::::::: عید تو خیر پر باقی رہنا
اور اطاعت پر ثابت رہنا ہے :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم ، والصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریم
، أما بعد :::
روزوں کے دِن اور ان سے پہلے قیام کی راتیں ختم ہونے ہی والے ہیں ، خوش نصیب تو وہ ہے جس نے،
اِن مُبارک دِنوں اور اِن رحمتوں والی راتوں میں اپنے رب سے تعلق جوڑا اور اُسے جوڑ لیا گیا ، جس
نے عمل کیا اور اسے قبول کرلیا گیا ، اور بدنصیب وہ ہے جس نے اپنے رب سےتعلق نہیں جوڑا اور کٹا ہی رہا ،اوراللہ کی رحمت سے
دُور ہی رکا رہا اور دھوکے کا شکار ہوا ،
کل پردے اُٹھ جائیں گے ، اور لکھا ہوا پڑھا جائے گا ،
پھر اس وقت نیک اعمال کرنے والے مؤمن خوش ہوں گے اور کوتاہ کار مسلمان حسرت کا
شکار ہوں گے ﴿ وَسَيَعلَم الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ
يَنقَلِبُونَ ::: اور جلد ہی جان لیں
گے ظلم کرنےو الے کہ کس کروٹ پلٹیں گے ﴾ سورت الشعراء /آیت 227 ،
پس اے وہ
مسلمان جس نے رمضان میں بہترین طور پر
اپنے رب سے وفا کی، شوال میں بھی ویسے ہی
رہیے گا ، اور اس کے بعد بھی کہ تمام مہینوں کا رب ایک ہی ہے اور وہ ہی اکیلا ہمیشہ ہر حال اور وقت میں آپ کے ظاہری
اور باطنی اعمال کو دیکھتا ہے ، خیال
رکھیے گا کہ سب سے بڑا حماقت زدہ نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا اپنا
گھر خود ہی تباہ کر دیں ، خوب محنت کر کر
کے جو کچھ بنایا ہو اسے خود ہی ختم کر دیں ﴿وَلاَ تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَت غَزلَهَا مِن بَعدِ
قُوَّةٍ أَنكَاثاً::: اور تُم لوگ اس عورت کی طرح مت ہو جانا جو اپنے بٹے ہوئے
دھاگے کو طاقتور ہونے کے بعد (خود ہی) کھول دیتی ہے ﴾ سورت النحل/ آیت92 ،
پس عید کی اصلی خوشی یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت پر قائم رہیں نہ کہ خوشی وہ ہے جو اللہ اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانیوں میں محسوس ہوتی ہے ،
::::::: عید کی شرعی حقیقت ::::::::
عید،،،اللہ کے اس دین کے ذریعے کافروں سے خود کو ممتاز
کرنے کا ایک ذریعہ ہے ،جس دین کو اللہ نے مکمل فرما دیااور ہمارے لیے اس کے دین
ہونے کو پسند فرما لیا ، اور عید سابقہ
ادیان اور غیر مسلم قوموں کی عادات سے غنی ہونے کا ایک ذریعہ ہے ،
اور وہ یوں کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ """
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اھل مدینہ کے دو دن
ایسے تھے جن میں وہ لوگ کھیل کود کیا کرتے تھے(یعنی خوشی منایا کرتے تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
دریافت فرمایا ﴿ مَا ھَذان الیومان ::: یہ دو دِن کیا ہیں ؟ ﴾ ،
لوگوں نے جواب دیا """
ہم جاھلیت میں ان دونوں دِنوں میں کھیل کود کیا کرتےتھے (یعنی خوشی منایا کرتے تھے ) """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ اللَّهَ قد أَبدَلَكُم بِهِمَا خَيرًا مِنهُمَا يوم الأَضحَى وَيَومَ
الفِطرِ ::: بے شک اللہ نے تُم لوگوں کے لیے ان دو دِنوں کو اُن
سے زیادہ خیر والے دو دِنوں سے بدل دیا ہے
(اور وہ نئے دو دِن) اضحیٰ (دس ذی الحج ، قربانی کا دن، جسے عام طور پر بڑی عید
کہا جاتا ہے ) کا دِن ، اورفِطر (یکم شوال ،رمضان کے بعد والی عید جسے عام طور پر چھوٹی عید کہا جاتا ہے
) کا دِن ﴾ ،سنن ابی داؤد /حدیث 1134 / کتاب
الصلاۃ /باب 246 ، اِمام
الالبانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
تو یہ دونوں عیدیں
ایسا تہوار ہیں جو ہم مسلمانوں کو
اللہ کی طرف سے دیےگئے ہیں ، اِن کے علاوہ کوئی عید
ہمیں اللہ کی طرف سے نہیں دی گئی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کی طرف سے کوئی اور عید مقرر کی گئی،
لہذا ہمیں ان
دونوں دِنوں کا تقدس برقرار رکھنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دن اللہ کی
عطاء ہیں ، پس ان میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع
فرمانی کی جانی چاہیے نہ کہ ناچ گانے ، بے
حیائی کی محفلوں ، بے پردگی والی ملاقاتوں ، فضول خرچی کے کاموں ، اور وقت کی
بربادی کے ذریعے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کی
جانی چاہیے ،
بلکہ ہمیں یہ
چاہیے کہ ہم ان دونوں دِنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان﴿ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى
مَا هَدَاكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرُونَ::: اور تا کہ تُم لوگ (دِنوں کی) گنتی پوری کرو اور تا کہ اللہ
نے تُم لوگوں کو جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس ہر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تا کہ تُم لوگ (اللہ کا ) شکر ادا کرو ﴾ سورت البقرة/ آیت 185،
یاد رکھتے ہوئے ان دِنوں کو گذاریں ،
ہم مسلمانوں کی یہ دونوں عیدیں
آسمانی ہیں ، سابقہ قوموں کی طرح خود ساختہ نہیں ،بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی
طرف سے قبل از اسلام کی عیدوں کے بدلے میں ایک عطاء ہیں جو ہمیں یہ سبق بھی دیتی
ہیں کہ ان کے علاوہ اسلام میں کوئی عید نہیں
،
ان کی اس عظمت کے پیش نظر یقینا ً یہ سب مسلمانوں کے لیے
انتہائی خوشی کے دن ہیں ، لیکن ، خوشی منانے کا ڈھب لازماً وہی ہونا چاہیے جو اللہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت یافتہ ہو نہ کہ خود
ساختہ ، اور نہ ہی گناہ پر مبنی ،
عید الفِطر سے پہلے اللہ کی رحمت کے خاص مہینے میں کی
جانی والی عبادات اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع
فرمانی کے لیے اپنے نفس پر جبر ایک بہت اچھی تربیت ہے کہ اس کے بعد بھی آنے والی
عید اور اس عید کے بعد کے باقی تمام دن بھی اسی طرح اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں گذارنے کے لیے اپنی خواہشات پر قابو رکھا
جائے اور یاد رکھا جائے یہ عید اللہ کی طرف سے دیا
گیا ایک مقدس دن ہے ، کوئی ””” نافرمانیوں کا دن
“““نہیں ، اور نہ ہی کوئی ایسا دن ہے جس میں خوشی کے نام پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیاں
کی جائیں ،
::::::: عید کے دن ، کھانے پینے ، اور خوشی منانے کے دِن
:::::::
جی ہاں اللہ کی طرف سے عطاء کردہ صرف دو عیدوں کے دِن مسلمانوں کے لیے کھانے پینے ، اور خوشی
منانے کے دن ہیں، لیکن یہ کام اللہ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے
کیے جائیں گے نہ کہ ان کی نافرمانی کرتے ہوئے ، لہذا ، کھانے پینے اور لباس و
آرائش کے معاملات میں خاص طور پر اللہ کا یہ حکم یاد رکھنا چاہیے کہ ﴿ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ
وكُلُوا وَاشرَبُوا وَلاَ تُسرِفُوا إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ المُسرِفِین ::: اے آدم کی
اولاد ہر نماز کے وقت اپنی زینت
اختیار کیا کرواور کھاؤ اور پیؤاور فضول خرچی مت کرو بے اللہ فضول خرچی کرنے والوں
کو پسند نہیں فرماتا ﴾ سورت الأعراف/ آیت31،
اور عمومی طور پر ہر ایک معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے
کہ﴿ مَن تَشبہہ بقومٍ فَھُوَ مُنھُم ::: جس نے جس قوم کی نقالی اختیار کی وہ ان (یعنی اسی قوم میں
سے ) ہی ہے ﴾ سُنن أبو داؤد /کتاب
اللباس /باب 4
لبس الشھرۃ ۔
اور اسی فرمان میں خوشی منانے کا معاملہ بھی ہے ، اس موضوع یعنی """ خوشی منانے """ کے بارے میں
بنیادی معلومات """ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم اور / پانچویں دلیل اور اسکا
جواب """ میں دیکھی جا سکتی ہیں ،
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں کہ مذکورہ
بالا باتوں اور نصیحتوں کا یہ مطلب اور مطلوب نہیں کہ ہم لوگ عید کو خاموشی سے ایک
عام دین کے طرح گذاریں اور اس میں کسی قسم کے تفریح نہ کی جائے ، جی نہیں ، مطلب صرف یہ ہے اور مطوب بھی یہی ہے
کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سےخارج نہ
ہوا جائے ،
اس معاملے کو
اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ ایام کیسے
گذارے اور ان کی موجودگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم عید کیسے کیسے منایا کرتے تھے ؟
دیکھیے کہ عید کے روز ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم اپنی امت کے کھیل کود ، جنگی مشقوں اور ورزشوں
اور چھوٹی بچیوں کے ترنم انگیز طور پر صاف ستھرے کفر و شرک ، گناہ و بے حیائی سے
پاک اشعار سنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
جیسا کہ اِیمان و الوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے کہ """"" دخل عَلَيَّ رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم وَعِندِي
جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میرےپاس تشریف لائے تو اس وقت میرے پاس دو بچیاں أوس اور خزرج کی جنگوں کے واقعات کے اشعار گا رہی تھیں ،
فَاضطَجَعَ على الفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجهَهُ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم بستر پر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور
اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف فرما لیا ،
وَدَخَلَ أبو بَكرٍ فَانتَهَرَنِي وقال مِزمَارَةُ الشَّيطَانِ عِندَ النبي
صَلّی اللہ عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم ::: اور (اس کے بعد) ابو بکر (رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے اور
مجھے ڈانٹا اور فرمایا شیطان کے باجے اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
پاس ،
فَأَقبَلَ عليه رسول اللَّهِ عليه السَّلَام فقال ﴿دَعهُمَا ﴾ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے چہرہ مبارک ابو بکر کی طرف
فرمایا ، اور اِرشاد فرمایا ، اِن دونوں
بچیوں کو چھوڑ دو (یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو) ﴾ ،
فلما غَفَلَ غَمَزتُهُمَا فَخَرَجَتَا::: تو جب وہ بچیوں کی طرف سے غافل ہوئے میں نے ان بچیوں کو
اشارہ کیا اور وہ دونوں باہر چلی گئیں ،
وكان يوم عِيدٍ ::: اور وہ عید کا دن تھا ،
(اور اس دِن
ہی ) يَلعَبُ
السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالحِرَابِ ::: کالے لوگ چمڑے کی ڈھالوں اور نیزہ نما (جنگی ہتھیاروں) سے کھیل رہے تھے ،
فَإِمَّا سَأَلتُ النبي صَلّی اللہ
عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم وَإِمَّا قال﴿ تَشتَهِينَ تَنظُرِينَ
؟ ﴾
تو (اُس وقت ) یا تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے میں نے خواہش کا اظہار کیا تھا یا انہوں نے
خود مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ ﴿کیا تُم دیکھنا چاہتی ہو ؟ ﴾ ،
فقلت نعم ::: میں نے عرض کیا ، جی ہاں ،
فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي على خَدِّهِ ::: تو انہوں نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا فرمایا ،
(اس طرح کہ)میری گال ان صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم کی گال مبارک کے ساتھ لگی ہوئی تھی ،
وهو يقول ﴿دُونَكُم يا بَنِي أَرفِدَةَ ﴾
اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرما رہے تھے﴿ اے ارفدہ کے بیٹو تم لوگوں پر یہ ضروری ہے (یعنی جنگی
کھیل) ﴾،
حتى إذا مَلِلتُ قال﴿
حَسبُكِ ؟ ﴾
یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا﴿(کیا)تمہارے لیے اتنا(دیکھنا) کافی ہے؟﴾،
قلت نعم قال﴿ فَاذهَبِي ﴾،
میں عرض کیا ، جی ہاں ، تو اِرشاد فرمایا﴿ تو پھر جاؤ ﴾ """""
صحیح البُخاری /حدیث 907 / کتاب العیدین /باب 2 ، صحیح مسلم
/حدیث 892/ کتاب صلاۃ العیدین / باب4 ،
عید کی خوشیاں منانے کے جائز ذرائع میں یہ کام ہیں جن کا
ذکر کیا گیا اور اس حدیث اور اس واقعے کی دیگر روایات کی روشنی میں عُلماء اُمت نے
یہ قرار دیا کہ عید کے موقع پر چھوٹی بچیاں جو باقاعدہ گانے والیاں نہ ہوں ، دف
بجا کر اگر ایسے شعر پڑھیں جن میں کسی قسم کا کفر شرک ،بے حیائی ،بے پردگی،اور سفلی جذبات کی
برانگیختی نہ ہو تو یہ جائز ہے ،
اور اسی طرح مردوں کا ایسے کھیل کھیلنا جو جنگی مشقوں
اور کاروائیوں کا مظاہرہ ہوں ، بھی جائز ہے ،
اللہ کی عطاء کردہ دو عیدوں کی
خوشی اس طرح منایا جا سکتی ہے ، اُس طرح نہیں جسطرح آج ہم مسلمانوں کی اکثریت
مناتی ہے کہ """ خوشی منانے """کے نام پر شرعی قیود
و حدود کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا اور اپنی ان غیر شرعی حرکات کو
""" قومی زندہ دلی ""'سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اللہ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی زندہ دلی کی نہیں بلکہ مردہ
دِلی کی علامت ہے ، کیونکہ زندہ وہ دِل
ہوتے ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی اطاعت اور فرمان
برداری سے لبریز ہوتے ہیں ،
عید کی خوشیاں منانے کا ایک طریقہ زکوۃ الفطر ادا کرنا
ہے کہ صاحب اِیمان اپنے رب کی رضا کے لیے اپنے غریب مسلمان بھائیوں بہنوں کو اس دن
اچھا اور زیادہ کھانے کو مہیا کرتا ہے اور یقیناً اپنے دل میں ایک پر اِیمان خوشی
پاتا ہے ،
اور اسی طرح قربان عید(عید الاضحیٰ ) پر حاجی اور غیر
حاجی اللہ کی راہ میں جانور قربان کر کے ان کا گوشت غریبوں تک پہنچا کر اپنے دِل و
رُوح میں ایمان افروز خوشی پاتے ہیں ،
::::::: عیددُنیا اور آخرت کی راحت کے حصول کا دن ہے نہ کہ ضیاع کا ::::::
جی ہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ دونوں
عید کے دن مسلمانوں کے لیے ، ، اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کے ذریعے دُنیا اور
آخرت میں راحت اور سکون نفس کے حصول کے دن
ہیں نہ کہ اللہ کو ناراض کرنے والوں کاموں
کے ذریعے دُنیا اور آخرت کی خیر اور نیکوں کو ضائع کرنے
کے ، پس خیال رکھیے کہ آپ اپنی عیدوں میں کیا کرتے ہیں ؟
کیا کماتے ہیں ؟ اور کیا گنواتے ہیں ؟
اگر تو آپ اپنا وقت اور مال ضائع کرنے والے کاموں میں
مشغول نہیں ہوتے اور ان سے دُور رہتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کیجیے اور اُمید رکھیے
کہ اللہ نے رمضان میں کیے ہوئے آپ کے صیام و قیام کو قبول فرمایا ہے ،
اور اللہ نہ کرے اگر آپ ان دِنوں میں اپنا مال اور وقت
برباد کرنے والے کاموں یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
نافرمانی والے کاموں میں لگاتے ہیں تو یقین رکھیے آپ کے رمضان کے صیام و قیام بے
ثمر رہے ہیں ، کیونکہ روزوں کا اصل مقصد آپ حاصل نہیں کر سکے جو کہ تقویٰ کا حصول
ہے ،
::::::: عید اور تعلقات کی اصلاح ::::::
ہم اگر عید کے دنوں کو اپنے رشتہ داروں اور مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات
کی اصلاح اور اچھے تعلقات کی تقویت کے لیے استعمال کریں تو یہ خیر علیٰ خیر کے
مصداق ہوگا ، اور عید کی خوشیوں میں ایک گونا گُوں اضافہ ہو گا ،
ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ﴿لَا يَحِلُّ
لِمُسلِمٍ أَن يَهجُرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلَاثٍ
يَلتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هذا وَيَصُدُّ هذا وَخَيرُهُمَا الذي يَبدَأُ بِالسَّلَامِ ::: کسی مسلمان کے لیے
یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ ہجرت رکھے (یعنی بات
چیت بند رکھے کہ) جب وہ دونوں ملیں تو یہ
اُس سے رکا رہے اور وہ اِس سے رکا رہے ، اور ان دونوں میں سے خیر والا وہ ہے جو
سلام کرنے میں پہل کرے ﴾ صحیح البُخاری /حدیث 5882/کتاب الاستئذان /باب 9 ، صحیح مسلم
/حدیث 2560 /کتاب البر والصلۃ و الآداب /باب8 ،
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم عید کی خوشیوں میں اپنے ناراض رشتہ
داروں اور مسلمان بھائی بہنوں سے صلح کر لیں ، اگر صلح نہ ہو پائے تو کم از کم صلح
کی کوشش تو کر ہی لیں کہ ہم زیادہ خیر والوں میں سے ہو جائیں ،
یقین جانیے اپنی ناراضگی اور غصے پر قابو پا کر دوسروں
کو معاف کر دینا بڑی ہی عظمت والا کام ہے اور عظیم لوگوں کا کام ہے
﴿ وَالَّذِينَ
يَجتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثمِ وَالفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُم
يَغفِرُونَ ::: اور وہ جو بڑے
گناہوں اور بے حیائی والے کاموں سے دُور رہتے ہیں
اور جب انہیں کوئی غصےوالا معاملہ
پیش آئے تو وہ معاف کر دیتے ہیں ﴾سورت الشُوریٰ/ آیت 37 ،
تو کیا ہم یہ پسند نہ کریں گے کہ عید کے دنوں میں ، عید
کی خوشیوں میں اس ایمانی خوشی کا اضافہ بھی کریں عید کی خوشی کو اس طرح منائیں کہ
اپنی ناراضگیاں ختم کر کے اپنی رشتہ داریاں اور اپنی اسلامی اخوت کو بحال کریں ،
کیا آپ بھی میرے ساتھ ساتھ یہ ارادہ نہیں کریں گے کہ اللہ
کی طرف عطاء کردہ دونوں عیدوں کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی اطاعت والے کاموں سے بھر دیں گے اور اللہ کی رضا کے حصول میں گذاریں گے اور ہر
اس کام سے نہ خود باز رہیں گے بلکہ اپنے اھل خانہ اور اھل خاندان اور رشتہ داروں
اور دوستوں اور مسلمان بھائی بہنوں کو بھی باز رہنے کی تلقین کریں گے جو کام اللہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی نافرمانی ہیں اور یقیناً اللہ کی
ناراضگی کا سبب ہیں ، پس آخرت کی تباہی ہیں ،
کیا میرے ساتھ ساتھ آپ بھی یہ یاد
رکھیں گے کہ عید کھانے پینے ، غریبوں کو
کھلانے پلانے ، شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے خوشی منانے اور دُنیا اور آخرت
کی راحت کے حصول کا دن ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم
سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اس کے عطاء کردہ اِن تہواروں کو اُس کی اور اُس
کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت میں گذاریں۔
والسلام علیکم
ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔