Thursday, April 27, 2017

::: سفرء معراج کی تاریخ ، اور اُس کی نِسبت سے کوئی عِبادت کرنا:::

::: سفرء معراج کی تاریخ ، اور اُس کی نِسبت سے  کوئی عِبادت کرنا:::
بِسم ِ اللَّہِ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیَ رَسُول اللَّہ ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ عزّ و جلّ  کی طرف سے معراج  کا سفر کروایا گیا، جِس کی تفصیلات معروف ہیں ،  گو کہ اُن میں بھی کچھ  غیرثابت  خبریں شامل کی جا چکی ہیں ، اور کچھ ایسی بھی جِن کی کوئی اصل ہی نہیں ملتی ،
لیکن اِس  وقت میرا موضوع ، سفرء معراج کی تفصیل ، یا اُس میں پیش آنے والے واقعات کی چھان بین نہیں ، بلکہ میرا موضوع  سفرء معراج کی تاریخ ، اور اُس کی نِسبت سے  کوئی عِبادت کرنا ہے ،
جب ہم  خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و افعال ، اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ کی  بیان کی گئی قران کریم کی تفاسیر(تفسیریں) ،  احادیث شریفہ کی شُروح (شرحیں)، اُمت کی تاریخ ،  پر نظر کرتے ہیں ، اور تلاش کرتے ہیں تو ،،،،،،،،،،، ہمیں کہیں بھی کوئی ایک بھی ، ایسی  سچی ثابت شُدہ یقینی خبر  نہیں ملتی جو سفرء معراج   کی تاریخ کا تعین رکھتی ہو،
لیکن کیا کِیا جائے ، ہماری عادت ہے کہ ہم نے بس جو کچھ اپنایا لیا، جو کچھ بڑوں سے پا لیا اُس کو چھوڑنا نہیں ، بلکہ اُسے ہی سچا کرنے کی کوشش میں اپنے رب کے دیے ہوئے وسائل اِستعمال کرتے رہنا ہے ،
سفرء معراج کی تاریخ کے بارے میں ہمیں درج ذیل مخلتف اقوال ملتے ہیں ، اور اِن میں سے کوئی بھی سچائی کی کسوٹیوں پر پورا نہیں اُترتا :::
::: (1) :::  سفرء معراج ہجرت سے پانچ سال پہلے واقع ہوا ،
::: (2) :::  سفرء معراج ہجرت سے  ایک  سال پہلے واقع ہوا ،
::: (3) :::  سفرء معراج ہجرت سے ایک مہینہ  پہلے واقع ہوا ،
اور یہ اختلاف   بھی ملتا ہے کہ :::
 ::: (1) :::  سفرء معراج  ماہء رجب میں  واقع ہوا ،
::: (2) :::  سفرء معراج  ماہء  ربیع الاول  میں  واقع ہوا ،
::: (3) :::  سفرء معراج  ماہء ذی القعدہ  میں  واقع ہوا ،
اور یہ اختلاف   بھی ملتا ہے کہ :::
::: (1) :::  سفرء معراج  پندرہ رجب میں  واقع ہوا ،
::: (2) :::  سفرء معراج  ستائیس  رجب میں  واقع ہوا ،
گو کہ  اِن کے عِلاوہ کچھ اور بھی ہیں ، لیکن میں نے صِرف اُن اقوال کے ذِکر پر اکتفاء کیا ہے  جو نسبتاً زیادہ ہیں  ، 
حیرت کی ، بلکہ دُکھ زدہ حیرت  کی بات یہ ہے کہ یہ سب  مذکورہ بالا باتیں  محض باتیں ہی  ہیں ،  اِن میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں جِس کو کوئی صحیح سند نصیب ہو ، بلکہ کئی تو ایسی ہیں جو فقط  کہنے والوں کی اپنی رائے پر مبنی ہیں ،
دُکھ اور حیرت اِ س پر نہیں کہ یہ مختلف باتیں کیوں کہی گئیں ؟
بلکہ ، اِس پر  ہے کہ جب  اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے  اِن باتوں کی حقیقت جاننے کے تمام  وسائل مہیا فرما دیے ، تو پھر بھی ہم اِن باتوں کو ، یا اِن میں سے کِسی ایک کو  کیوں دُرُست مان  رہے ہیں ؟
اور صِرف دُرُست ہی نہیں مان رہے ، بلکہ اِن کی بِناء پر خود ساختہ بلا اصل و بلا دلیل عقائد اور  عِبادات  بھی اپنائے ہوئے ہیں ،
اور صِرف اپنائے ہی نہیں ہوئے بلکہ اُنہیں ہی سچ اور حق منوانے  کے لیے ایک دُوسرے کی کِھنچ تان بھی کرتے ہیں ،
 زعم تو ہمیں یہ ہے کہ ہم بہت عقل مند اور صحیح فہم و ادارک والے ہیں ، لیکن ،،،،،،،،،،، جِس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے  سال اور مہینے کی ہی  کوئی سچی مصدقہ خبر نہیں ملتی ، ہم تو  اُس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی رات  بھی مانے ہوئے ہیں ،    
شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ نے صدیوں پہلے یہ خبر دی تھی کہ """ ولا يُعرف عَن أحد مِن المُسلمين أنه جَعل لليلة الإِسراءِ فضيلةَ علَى غيرها، لا سيما على ليلة القدر، ولا كان الصحابةُ والتابعُون لَهم بإحسان يقصدُون تخصيص ليلة الإِسراء بأمر من الأمورِ، ولا يذكرونها، ولهذا لا يُعرف أي ليلة كانت، وإن كان الإِسراءُ مِن أعظم فضائله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ومع هذا فَلم يُشرع تخصيصُ ذلك الزمانِ، ولا ذلك المكانِ بعبادة شرعية::: مُسلمانوں میں سے کِسی کے بارے میں یہ معروف نہیں کہ اُس نے معراج والی رات کو کِسی دُوسری رات پر فضیلت دِی ہو ، خا ص طور پر شبء قدر پر ،   اور نہ ہی صحابہ اور  بہترین طور پر اُن کی پیروی کرنے والے تابعین معراج کی رات کو کِسی بھی (دِینی یا دُنیاوی) کام کے لیے مخصوص کرتے تھے ، اِسی لیے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ  کونسی رات تھی، بے شک سفرء معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فضائل میں ہے ، لیکن اِس کے باوجود اُس واقعے کے وقت  ،اور جگہ کی نِبست سے کوئی عِبادت مقرر نہیں کی گئی    """،زاد المعاد فی ھدی خیر العِباد /مُقدمہ ،
اور ، إمام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ  اپنی کتاب """ تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب """ میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ """ لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه، ولا في صيام شيء منه، - معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه -حديث صحيح يصلح للحجة، وقد سبقني إلى الجزم بذلك الإمام أبو إسماعيل الهروي الحافظ، رويناه عنه بإسناد صحيح، وكذلك رويناه عن غيره، ولكن اشتهر أن أهل العلم يتسامحون في إيراد الأحاديث في الفضائل وإن كان فيها ضعف، ما لم تكن موضوعة. وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة.
وقد صرح بمعنى ذلك الأستاذ أبو محمد بن عبد السلام وغيره. وليحذر المرء من دخوله تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكذابين". فكيف بمن عمل به.
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع. ::: رجب کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کے روزوں کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کے کسی دِن میں خاص طور پر کوئی روزہ رکھنے کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کی کسی خاص  رات میں قیام کرنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث ملتی ہے جو قابل حُجت ہو،
مجھ سے پہلے إِمام حافظ ابو إِسماعیل الھروی نے اِس معاملے کو یقینی قرار دیا ہے ، جیسا کہ ہم اُن کے بارے میں یہ بات صحیح اسناد کے ساتھ روایت کر چکے ہیں ، اور اِسی طرح اُن کے عِلاوہ دیگر(عُلماء اور أئمہ)کے بارے میں بھی ،
لیکن ، یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ عُلماء (میں سے کچھ)فضائل کے باب میں ضعیف (کمزور، غیر ثابت شُدہ، ناقابل اعتماد)احادیث ذِکر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ،بشرطیکہ وہ جھوٹی ، مَن گھڑت ، خود ساختہ نہ ہوں،
اِس اجازت کے ساتھ ،  یہ شرط بھی لگائی جانی چاہیے کہ ایسی کسی حدیث لانے والا یہ جانتا ہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، اور وہ اُس حدیث (کی کمزوری بتائے بغیر اِس )کو نشر نہ کرے ، تا کہ کوئی اِس کمزور حدیث  پر عمل نہ کرے ،اور کسی ایسے معاملے کو شرع نہ بنا لے جو شرع نہیں ہے ، یا  جاھلوں میں سے کوئی اُسے صحیح سُنّت ہی نہ سمجھ لے،
یہی بات  استاد ابو محمد بن عبدالسلام اور دیگر (عُلماء )نے صراحت کے ساتھ کہی ہے،
پس اِنسان کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان کے حد میں داخل ہونے سے بچنا ہی چاہیے کہ ((( مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ :::جِس نے میرے بارے میں کوئی ایسی بات روایت کی جو (عُلماء کے ہاں)جھوٹی (غیر ثابت شُدہ)ہو تو  وہ (یعنی ایسی بات روایت کرنے والا)بھی جھوٹے لوگوں میں سے ایک جھوٹا ہے)))  [[[صحیح مُسلم/مقدمے میں پہلی حدیث]]]    
(جب صرف روایت کرنے کا معاملہ اتنا سنگین ہے تو)اُس کا کیا معاملہ ہو گا جو ایسی روایت پر عمل کرے ؟؟؟
اور (حق بات یہ ہی ہے کہ)احکام میں ، یا فضائل میں حدیث پرعمل ایک ہی جیسا ہے کوئی فرق نہیں ، کیونکہ سب ہی شریعت میں ہیں ۔"""
إِمام صاحب رحمہُ اللہ کے اِن مذکورہ بالا فرامین میں اُن لوگوں کے لیے بہت اچھا جواب ہے جو فضائل کے نام پر ضعیف یعنی کمزور، غیر ثابت شُدہ، ناقابل اعتبار ، ناقابل حُجت روایات بیان کرنا دُرُست کہتے ہیں اور ایسا کرتے بھی ہیں اور ایسے جھوٹے ، من گھڑت اور غیر ثابت شدہ فضائل سے صفحات بھر  بھر کر کتابیں لکھتے ہیں اور اُنہی  قصے کہانیوں پر عمل کر کے  بزعم خود نیکیاں کماتے ہیں ، اور اُنہی قصے کہانیوں پر عمل کر کے  اپنے تئیں اِسلام کا پرچار کرتے ہیں، و لا حول ولا قوۃ اِلا باللہ،
پس واضح ہے کہ ، اگر اُس رات ، یعنی سفرء معراج والی رات  کو کِسی کام کے لیے خاص کرنا ، یا  اُس رات میں  عام معمولات سے  ہٹ کر کوئی عِبادت کرنا دُرُست ہوتا ، تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ضرور کرتے ، اور اُن کے شاگرد تابعین رحمہم اللہ بھی کرتے، جبکہ اُن میں سے کِسی ایک کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں ملتی کہ اُس نے سفرء معراج والی رات کو کِسی بھی انداز میں کِسی بھی دُوسری رات پر فضلیت دِی ہو ،
 اھل سُنّت و الجماعت کے تمام مذاھب و مسالک اِس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کے بعد ،  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے بڑھ  کر ، اللہ تعالیٰ ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرنے والے تھے ، اور اللہ کی رضا پانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑتے تھے ، رضی اللہ عنہم اجمعین ،
قارئین کرام ،  کِسی کام ، کِسی وقت ، کِسی مُقام، کِسی شخصیت،   کی کوئی فضیلت ، اُس کی نِسبت سے کوئی عقیدہ ، کوئی عِبادت مقرر ہونے کے لیے اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے اِرسال کردہ  وحی  میں سے دلیل کا ہونا لازم ہے ، خواہ وہ قران کریم کی صُورت میں ہو ، یا اللہ کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ،
اور اگر ایسا نہیں ہے ، تو ، جِس کام ، جِس وقت ، جِس مُقام ، جِس شخصیت کی کوئی فضیلت نہ تو اللہ پاک نے مقررفرمائی  ، نہ اللہ تعالیٰ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  ،اور نہ  ہی اُس کی نِسبت سے کوئی عقیدہ ، کوئی عِبادت مقر رکی ، یا کِسی عِبادت  کے کرنے  کوئی ترغیب تک ہی دِی ،
اور نہ  ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  میں سے کِسی نے ایسا کوئی قول یا فعل پیش کِیا جِس سے اُس کام ، اُس وقت ، اُس مُقام کے لیے کوئی فضیلت ہونے کا ،یا اُس کی نِسبت سے کوئی عِبادت کرنے  کا اِشارہ ہی ملتا ہو، تو بلا شک و شبہ  اُن کی مخالفت کرنے والی کوئی خبر قابل قبول نہیں ،
بس ، یہی حال ہے سفرء معراج کی رات کی تاریخ ، وقت اور اُس رات کی ، اُس سفر کی نسبت سے بنائے گئے ، اپنائے گئے عقائد کا ، اور عِبادات کا ، کہ ، کِسی کو بھی اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی ، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کی طرف سے کوئی تائید میسر نہیں، 
اور ایسے کِسی بھی قول اور فعل کو ماننے اور اپنانے میں کوئی خیر نہیں ، کیونکہ اگر اِس میں کوئی خیر ہوتی تو اللہ جلّ جلالہ، خود اپنے کلام میں ، یا اپنے  نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  حدیث شریف میں  اِس کی خبر فرماتا ، اور سب سے زیادہ خیر والے تین زمانوں میں اُس کا قولی اور فعلی ذِکر ملتا ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے ، اور اپنے کی ہمت عطاء فرمائے ، اور اُسی  پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہمارے خاتمہ فرمائے ، والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 25/07/1438ہجری، بمُطابق، 22/04/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔