::: جنّت میں سب سے پہلے ، اور سب سے زیادہ داخل
ہونے والے :::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد
:::
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
،
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مُبارک ہے ﴿ آتِى بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ::: میں جنّت کے دروازے پر پہنچوں گا تو جنّت
کا چوکیدار مجھ سے پوچھے گا ،" مَنْ
أَنْتَ ؟::: آپ کون ہیں ؟ " ، میں کہوں گا
" محمد "،
چوکیدار کہے گا """ بِكَ أُمِرْتُ لاَ أَفْتَحُ لأَحَدٍ قَبْلَكَ ::: مجھے یہی حکم دِیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے
کسی کے لیےجنّت کا دروازہ نہ کھولوں ﴾ [1]،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی وہ پہلے اِنسان
ہوں گے جو جنّت میں داخل ہوں گے ، یہ عظیم الشان عزت بھی سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کِسی اور کو
نصیب نہیں ہوئی ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے عظیم ترین رسول محمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِس کے عِلاوہ بھی بہت سے عظیم ترین رُتبے عطاء فرمائے ہیں ، جن میں سے ایک رُتبہ
""" شِفاعت """ بھی ہے ، ایسی شِفاعت جِس کی
اِجازت اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن کی ساری ہی اُمت کے حق میں پیش کرنے کے لیے
دِی جائے گی ، اور اللہ پاک اُسے قبولیت عطاء فرما ئے گا سِوائے شرک کرنے والے کے
لیے ، جیسا کہ خود اللہ تبارک و تعالی ٰ نے اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے
خبر کروائی کہ ﴿ لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ
دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ
فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ
شَيْئًا:::ہر نبی کے لیے ایک ایسی
دُعا ء ہے جو یقیناً قُبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی وہ دُعاء اپنی اُمت کی شِفاعت
کے لیے بچا رکھی ہے لہذا وہ میری اُمت میں سے ہر اُس شخص کو ملے گی جو اللہ کے
ساتھ کسی کو شریک بنائے بغیر مرا ہو گا ﴾ [2]،
یہ """ شِفاعت """ بھی صرف
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اللہ کی خاص الخاص رحمتوں اور محبتوں میں سے
ہے ،
اور اللہ کی اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خاص رحمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن کی
اُمت کی آخرت میں پیش آنے والے بہت سے
حقائق بتا دیے، دِکھا دیے ،
اُن حقائق میں سے ایک حقیقت کا ذِکر فرماتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
اِرشاد فرمایا ﴿ قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا الْمَسَاكِينُ
وَإِذَا أَصْحَابُ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ إِلاَّ أَصْحَابَ النَّارِ فَقَدْ أُمِرَ
بِهِمْ إِلَى النَّارِ وَقُمْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا
النِّسَاءُ::: میں(نے سفرء معراج میں
دیکھا کہ میں)جنّت کے دروازے پر کھڑا ہوں ، تو (دیکھا) کہ اُس میں داخل ہونے والوں
کی اکثریت غریب لوگ ہیں ، اور بڑے رُتبوں والے، اور مال
دارلوگ ( حساب دینے کے لیے
جنّت سے دُور ہی) محبوس ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جِن کو جہنم میں ڈالے جانے
کا فیصلہ ہو چکا ہے ، اور (پھر)میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو(دیکھا) کہ اُس
میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتیں ہیں ﴾[3] ،
پس دُنیا کے مال و متاع کی کثرت والے آخرت میں کم خیر پانے والوں میں ہوں گے ، کیونکہ
اولاد آدم کی اکثریت کا آغاز سے ہی یہ معاملہ چلا آرہا ہے کہ جس رب نے
وہ مال و متاع دِیا اس ہی کی راہ میں خرچ کرنےسے دُور ہی رہتی ہے ،
لیکن اپنے اور اپنے رب کے دُشمن ابلیس اور اُسکے ساتھیوں کی راہ میں خرچ کرتی ہے بلکہ خوب خرچ کرتی ہے، ، ، اور یہی وہ اکثریت ہے
جس کا ذِکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِن مذکورہ بالا احادیث اور ایسی ہی خبروں پر مشتمل دیگر احادیث مُبارکہ
میں فرمایا ہے ،
اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں اِیمان والے نیکو کار
غریب و نادار لوگوں کو یہ خوشخبری بھی دِی
ہے کہ وہ امیروں سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گے ، اور امیروں سے زیادہ تعداد میں
داخل ہوں گے ،
اور امیروں میں سے صِرف وہی لوگ آخرت میں اپنی امیری اور
تونگری کا فائدہ حاصل کر سکیں گے جنہوں نے
اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو گا ، جیسا کہ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد ﴿الأَكْثَرُونَ هُمُ الأَقَلُّونَ إِلاَّ مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا:::زیادہ مال و متاع اور جاہ و رتبے والے
(آخرت کی خیر اور جنّت میں جانے والوں میں) کم ہوں گے سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے
(دُنیا میں )کہا ہو (میرا یہ مال )اس طرح ، اس طرح (اللہ کی راہ میں خرچ ہے)
﴾ [4]،
اِس مذکورہ بالا آخری حدیث شریف میں ایسے مال دار لوگوں کو
بھی آخرت کی فلاح کی خوشخبری دی گئی ہے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں
، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مال وجاہ والوں سے پہلے غریب ،کمزور اور نادار اِیمان
والے نیکو کار لوگ جنّت میں داخل ہوں گے اور جنّت میں ان کی ہی اکثریت ہو گی ،
لہذا
غریب مُسلمان کو اپنی غُربت کی وجہ سے دِل آزار نہیں ہونا چاہیے ، اور نہ ہی اپنی غُربت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی
کا سبب بنا کر اللہ کی ناراضگی اور عذاب مول لینا چاہیے ، ، بلکہ غُربت
کی سختیوں اور تنگیوں پر صبر کرنا چاہیے کہ ایک نہ ایک دِن اُس سے نجات ملنی ہی ہے ، خواہ موت کے بعد ہی ملے ،
لیکن اگر اِس کو سبب بنا کر ، سبب سمجھ کر ، صبر
کرنے کی بجائے گناہ اختیار کر لیے تو پھر موت کے بعد والی
ہمیشہ رہنے والی زندگی میں کبھی ختم نہ ہونےو الا عذاب مقدر ہو جائے گا ، پس
یہی کوشش کرتے ہی رینا چاہیے کہ اُس کی غُربت اُس کے لیے دُوسروں سے پہلے
اللہ کی جنّت میں داخل ہونے کا سبب بن جائے، نہ کہ ہمیشگی والا عذاب
پانے کا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اُن میں سے بنائے جو اُس کی جنّت
میں سب سے پہلے داخل ہونے والے ہیں ۔ و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 18/01/1433ہجری،
بمُطابق، 13/12/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔