بِسمِ
اللہ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ
::::::: اللہ کی عطاء پر راضی ہونا ہی
اصل تونگری (غِناءَ)، اورحقیقی سُکون ہے
:::::::
نفیساتی
ماہرین کا کہنا ہے کہ پریشانیوں ،غموں، دِل و رُوح کی بے سُکونی اور نفسیاتی
دباوؤں کے بڑے بنیادی اسباب میں سے أہم بنیادی سبب ، جو کہ سب سے زیادہ موجود
ہوتا ہے ، اپنے پاس ہونے والے چیزوں پر راضی نہ ہونا ہوتا ہے ،
اور
ہمارےنبی کریم مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صدیوں پہلے ہمیں سکھایا تھا
کہ (((((وَارْضَ بِمَا قَسَمَ
اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ:::جو کچھ اللہ نے تمہارے
لیے حصہ مقرر کیا ہے اُس پر راضی رہو تو تونگر(غِنیِ) ترین لوگوں میں سے ہو جاؤ گے)))))سُنن الترمذی /حدیث2475/کتاب الزُھد/باب2، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے
"حَسن"قرار دیا،
جو کہ کچھ ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس کا نہ
ملنا کوئی انوکھی بات نہیں ، بلکہ ایسا ہونا ہماری زندگیوں کے معمولات میں سے ایک
ہے ، لیکن ہم اس معمول کو معمول سمجھنے کی بجائے اسےحسرت اور دُکھ بنا لیتے ہیں
اور پھر وہ حسرت اور دُکھ ہمارے اندر طرح طرح کی پریشانیاں ، غم ، اور نفسیاتی
دباؤ پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں ، بلکہ بسا اوقات تو مادی طور پر جسمانی بیماریوں
کا بھی سبب بن جاتے ہیں [اس کی تفصیل ""نفسیاتی دباؤ Anxiety سے نجات کا طریقہ "" میں بیان کی جا
چکی ہے ]،
اور
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ حاصل
کرنا چاہتے ہیں وہ مل توجاتا ہےلیکن اُس کے ملنے کے نتیجے میں جو کچھ توقعات لگائے
ہوتے ہیں وہ پوری نہیں ہو پاتِیں ، پس اس
صورت میں بھی ہم اپنی خواہش کے مطابق چیز ملنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے ، سُکون
نہیں پاتے ، بلکہ مزید حسرتوں اور دُکھوں
کو خود پر مسلط کر لیتے ہیں اور نتیجہ پہلی صُورت سے زیادہ منفی اور تکلیف دہ
ہوجاتا ہے ،
اور
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ پاناچاہتے ہیں وہ مل بھی جاتا ہے ، اور اس کے ملنے
کے نتیجے میں جو کچھ توقعات ہوتی ہیں وہ بھی پوری ہوتی ہیں ، لیکن ہمیں اُس چیز کے
کھو جانے ، ختم ہوجانے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے اور اُس کے کھو جانے ، ختم ہوجانے
کے بعد اُس کے بغیر ہو سکنے والی ممکنہ پریشانی کی سوچ ہمیں مذکورہ بالا دونوں
حالتوں سے زیادہ حسرت زدہ کر کے خوف ، غم اور نفیساتی دکھوں کے حوالے کرتی ہے ،
اِن
تمام حالتوں کا ایک ہی سبب ہے ، اور وہ ہے ،
اللہ
تبارک و تعالیٰ کی طرف سےکی گئی تقسیمء رزق
پر ، اللہ کے فیصلہ کردہ رزق کے ملنے پر ، اللہ کے فیصلے کے مطابق رزق میں
سے کچھ کم ہوجانے پر ، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ دُنیا کے مال و اسباب میں سے ملنے
والے حصے پر راضی نہ ہونا ،
جی
ہاں ، جب کوئی شخص اپنے رب کے عطاء کردہ رزق پر راضی نہیں ہوتا ،تو اس کا مطلب یہ
ہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو درست
نہیں مان رہا ، اللہ کی بے عیب حِکمت اور مکمل ترین انصاف اور شفقت والی تقسیم کو
قبول نہیں کر رہا ، بلکہ اُس میں کمی اور نادرستگی ہونا مان رہا ہے ،
ایسی
سوچ ایک گناہ ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ گناہوں کا وجود نفسیاتی دکھوں اور امراض
کا سبب ہوتا ہے ، اس کے بارے میں """ گُناہوں کے نفسیاتی اثرات
""" میں بات کی جا چکی ہے ،
اللہ
کی شان میں گستاخی کے گناہ پر محمول اس
مذکور بالا اندازء فِکر کا نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دِیا ہوتا ہے اُس میں سے برکت اُٹھا لی جاتی ہے،
اور نہ صرف برکت اٹھا لی جاتی ہے بلکہ قلبی اور رُوحانی غربت اس پر مُسلط کر دی جاتی ہے،
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے (((((أَنَّ اللهَ يَبْتَلِي
عَبْدَهُ بِمَا أَعْطَاهُ، فَمَنْ رَضِيَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ، بَارَكَ اللهُ
لَهُ فِيهِ، وَوَسَّعَهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ لَمْ يُبَارِكْ لَهُ :::اللہ
تعالیٰ اپنے بندے کو جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس کے ذریعے اپنے بندے کو آزماتا ہے ،
پس جو اُس پر راضی ہو جاتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے حصہ فرمایا تو اللہ اُس حصے میں اپنے اُس بندے کے
لیے برکت دیتا ہے ، اور اُس میں وسعت دیتا ہے ، اور جو کوئی راضی نہیں ہوتا اُس کے
لیے برکت نہیں دی جاتی ))))) مُسند احمد /حدیث20279/ حَديث رَجُلٍ
مِن بَني سَلیم ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث1869 ،
یہ
بات یقینی ہے کہ کسی چیز کا وجود یا کثرت قلبی اور روحانی سُکون کا باعث نہیں ہوتا
جب تک اُس چیز میں اللہ کی طرف سے برکت نہ ہو ، اس حقیقت کا مُشاہدہ بغیر کسی
تکلیف سے اپنے اِرد گِرد لوگوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے ، کہ ایسے لوگوں کی
اکثریت جن کے پاس دُنیا کے مال و اسباب کی کثرت ہوتی ہے اور وہ اس کثرت کے باوجود اُس پر راضی نہیں ہوتے
جو کچھ اللہ نے انہیں دِیا لہذا وہ بے سکونی کی حالت میں رہتے ہیں ، اور بہت سے ایسے
لوگ جن کے لیے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے اسباب حاصل کرنا بھی ایک عظیم
مُشقت ہوتی ہے اُس پر راضی رہتے ہیں جو کچھ اُن کا رب انہیں دیتا ہے پس وہ پُر
سُکون رہتے ہیں ،
اصل
تونگری یہی ہے ، مالداری یا دُنیا کے مال
و اسباب کی کثرت کو تونگری سمجھا جانا دُرُست نہیں ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے (((((لَيسَ
الْغِنَى عَن كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ:::مال و اسباب کی زیادتی
سے تونگری(غِناءَ) نہیں بلکہ تونگری دل کا (ایسی چیزوں سے )لا پرواہ ہونا ہے)))))
صحیح البخاری / حدیث 6446/کتاب الرقاق/باب15، صحیح مُسلم /حدیث 2467/کتاب الزکاۃ / باب41،
اور
دِل کودُنیا کے متعلقات سے لا پرواہی اس
وقت تک نصیب نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے لیے اللہ کی عطاء پر راضی ہونا نہ سیکھ لے ،
اور جب تک انسان اللہ کی عطاء پر راضی نہیں ہوتا اس دِل و رُوح سُکون نہیں پاسکتے،
اور
دِل کی تونگری حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک أہم سبب آخرت کی فِکر رکھنا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے (((((مَنْ كَانَتِ الآخِرَةُ
هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِى قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا
وَهِىَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ
عَيْنَيْهِ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهَ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ مَا
قُدِّرَ لَهُ::: جِس کو آخرت(کی خیر حاصل کرنے) کا غم ہو اللہ اُس شخص کی تونگری
اُس شخص کے دِل میں بنا دیتا ہے ، اور اُس کے لیے اُس کی قوت جمع کر دیتا ہے اور
دُنیا مجبور (و ماتحت )ہو کر اس کے پاس آتی رہتی ہے، اور جِس کو دُنیا(کے مال و
اسباب حاصل کرنے) کا غم ہو اللہ تعالیٰ اس کی غُربت اُس کی دونوں آنکھوں کے سامنے
بنا دیتا ہے (یعنی وہ ہر وقت خود کو غریب اور کمتری کی حالت میں دیکھتا ہے اور
مزید کی ہوس میں رہتا ہے)اور اس کی قوت بکھیر دیتا ہے اور اُسے دُنیا میں صِرف وہی
ملتا ہے جو اُس کے لیے مقرر کیا گیا ہے))))) سُنن
الترمذی /حدیث2653/کتاب صفۃ القیامۃ/باب30، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ۔
نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس حدیث شریف میں بہت عظیم سبق ہے کہ جو
شخص اللہ کی عطاء پر راضی رہتا ہے اور اس
میں اپنی آخرت کی خیر حاصل کرنے کی فِکر اور کوشش میں رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے
دِل کو دُنیا کے متعلقات سے غِنی کر دیتا ہے ، اور یہاں وہ سُکون ملنا شروع ہوتا
ہے جِس کی تلاش میں آج انسانیت بھٹک رہی ہے ،
اور
اس حدیث شریف میں یہ سبق بھی ملا کہ اللہ کی عطاء پر راضی نہ ہو کر اللہ کی بے عیب حِکمت ، اللہ کے مکمل ترین انصاف ،وسیع
ترین رحمت اور شفقت پر الزام رکھنے والےحقیقت
اور عاقبت سے نا اندیش شخص ، اللہ کی عطاء
کو ناکافی سمجھ کر اپنی دُنیا اور آخرت کا سُکون برباد کیے رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر قلبی غربت مسلط کر
دیتا ہے اور اُسے اُس کی حالت کمتر اور
غریبی والی دکھاتا رہتا ہے اور وہ
ہمیشہ دُنیا کے غم میں ہی غم زدہ
اور بے سُکون رہتا ہے ، اور پھر بھی اُسے وہی کچھ ملنا ہوتا ہے جو اللہ نے اُس کے
لیے مقرر کیا ہے ،
پس
جِس کے دِل میں اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اِیمان ہوتا ہے اُس کے دِل میں اللہ
تبارک و تعالیٰ کی ذات و صِفات کی حقیقی
معرفت ہوتی ہے ، اُس اِیمان اور معرفت کی موجودگی میں وہ اپنے رب کے اِن فرامین کو
پڑھتا ہے کہ :::
(((((وَمَا أَصَابَكُمْ
مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ :::
اور
تُم لوگوں کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ
سے ہوتی ہے ، اور اللہ (تو اپنی رحمت سے)بہت کچھ سے درگزر کرتا ہے)))))سُورت
الشُوریٰ (42)/آیت30،
اور
تو اور ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا
:::
(((((مَا أَصَابَكَ
مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ :::آپ کو جو کچھ بھی
اچھائی ملتی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور جوآپ کو جو کچھ تکلیف ملتی ہے وہ آپ کی
اپنی طرف سے ہے))))) سُورت النِساء (4) /آیت79،
پس
جب سچے اِیمان والا ، اللہ کی ذات اور صِفات کی حقیقی معرفت رکھنے والا اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کے اِن مذکورہ بالا فرامین کو پڑھتا ہے تو اُس کے رب کی مشیئت سے اُس کا دِل ہر اُس چیز پر
راضی ہوتا ہے جو اُسے اُس کے رب نے عطاء کی ، اور اُس کا اِیمان اس معاملہ پر مزید
پختہ ہو جاتا ہے کہ اُس کا رب اُسے جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس میں اس کے لیے خیر ہی
ہے ، اور ہر وہ چیز جو اُس کے لیے دُکھ ، تکلیف ، پریشانی اور تنگی والی ہے ،وہ اُس کی کسی نہ کسی بد عملی کا ہی نتیجہ ہے ،
لہذا
وہ ایسی چیزوں کے ملنے پر خود کو کمزور نہیں ہونے دیتا ، نفسیاتی مریض نہیں بنتا ،
بلکہ اپنے اعمال کا سختی سے محاسبہ کرتا ہے اور خود کو گناہوں سے دُور کرنے کی
کوشش میں لگ جاتا ہے ، اپنے اور اپنے رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے درمیان تعلق کو
مضبوط اور خالص کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کے دِل
کو حقیقی تونگری عطاء فرما دیتا ہے اور اُس کی زندگی میں خواہ کتنی ہی پریشانیاں
اور تنگیاں ہوں اُس کا نفس ، دِل اور رُوح
اپنے رب کی عطاء پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے :::
(((((مَا أَصَابَ
مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::جو کچھ بھی مُصیبت آتی
ہے وہ اللہ کے حکم سے ہی ہوتی ہے ، اور جو کوئی بھی اللہ پر اِیمان رکھتا ہے اللہ
اُس کے دِل کو ہدایت (سُکون) دیتا ہے اور اللہ ہر ایک چیز کا بہت اچھی طرح سے عِلم
رکھتا ہے))))) سُورت التغابن (64) /آیت 11،
اللہ
تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم اُس کی عطاء پر راضی رہیں ، والسلام
علیکم۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔