Sunday, October 1, 2017

::: پہچان باپ کے نام سے ہی ہونی چاہیے ، آخرت میں بھی ایسا ہی ہو گا :::


::: پہچان باپ کے نام سے ہی ہونی چاہیے ، آخرت میں بھی ایسا ہی ہو گا :::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم

الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ،

شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،

سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دِی،

السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،

ہم مُسلمانوں پر ٹوٹنے والی بڑی مصیبتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ اپنے دِین ، اپنی دُنیا ، اپنی آخرت سے متعلق  کِسی مسئلے ، کِسی موضوع  پر چند ایک باتیں سُن پڑھ کر فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں ، اور اُس سے بڑی اور بُری مُصیبت یہ ہے کہ جو فیصلہ صاد رکر دیتے ہیں ، یا ، اپنا لیتے ہیں اُس میں کِسی غلطی ، کِسی کوتاہی ، کِسی نا دُرُستگی کو ماننے  کا قطعا حوصلہ نہیں رکھتے ،

ایسے بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’’’ کِسی شخص کی پہچان باپ کے نام سے ہونا چاہیے، یا ہو گی ،  یا ماں کے نام سے ‘‘‘،

ہمارے کچھ مُسلمان بھائی اغیار کے فلسفوں سے متاثر ہو کر ، اپنے دِین ء حق اِسلام میں دی گئی تعلیمات ، جو کہ اللہ عزّ و جلّ کے فرامین اور اللہ کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور عملی سُنّت پر مبنی ہیں ، اُن تعلیمات  پر عمل کو ہی غیر اِخلاقی ، غیر فطری کہنے تک پہنچ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اُن   کی خطاؤں سے درگذر فرمائے اور اُنہیں حق قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،

اُنہیں شاید اِس حقیقت کا بھی اندازہ نہیں کہ جو کچھ اللہ عزّ و جلّ ، اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کے مُطابق نہیں وہ کِسی بھی طور  دُرُست اور اِخلاقی نہیں ہو سکتا ، خواہ ساری ہی دُنیا کے تمام تر معاشرے اُس کو اپنائے رہیں ،  

اِسی طرح  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا کوئی حکم ، کوئی تعلیم ، اُنکے ہاں مقبول کوئی بھی مُعاملہ قطعا غیر فِطری نہیں ہے ،

جو کوئی بھی ایسا سوچتا ہے وہ درحقیقت اللہ جلّ و عَلا ، اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے احکام و تعلیمات پر بہتان بازی کا مُرتکب ہو رہا ہوتا ہے ، سمجھ پائے یا نہ سمجھ پائے ،

بہر حال ،،، یہ تو چند  سر راہ باتیں تھیں ،  اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں ،

ہمیں اللہ جلّ و عَلا کے فرامین مُبارکہ میں  یہ ہی ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ، دُنیا اور آخرت میں اشخاص کی پہچان ، اُن کے اپنے ذاتی ناموں اور باپوں کے ناموں کے ساتھ مربوط ہے ،  نہ کہ ماؤں کے نام سے ،

کِسی جگہ پڑھنے میں آیا کہ میرے ایک مُسلمان  بھائی نے  مادر سِری نسب، یعنی باپ کی بجائے ماں کے نام سے حسب نسب چلانے کے نظام  کی حمایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ایک فرمان  میں سے ایک  دو الفاظ کا ذِکر کیا ، اور وہ بھی غلط ، اُنہوں نے لکھا ’’’ وللانساب‘‘‘ ، جبکہ قران کریم میں یہ الفاظ کہیں نہیں ہیں ، بلکہ قیامت کے احوال کے ذِکر میں  اللہ جلّ و عُلا کا یہ فرمان ہے کہ (((فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ::: پھر جب صُور(میں)  پھُونکا جائے گا تو اُس دِن اُن (اِنسانوں ) میں نہ رشتہ داریاں رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا)))[1]،

 اِس آیت شریفہ میں   نسب کے کِسی انداز  کا، یا انساب کا کوئی اِنکار نہیں ، بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ اُس دِن اِنسانوں کو اپنے نسب ، اپنی رشتہ داریاں کِسی کا کوئی خیال نہ رہے گا ، بس اپنا آپ  بچ جانے کی ہی فِکر ہو گی ،

اِسی طرح اُس بھائی نے کِسی حوالے کے بغیر ایک حدیث کا بھی ذِکر کر دِیا کہ ’’’  قیامت کے دِن ہرشخص کی پہچان ماں سے ہوگی ‘‘‘،

کِسی صحیح ثابت شُدہ حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ، یہ بات درج ذیل روایت میں ہے :::

(((إذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إخْوَانِكُمْ فَسَوَّيْتُمْ التُّرَابَ عَلَى قَبْرِهِ فَلْيَقُمْ أَحَدُكُمْ عَلَى رَأْسِ قَبْرِهِ ثُمَّ لْيَقُلْ يَا فُلَانُ بْنُ فُلَانَةَ ،،،،،،،،،،،،،،:::   جب تم لوگوں کے بھائیوں میں سے کوئی مر جائے ، اور تم لوگ اُس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم سے کوئی ایک اُس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو ، اور کہے ، اے فُلاں عورت کے فُلاں بیٹے ، ،،،،،،،،،،،،،،))) ، اِس روایت کو  محدثین کرام رحہم اللہ نے ضعیف اور مُنکر ،  یعنی کمزور ، ناقابل حجت قرار دِیا ہے ،  لہذا اِسے کِسی دلیل کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا ، [2]،

اِس مذکورہ بالا مُنکر روایت پر تکیہ کیے ہوئے ، میرے اُس بھائی کی دِین کے بارے میں معلومات ، اور  اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین پر اِیمان کی حالت کا اندازہ اُس کی اِس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ’’’ قیامت کا دِن کوئی ایک مخصوص دِن نہیں بلکہ ایک سلسلہ کا نام قیامت ہے ‘‘‘،

خوفناک ، دُکھ بھری حیرت ہے کہ مُسلمانوں میں ، اللہ کے احکام سے اِس قدر غافل لوگ بھی ہیں ، جنہیں قیامت کا دِن ہونے پر بھی شک ہے

اللہ جلّ و عُلا کا  یہ فرمان ذِکر کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ (((ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ::: اور اُنہیں اُن کے( اصلی نسبی )باپوں کے نام کے ساتھ پکارو، اللہ کے ہاں یہی  اِنصاف اور دُرُستگی والا (معاملہ) ہے ، اور اگر تمہیں اُن کے باپوں کا عِلم نہیں ہے تو وہ تمہارے (مُسلمان )بھائی ہیں ، اور تمہارے  دو ست ہیں )))[3] ،

بات بہت صاف اور واضح ہے ، کہ ، ہر شخص کو اُس کے باپ کی نسبت دِی جائے گی، نہ کہ ماں کی، حتیٰ کہ جِس کے باپ کا پتہ نہ ہو تو بھی بس اُسی کا نام لینا کافی ہے ، اُس کا نسب اُس کی ماں سے نہیں جوڑا جائے گا، اور نہ ہی ماں کی طرف سے چلایا جائے گا ،

اور ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی بہت ہی واضح اِلفاظ میں یہ بتا دِیا ہے ،سمجھا دِیا ہے کہ (((الْغَادِرُ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ::: غداری کرنے والے کے لیے، قیامت والے دِن ،   (اُس کے نام کا ) جھنڈا بلند کیا جائے گا ، (اور ) کہا جائے گا کہ یہ فُلاں  مرد کے فلاں  بیٹے کی غداری ( کا جھنڈا ) ہے    )))    [4]،

مزید وضاحت اِن الفاظ میں مروی ہے کہ (((لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنٍ::: غداری کرنے والے کے لیے، قیامت والے دِن ،   (اُس کے نام کا ) جھنڈا ہو گا ، جِس کے ذریعے اُس کی پہچان ہو گی،   (اور ) کہا جائے گا کہ یہ فُلاں  مرد کے کی غداری ( کا جھنڈا ) ہے    )))[5]،

اِس حدیث شریف میں یہ بھی پتہ چل گیا کہ قیامت میں کِسی کو اُس کے باپ کے نام کے بغیر بھی پکارا جائے گا ،

کچھ لوگ ، اللہ تعالیٰ کے  فرمان  (((يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ :::   اُس دِن ہم سب لوگوں کو اُنکے اِما موں (پیشواؤں ، سرادروں )  کے نام سے بلائیں گے )))  [6]، سے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت والے دِن اِنسانوں کو اُن کی ماؤں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا ، جبکہ ایسا سمجھنا سوائے غلطی کے اور کچھ نہیں ،

اِس آیت شریفہ کی تفیسر میں مُفسرین رحمہم اللہ کے درج ذیل اقوال ہیں :::[7] ،

::: (1) :::   ’’’ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘ سے مُراد لوگوں کا اعمال نامہ ہے ، اِس قول کی دلیل میں قران کریم کی کچھ دیگر آیات  پیش کی جاتی ہیں،

::: (2) :::   ’’’ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘  میں بات  مُسلمانوں کے بارے میں ہے تو ’’’ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘  سے مُراد  رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف ہے ، اور اگر  بات تمام تر اِنسانوں کے بارے میں ہے تو ’’’ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘  سے مُراد   وہ شخصیات ہیں جِن کی لوگوں کی اِتباع کی ،  اِس قول کی دلیل میں  بھی قران کریم کی کچھ دیگر آیات  پیش کی جاتی ہیں ،

::: (3) :::   ’’’ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘ سے مُراد قران کریم ہے ،

::: (4) :::   ’’’ بِإِمَامِهِمْ ‘‘‘ سے مُراد  لوگوں کی مائیں ہیں ، یہ قول مردُود ہے کیونکہ  اِس قول کو نہ تو قران کریم سے کوئی تائید مُیسر ہو پاتی ہے ، نہ ہی حدیث شریف سے ، اور نہ ہی لغت سے ، لہذا اِس میں کوئی حُجت نہیں ،

پس بالکل واضح ہے کہ دُنیا اور آخرت میں اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کے  ہاں کِسی اِنسان کی پہچان ، کِسی اِنسان کا  حسب نسب ، باپ کے ذریعے ہی ہوتا ہے اور ہو گا ، اِس کے عِلاوہ جو کوئی بھی کوئی دُوسرا انداز اپناتا ہے وہ غلطی پر ہے ،

افسوس پر افسو س کہ  اُس بھائی نے  مغربی فلسفوں او ر انداز و اطوار  سے مُتاثر ہوتے ہوئے یہ بھی لکھا دِیا کہ  ’’’ اگر موجودہ دور کے انسانی معاشروں پر نگاہ دوڑائیں تو مغرب جو زیادہ پڑھا لکھا، زیادہ سیانا، زیادہ علقمند، زیادہ سمجھدار ہے، وہاں تمام معاشرے تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔یعنی پدرسری سے مدرسری بنتے جارہے ہیں ‘‘‘ ،

محترم قارئین ،  کِسی مُسلمان کو کِسی بھی عقیدے یا عمل کی  حمایت کرنے سے پہلے اچھی طرح یہ  جان لینا چاہیے کہ کہیں وہ حمایت اُس کے لیے اُس کی آخرت میں کِسی خسارے کا سبب  نہ ہو جائے ،  

بے شک دُنیاوی مادی عُلوم کی تعلیم ، ترقی ، وُسعت  وغیرہ اِنسانی مُعاشرے میں کچھ آسانیوں کا سبب بنتی ہے ، لیکن ،،،،، اِن میں کوئی ایک بھی اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کو سمجھنے کی کسوٹی نہیں ، بلکہ اِن سب  میں سے حق اور باطل کی پہچان اللہ جلّ جلالہُ کی وحی کے ذریعے ہوتی ہے ، وہ وحی جو قران کریم کی صُورت میں ، اور صحیح احادیث شریفہ کی صُورت میں اللہ پاک نے ہم تک پہنچائی ہے ،  

اللہ پاک ہم سب کو حق  پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہو کر ، اُس کی رضا پانے والوں میں سے بنائے ،والسلام علیکم ،

طلب گارء دُعاء ،   عادِل سُہیل ظفر ،

تاریخ کتابت : 09/01/1439ہجری ، بمُطابق، 29/09/2017عیسوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ (PDF):        http://bit.ly/2xTygpx 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب (MP4) :          https://youtu.be/HryBqvveyMg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



[1] سُورت المؤمنون (23) / آیت 101،              

[2]   سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ / رقم 599،

[3]   سُورت الاحزاب(33) /آیت5،

[4]    صحیح بخاری / حدیث  6177 / کتاب الادب / باب 99 مَا يُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ ،  اگر اِس باب کے عنوان  کو ہی سمجھ لیا جائے تو  سارا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے ۔

[5]    صحیح مُسلم / حدیث 4633 /کتاب الجھاد و السِیر /باب 4 تَحْرِيمِ الْغَدْرِ ،

[6]        سُورت الاسراء (17، بنی اِسرائیل )/آیت 71،

[7]       تفصیل کے لیے   دیکھیے ، امام قرطبی رحمہُ اللہ کی  تفسیر ’’’ الجامع لأحكام القرآن   (تفیسر قرطبی) ‘‘‘ ،  اور   علامہ محمد  الامین  شنقیطی رحمہُ اللہ  کی تفیسر ’’’ أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن ‘‘‘میں سے        ’’’ سُورت بنی اِسرائیل ‘‘‘  کی تفسیر  ۔



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔