:::اقامت نماز کے بعد
کوئی دُوسری نماز پڑھنا جائز نہیں خواہ فجر سے پہلے والی دو سُنّت ہی ہوں :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ، و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ، و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا
ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی
لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم
کرنے والا ہے ،سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور
سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے
اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا
اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو
رپر دی،
السلام علیکم ورحمۃ
اللہ و برکاتہ ،
کِسی بھی نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد ، کوئی بھی دُوسری
نماز شروع کرنا جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس
سے منع فرمایا ہے ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ
الْمَكْتُوبَةُ ::: جب فرض نماز
کھڑی کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی
اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی ) فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے
)))[1]،
اِس حدیث شریف میں بڑی ہی وضاحت سے یہ فرما دِیا گیا ہے
کہ جب کِسی فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو پھر اُس فرض نماز کے عِلاوہ کوئی بھی
دُوسری نماز شروع کرنا جائز نہیں ،
ہمارے جو بھائی فجر سے پہلے والی دو سنتوں کو اِس ممانعت
سے مُبراء سمجھتے ہیں ، اُن کے پاس فلسفیانہ
دلائل کے عِلاوہ ، روایات ء حدیث میں سے صِرف ایک دلیل ہے، جِس کو بنیاد بنا کر وہ
فجر کی اقامت ہو جانے کے بعد بھی پہلے والی دو سُنّت شروع کرنا نہ صِرف جائز قرار
دیتے ہیں ، بلکہ لوگوں کو سختی سے اِس پر
عمل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں ،
فلسفیانہ دلائل کی تو دِینی معاملات میں کوئی وقعت ہی
نہیں ، لہذا میں اُن دلائل کے بارے میں کوئی بات کرنے کی بجائے اُس اکلوتی روایتء
حدیث کی طرف آتا ہوں جِسے فجر کی اقامت کے بعد بھی ، پہلے والی دو رکعت سُنّت شروع
اور مکمل کرنے کی دلیل بنایا جاتا ہے ،
یہ روایت بھی ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی مروی
ہے کہ (((إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ
الْمَكْتُوبَةُ ، إِلاَّ رَكْعَتَىِ الصُّبْحِ::: جب فرض نماز
کھڑی کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی
اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی ) فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے،
سوائے فجر کی دو رکعت کے ))) [2]،
امام البیھقی رحمہُ اللہ نے اِس روایت کو نقل کرنے کے
بعد خود ہی یہ بھی بتا دِیا ہے کہ """ وَهَذِهِ
الزِّيَادَةُ لَا أَصْلَ لَهَا وَحَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ
ضَعِيفَانِ::: اور یہ
زیادہ (یعنی سوائے فجر کی دو رکعت ) ایسی بات ہے جِس کی کوئی اصل ہی نہیں ہے ،
اور حجاج بن نصیر، اور عباد بن کثیر دونوں (راوی) ضعیف ہیں """،
اور میں کہتا ہوں کہ صِر ف یہ دونوں راوی ہی نہیں ، بلکہ
جس سے عباد بن کثیر نے روایت کیا ہے یعنی ، اللیث بن ابی سلیم بھی ضعیف ہے ، اسے بھی
محدثین نے مضطرب الحدیث اور ضعیف الحدیث قرار دِیا ہے ،
پس ، اِس ضعیف ، ناقابل حُجت روایت کی بِناء پر پہلے والی صحیح حدیث شریف میں سے کوئی استثناء نہیں ملتا ، حدیث شریف میں دیا گیا حکم جُوں کا تُوں برقرار ہے کہ ((( جب فرض نماز کھڑی
کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی )
فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے )))،
پس یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ جب کِسی بھی نماز کی اقامت
کہہ دی جائے تو پھر کوئی بھی دُوسری نماز شروع نہیں کی جائے گی، خواہ وہ فجر سے
پہلے والی دو سنتیں ہی ہوں ،
جو شخص مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہو کہ اقامت کہی جا
چکی ہو ، یا کہی جا رہی ہو، تو اُسے فرض جماعت کے ساتھ شامل ہونا ہو گا ، فجر سے
پہلے والی دو سنتیں وہ فرض کے فوراً بعد پڑھ سکتا ہے ، یا پھر سورج پوری طرح سے
طُلوع ہونے کے بعد،
رہا معاملہ اُس شخص کا جِس نے اقامت کہے جانے سے پہلے
کوئی نفل یا سُنّت نماز شروع کر رکھی ہو ، تو اُس کے بارے میں عُلماء کرام کے
مختلف اقوال ہیں ،
جِن سب کے مختلف دلائل بھی ہیں ، اُن سب کا مطالعہ کرنے
کے بعد ایسے شخص کے لیے دُرست یہ لگتا ہے
کہ اگر وہ اپنی اِس شروع کردہ نماز کا حق ادا کرتے ہوئے اِسے مکمل کر کے ، امام صاحب کے پہلے رکوع میں سے سر اُٹھانے سے
پہلے ، جماعت میں شامل ہو
سکتا ہو تو اپنی یہ نماز پوری کر ے اور پھر جماعت میں شامل ہو جائے ، اور اگر ایسا
نہیں تو پھر اپنی یہ نماز چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے ،
اِس طرح چھوڑے جانے والی نفلی نماز کی کوئی قضاء نہیں
ہوتی، اور نہ ہی نما زسے نکلنے کے لیے سلام پھیرنے کی ضرورت ہوتی ہے ،
آخر میں ایک دفعہ پھر گوش گذار کرتا چلوں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلے کے
مُطابق کسی بھی نماز کی اقامت کہے جانے کے بعد وہاں کوئی بھی دُوسری نماز شروع
نہیں کیا جا سکتی، بلا شک یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی
ہے، جو کِسی اجر و ثواب کا سبب تو ہر گِز ہر گِز نہیں ہو سکتی ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قِسم کی ضِد سے محفوظ رہتے ہوئے
حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہو
کر اُس کی بخشش پانے والوں میں بنائے ۔ والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعا، عادِل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 12/09/1438ہجری،بمُطابق،07/06/2017عیسوئی،
تاریخ تحدیث و تجدید : 09/08/1441ہجری ،
بمُطابق،02/04/2020عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے
:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مُسلم /حدیث
/1678کتاب
صلاۃ المُسافرین /باب 9 كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِى نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ، سُنن ابو داؤد /حدیث /1268کتاب صلاۃ التطوع
/باب 5 إِذَا أَدْرَكَ الإِمَامَ وَلَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَىِ
الْفَجْرِ ، سُنن ابن ماجہ /حدیث /1151کتاب إقامة الصَّلاة والسُّنة فيها/باب 103 ما جاء في إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ ،سُنن
الترمذی /حدیث /423کتاب صلاۃ
الصلاۃ /باب 200 مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ ،سُنن
النسائی /حدیث /873/866کتاب الاِمامۃ
/باب 60 مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عِنْدَ الإِقَامَةِ ، سُنن
الدارمی، صحیح ابن حبان ، مُسند احمد،
[2] سُنن البیھقی الکبریٰ /حدیث /4226 كِتَابُ الصَّلَاةِ /جُمَّاعُ أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، وَقِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ /باب كَرَاهِيَةِ الِاشْتِغَالِ بِهِمَا بَعْدَمَا
أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔