صِفات میں یہ بھی ہے کہ وہ خواب کسی ایسے کام پر مبنی یا مشتمل نہ
ہوں جو کام اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کے کسی حکم، کسی حد، کسی تعلیم کے خِلاف ہو،
::::: (3) ::::: اپنے برے خواب کسی کو نہیں سنانا
چاہیں ،
::::: (4) ::::: اچھے خواب بھی صِرف ایسے لوگوں کو
سنانا چاہیں جنہیں آپ اُن کی پرہیز گاری اور نیکی کی وجہ سے پسند کرتے ہوں، اورجو آپ
کے لیے مخلص ہوں، کہ وہ آپ کا خواب سُن کر کوئی اچھی اور خیر والی بات ہی کریں،
کیونکہ خوابوں کی تعبیر کا معاملہ
یہ ہے کہ وہ ہوا میں معلق ہوتی ہے، اور
خواب سُننے والا بطور تعبیر کو کچھ کہتا ہے ویسا ہی واقع ہو جاتا ہے،
جی ہاں، یہ خبر اللہ عزّ و جلّ نے
اپنےخلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا
کروائی ہے ﴿ الرُّؤْيَا عَلَى
رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعَبَّرْ فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ :::خواب پرندوں کے پنجوں
پر ہوتا ہے جب تک کہ اُس کی(کوئی)تعبیر بیان نہ کی جائے، پس جب(کوئی)تعبیر بیان کر
دی گئی تو (وہ ہی)واقع ہو جاتی ہے﴾،
اور ابی رزین رضی اللہ عنہ ُ، راویء
حدیث کا کہنا ہے کہ"""میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی اِرشاد فرمایا کہ"""﴿ وَلاَ يَقُصُّهَا
إِلاَّ عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِى رَأْىٍ :::اور خواب دیکھنے والا اپنا خواب کسی کو نہ سنائے
سوائے اُس شخص کے جو اُس کا خیر خواہ ہو یا دُرُست نیک رائے رکھنے والا ہو﴾سُنن ابو داؤد/حدیث/5022کتاب الادب/باب96، سُنن ابن ماجہ/حدیث/4047کتاب تعبیر الرویاء/باب6،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے دونوں روایات کو صحیح قرار دِیا، اِس کے علاوہ
یہ حدیث شریف سنن الترمذی، اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے ، اور انہیں بھی إِمام
الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے،
خوابوں میں سےکس کے خواب صالحہ
یعنی اچھے ہوسکتے ہیں ، اِس کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات میری کتاب
"""عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)منانے کے بارے
میں ایک تحقیقی مطالعہ"""، میں """آٹھویں دلیل"""
میں بھی ہیں، اِن شاء اللہ اِن کا مطالعہ بھی فائدہ مند ہوگا، یہ کتاب درج ذیل ربط
کے ذریعے آن لائن مطالعے اور ڈاون لوڈ کرنے کے لیے میسر ہے: http://bit.ly/13SfJqZ
۔
پڑھیے اور پڑھایے، اللہ تبارک و
تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے، ماننے، اپنانے اور اُسی پر قائم رہنے کی توفیق عطاء
فرمائے،
و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل
ظفر۔
تاریخ کتابت : 17/06/1437
ہجری ، بمطابق ، 26/03/2016عیسوئی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔