::::::: غلطی کا
اعتراف اِصلاح اور خیر کا سبب ہوتا ہے :::::::
بِسمِ
اللَّہِ ، و لہُ الحمدُ فی الاُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ
اللَّہ، الذَّی لا نَبیّ و لا مَعصوم بَعدہُ :::
شروع اللہ کے نام سے ، اور اُسی کے لیے ہے
خالص تعریف دُنیا میں اور آخرت میں ، اور سب سے بہترین صلاۃ و سلام ہے اللہ کے
رسول پر ، جِس کے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی کوئی معصوم ،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہ ،
غلطی اور گناہوں سے عصمت صِرف
اور صِرف نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے لیے تھی ، اُن علیہم السلام کے عِلاوہ
نہ کوئی معصوم تھا اور نہ ہی کوئی ہو سکتا ہے ،
جو کوئی بھی کسی نبی علیہ
السلام یا رسول علیہ السلام کے عِلاوہ کسی بھی اور کو معصوم سمجھتا یا مانتا ہے وہ
اِسلامی تعلیمات سے نابلد ہے ،
اِسلامی تعلیمات میں ایسا
کہیں نہیں ہے کہ مُسلمان کوئی غلطی یا گناہ نہیں کر سکتا ، کیونکہ غلطی اور گناہ
کا شِکار ہو جانا اِنسان کی فِطرت میں
شامل ہے اور اِسلام کی کوئی تعلیم ، کوئی حکم ایسا نہیں جو انسانی فِطرت کے خلاف
ہو ،
اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علی و علیہ وسلم کا
اِرشاد گرامی ہے کہ ﴿وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ
بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ
لَهُمْ::: اُس کی قسم جِس کے ہاتھ
میں میری جان ہے ، اگر تُم لوگ گناہ نہیں کرو تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو
لے آئے جو گناہ کرے اور اللہ سے بخشش مانگے ، تو اللہ اُن کی بخشش فرمائے﴾صحیح
مُسلم/حدیث 7141/کتاب التوبہ/باب2،
اس حدیث شریف سے یہ مراد ہر
گز نہیں کہ استغفار کرنے کے لیے ، اور
اللہ تعالیٰ کی بخشش ، رحمت اور عفو و درگزر کے بھروسے پر جان بوجھ کر گناہ
کیے جائیں ، بلکہ اِس میں یہ سِکھایا اور
سمجھایا گیا ہے کہ گناہ کا شکار ہو جانا
عین ممکن ہے ، لیکن عافیت اِسی میں ہے کہ جوں ہی گناہ گاری کا احساس ہو جائے تو فی الفور
اللہ سے بخشش طلب کی جائے ، کہ ،
اگر تم لوگ گناہ کا شکار ہونے کے بعد ، اُس پر قائم رہو گے ، اللہ کی طرف رجوع
نہیں کرو گے ، اللہ سے بخشش نہیں مانگو گے ، تو اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو ہٹا کر
ایسے لوگوں کو لے آئے گا، جو گناہ
کا شکار ہوں گے، تو اُس کا احساس ہوتے ہی اللہ سے بخشش کے طلب گار ہوں گے ، نہ کہ گناہ
پر مصر ،
پس اِس حدیث شریف میں ہمیں یہ سبق بھی
ملا کہ غلطی یا گناہ کا شِکار ہو جانا ایسا بڑا خطرہ
نہیں ، جتنا بڑا خطرہ غلطی اور گناہ کا
اعتراف نہ کرنا ، اُس کو نہ ماننا ہے ،اور اُس سے بڑا نقصان والا
کام کسی غلطی یا گناہ پر اِصرار کرنا ہے ،
یعنی کسی غلطی یا گناہ سے باز رہنے کی
بجائے ، اُس کی اِصلاح کرنے کی بجائے اُس غلطی یا گناہ کو بار بار کرتے رہنا ہے ،
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اِنفرادی سطح سے لے کر قومی سطح
تک لوگوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کےبڑے اسباب میں سے ایک بڑا سبب اُس شخص یا قوم
کا کسی یا کچھ غلطیوں یا گناہوں پر مُصر رہنا رہا ہے ، ،،اور اِس کا عکس بھی تاریخ
میں واضح ہے ،
ہم اپنی مُسلمانوں کی تاریخ ، اور موجودہ حالت کو ہی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اِسلامی مسائل میں فہم اور رائے کا اِختلاف اگر ضد اور تعصب نہ بنایا جائے تو وہ
حق اور باطل میں فرق کے بڑے اسباب میں سے ایک ہوتا ہے ، لیکن جب ضِد اور تعصب جیسی غلطیاں اُس اِختلاف کا
سبب ہو جائیں یا اُس اِختلاف کی بقاء کا سبب ہو جائیں تو پھر وہ اِختلاف مُسلمانوں
میں تفرقہ اور نفرتوں کے علاوہ کچھ نہیں
دیتا ،
اور اگر اُس غلطی کو چھوڑ دیا جائے تو بڑی ہی خیر ملتی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہماری ہر ایک کلمہ گو بھائی اور بہن کو اِس غلطی ، اور ہر ایک
غلطی کو جاننے ، ماننے اور اس کی اِصلاح کرنے کی ہمت عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم،طلب
گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
اِس مضمون کے ساتھ ’’’ خطاء اور غلطی کا فرق ‘‘‘ کا
مطالعہ بھی ضرور فرمایے ، اِن شاء اللہ خیر کا سبب ہو گا ۔
تاریخ کتابت :17/09/1435 ہجری،
بمُطابق، 14/07/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج
ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔