10::::::: چیزیں جو مال اور پیسے سے کبھی بھی حاصل نہیں کی
جا سکتِیں :::::::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ
لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و
مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ عَلیٰ
مَسلکہِ ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ
و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے
نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے
لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور
کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ اپنائی
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں
کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا
،
السلامُ
علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اِنسان
کی غلط فہمیوں کی کوئی انتہاء نہیں ، اِنہی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ،اکثر
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں ملنے والے مال و دولت سے دُنیا میں کچھ بھی خرید
سکتے ہیں ، حاصل کر سکتے ہیں ، جبکہ یہ حقیقت کے بالکل بر عکس ہے،
اِس
دُنیا کی زندگی میں گو کہ مال و دولت ایک بہت بڑی طاقت ہے، اور بہت ہی کچھ حاصل کر
لینے کا ایک بہت مضبوط اور وسیع سبب ہے ، لیکن پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اِس
طاقت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتِیں ، اور جو اِس سبب کے بس میں نہیں آ پاتِیں ،
قارئین
کرام یہ خیال مت فرمایے گا کہ میں مال و دولت کو بُرا کہہ رہا ہوں ،
بلکہ یہ
بتانے اور سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مال و دولت خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو،
اپنی تمام تر قوت اور قدرت کے باوجود کچھ چیزوں یقینی طور پر ایسی ہیں جو یہ مال اپنے
مالک کو نہیں دِلاسکتا،
لہذا ، ہر مال دار شخص خوش نصیب نہیں ہوتا، اور ہر غریب
شخص بد نصیب نہیں ہوتا ،
ہر مال
دا رشخص خوش حال نہیں ہوتا، اور ہر غریب شخص بد حال نہیں ہوتا ،
کیونکہ
خوشی ، خوش نصیبی ، اور خوشحالی ، کچھ اور ہیں اور مالداری کچھ اور،
اِس میں
کوئی شک نہیں کہ مال و دولت تقریباً ہر کسی کے ہاں مرغوب و مطلوب ہوتی ہے، لیکن
اگر کوئی اِنسان مال کو ہی اپنا سب کچھ بنا لے ، مال کی بندگی اختیار کر لے ، تو
پھر اُس کی رغبت اور طلب سوائے دُنیا اور آخرت کی ذِلت اور تباہی کے اور کچھ ،
تابعین
رحمہم اللہ کے إِمام سعید ابن المسیب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """لَا خير فِيمَن لَا يحب المَال يصل بِهِ رَحمَه وَيُؤَدِّي بِهِ
عَن أَمَانَته ويَستَغنِي عَن الْخلق بِهِ:::اُس شخص میں کوئی خیر نہیں جو رشتہ داریاں نبھانے کے لیے، اور امانت ادا
کرنے کے لیے ، اور مخلوق سے غِناء اختیار کرنے کے لیے مال کی خواہش نہ رکھتا ہو"""،
یہ بات ، أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ
کی روایت سےبطور حدیث بھی مروی ہے ، لیکن بطور حدیث ثابت نہیں ہوتی، جیسا کہ إِمام
محمد الشوکانی رحمہُ اللہ نے "الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة"میں، اورإِمام جلال الدین السیوطی
رحمہُ اللہ نے "اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة" میں بیان کیا ہے،
صحیح حدیث شریف میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ﴿ لاَ بَأْسَ بِالْغِنَى
لِمَنِ اتَّقَى::: مالداری (اور تونگری)میں تقویٰ اختیار کرنے والے کے لیے کوئی نقصان نہیں﴾سُنن ابن ماجہ /حدیث/2224کتاب
التجارات/پہلا باب،إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے
صحیح قرار دِیا ،
واعظ و نصیحت کرنے والے ایک شاعر محمود الوراق رحمہُ اللہ نے کیا خُوب کہا ہے کہ :::
لَبِستُ صُرُوفَ الدَّهر كُهلاً ونَاشِئاً : و جَرَّبتُ
حَالیِ عَلیَ العُسرِ و الیُسرِ
فَلَم أَرَ بَعدَ الدِّینِ خَیراً مِنِ الغِنَی : وَلَم
أَرَ بَعدَ الکُفرِ شرًّ مِنِ الفِقرِ
میں ادھیڑ عُمری اور لڑکپن میں زمانے کے تصرفات میں مبتلا
رہا
اور میں نے تنگی اور آسانی دونوں میں ہی اپنے حال کو آزمایا
لیکن میں نے دِین کےعِلاوہ تونگری (مالداری) سے بڑھ کر کوئی
خیر (والی چیز)نہیں دیکھی
اور (نہ ہی)کُفر کے عِلاوہ
فقیری (غُربت)سے بڑھ کر شر والی کوئی چیز دیکھی(بحوالہ ، بهجة المجالس وأنس المجالس/باب جامع القول فی الغنیَ والفقر ، للامام محمد ابن عبدالبر)
میرا موضوع یہاں ، مال اور مالداری ، یا غربت اور فقر کے
فائدے اور نقصانات نہیں ، یہ چند باتیں اِس لیے پیش کی ہیں کہ قارئین کے اذہان میں
یہ واضح رہے کہ مالداری اور غریبی دونوں
ہی خیر کا سبب بھی ہیں بشرطیکہ مال کمانے میں اور خرچ کرنے میں اور غریبی کاٹنے
میں تقویٰ کا ساتھ رہے ،
اور اِن میں شر بھی ہے،اگر مال کمانے میں اور اِسے خرچ کرنے
میں ، اور غُربت کاٹنے میں اِسلامی شریعت کی حُدود نکلا جائے، تو یہ امتحان ہیں اورشر ہیں ،
اِسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِن دونوں
کے فتنے ، یعنی اِن کی مُصیبتوں،امتحانات اور شر سے اللہ کی پناہ طلب فرمایا کرتے
تھے :
امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے بتایا ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (یہ دُعاءبھی) فرمایا کرتے تھے کہ﴿ اللَّهُمَّ إِنِّى
أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ ، وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ ، وَمِنْ
فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ
النَّارِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ
الْغِنَى ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ
الدَّجَّالِ ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِّى خَطَايَاىَ بِمَاءِ الثَّلْجِ
وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّ قَلْبِى مِنَ الْخَطَايَا ، كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ
الأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ ، وَبَاعِدْ بَيْنِى وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا
بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ::: اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ، سُستی اور
عاجز کر دینے والے بُڑھاپے سے، اور ، گناہ کے اسباب سے، اور جُرمانے ڈالنے والے
کاموں سے،اور، قبر کے عذاب سے، اور ، جہنم (میں ڈال دیے جانے )کے امتحان سے،اور ،
جہنم کے عذاب سے ، اور ، مالداری کے امتحان اور شر سے ،اور، تیری پناہ مانگتا ہوں، غربت
کے امتحان اور شر سے، اور ، تیری پناہ مانگتا ہوں، مسیح دجال کے شر سے،اے اللہ، مجھ
(پر )سے میری خطائیں(اپنی مغفرت کے)پانی، برف اور ٹھنڈک کے ساتھ دھو ڈال، اور مجھے
میرے دِل کو خطاؤں سے پاک کر دے ، جِس طرح کسی سفید کپڑے کو مَیل سے صاٖف کیا جاتا
ہے، مجھے اور میری خطاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا دُور کردے جتنا تُو نے مشرق اور
مغرب کو دُور کر رکھا ہے﴾صحیح بخاری/حدیث/6368کتاب
الدعوات/باب39،صحیح
مُسلم/حدیث/7046کتاب
الذِکر و الدُعاء والتوبہ/باب14،
پس یہ بات یقینی ہے کہ اِن دونوں چیزوں ، یعنی مال اور
غُربت، اور دونوں معاملات یعنی مالداری اور غریبی
میں خیر بھی اور شر بھی ،
چونکہ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اِنسان کے پاس مال ہو
تو وہ سب ہی کچھ حاصل کر سکتا ہے ، تو اِس غلط فہمی کے ازالے کی کوشش میں چند ایسی
، لیکن اِنسانی زندگی میں بہت ہی أہمیت والی چیزوں کا ذِکر کر رہا ہوں جو مال کے
ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتِیں ،
آیے دیکھتے ہیں کہ وہ چیزیں کیا ہیں ؟؟؟
پہلے ہم
کچھ ایسی چیزوں کا ذِکر کرتے ہیں جو سب ہی اِنسانوں کے لیے مُشترک ہیں :::
:::::: (1)
:::::::مُخلص ،وفا دار دوستی ::::::: ہر ملنے والا دوست نہیں ہوتا، اور ہر دوست مُخلص نہیں ہوتا، اور ہر مُخلص وفا دار نہیں
ہوتا، یہ تو ہم سب محسوس بھی کرتے ہیں ، اورجانتے بھی ہیں کہ ہمارے ملنے والوں
میں بہت لوگ ہوتے ہیں ، اُن میں سے کئی
ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ خاصی بے تکلفی ہوتی ہے اور خاصا ملنا جُلنا ہوتا ہے جسے
عام طور پر دوستی سمجھا جاتا ہے ، اور ایسے دوستوں میں سے اکثر صِرف اپنی مصلحتوں
کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایسے دوستانہ رویہ رکھتے ہیں ، لہذا وہ ہمارے ساتھ مُخلص
نہیں ہوتے ،
پھر اُن
دوستانہ رویہ رکھنے والوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے اچھائی کے خواہاں
ہوتے ہیں ، مُخلص ہوتے ہیں ، لیکن وفاء دار نہیں ہوتے، کہ جب کہیں اُنہیں اپنے اور
ہمارے درمیان کسی ایک کے لیے کوئی اچھائی یا فائدے والا معاملہ اختیار کرنا پڑ
جائے تو اپنی ذات کو فوقیت دیتے ہیں، اور جفاء کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
:::::: (2)
:::::::سچی مُحبت، اور سچی اپنائیت ::::::: اِنسانوں کی معاشرتی زندگی میں سب سے زیادہ مشکل ترین معاملات
میں سے ایک معاملہ سچی محبت ، اور سچی اپنائیت کا حصول ہے، اگر کسی کو یہ حاصل ہو
تو وہ یقیناً وہ بہت خوش نصیب شخص ہوتا ہے ، اور یہ خوش نصیبی بھی مال و دولت کے
ذریعے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ معاشرتی زندگی کے حقائق میں یہ نظر آتا ہے کہ عموماً
غریب اور کم مال دار لوگوں کو یہ نعمتیں مال دار لوگوں سے زیادہ میسر ہوتی ہیں۔
:::::: (3)
:::::::لوگوں میں احترام اور عِزت ::::::: نا ممکن ہے کہ آپ، میں ، یا کوئی بھی اور شخص اپنا سارا مال و
دھن خرچ کر کے بھی لوگوں میں احترام اور عِزت پا سکے، کیونکہ لوگ ،آپ کے لیے
احترام اور عِزت کا جو مظاہرہ آپ کی طرف سے مال ،اور دیگر تحفے تحائف ملنے کی وجہ
سے، یا مال اور دیگر تحائف ملنے کے لالچ میں آپ کے سامنے ظاہر کرتے ہیں، وہ لالچ
کی وجہ سے ہی ہوتا ہے، مال و تحائف کے
بدلے میں ، یا لالچ میں ملنے والا احترام او رعِزت محض دِکھاوا ہوتا ہے
،
حقیقی احترام اور عِزت وہ ہوتی ہے جو آپ پہلے
دوسرے کو دیتے ہیں اور پھر وہ آپ کی طرف لوٹتی ہے،
جی ہاں
،تحائف دینا دُوسروں سے احترام ، عِزت اور محبت حاصل کرنے کے ذرائع اور اسباب میں
سے ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿
تَهَادُوا تَحَابُّوا::: تحفے دیا کرو، ایک دُوسرے
سے مُحبت بڑھے گی ﴾الادب المفرد للبخاری/حدیث /594کتاب المریض/باب قُبوُل الھدیۃ، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے
"حَسن "قرار دِیا،
یعنی یہ
بات یقینی ہے کہ تحفے تحائف دینے سے محبت ، احترام اور عِزت میں اضافہ ہوتا ہے ،
بالکل اِسی طرح ، جِس طرح کہ یہ بات یقینی ہے کہ اگر تحائف کا تبادلہ ہو، اور کسی
دُنیاوی غرض یا لالچ کی وجہ سے نہ ہو، اور
نہ ہی تحفہ دیے جانے والے کو احسان جتانے کے لیے ہو،اور نہ ہی تحفے کے بدلے میں
کچھ ملنے کی اُمید کے ساتھ ہو، اپنے مُسلمان بھائی ، یا بہن سے اللہ کے لیے محبت
رکھتے ہوئے تحفہ دیا جانا اور پھر اُس تحفے کے نتائج میں دونوں کے درمیان محبت میں
اضافہ ہونا ، اِس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے ، نہ کہ دُنیاوی مقاصد کے حصول کی
نیت سے دیے جانے والے تحائف کا۔
:::::: (4)
:::::::ہمیشہ برقرار رہنے والی صحت ::::::: تقریباً ہر ایک
اِنسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے ، تندرُست اور توانا رہے، اور
اِس خواہش کی تکمیل کے لیے تقریباً ہر شخص اپنی استطاعت کے مُطابق اپنا مال اور
وقت خرچ بھی کرتا رہتا ہے، اور مالدار لوگ تو اِس خواہش کی تکمیل کے لیے ایسے عجیب
و غریب کاموں میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتے
ہیں جو بظاہر حماقت ہی دِکھائی دیتے ہیں
،ا ور عموماً اُن کاموں کی اکثریت حماقت ہی ہوتی ہے،
لیکن
پھر بھی ، بے تحاشا مال خرچ کرنے کے باوجود بھی کبھی کوئی مالدار ترین اِنسان بھی
اپنی صحت ، تندُرُست اور توانائی کو ہمیشہ کے لیے نہیں پا سکا۔
:::::: (5)
::::::: کمزوری ،بڑھاپے اور موت سے بچاؤ ::::::: یہ خواہش بھی تقریباً سب ہی اِنسانوں کے دِلوں میں مچلتی ہے
کہ نہ تو وہ بوڑھے ہوں اور نہ ہی اُنہیں موت آئے، جی ہاں ، موت کے خواہش مند صِرف
اللہ پر سچا إِیمان رکھنے والوں میں سے اُس کے وہ بندے ہوتے ہیں، جنہیں اپنے اللہ
سے ملنے کی لگن ہوتی ہے اور اُس مُلاقات میں اپنے اللہ کو خوش کرنے والے عمل بھی
کر رکھے ہوتے ہیں ،
باقی تو
سب یہی چاہتے ہیں کہ کمزوری ، بڑھاپے ،اور موت سے بچے ہی رہیں ، لیکن اپنے مال ،
اپنی دولت، اپنے وقت میں سے بہت کچھ اور بسا اوقات سب کچھ خرچ کرنے کے بعد بھی وہ
نہ تو ہمیشہ رہنے والی طاقت پا سکتے ہیں ، اور نہ ہی ہمیشہ جوان رہ پاتے ہیں ، اور
نہ ہی موت سے بچ پاتے ہیں ۔
:::::: (6)
:::::::اپنی شخصیت کے بارے میں مطمئن ہونا ::::::: لوگوں میں سے ایسے بہت ہی کم ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت کے بارے
میں مطمئن ہوں، کسی کو اپنی شکل میں کوئی عیب لگتا ہے، کسی کو اپنے قد کاٹھ میں ،
کسی کو اپنی جسامت کے بارے میں پریشانی رہتی ہے،
کسی کو اپنے رنگ روپ پر غصہ رہتا ہے، اور اپنے مال خرچ کر کر کے وہ لوگ
اپنے آپ میں ایسی تبدیلیاں لانے میں لگے ہی رہتے ہیں جو اُنہیں اُن کی اپنی ہی
شخصیت کے بارے میں مطمئن کر سکیں ، لیکن،،، اُنہیں یہ نصیب نہیں ہو پاتا، کہ جب
کسی ایک پہلو سے اُن کی شخصیت اُن کے نفس کی خواھشات کے مُطابق ہو جا تی ہے تو کسی
اور پہلو سے اُس کے بارے میں بے اطمینانی کا شِکار ہوجاتے ہیں، پس اپنی دولت خرچ
کرتے رہتے ہیں مگر ھدف نہیں پا سکتے ۔
:::::: (7)
::::::: اپنے اھل خانہ و اھل خاندان کا بے لوث ساتھ :::::::یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جو مال کے ذریعے نہیں مل پاتی، کہ کسی
شخص اپنے دُکھ، غم، پریشانی ، بیماری، کمزوری وغیرہ کی حالت میں اپنے اھل خانہ ،
اور اپنے خاندان کے لوگوں کو ، سب ہی کو ، یا اُن میں سے چند ایک کو کسی غرض ، کسی
لالچ ، کسی تقصیر کے بغیر اپنے ساتھ پائے،جو اُس کے حامی ہوں، مددگار ہوں ، خدمت
گار ہوں ، اور اُسے اُس مشکل سے نکالنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرنے والے ہوں ۔
:::::: (8)
:::::::زندگی کے معاملات نمٹاتے ہوئے محفوظ ہونے کا احساس ::::::: اِنسان اپنی معاشرتی زندگی میں تقریباً خود سے ملنے والے ہر
شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ کرتا رہتا ہے، خواہ وہ اپنے گھر کے افراد کے ساتھ
ہو، یا اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ، یا گھر اور خاندان سے باہر کے لوگوں کے
ساتھ،
تجارتی
معاملات ہوں ، اخلاقی معاملات ہوں ، طبی معاملات ہوں ، تعلیمی معاملات ہوں، کھل
کُود کے معاملات ہوں، نیکی والے معاملات ہوں ، یا ، بدی والے معاملات ہوں ، غرضیکہ
اِنسان ہر وقت کہیں نہ کہیں ، کِسی نہ ِکِسی طور ، کِسی نہ کِسی کے ساتھ کِسی نہ
کِسی معاملے میں ملوث رہتا ہے،
اِن
معاملات کو نمٹاتے ہوئے اِنسان کو طرح طرح کے خدشات اور سامنے والے کی طرف سے
نقصان دینے، دھوکہ دینے، ناکام بنانے وغیرہ کے خوف اور اندیشے رہتے ہی ہیں ، جِن سے
وہ اپنا مال خرچ کر نجات نہیں پا سکتا ، حفظ و امان کا احساس خرید نہیں سکتا ،
اُسے اپنے محفوظ ہونے کا احساس صِرف اُسی وقت نصیب ہوتا ہے ، جب اُسے سامنے والے
کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ اُس کے لیے اخلاص، محبت ، احترام اور عِزت رکھتا ہے
، اور یہ سب کچھ پیسہ خرچ کرنے سے نہیں ملتا ۔
اس کے
بعد ہم دو ایسی أہم اور بنیادی چیزوں کا ذِکر کرتے ہیں جو مُسلمانوں کے لیے خاص
ہیں:::
:::::: (1)
:::::::اللہ عزّ و جلّ پر مکمل اورسچا اِیمان ::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر مکمل اور سچے اِیمان کی صِفات میں
یہ بھی ہے ، اِیمان والا ، اپنے اکیلے لا شریک خالق ، اور رب اللہ جلّ جلالہُ کی تمام صِفات پر مکمل یقین رکھتا ہو، اور اُس
کے فیصلوں اور عطاء پر راضی رہتا ہو،
مال ،
دولت، صحت ، تندرستی، شہرت، اورمعاشرتی قوت اور رُتبے وقتی خوشی کا سبب تو ہو سکتے
ہیں ، اور اگر انہیں اللہ کی رضا کے لیے ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں استعمال کیا جائے تو پھر خوش نصیبی ہوتے ہیں
،
اور یہ
ہے حقیقی خوش نصیبی ، یعنی اللہ تعالیٰ پر مکمل اور سچا اِیمان ، کیونکہ اِس کی موجودگی میں اِیمان والے کی
دُنیا اور آخرت سب ہی کچھ سنور جاتے ہیں ، خواہ دُنیاوی اعتبار سے اُس کی دُنیاوی
زندگی کتنی ہی مشکلات سے دوچار گذرے،
اور یہ
بھی ایک ایسی چیز ہے جو مال و دولت کے
ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی ۔
:::::: (2)
:::::::نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت اور اُن کی مُحبت:::::::مُسلمانوں کی اکثریت
یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ اُنہیں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت
ہے ، بلکہ کئی لوگ تو اِس پاکیزہ جذبے کا اظہار سفلی جذبے کے نام ، یعنی """عِشق"""کے
ذریعے کرتے ہیں ،
لیکن حقیقت یہ نظر آتی ہے کہ یہ محض دعویٰ ہی ہوتا ہے، کیونکہ اُن کے عقائد اور اعمال میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت بہت ہی کم ہوتی ہے ، یا بالکل ہوتی ہی نہیں
، لوگوں کے بنائے ہوئے ، مِن گھڑت عقائد اور اعمال اپنائے ہوتے ہیں ، اور اُسے
محبتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
سمجھتے ہیں،
اور اپنی اِس نام نہاد محبت کو ثابت کرنے کے لیے، انہی
غلط عقائدکی بنا پر ، اور انہی کے مُطابق
اپنا مال بھی خرچ کرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں یہ سب کچھ کر کے وہ لوگ رسول
اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی مُحبت حاصل کر رہے ہیں ،
مگر، ایسا ہر گِز نہیں ہو رہا ہوتا ، اور نہ ہی ہونے والا
ہے ، جب تک کہ اُن کے عقائد اور عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
صحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ کے مطابق نہ ہو جائیں،اِس کے عِلاوہ کسی بھی طور مال و دولت خرچ کر کے نہ تو اللہ کے رسول کریم
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت پائی جا سکتی ہے ، بلکہ جو کچھ اُس محبت
کے نام پر سمجھا جاتا ہے وہ دھوکہ ہوتا ہے ،
اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح
ثابت شُدہ سُنّت شریفہ کی تائید کے بغیر
خرچ کیے گئے مال کے ذریعے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُحبت حاصل
کی جا سکتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، اُس کی اور اُس کے خلیل
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُس طرح اطاعت کی توفیق عطاء
فرمائے جِس طرح اُس کے ہاں مقبول ہے ۔
والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔ تاریخ کتابت :21/06/1437ہجری،بمُطابق،30/03/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے
:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔