Thursday, August 8, 2013

عید الفطر، اور عید الاضحیٰ،احکام اور مسائل Islamic Legal Issues related to Eids


عید الاضحی اور عید الفِطر، شرعی حُکم (حیثیت) ، اور أہم مسائل

 موضوعات
::::::  عید کی نماز کی شرعی حُکم (حیثیت) :::::: 3
::::: مسئلہ ::::: عیدکی نماز ہر ایک مُسلمان پر واجب ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خود کبھی بھی کِسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی ، اور دوسروں کویہ نماز پڑھنے اور اِس کا مُشاھدہ کرنے کا شدید حُکم دِیا ہے۔ 3
:::::::  عید کا دِن ، تابع فرمانی یا نافرمانی ، اِسلامی عزت و وقار کا اِظہار یا کافروں کی غلامی میں اُن کی نقالی کا اِظہار::::::: 4
::::: مسئلہ ::::: عید کے دِن کھیل کُود تفریح وغیرہ جائز ہے::::: 4
::::::عیدکی نماز کا طریقہ ::::::: 6
::::: مسئلہ (1) ::::: عید کی نماز کے لیے نہ اذان ہوتی ہے اور نہ ہی اقامت::::: 6
::::: مسئلہ (2):::::عید الفِطر کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں ::::: 7
::::: مسئلہ (3) ::::: نماز کا آغاز کِسی بھی اور نماز کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہو گا ، اور پھر پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی ، اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہو چکنے کے بعد پانچ تکبیریں ::::: 7
:::::مسئلہ(4):::::عید کی نماز میں اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا( دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں::::: 8
::::: مسئلہ (5)::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیروں کے درمیان کوئی خاص ذِکر کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں::::: 8
::::: مسئلہ (6)::::: تکبیروں کے بعد سورت الفاتحہ اور پھر اُس کے بعد مندرجہ ذیل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑہی جائے گی::::: 8
::::: مسئلہ (7)::::: اِس کے عِلاوہ عیدکی نمازیں باقی نمازوں کی طرح ہی ہیں کوئی اور فرق نہیں::::: 8
::::: مسئلہ (8)::::: اگر کِسی کی عید کی نماز رہ جائے ، خواہ کِسی وجہ سے یا جان بوجھ کر چھوڑی ہو تو وہ دو رکعت نماز پڑھے گا::::: 8
::::: مسئلہ (9)::::: اگر کوئی شخص امام کے ساتھ عید کی نماز نہ پڑھ سکا ہو تو::::: 8
::::: مسئلہ (10)::::: نماز عید سے پیچھے رہ جانے والا جتنی نماز سے رہ گیا اُسے نماز کی کیفیت کے مُطابق مکمل کرے گا ::::: 9
::::: مسئلہ (11)::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیریں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی )سُنّت ہیں ، اور اُنکے درمیان ذِکر(صحابی کی)سُنّت ہے،(دونوں ہی )واجب نہیں،اگر یہ تکبیریں رہ جائیں بھول سے یا جان بوجھ کر تو نماز باطل(ضائع)نہیں ہوگی ::::: 9
::::::: عیدکی نماز کا وقت :::::: 9
::::: مسئلہ(1):::::عید الفِطر(چھوٹی عید) کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ (تقریباً تین میٹر) بلند ہو چکنے پرہے::::: 9
::::: مسئلہ (2) ::::: اگر ِ عید کے ہونے کا پتہ عید کے دِن کافی دیر سے لگے تو اُس دِن کا روزہ کھول دِیا جائے گا اور اگلے دِن عید کی نماز پڑہی جائے گی ::::: 10
:::::::  نمازِ عید سے پہلے کے مسائل ::::::: 11
::::: مسئلہ (1) ::::: صدقہِ الفِطر (فِطرانہ ) نمازِ عید سے پہلے پہلے ادا کر دیا جانا چاہیے ::::: 11
::::: مسئلہ (2) ::::: عید کی نماز کے لیے نہانا ::::: 11
:::مسئلہ(3)::: عید کی نماز کے لیے جائز حد میں رہتے ہوئے خوبصورتی(سجاوٹ)اختیار کرنا ::: 11
:::مسئلہ (4):::عید کی نماز کی ادائیگی مسجد میں نہیں بلکہ بیرونی مُصلیٰ میں کرنا سُنّت ہے ::: 12
::: مسئلہ (5) ::: مُصلّے کی طرف ایک راستے سے جایا جائے اور واپس آتے ہوئے دوسرے راستے سے آیا جائے ::: 13
::::: مسئلہ (6) ::::: عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر بلند کرنا چاہیے اور نماز شروع ہونے تک بلند کرتے رہنا چاہیے:::: 13
::::: مسئلہ (7) ::::: دونوں عیدوں میں (ناشتہ) پہلا کھانا کب کیا جائے ::::: 14
:::::عید الفِطر (چھوٹی عید،رمضان کی عید) کا پہلا کھانا ::::: 14
:::::عید الاضحیٰ (بڑی عید،قُربانی والی عید،بکر عید، بقر عید) کا پہلا کھانا ::::: 14
::::: کیا عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی اور نماز پڑہی جائے گی؟::::: 15
:::::  نمازِ عید کے بعد کے مسائل ::::: 15
:::::  عید کے خُطبہ کے مسائل::::: 15
::::: مسئلہ (1) ::::: دونوں عید وں کے خُطبوں کا آغاز بھی دیگرعام خُطبوں کی طرح اللہ کی حمد و ثناء سے کی جائے گی، کیونکہ ، 15
::::: مسئلہ (2) ::::: عیدوں کے خُطبوں کا آغاز تکبیریا تکبیروں سے کرنا سُنّت سے ثابت نہیں ،اور، 16
::::: مسئلہ (3) ::::: یہ کہ نہ ہی اِن خُطبوں کے دوران یا درمیان میں تکبیریں کہنا سُنّت سے ثابت ہے ::::: 16
::::: مسئلہ (4) ::::: عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہوتا ہے ، جمعہ کے خُطبہ کی طرح دو حصوں میں نہیں:::: 16
::::: مسئلہ (5) ::::: عید کا خُطبہ نمازِ کے بعد ہوتا ہے نہ کہ پہلے ، اور، 16
::::: مسئلہ (6) ::::: عید کے خُطبے کے لیے منبر کا اِستعمال نہیں کِیا جائے گا::::: 16
::::: مسئلہ (7) ::::: عید کی نماز کی طرح عید کے خُطبہ میں حاضر رہنا واجب نہیں ہے ::::: 17
:::::اگرعید جمعہ کے دِن ہو توعید کی نماز پڑہنےکےبعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے::::: 17

بِسمِ  اللَّہِ  الرَّحمٰنِ  الرَّحِیم
وَالصَّلاہُ و السَّلامُ علیٰ خَلِیلِہِ مُحمد، وعَلیٰ آلہِ وَ أصحابہِ وَ أزواجہِ أجمعین ، وَ مَن تَبِعَھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یَومِ الدِینِ ، أما بعدُ ،

::::::  عید کی نماز کی شرعی حُکم (حیثیت) ::::::

::::: مسئلہ ::::: عیدکی نماز ہر ایک مُسلمان پر واجب ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خود کبھی بھی کِسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی ، اور دوسروں کویہ نماز پڑھنے اور اِس کا مُشاھدہ کرنے کا شدید حُکم دِیا ہے۔

:::::: دلیل ::::: اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ﴿ أَمَرَنَا رسولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  أَن نُخرِجَہُنَّ فی الفِطرِ وَالأَضحَی العَوَاتِقَ وَالحُیَّضَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَأَمَّا الحُیَّضُ فَیَعتَزِلنَ الصَّلَاۃَ وَیَشہَدنَ الخَیرَ وَدَعوَۃَ المُسلِمِینَ
 قُلت ُ یا رَسُولَ اللَّہِ إِحدَانَا لَا یَکُونُ لہا جِلبَابٌ﴿ قال لِتُلبِّسہَا أُختُہَا مِن جِلبَابِہَا
ترجمہ::: ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں(عورتوں) کو حُکم فرمایا کہ ہم سب (عید)الاضحی اور(عید)الفِطر میں(مُصلّے کی طرف)نکلیں،نئی بالغ ہونے والی لڑکیاں،اور حیض (ماہواری)کی حالت والیاں،اور جوان کنواریاں(سب کی سب مُصلّے جائیں)لیکن حیض والی عورتیں نماز نہ پڑہیں بلکہ(نماز کی جگہ سے ذرا ہٹ کر)مُسلمانوں کی خیر اوردعوت(اِسلام کی تبلیغ) کا مشاہدہ کریں
میں نے عرض کیا"""اے اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کِسی کے پاس پردے کے لیے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِرشادفرمایا ﴿ اُس کی کوئی دوسری(مسلمان)بہن اُسے اپنی چادرمیں لپیٹ(کر ساتھ) لائے صحیح البُخاری/کتاب العیدین /باب 20،21، صحیح مُسلم ، حدیث 890 /کتاب صلاۃ العیدین /پہلا باب، اُوپر نقل کیے گئے اِلفاظ مُسلم کی روایت کے ہیں۔
::::: ایک وضاحت ::::: گوکہ حدیث شریف  کے الفاظ مُبارکہ میں حُکم عورتوں کے لیے ہے، لیکن یہ بات بالکل سیدھی سادھی ہے کہ مَردوں کے لیے عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے مُصلّے جانے کا حُکم بدرجہ اولیٰ ہے ، کیونکہ اگر مَرد نہیں جائیں گے تو کیا عورتیں اپنی نماز پڑہیں گی ؟ اور کون سےمُسلمانوں کے اجتماع کی خیر اور دعوت کا مشاہدہ کر سکیں گی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ حُکم عید کے مُصلّے میں حاضر ہونے کو واجب قرار دیتا ہے ، اور اِس حاضری کا سبب عید کی نماز ادا کرنا ہے،لہذا عید کی نماز ہر مُسلمان پر واجب ہے ، فرضِ کفایہ نہیں اور نہ ہی سُنّت ،
اور جمعہ کے دِن عید کی نماز پڑھ لینے کی صورت میں جمعہ کی نماز سے معافی دی گئی ہے ،اِس کا ذِکر اِن شاءاللہ آگے آئے گا ،
یاد رکھیے کہ عید کی نماز پڑھ لینے کی صُورت میں جمعہ کی نماز سے رخصت دیا جانا ، عید کی نماز کے واجب ہونے کی دوسری دلیل ہے ۔
یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ خواتین کو مُصلّے جانے کا حُکم دِیا گیا ہے ، تو ساتھ ہی ساتھ پردے کے بارے میں بھی یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جِس کے پاس چادر نہ ہو اُسے اُس کی کوئی بہن اپنی چادر میں لپیٹ کر لائے،یعنی بے پردگی نہ ہو،اور نہ ہی کِسی قِسم کی کوئی بے حیائی ہو ، اور نہ ہی مَردوں کے ساتھ میل جول کا کوئی سبب بنے ۔

:::::::  عید کا دِن ، تابع فرمانی یا نافرمانی ، اِسلامی عزت و وقار کا اِظہار یا کافروں کی غلامی میں اُن کی نقالی کا اِظہار:::::::

::::: مسئلہ ::::: عید کے دِن کھیل کُود تفریح وغیرہ جائز ہے:::::

:::::: دلیل ::::: انس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (مکہ المکرمہ سے) مدینہ المنورہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاھلیت میں سے دو دِن ایسے تھے جِن میں وہ لوگ کھیل کوُد کرتے تھے (یہ دو دِن یوم النیروز اور یوم المھرجان تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ قَدِمتُ عَلَیکُم وَلَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا فإن اللَّہَ قد أَبدَلَکُم یَومَینِ خَیراً مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ النَّحرِ::: میں جب تُم لوگوں کے پاس آیا تو تُم لوگوں کے لیے دو دِن تھے جِن میں تُم لوگ کھیل کُود کرتے تھے،اللہ نے تُم لوگوں کو اُن دو دِنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے دو دِن عطاء فرما دیے ہیں ، فِطر کا دِن اور أضحی کا دِن مُسند أحمد/ جلد 3/صفحہ 178،235،سلسلہ الاحادیث الصحیحہ/حدیث2021،
:::::جی ہاں:::::اِن دونوں عیدوں یعنی عید الفِطر(چھوٹی عید)، اور عید الأضحیٰ (بڑی عید ، قربان عید ) کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ،
وہ کھیل کُود کے ذریعے خود کو خوش کرنا چاہیں تو کر لیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اِن دو دِنوں میں ایسے کھیل تماشے کی اجازت ہے جِن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا ہو ،،،،، نہ کہ ایسے کھیل جِن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ، کِسی پردہ و غیرت کے بغیر ، کِسی حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو ، طاقت و قوت و جنگی مہارت کے اظہار کی بجائے عزت و حمیت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہوں، اور نہ ہی یسے کھیل تماشے جن کا بظاہر عنوان تو طاقت و قوت کا اظہار ہی ہو لیکن انداز اظہار گناہ آلود ہو ،
:::::جی ہاں:::::اِن دونوں عیدوں یعنی عید الفِطر(چھوٹی عید)، اور عید الأضحیٰ (بڑی عید ، قربان عید ) کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ،
وہ دف وغیرہ بجا لیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جِس میں شرک و کفر ، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو ،،،،،
نہ کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں(میوزک پارٹیز)کے ذریعے،عید ملن پارٹیز،یا اُن کے بغیر ہی ، کسی بھی اور نام یا انداز کےذریعے شیطان کی ہر آواز(یعنی موسیقی کے آلات ، میوزک انسٹرومنٹس کی آواز)بلند کی جائے،
اور نہ ہی یہ کہ ، جھوٹ،بے حیائی، عشق و محبت، فِسق و فجور، اور کفر و شرک وغیرہ پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے،اور یک جنسی یا دو جنسی رقص کی محفلیں سجائی جائیں ، جن میں مَرد و عورت باہم رقص کرتے ہوں،
اور نہ ہی یہ کہ ، جسے اپنی عِزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حُکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دِکھاتی رہے،اور، نامحرم مَردوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے،اور، اور،اور ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،
:::::جی ہاں:::::اِن دونوں عیدوں یعنی عید الفِطر(چھوٹی عید)، اور عید الأضحیٰ (بڑی عید ، قربان عید ) کے دِنوں میں مُسلمانوں کو ایک مُصلّے میں نماز کے ذریعے عظیم اجتماع کی تعلیم دی گئی ، کہ اِسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اِظہار کِیا جائے ، کافروں کو اسلامی شعائر دِکھائے جائیں،مُسلمانوں کا بھائی چارہ  اور باہمی مُحبت و أخوت دِکھائی جائے ،،،،،
نہ کہ کافروں کی عیدوں اور تہواروں پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ بلکہ اُس سے بھی کچھ زیادہ ہی کفر و گناہ والی حرکات کر کر دِکھائی جائیں ، اور اُنہیں یہ تسلی دِلائی جائے کہ ہم اور تُم ایک ہیں ، ناموں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا ، جو تُم کرتے ہیں ہم بھی وہی کرتے ہیں ، لہذا ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے اور اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکموں کے نفاذ اور اپنے دِین کی سر بلندی کے لیے نہ تو  کِسی سے ڈرتے تھے اورنہ ہی کِسی کا لحاظ رکھتے تھے ،
نہیں یہ ناکامی کہ متاعِ کارواں جاتا رہا ::: ہائے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زِیاں جاتا رہا

::::::عیدکی نماز کا طریقہ :::::::

::::: مسئلہ (1) ::::: عید کی نماز کے لیے نہ اذان ہوتی ہے اور نہ ہی اقامت:::::

::::: دلیل (1) ::::: ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ﴿ کان رسولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یَخرُجُ یوم الفِطرِ وَالأَضحَی إلی المُصَلَّی فَأَوَّلُ شَیء ٍ یَبدَأُ بِہِ الصَّلَاۃُ ،،،،، ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فِطر(چھوٹی عید)کے دِن اور اضحی(بڑی عید)کے دِن مُصلّے کی طرف تشریف لے جاتے اور(وہاں پہنچ کر)سب سے پہلے نماز کا آغاز فرماتے ،،،،،صحیح البُخاری/ حدیث 913/کتاب العیدین /باب 6،صحیح مُسلم/حدیث 889/کتاب صلاۃ العیدین کی نویں حدیث۔
::::: دلیل (2) ::::: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ﴿میں نے ایک دو دفعہ نہیں،کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ دونوں عیدوں کی نماز بغیر اذان اور اِقامت کے پڑہی ہےصحیح مُسلم/حدیث 887 /کتاب صلاۃ العیدین حدیث 7،
::::: دلیل (3) :::::عبداللہ ابن عباس اورجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ﴿(عید)فِطر اور(عید)اضحی کے دِن(عیدوں کی نمازکے لیے)کوئی اذان نہ ہوتی تھی،
اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے ﴿(عید)فِطر کے دِن(نمازِ عید کے لیے) کوئی اذان نہیں،اور جب اِمام( نماز کے لیے)نکلے اور نہ ہی جب(نماز کی جگہ)پہنچ جائے، اور نہ ہی کوئی اقامت ہے اور نہ ہی کوئی بھی آواز اور نہ ہی کوئی (اور) چیز،اُس دِن کوئی آواز نہیں اور نہ ہی اقامت صحیح مُسلم/حدیث 886 /کتاب صلاۃ العیدین حدیث 5،
یعنی ، عید کی نماز سے پہلے کسی بھی قِسم کی کوئی اعلانیہ آواز نہیں ہوتی تھی ، جیسا کہ اب لوگ ، صلاۃ العید،نمازِ عید،وغیرہ کہتے ہیں ، یا گلہ وغیرہ کھنکھار کر ،یا کوئی بھی اور آواز پیدا کر تے ہیں ، اور اپنی طرف سے یہ تاویل کرتے ہیں کہ اِس طرح وہاں موجود لوگوں کو نماز کی ابتداء کی خبر کی جاتی ہے ،
اِن سب کاموں کی سُنّت مبارکہ میں کوئی دلیل نہیں ، لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی حرکات ہیں جو کہ بلا شک و شبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے خِلاف ہیں ،

::::: مسئلہ (2):::::عید الفِطر کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں :::::

::::: دلیل ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان ہےکہ:::
﴿صَلاَۃُ السَّفَرِ رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الأضحَی رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الفِطرِ رَکعَتَانِ وَ صَلاَۃُ الجُمُعَۃِ رَکعَتَانِ تَمَامٌ غَیرُ قَصرٍ علی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ ُعَلیہِ وعَلیَ آلہِ وَسلَّم :::سفر میں نماز دو رکعت ہے اور قُربانی والے دِن (بڑی عید)کی نماز دو رکعت ہے،اور فِطروالے دِن (چھوٹی عید) کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اِن دو دو رکعتوں میں کوئی کمی نہیں(اور یہ حُکم)محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زُبان(مُبارک)سے ہے مُسند احمد/حدیث 257،سنن النسائی/حدیث 1419/کتاب الجمعہ/باب 37،سنن البیھقی الکبریٰ/ کتاب الجمعہ/ باب15، حدیث صحیح ہے ۔

::::: مسئلہ (3) ::::: نماز کا آغاز کِسی بھی اور نماز کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہو گا ، اور پھر پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی ، اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہو چکنے کے بعد پانچ تکبیریں :::::

::::: دلیل ::::: اِیمان والوں کی امی جان ، عائشہ رضی اللہ عنہا وأرضاھاکا فرمان ہے کہ ﴿ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلیَ اللہُ عَلیہِ وعَلیَ آلہِ وَسلَّم کَان یُکَبِّرُ فی الفِطرِ وَالأَضحَی فی الاُولَی سَبعَ تَکبِیرَاتٍ وفی الثَّانِیَۃِ خَمسًا سِوَی تَکبِیرَتَي الرُّکُوعِ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فِطراور قُربانی (والے دِن کی نمازوں میں) پہلی رکعت میں سات تکبیریں بلندکیا کرتے اور دوسری میں پانچ تکبیریں، (دونوں رکعتوں کی یہ تکبیریں)رکوع کی تکبیروں کے عِلاوہ ہیںسنن ابو داؤد /حدیث 1144/باب 250 التکبیر فی العیدین ، سنن ابن ماجہ /حدیث 1280 /کتاب إِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا/ باب 156، حدیث صحیح ہے دیکھیے اِرواء الغلیل/حدیث 639،

:::::مسئلہ(4):::::عید کی نماز میں اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا( دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں:::::

خیال رہے کہ ::: سنن البیہقی میں عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جو روایت ہے کہ وہ نمازِ جنازہ اور نمازِ عید میں سب تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے ، یہ روایت ضعیف یعنی کمزور ناقابلِ حُجت ہے، اِرواء الغلیل/حدیث 640 ،

::::: مسئلہ (5)::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیروں کے درمیان کوئی خاص ذِکر کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں:::::

لیکن عبداللہ ابن مسعود ر ضی اللہ عنہُ سے ثابت ہے کہ﴿وہ ہردو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر صلاۃ کرتےحدیث صحیح ہے ، دیکھیے اِرواء الغلیل / حدیث 642 ،

::::: مسئلہ (6)::::: تکبیروں کے بعد سورت الفاتحہ اور پھر اُس کے بعد مندرجہ ذیل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑہی جائے گی:::::

(1)سورت الاعلیٰ﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الأعلی، اور (2)سورت الغاشیہ﴿وَہَل أَتَاکَ حَدِیثُ الغَاشِیَۃِصحیح مُسلم/حدیث 878 /کتاب الجمعہ /باب16،
(3) سورت ق﴿قٓ وَالقُرآنِ المَجِیدِ، اور (4) سورت الانشقاق﴿وَاقتَرَبَت السَّاعَۃُ وَانشَقَّ القَمَر صحیح مُسلم/حدیث 891/کتاب صلاۃ العیدین / باب 3۔

::::: مسئلہ (7)::::: اِس کے عِلاوہ عیدکی نمازیں باقی نمازوں کی طرح ہی ہیں کوئی اور فرق نہیں:::::

::::: مسئلہ (8)::::: اگر کِسی کی عید کی نماز رہ جائے ، خواہ کِسی وجہ سے یا جان بوجھ کر چھوڑی ہو تو وہ دو رکعت نماز پڑھے گا:::::

بحوالہ،صحیح البخُاری/کتاب العیدین/باب25 کا عنوان،اور،فتح الباری،اسی باب کی شرح۔

::::: مسئلہ (9)::::: اگر کوئی شخص امام کے ساتھ عید کی نماز نہ پڑھ سکا ہو تو:::::

شافعی مذھب کے مُطابق اگرکوئی شخص اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ پایا تو وہ(نماز عید کی نیت سے)دو رکعت نماز پڑہے گا، گو کہ وہ با جماعت نمازِ عید کی فضیلت حاصل نہیں کر سکا (لیکن وہ اکیلے ہی نمازِ عید پڑہے) تا کہ اُس نمازِ عید کی فضیلت مل سکے ،،،
اور حنفی مذھب کے مُطابق اگر کوئی اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ سکا تو اُسے خود نماز (قضاء کر کے) پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ بحوالہ،شرح تراجم ابواب البخاری/صفحہ 80 ،
اور  اِمام مالک علیہ رحمۃُ اللہ کا فتویٰ ہے کہ :::"""""اگر کِسی کی نمازِ عید رہ گئی تو ضروری نہیں کہ وہ اُسے(خود سے)پڑہے نہ ہی مصلیٰ (نماز پڑہنے کی جگہ) میں اور نہ ہی گھر میں، لیکن اگر کوئی خود (اپنی)نمازِ عید پڑہے عورت ہو یا مرد،تو میں کہتا ہوں کہ وہ (ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق) پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے ساتھ تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں تلاوت سے پہلے پانچ تکبیریں"""""، بحوالہ۔مؤطاء مالک/کتاب العیدین/باب 9،مطبوعہ دار الحدیث،القاھرہ۔

::::: مسئلہ (10)::::: نماز عید سے پیچھے رہ جانے والا جتنی نماز سے رہ گیا اُسے نماز کی کیفیت کے مُطابق مکمل کرے گا :::::

بحوالہ، المغنی ، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔

::::: مسئلہ (11)::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیریں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی )سُنّت ہیں ، اور اُنکے درمیان ذِکر(صحابی کی)سُنّت ہے،(دونوں ہی )واجب نہیں،اگر یہ تکبیریں رہ جائیں بھول سے یا جان بوجھ کر تو نماز باطل(ضائع)نہیں ہوگی :::::

بحوالہ، المغنی ، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔
لیکن جان بوجھ یہ اضافی تکبیریں چھوڑنے والا یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتِ مُبارکہ کا مُخالف قرار پائے گا ۔

::::::: عیدکی نماز کا وقت ::::::

::::: مسئلہ(1):::::عید الفِطر(چھوٹی عید) کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ (تقریباً تین میٹر) بلند ہو چکنے پرہے:::::

::::: دلیل ::::: عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ ُکے بارے میں روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید(فِطر یا أضحیٰ)کی نماز کے لیے گئے، اِمام نے دیر کی تو اُسکے اُس عمل پر اِکار کرتے ہوئے فرمایا ﴿ہم لوگ اِس وقت تک فارغ ہو جایا کرتے تھےاور وہ تسبیح کا وقت تھا ،
سنن ابو داؤد/حدیث1132/کتاب الصلاۃ/باب245،سنن ابن ماجہ/حدیث1317/کتاب إقامۃ الصلاۃ/باب 170،المستدرک الحاکم/حدیث 1092/کتاب صلاۃ العیدین کی حدیث 5، سنن البیہقی الکبریٰ/حدیث 5934 /کتاب العیدین/باب 33،
تسبیح کے وقت سے مُراد نمازِ ضُحیٰ کا وقت ہے ، یعنی جب سورج طلوع ہوجانے کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجاتا ہے ۔بحوالہ: شرح سنن ابن ماجہ ، اِمام ابی الحسن الحنفی السندی ۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ،عید الفِطر(چھوٹی عید)کی نماز کچھ دیر سے،تاکہ لوگ مُناسب اور دُرُست طور پر فِطرانہ کی ادائیگی کر سکیں،اور عید الاضحی (بڑی عید)کی نماز جلد پڑہاہی جانی چاہیے تا کہ لوگوں کو قُربانی کرنے اور بعدکے کاموں سے اچھے طور پر فارغ ہو سکنے کا مُناسب وقت ملے

::::: مسئلہ (2) ::::: اگر ِ عید کے ہونے کا پتہ عید کے دِن کافی دیر سے لگے تو اُس دِن کا روزہ کھول دِیا جائے گا اور اگلے دِن عید کی نماز پڑہی جائے گی :::::

::::: دلیل ::::: ابی عمیر بن انس ابن مالک  سے روایت ہے کہ،اُن کے دادا خاندان والے جو کہ انصاری صحابہ تھے ، اُن میں سے کچھ نے اِنہیں بتایا کہ :::
""""" أُغْمِىَ عَلَيْنَا هِلاَلُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِيَامًا فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِىِّ -صَلَّىَ اللهُ عَليهِ وَسلَّمَ - أَنَّهُمْ رَأَوُا الْهِلاَلَ بِالأَمْسِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّىَ اللهُ عَليهِ وَسلَّمَ ﴿ أَنْ يُفْطِرُوا وَأَنْ يَخْرُجُوا إِلَى عِيدِهِمْ مِنَ الْغَدِ،
ترجمہ :::(ایک دفعہ)ہم لوگوں کے لیے شوال کا چاند واضح نہ ہوا پایا (یعنی ہم لوگ متوقع رات میں شوال کا چاند نہ دیکھ پائے) تو ہم نے اگلے دِن بھی روزہ رکھ لیا ، دِن کے آخری حصے میں کچھ سوار لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے گواہی دِی کہ اُنہوں نے کل رات میں(شوال کا)چاند دیکھا تھا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین)کو حُکم فرمایا ﴿کہ روزے کھول دیں اور اگلے دِن صُبح اپنی عید کی نماز ادا کرنے کے لیے اپنے مُصلیٰ جائیں"""""،سنن ابن ماجہ/حدیث1653/کتاب الصیام/باب 6،سنن ابو داؤد،حدیث 1154/کتاب الصلاۃ/باب 254،سنن النسائی/کتاب صلاۃ العیدین/باب 2،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
::::: دو وضاحتیں ::: (1) ترجمہ تینوں روایات کے الفاظ کو جمع کر کے کیا گیا ہے ،
اور (2) یہ کہ  حدیث اِس بات کی بھی ایک اور دلیل ہے کہ عید کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ مُصلّے میں پڑہی جائے گی ، یہ مسئلہ اِن شاء اللہ آگے بیان کیا جائے گا۔ 

:::::::  نمازِ عید سے پہلے کے مسائل :::::::

::::: مسئلہ (1) ::::: صدقہِ الفِطر (فِطرانہ ) نمازِ عید سے پہلے پہلے ادا کر دیا جانا چاہیے :::::

فِطرانہ کے احکام اور مسائل کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون الگ سے نشر کیا جا چکا ہے، جو درج ذیل ربط پر میسر ہے :  http://bit.ly/16hV11c

::::: مسئلہ (2) ::::: عید کی نماز کے لیے نہانا :::::

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ وہ عید کی نماز کے لیے خصوصی طور پر غُسل فرمایا کرتے تھے۔
::: یاد رکھیے کہ ، اس سلسلے میں جو ،سنن ابن ماجہ/حدیث1315، کتاب کتاب إِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا/ باب169 کی روایت ضعیف یعنی کمزور اور ناقابل حُجت ہے ، کہ اِ سکی سند میں دو راوی (1) جبارۃ بن المُغلس اور(2) حجاج بن تمیم ضعیف ہیں،تفصیل کےلیے دیکھیے اِرواء الغلیل / حدیث 146۔
لیکن صحابہ اور تابعین کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ عید کی نماز کے لیے غُسل کیا کرتے تھے، لہذا اسے مستحب یعنی پسندیدہ کہا جا سکتا ہے ، سُنّت ءِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ۔

:::مسئلہ(3)::: عید کی نماز کے لیے جائز حد میں رہتے ہوئے خوبصورتی(سجاوٹ)اختیار کرنا :::

::::: دلیل ::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ:::
""""" اُن کے والد عمر رضی اللہ عنہ ُنے بازارسے اِستبرق (کمخواب) کا ایک جُبہ(عام لباس کے اُوپر پہننے والا سامنے سے کُھلا ہوا لمبا چوغہ)خریدا اور اُسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا """اے اللہ کے رسول یہ قُبُول فرما لیجیے اورعید اور(مُلاقات کے لیے آنے والے)وفود(وفدکی جمع)کے لیےسجاوٹ اختیار فرمایا کیجیے"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿اِنَّمَا ہَذہِ لِبَاسُ مَن لَا خَلَاق َ لَہ ُ::: یہ تو اُس کا لباس ہے جِس کا آخرت (کی خیر) میں کوئی حصہ نہیں
پھرجب تک اللہ نے چاہا عمر(رضی اللہ عنہ ُاِس معاملے میں)رُکے رہے،
پھر (کچھ عرصہ گذرنے کے بعد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عُمر (رضی اللہ عنہ ُ)کو دیباج(ریشم کی تاروں سے بُنا ہوا کپڑا ) کا ایک جُبہ بھیجا ، تو عُمر(رضی اللہ عنہ ُ،حیرت اور خوف کی کیفیت میں) وہ جُبہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:::
"""اے اللہ کے رسول،آپ نے فرمایا تھا کہ﴿اِنَّمَا ہَذہِ لِبَاسُ مَن لَا خَلَاق َ لَہ ُ::: یہ تو اُس کا لباس ہے جِس کا آخرت(کی خیر)میں کوئی حصہ نہیںاور پھر میری طرف یہ جبہ ارسال فرما دِیا ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا﴿یہ جبہ (میں نے )اِس لیے بھیجا ہے کہ تُم اِسے بیچ لو یا اِس کے ذریعے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لوصحیح البخاری/ حدیث906 /کتاب العیدین / پہلا باب، صحیح مُسلم/ حدیث 2068، کتاب اللباس و الزینہ / باب2۔
اس حدیث شریف میں یہ دلیل ہے کہ عید کے لیے سجاوٹ اختیار کرنا تو جائز ہے لیکن شریعت کی حدود سے خارج ہو کر نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے لباس کی نوعیت و کیفیت  کو ناجائز قرار فرمایا ، نہ عید یا وفود کے لیے اچھا خوبصورت لباس پہننے کو ،
یعنی ایسا لباس پہننا جو ممنوع مواد یا ممنوع ڈھنگ کا ہو یا جِس پر فضول خرچی کی گئی ہو یا جِس میں کوئی بھی اور ممانعت والا کام شامل ہو،مثلاً مَرد عورتوں کی نقالی نہ کریں جیسا کہ اب ہمارے ہاں نظر آتا ہےکہ مَرد رنگ برنگ کڑہائی اور گوٹے لپے، کنگری کناری والے کپڑے پہنتے ہیں اور گلے میں دوپٹہ نُما کپڑا بھی لٹکا رکھا ہوتا ہے ، اور عورتیں مَردوں کے ڈھب(سٹائل) کے کپڑے پہن رہی ہیں ، کیونکہ وسیع الخیالی اور جدید اِسلام میں یہ سب کچھ مطلوب ہے ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ۔

:::مسئلہ (4):::عید کی نماز کی ادائیگی مسجد میں نہیں بلکہ بیرونی مُصلیٰ میں کرنا سُنّت ہے :::

::::: دلیل ::::: ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ﴿کَانَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یَخرُجُ یوم الفِطرِ وَالأَضحَی إلی المُصَلَّی:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فِطر اور أضحی کے دِن (کی نماز)کے لیے مُصلّے کی طرف جایا کرتے تھےصحیح البُخاری /حدیث913/کتاب العیدین/باب 6،صحیح مُسلم/حدیث 889/کتاب صلاۃ العیدین کی حدیث رقم9۔
امام ابن الحاج المالکی رحمۃُ اللہ علیہ کا کہنا ہے:::
"""""دونوں عید کی نماز میں یقینی سُنّت یہ ہی رہی ہے کہ یہ نمازیں (مسجد میں نہیں بلکہ)مُصلیٰ میں ادا کی جائیں،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا ہے کہ﴿صَلاَةٌ فِى مَسْجِدِى هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ:::میری اِس مسجد میں أدا کی گئی نماز کِسی(بھی)اورمسجد میں أدا کی گئی نماز سے ہزار درجہ بہتر ہے،سوائے مسجدِحرام(مسجدِ کعبہ)کے (صحیح البخاری،صحیح مسلم)اور یہ فرمانے کے ساتھ اِس عظیم فضیلت کو چھوڑ کر عیدوں کی نماز اپنی مسجد میں نہیں ادا کی بلکہ باہر مُصلّے میں تشریف لے گئے"""""بحوالہ:المدخل /جلد2/صفحہ283 ،
تو یقینی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو کِیا وہ اُس سے زیادہ افضل اور بہتر ہے جِسے چھوڑ دِیا ، لہذا عید کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ مُصلّے میں ادا کی جانی چاہیے ، اِس معاملے میں کچھ فلسفیانہ عذر پیش کیئے جاتے ہیں طوالت کے خوف سے اُن کا ذِکر نہیں کر رہا ہوں ۔

::: مسئلہ (5) ::: مُصلّے کی طرف ایک راستے سے جایا جائے اور واپس آتے ہوئے دوسرے راستے سے آیا جائے :::

::::: دلیل ::::: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا کہنا کہ﴿کان النَّبیُّ صَلی اللہُ عَلیہِ وعَلیَ آلہِ وسلّم إِذا کان یَومُ عِیدٍ خَالَفَ الطَّرِیقَ:::عید کے دِن نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ( مُصلیٰ جانے آنے کا )راستہ بدل لیا کرتے تھےصحیح البُخاری حدیث943/کتاب العیدین/باب24،
ایسا کرنے کی حِکمت کے بارے میں اِماموں اور عُلماء کے کئی اقوال ہیں ، وقت کی کمی کے پیش نظر اُن کا ذِکر نہیں کِیا جا رہا ۔

::::: مسئلہ (6) ::::: عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر بلند کرنا چاہیے اور نماز شروع ہونے تک بلند کرتے رہنا چاہیے::::

::::: دلیل ::::: ﴿ کَان(رَسُولُ اللہ  صَلی اللہُ عَلیہِ وعَلیَ آلہِ وسلّمَ) یَخرُجُ یَومُ الفِطرِ فَیُکَبِّرُ حَتَی یَأتِی المُصَّلَی وحَتَی یَقضِی الصَّلاۃَ فَإِذا قَضَی الصَّلاۃَ قَطعَ التَّکبِیر::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (عید)فِطر کے دِن(نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک(اسی حالت میں) مُصلّے پہنچتے اور نماز ادا فرماتے اور اسکے بعد تکبیر روک دیتے السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 171 ۔
افسوس کہ اب مسلمانوں میں سے اگر کوئی ایسا کرے تو اُسے ملامت بھری نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو شیطان کی آواز بلند کرتے یاسُنتے ہوئے چلے یعنی موسیقی بجاتے یا سُنتے اور گانے گاتے یا سنتے ہوا تو اُسے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، إِنَّا لِلَّہِ وَ إِنَّا إِلِیہِ رَاجَعُونَ ۔
اِس تکبیر کے کوئی الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے بارے میں مندرجہ ذیل صحیح روایات ملتی ہیں ، اِن میں سےکِسی پر بھی عمل کِیا جا سکتا ہے ،
:::::(1)::::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿   اللہُ أُکبر ، اللہُ أُکبر ، لاإِلَہ إِلَّا اللہ ، و اللہُ أُکبر ، اللّہُ أُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد مُصنف ابن ابی شیبہ /حدیث 5633/کتاب الصلوات /باب 13۔
:::::::(2):::::عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿  اللہُ أُکبرُ اللہُ أُکبرُ ، اللہُ أُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد،اللہُ أُکبرُ و أجلُّ ، ، اللہُ أُکبرُ عَلَی مَا ھَدَانَا سنن البیھقی/حدیث 6074 /کتاب صلاۃ العیدین /باب 66۔
:::::::(3)::::: سَلمان الفارسی رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿   کبِّرُوا اللہَ : اللہُ أُکبر ، اللہ ُأُکبر ، اللہُ  أُکبرُ کَبِیرا سنن البیھقی / حدیث 6076 / کتاب صلاۃ العیدین / باب 66۔
اچھی طرح سے یاد رکھیے گا کہ ،اس تکبیر کو بلند کرنے میں ہر مُسلمان اپنی اپنی الگ تکبیر کہتا رہے گا ، اجتماعی تکبیر ، یعنی آواز سے آواز اور سُر ملا ملا کر تکبیر کہنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ، ،،اور یہ کہ یہ تکبیر بلند کرنے  کا وقت شوال کے آغاز سے یعنی یکم شوال کی مغرب سے لے کر عید کی نماز کے آغاز  تک ہے ۔

::::: مسئلہ (7) ::::: دونوں عیدوں میں (ناشتہ) پہلا کھانا کب کیا جائے :::::

:::::عید الفِطر (چھوٹی عید،رمضان کی عید) کا پہلا کھانا :::::

أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ﴿ كَانَ رَسُولُ اللہ  صَلی اللہُ عَلیہِ وعَلیَ آلہِ وسلّمَ لاَ يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ - وَقَالَ - وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا:::  فِطر والے دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کھجوریں کھائے بغیر صُبح کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے،اور وتر عدد(یعنی تین،پانچ،سات جیسے عدد)میں کھایا کرتے تھےصحیح البُخاری/کتاب العیدین/باب4،

:::::عید الاضحیٰ (بڑی عید،قُربانی والی عید،بکر عید، بقر عید) کا پہلا کھانا :::::

بُریدہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ﴿نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (عید) فِطر کے دِن (اپنے حجرہ شریف سے ،یا مسجد نبوی شریف سے مُصلّے کی طرف )اُس وقت تک تشریف نہ لاجاتےتھے جب تک کہ کچھ کھا نہ لیتے،اور(عید)أضحی کے دِن(نماز سے)واپس تشریف کر  قربانی کرنے کے بعد قربانی (کے جانور کے گوشت) میں سے کھاتے(اُس سے پہلے کچھ نہ کھاتےتھے) سنن الدارمی/حدیث 1600/کتاب الصلاۃ / باب 217 ۔ تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان،حدیث ۲۸۰۱،کتاب الصلاۃ، باب العیدین، امام الالبانی رحمہُ اللہ نےصحیح قرار دِیا ہے۔ (ترجمہ دونوں روایات میں سے مشترکہ ہے)۔

::::: کیا عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی اور نماز پڑہی جائے گی؟:::::

::::: دلیل ::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ﴿أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم خَرَجَ یوم أَضحَی أو فِطرٍ فَصَلَّی رَکعَتَینِ لم یُصَلِّ قَبلَہَا ولا بَعدَہَا:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (عید) الاضحی یا(عید)فِطر کے دِن(نماز کے لیے تشریف لائے اور) دو رکعت نماز پڑہی اور اُس سے پہلے اور بعد میں اور کوئی نماز نہیں پڑہی صحیح مُسلم/حدیث884/کتاب صلاۃ العیدین/باب2،صحیح البخاری/حدیث989/کتاب العیدین/باب 8،سنن ابن ماجہ/حدیث 1291 /کتاب إِقامۃ الصلاۃ /باب 160 ،
اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے""" زاد المعاد"""میں لکھا:::
"""رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب(عید کی نماز کے لیے ) مُصلّے پہنچتے تو عید کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی اور نماز نہیں پڑہا کرتے تھے"""،
اِمام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے """فتح الباری شرح صحیح البخاری/کتاب صلاۃ العیدین /باب 26"""میں لکھا :::
"""حاصلِ(بحث)یہ ہے کہ عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی اور نماز سُنّت سے ثابت نہیں،اور یہ (یعنی سُنّت کا معاملہ)اُن لوگوں کے خِلاف ہے جو نمازِ جمعہ پر قیاس کرتے ہیں"""،
اور کہتے ہیں کہ جیسے نمازِ جمعہ سے پہلے اور بعد سُنّت پڑہی جاتی ہے اِسی طرح عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں بھی پڑہی جانی چاہیے،جبکہ یہ قیاس باطل ہے کیونکہ خِلافِ سُنّت ہے ، اور یُوں بھی عقیدے اور عِبادات  کے مسائل میں قیاس یا اجتھاد کی کوئی گُنجائش نہیں اِس کی کچھ تفصیل میں """ اِیصالءِ ثواب اور اُس کی حقیقت """میں بیان کر چکا ہوں۔

:::::  نمازِ عید کے بعد کے مسائل :::::

:::::  عید کے خُطبہ کے مسائل:::::

::::: مسئلہ (1) ::::: دونوں عید وں کے خُطبوں کا آغاز بھی دیگرعام خُطبوں کی طرح اللہ کی حمد و ثناء سے کی جائے گی، کیونکہ ،

::::: مسئلہ (2) ::::: عیدوں کے خُطبوں کا آغاز تکبیریا تکبیروں سے کرنا سُنّت سے ثابت نہیں ،اور،

::::: مسئلہ (3) ::::: یہ کہ نہ ہی اِن خُطبوں کے دوران یا درمیان میں تکبیریں کہنا سُنّت سے ثابت ہے :::::

عید کے خُطبوں کے درمیان ، دوران ، اور آغاز و اختتام میں تکبیریں بلند کرتے رہنے کی روایت ضعیف یعنی کمزور اور ناقابل حُجت ہے کیونکہ اِس کے راویوں میں سے عبدالرحمان بن سعد ضعیف ہے اور اُس کے والد اور دادا مجھول ہیں یعنی اُن کے حالاتِ زندگی کا پتہ نہیں ،
یہ حدیث سنن ابن ماجہ/حدیث1287، المُستدرک الحاکم/حدیث6554،سنن البیہقی الکبریٰ /حدیث 6009/کتاب صلاۃ العیدین /باب51 ، میں مروی ہے ،

::::: مسئلہ (4) ::::: عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہوتا ہے ، جمعہ کے خُطبہ کی طرح دو حصوں میں نہیں::::

عید کا خُطبہ دو حصوں میں ہونے کاذِکر"""مُسند البزارمیں سے/مسند سعد/حدیث53"""، کی روایت میں ہے ، اور یہ روایت بھی شدید ضعیف یعنی کمزور اور ناقابلِ حُجت ہے ، کیونکہ اِس کی سند کے مرکزی راوی عبداللہ بن شبیب کے بارے میں اِمام بُخاری رحمہُ اللہ  کا کہنا ہے کہ ’’’ مُنکر الحدیث ‘‘‘ یعنی اِس کی حدیث مُنکر ہوتی ہے ۔
لہذا عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہو گا ، جمعے کے خُطبے پر قیاس کرنا غلط ہے ۔

::::: مسئلہ (5) ::::: عید کا خُطبہ نمازِ کے بعد ہوتا ہے نہ کہ پہلے ، اور،

::::: مسئلہ (6) ::::: عید کے خُطبے کے لیے منبر کا اِستعمال نہیں کِیا جائے گا:::::

::::: دلیل ::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ﴿ شَہِدتُ العِیدَ مَع رَسولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  وَأَبِی بَکرٍ وَعُمَرَ وَعُثمَانَ رَضی اللَّہُ عَنہُم فَکُلُّہُم کَانُوا یُصَلُّونَ قَبل الخُطبَۃِ:::میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور ابو بکر اور عُمر اور عُثمان (رضی اللہ عنہم)کے ساتھ عید میں حاضر ہوا (اور دیکھا کہ)سب کے سب خُطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھےصحیح البُخاری/حدیث 962 /کتاب العیدین /باب8، صحیح مُسلم/حدیث 884 /کتاب صلاۃ العیدین کی پہلی حدیث ۔
::: ایک تاریخی حقیقت ::: نماز ِ عید سے پہلے خُطبہ دینے اور اِس خُطبہ کے لیے منبر اِستعمال کرنے کی بدعت مروان بن عبدالملک امیر(گورنر) مدینہ نے شروع کی ، اُس کے لیے کثیر بن الصلت نے مٹی اور گارے کا منبر تیار کیا تھا ۔صحیح البخاری /کتاب العیدین /باب 6 ، صحیح مُسلم/حدیث 889/ کتاب صلاۃ العیدین کی دسویں روایت ۔

::::: مسئلہ (7) ::::: عید کی نماز کی طرح عید کے خُطبہ میں حاضر رہنا واجب نہیں ہے :::::

::::: دلیل ::::: عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے :: میں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا ، جب نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نماز ادا کر لی تو اِرشادفرمایا﴿ إِنَّا نَخطُبُ فَمَن أَحَبَّ أَن یَجلِسَ لِلخُطبَۃِ فَلیَجلِس وَمَن أَحَبَّ أَن یَذہَبَ فَلیَذہَب:::ہم اب خطاب کریں گے لہذا جو چاہے وہ خُطبہ (سُننے )کے لیے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائےسنن ابو داؤد/حدیث1155/باب 254،سننن ابن ماجہ/حدیث 1291/کتاب اِقامۃ الصلاۃ /باب 160،المستدرک الحاکم/حدیث1093، حدیث صحیح ہے۔

:::::اگرعید جمعہ کے دِن ہو توعید کی نماز پڑہنےکےبعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے:::::

::::: دلیل (1) ::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿قَد اجتَمَعَ فی یَومِکُم ہذا عِیدَانِ فَمَن شَاء َ أَجزَأَہُ مِن الجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ:::تُم لوگوں کے آج کے دِن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں تو جو چاہے(عید کی نماز کے ذریعے) جمعہ کو چھوڑے لیکن ہم دونوں نمازیں پڑہیں گےسنن ابو داؤد ، حدیث 1069/کتاب الصلاۃ /تفریع  ابواب الجمعہ/باب 215، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
::::: دلیل (2) ::::: اِیاس بن ابی رملۃ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ :::
"""میں (أمیر المؤمنین )معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ ُ  کے پاس تھا ، اُنہوں نے زید بن الأرقم رضی اللہ عنہ ُ سے پوچھا"""کیا تُم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ہی دِن میں دو عیدیں دیکھی ہیں؟(یعنی جمعہ کے دِن عید الفِطر یا عید الأضحی)"""،
تو زید رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """جی ہاں"""،
تو (أمیر المؤمنین معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ ُ نے مزید پوچھا""" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کیا کِیا تھا ؟"""،
تو زید رضی اللہ عنہ ُ  نے کہا"""رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عید کی نماز پڑہی اور پھر جمعہ کی نماز میں رُخصت(نہ پڑہنے کی اجازت) دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿مَن شَاءَ أن یُصَلِّی فَلیُصَلِّ:::جو(جمعہ کی نماز)پڑہنا چاہےوہ پڑھ لے(یعنی جو نہ چاہے وہ نہ پڑہے) سنن ابو داؤد/حدیث 1066 / کتاب الصلاۃ / تفریع  ابواب الجمعہ / باب 215، سنن ابن ماجہ/حدیث1310 /کتاب اِقامۃ الصلاۃ / باب166، اِمام علی بن المدینی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، بحوالہ"""التلخیص الحبیر"""اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے بھی صحیح قرار دِیا ،
::::: دلیل (3) ::::: ایک دفعہ عید جمعہ کے دِن ہو گئی تو(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین) علی رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا﴿مَن أرادَ أن یُجَمِّعَ فَلیُجَمِّع ، ومَن أرادَ أن یَجلِسَ فَلیَجلِس::: جو دونوں نمازیں پڑہنا چاہے تو پڑہے اور جو بیٹھنا چاہے تو بیٹھے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے اِس فرمان کی شرح میں اِمام سفیان الثوری رحمہُ اللہ نے فرمایا کہ :::
"""اِسکا مطلب یہ ہے کہ،جو(جمعہ نہ پڑھنا چاہے اور)اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے تو بیٹھے""" ، مصنف عبدالرزاق/حدیث5731 / کتاب صلاۃ العیدین/باب18اجتماع العیدین، مُصنف ابن ابی شیبہ/حدیث5839 / کتاب الصلوات /باب433 فی العِیدانِ یَجتَمِعانِ یَجزِءُ احدُھما مِن الآخر ، حدیث صحیح ہے ۔
::::: دلیل (4) ::::: عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور میں عید جمعہ کے دِن ہوئی تو اُنہوں نے صرف عید کی نماز اور جمعہ کی نماز کو جمع کر لیا اور جمعہ کی نماز نہیں پڑہی بلکہ عید کی نماز پڑہنے کے بعد(عصرکے وقت)عصرکی نماز پڑہی،
سنن ابو داؤد/حدیث1068/کتاب الصلاۃ /تفریع  ابواب الجمعہ/باب215،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق سننے سمجھنے قُبُول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
والسلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ۔ طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔ 23/09/2008۔
وقت کی قلت کے سبب سب ہی مسائل ذِکر نہیں کر سکا ہوں ، خاص طور پر عید الأضحیٰ کے مسائل ، اِن شاء اللہ تعالیٰ کوشش کروں گا کہ انہیں بعد میں اس مضمون میں شامل کر دیا جائے ، اور اللہ ہی ہر نیک کام کی توفیق دینے والا ہے۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔