::::::: قران و سنت کے باغ میں سے
:::::::
::::::: نعمتوں والے گھر کے نظارے :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ
و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ
، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء
نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن
اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
آیے ذرا اُس دِن کا تصور کرتے ہیں جِس
دِن مردے اُن کی قبروں میں سے نکالے جائیں گے ، اور بکھری ہوئی ہڈیوں، جلائی گئی
راکھ اور پانی میں گل سڑ کر پانی ہو جانے والے ذرات تک کو بھی جمع کر کے وہی اِنسان بنا دیے جائیں
گے جِن کی وہ ہڈیاں ہوں گی ، جن کی وہ راکھ ہو گی ، جن کے وہ ذرات ہوں گے ،
سب مر چکے اِنسان زندہ کر کے اُن کےرب
اللہ باری تعالیٰ کی طرف ہانکے جائیں گے ، اُن میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جنہوں نے
جہنم مکیں ہونا ہو گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کواور ہمارے عزیز و أقارب کو اُن میں سے
ہونے سے بچائے ،
اور کچھ وہ خوش قِسمت ہوں گے جن کا
ہمیشہ ہمیشہ کا گھر اللہ کی جنّت ہو گی ، اللہ تعالیٰ ہم سب کواور ہمارے عزیز و
أقارب کو اُن میں سے بنائے ،
:::::::
جنتیوں کو اُن کے رب کی طرف وفد بنا بنا کر پر لے جایا
جائے گا ،
:::::
دلیل::::: ﴿ يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَن وَفْدًا::: ہم اُس دِن تقویٰ والوں(پرہیز گاروں) کو رحمٰن کی طرف (عزت والے)گروہوں کی صُورت میں لے
جائیں گے ﴾سُورت مریم(19)/آیت85،
اور یہ بات سب
کی جانی پہچانی ہوئی ہے کہ وفود کے ساتھ ہمیشہ ایک خاص احترام والے معاملات کیے
جاتے ہیں ،
:::::::
اپنے رب کی رحمتیں پا کر ، اپنے اللہ
کے حکم سے وہ لوگ اللہ کی جنّت کی طرف روانہ کیے جائیں گے ، جنّت سے چالیس سال کی دُوری پر سے ہی وہ
لوگ جنّت کی خُوشبُو پائیں گے،
:::::
دلیل::::: ﴿ وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا::: اور بے شک اُس (یعنی جنّت)
کی خُوشبُو چالیس میل کی مسافت (کے فاصلے) کی دُوری سے آتی ہے ﴾صحیح
بخاری/حدیث /3177کتاب الجزیہ/باب5،
جب وہ لوگ جنّت کے دروازوں تک پہنچیں
گے تو جنّت کے دروازے اُن کے لیے کھول دیے
جائیں گے اور اُنہیں خوش آمدید کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہنے کی خوش خبریاں سنا دی
جائیں گی ،
:::::دلیل:::::
﴿وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى
الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ
لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ::: اور وہ لوگ جو اپنے رب (کی ناراضگی اور عذاب)سے ڈرتے تھے ، اُنہیں
جنّت کی طرف (عِزت والے) گروہوں کی صُورت میں لے جایا جائے گا ، یہاں تک کہ جب جنّت
تک پہنچ جائیں گے اور اُس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جنّت کا نگران اُن سے
کہے گا کہ تُم لوگوں پر سلامتی ہو، تُم لوگ (دُنیاوی زندگی میں) بہت اچھے (اِیمان
والوں کی طرح)رہے، لہذا اب جنّت میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے داخل ہو جاؤ ﴾سُورت
الزُمر(39)/آیت73،
:::::::
اور اُن جنّتیوں
کے لیے جنّت کے دروازے صِرف عام سے انداز میں نہیں کھولے جائیں گے بلکہ بالکل وا
کر دیے جائیں گے،
:::::
دلیل::::: ﴿ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ O جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ :::اور بے شک تقوی والوں (پرہیز گاروں)کے لیے (تو) بہت دِل
پذیر ٹھکانہ ہے Oہمیشہ رہنے والے باغات جن کےدروازے اُن جنّتیوں کے لیےکھول دیے گئےہوں گے ﴾سُورت ص
(38)/آیات49،50،
:::::::
اور اُنہیں
خوشخبریاں سنائی جائیں گی:::
:::::
دلیل::::: ﴿ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ:::امن(پانے)والے بن کر اِس
میں داخل ہو جاؤ﴾سُورت الحَجر (15)/آیت46،
:::::::
سلامتی ہی
سلامتی ، امن ہی امن ، ہرخوف سے امن ، ہر دُکھ سے امن، ہر پریشانی سے امن، کوئی
کمزوری نہیں ، کوئی بیماری نہیں ، کوئی عیب نہیں ، نہ بھوک کی تکلیف ، نہ پیاس کی
، نہ ہی موت کا دھڑکا،
:::::
دلائل ::::: ﴿ وَنُودُوا أَنْ
تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ:::اور اُنہیں آواز دی جائے گی
کہ یہ ہے وہ جنّت جِس کے تم لوگ اپنے کاموں کی وجہ سےوارث بن گئے ہو ﴾ سُورت
الاعراف(7)/آیت43،
:::::::
اِس آیت کریمہ
کی تفسیر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے یہ خبریں ادا کروائیں،
﴿ مَنْ يَدْخُلُ
الْجَنَّةَ يَنْعَمُ لاَ يَبْأَسُ لاَ تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلاَ يَفْنَى شَبَابُهُ:::جو کوئی جنّت میں داخل ہو
گا ، تر و تازہ ہی رہےگا باسی اور پرانا نہیں ہو گا،اُس کا لباس مَیلا نہ ہو گا
اور نہ ہی اُس کی جوانی فنا ہو گی ﴾ صحیح مُسلم/ حدیث7335/کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها/باب9
﴿ يُنَادِى مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلاَ تَسْقَمُوا
أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلاَ تَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ
أَنْ تَشِبُّوا فَلاَ تَهْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلاَ
تَبْتَئِسُوا أَبَدًا:::آواز دینے والا آواز دے گا کہ تُم لوگوں کے لیے (اِس جنّت
میں یہ معاملہ) ہے کہ ہمیشہ صحت مند رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے ، اور تُم لوگوں
کے لیے (اِس جنّت میں یہ معاملہ) ہے کہ ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی موت نہیں آئے گی ،اور
تُم لوگوں کے لیے (اِس جنّت میں یہ معاملہ) ہے کہ ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے
نہیں ہو گے ، تُم لوگوں کے لیے (اِس جنّت میں یہ معاملہ) ہے کہ ہمیشہ تر وتازہ رہو
گے کبھی باسی اور پرانے نہ ہو گے﴾ صحیح مُسلم/حدیث 7336/کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها/باب9 ،
:::::::
اُس دائمی
نعمتوں والے دائمی گھر میں گھر والوں کو
بھر پور جوانی والی عمر کا ، اور بہت ہی مضبوط قد و کاٹھ والا بنا کر داخل کیا
جائے گا، اور وہ لوگ ہمیشہ جوان رہیں گے ، نہ کوئی بیماری ، نہ کوئی کمزوری ، نہ کوئی اور تکلیف دہ معاملہ ،
:::::
دلائل ::::: ﴿ إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ
يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ، ثُمَّ
الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّىٍّ فِى السَّمَاءِ إِضَاءَةً
، لاَ يَبُولُونَ وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ وَلاَ يَتْفِلُونَ وَلاَ يَمْتَخِطُونَ ، أَمْشَاطُهُمُ
الذَّهَبُ ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ ، وَمَجَامِرُهُمُ الأَلُوَّةُ الأَنْجُوجُ
عُودُ الطِّيبِ ، وَأَزْوَاجُهُمُ الْحُورُ الْعِينُ ، عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ
وَاحِدٍ عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ ، سِتُّونَ ذِرَاعًا فِى السَّمَاءِ:::جنّت میں داخل ہونے والے
گروہ کے لوگوں کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح(روشن و چمکدار) ہوں گے ، پھر جو لوگ
اُن کے بعد(داخل ہوں گے ) تو (اُن کے چہرے ) آسمان میں سب سے زیادہ چمکنے والے
ستاروں سے زیادہ روشن ہوں گے،نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ ، نہ تھوکیں گے اور نہ
اُن کے ناکوں میں سے کچھ (ریشہ وغیرہ) نکلے گا ، اُن کی گنگھیاں سونے کی ہوں گی ،
اور اُن کے پسینے مِسک (کی خُوشبو والے) ہوں گے ، اور اُن کے خوشبو سلگانے والی
انگیھٹیاں ہی الوہ اور انجوج(نامی) خوشبو دار لکڑیوں کی ہوں گی ، اور اُن کی
بیویاں بڑی بڑی (خوبصورت ) آنکھوں والی حوریں ہوں گی ، (وہ سب جنتی لوگ) ایک ہی
بناوٹ (جو کہ ) اُن کے والد آدم کی بناوٹ
پر ہوں گے،(یعنی اُن کے قد) آسمان کی طرف ساٹھ کلائی ہوں گے ﴾صحیح
بخاری/حدیث /3327کتاب حدیث الانبیاء /پہلا باب،صحیح مُسلم/حدیث/7328کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/باب7،
﴿ يَدْخُلُ أَهْلُ
الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ جُرداً مُرْداً بِيضاً جِعَاداً مُكَحَّلِينَ أَبْنَاءَ
ثَلاَثٍ وَثَلاَثِينَ عَلَى خَلْقِ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعاً فِى عَرْضِ سَبْعِ
أَذْرُعٍ:::
جنّت والے جنّت میں (اِس حال میں) داخل ہوں گے کہ اُن کے جسموں اور چہروں پر کوئی
بال نہ ہوگے ، (سر کے بال) سمیٹے سنورے ہوں گے ، (آنکھوں میں) سُرمہ لگائے ہوں گے
، تیتیس (33)سال
کے جوان(کی طرح)ہوں گے ، (اور)آدم (علیہ السلام)کی بناوٹ پر ہوں گے (یعنی
اونچائی)ساٹھ کلائی ، چوڑائی سات کلائی ﴾ مُسند أحمد/حدیث /8153مُسند ابی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و
أرضاہ ُ، میں سے ، حدیث رقم 835،(حَسن
لغیرہ)صحیح الترغیب والترھیب/حدیث3700،
:::::::
جنتیوں کے جنّت میں داخل ہونے کے بعد،تحفے
کے طور پر استقبالیہ کھانے کی ابتداء کے
طور پر مچھلیوں کی کلیجی کے ساتھ لگا ہوا گوشت کا اضافی حصہ پیش کیا جائے گا،
:::::
دلائل ::::: ﴿ وَأَمَّا أَوَّلُ
طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ ، فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ:::تو جنّت والے جو کھانا سب
سے پہلے کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کا اضافی حصہ ہو گا﴾صحیح
البخاری/حدیث3938/کتاب مناقب الانصار/باب 51، یہ لذیذ کھانا
تحفے کے طور پر پیش کیے جانے کا ذِکر صحیح مُسلم کی روایت میں ہے،حدیث /742کتاب الحیض/باب8،
:::::::
اور اُس کے بعد اُن کے کھانے کے لیے
جنّت میں پلنے والے بیل ذبح کیا جائے گا،
﴿ يُنْحَرُ لَهُمْ ثَوْرُ
الْجَنَّةِ الَّذِى كَانَ يَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِهَا::: اُن کے لیے وہ بیل ذبح کیا
جائے گا جو جنّت کے پہلوؤں میں سے کھایا کرتا تھا ﴾صحیح
مُسلم/ حدیث /742کتاب الحیض/باب8،
:::::::
اور اِس کے ساتھ اُنہیں جنّت کے خاص
چشمے کا مشروب پیش کیا جائے گا ،
:::::دلیل:::::﴿ مِنْ عَيْنٍ فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلاً:::اُس چشمے میں سے(پلایا جائے
گا)جِس کا نام سلسبیل ہے﴾سابقہ حوالہ،
:::::::
اِس استقبالیہ ضیافت کے بعد اُن
جنّتیوں کواُن کے گھروں میں داخل کر دیا جائے گا ، وہ گھر جن کی کچھ صِفات اللہ
اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بیان فرمائی
ہیں کہ :::
:::::
دلائل ::::: ﴿ لَكِنِ الَّذِينَ
اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي
مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ::: لیکن وہ لوگ جو اُن کے رب
(اللہ کی نافرمانی ، ناراضگی اور عذاب) سے بچتے رہے ، اُن لوگوں کے لیے ایسے (گھر ہیں
جن میں ایسے) کمرے بنائے گئے ہیں کہ پھر اُن کے اوپر مزید کمرے ہیں ،اُن کمروں کے
نیچے دریا بہتے ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے ،(اور یقیناً) اللہ وعدہ خِلافی نہیں کرتا﴾ سُورت
الزمر(39)/آیت20،
﴿ إِنَّ فِى الْجَنَّةِ
غُرْفَةً يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا
أَعَدَّهَا اللَّهُ لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَلاَنَ الْكَلاَمَ وَتَابَعَ
الصِّيَامَ وَصَلَّى وَالنَّاسُ نِيَامٌ:::یقیناً جنّت میں ایسا کمرہ ہے جِس کے اندر سے اُس کے باہر
نظر آتا ہے ، اور اُس کے باہر سے اُس کا
اندر دِکھائی دیتا ہے ، یہ کمرہ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے تیار فرمایا ہے جو
(غریبوں ، مسکینوں اور بھوکوں) کو کھانا کھلاتا ہے، اور نرم خوئی سے بات کرتا ہے ،
اور یکے بعد دیگرے روزے رکھتا ہے ، اور اُس وقت نماز پڑھتا ہے جب لوگ سو رہے ہوتے
ہیں ﴾صحیح ابن حبان/حدیث/509کتاب البِر والاِحسان/باب11
إفشاء السلام وإطعام ،مُسند
احمد /حدیث/23608
حدیث ابی مالک الاشعری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم13،
امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،مشکاۃ المصابیح/حدیث1232،
:::::::
اُن منزل در
منزل (ملٹی سٹوری Multi Story)گھروں،
شفاف (ٹرانسپیرنٹTransparent)کمروں کے علاوہ
جنّتیوں کو حسن و جمال اور بناوٹ کے لحاظ سے انوکھے اور اعلیٰ ترین خیمےبھی عطاء
ہوں گے ،
:::::
دلیل ::::: ﴿ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِى
الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ طُولُهَا سِتُّونَ
مِيلاً لِلْمُؤْمِنِ فِيهَا أَهْلُونَ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُ فَلاَ يَرَى
بَعْضُهُمْ بَعْضًا:::یقیناً اِیمان والے کے لیے جنّت میں ایسا خیمہ ہے جو ایک ہی
خشک موتی سے بنایا گیا ہے اُس خیمے کی لمبائی ساٹھ میل ہے ، اِیمان والے کے لیے
اُس میں بیویاں ہوں گی ، وہ اُن بیویوں کے پاس وقت گذارے گا، تو وہ بیویاں(اتنی دُوری
پر ہوں گی کہ)ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکیں گی﴾ صحیح مُسلم/حدیث 7337/کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها/باب10،
:::::::
اُن گھروں میں
ملنے والی بیویاں ، دُنیا کی عورتوں کی طرح نہ ہوں گی ، بلکہ پاکیزگی اور حسن
وجمال میں دُنیا میں ملنے والی بیویوں سے کہیں زیادہ اعلیٰ،برتر اور مکمل ہوں گی ،خیر
و حُسن کی شاھکار، شرم و حیاء سے جھکی ہوئی نگاہوں والیاں، جنہیں اُن کے جنّتی
خاوندوں سے پہلے نہ کسی اِنسان نہ چُھوا ہو گا اور نہ کسی جِن نے ، (سورت الرحمٰن
، آیات 56تا74)،
اور ،
:::::
دلیل ::::: ﴿وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً
مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الأَرْضِ ، لأَضَاءَتْ مَا
بَيْنَهُمَا ، وَلَمَلأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا ، وَلَنَصِيفُهَا - يَعْنِى
الْخِمَارَ - خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا:::اور اگر جنّت کی عورتوں میں
سے کوئی ایک دُنیا کی طرف متوجہ ہو تو(اُس کے حُسن و جمال سے)دُنیا اور جنّت
کادرمیان روشن ہوجائے، اور دُنیا اور جنّت کا درمیان خُوشبُو سے بھر جائے ، اور
اُس عورت کی اوڑھنی دُنیا اور جو کچھ اُس میں ہے ، اُس سب سے زیادہ حُسین ہے﴾صحیح بخاری/حدیث/6568کتاب الرقاق/باب51،
:::::::
ہمیشگی کے ساتھ
رہنے والے ، اُن دائمی نعمتوں والے گھروں کے نیچے رواں دواں دریاؤں اور نہروں میں
کوئی عام پانی نہیں بہہ رہا ہو گا ،
:::::دلیل:::::﴿مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ
مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ
وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى::: جِس جنّت کا تقوی والوں سے
وعدہ کیا گیا ہے ، وہ ایسی ہے کہ اُس میں باسی اور خراب نہ ہونے والے پانی کے دریا
ہیں ، اور ایسے دُودھ کی نہریں ہیں جِس کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوتا ، اور ایسی شراب
کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے بہت لذیذ ہے ، اور صاف ستھرے شہد کی نہریں ہیں﴾سُورت
محمد (47)/آیت 15،
:::::::
ہمیشہ ہمیشہ
رہنے والی نعمتوں والے اِس گھر میں ، گھر والوں کو ایسے باغات ملیں گے ، جن کے
درختوں اور پودوں کے پھل اور سایے ہمیشہ
ہمیشہ میسر رہیں گے اور انتہائی آسانی سے خود بخود گھر والوں کے اشاروں پر اُن کی
رسائی میں ہوں گے ،
:::::دلائل:::::﴿ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا:::اُن (درختوں اور پودودں)کے پھل
اور سایہ ہمیشہ رہیں گے﴾سُورت الرعد (13)/ آیت
﴿ وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلاً:::اور اُن کی ٹہنیاں(جنّتیوں
کے لیے)جُھکا دی جائیں گی ﴾ سُورت اِنسان (76)/
آیت،
اُس دائمی
نعمتوں والے ابدی گھر میں ملنے والی خوراک کھانے کے بعد جنّتیوں کو ایسی کوئی حاجت
نہ ہو گی جو دُنیا کی زندگی میں کھانے پینے کے نتیجے میں ہوتی ہے، کیونکہ اللہ
تبارک و تعالیٰ نے وہ گھر ایسا بنایا ہے جس میں کوئی تکلیف ، اذیت یا پریشانی والی
چیز نہیں ہوگی ،
:::::
دلیل ::::: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ خوش خبریاں عطاء فرمائیں کہ﴿ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونَ فِيهَا
وَيَشْرَبُونَ وَلاَ يَتْفُلُونَ وَلاَ يَبُولُونَ وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ وَلاَ
يَمْتَخِطُونَ:::جنّتی
لوگ جنّت میں کھائیں پئیں گے اور نہ ہی تھوکیں گے ، اور نہ ہی پیشاب کریں گے اور
نہ ہی پاخانہ اور نہ ہی اُن کے ناکوں میں سے کچھ (ریشہ وغیرہ) نکلے گا ﴾
تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض
کیا """فَمَا
بَالُ الطَّعَامِ ::: تو (اُن کے کھائے ہوئے) کھانے کا کیا معاملہ ہو گا"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے جواب میں مزید یہ خوش خبری عطاء فرمائی کہ﴿جُشَاءٌ وَرَشْحٌ
كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُونَ التَّسْبِيحَ وَالتَّحْمِيدَ كَمَا يُلْهَمُونَ
النَّفَسَ:::ڈکار
اور پسینہ جو مِسک کی طرح ہوں گے ، اُن جنّتیوں کو اِس طرح تسبیح اور تحمید کرنا اِلہام کیا جائے گا جِس طرح سانس لینا اِلہام
کیا جاتا ہے ﴾صحیح مُسلم/حدیث 7331/کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها/باب8،
:::::::
اُس گھر کے
باغات میں ہر درخت کا تنا سونے کا ہو گا ،
::::: دلیل
::::: ﴿مَا فِى الْجَنَّةِ
شَجَرَةٌ إِلاَّ وَسَاقُهَا مِنْ ذَهَبٍ:::جنّت میں کوئی درخت ایسا نہیں ہے جِس کا تنا سونے کا نہ ہو ﴾سُنن الترمذی/حدیث /2716کتاب صِفۃ الجنۃ/پہلا باب،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے
صحیح قرار دِیا۔
:::::::
اُس گھر کی گِرد و غُبار انتہائی باریک پسے اور صاف گئے
سُفیدآٹے کی طرح خالص مِسک ہو گی ،
:::::
دلیل ::::: ﴿دَرْمَكَةٌ بَيْضَاءُ
مِسْكٌ خَالِصٌ::: انتہائی باریک پسے اور صاف گئے سُفیدآٹے کی طرح
خالص مِسک ﴾ صحیح مُسلم/حدیث /7536کتاب الفِتن و أشراط الساعۃ/باب19،
:::::::
اُس گھر کے
باسیوں کا لباس
:::::
دلیل ::::: ﴿ جَنَّاتُ عَدْنٍ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ
وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ::: ہمیشہ رہنے والے باغات ، وہ
(جنّتی)لوگ اُن باغات میں سونے اور موتیوں کے کنگن پہنیں گے اور جنّت میں اُن کا
لباس ریشم ہو گا﴾ سُورت فاطر(35)/آیت 33،
:::::::
اور وہ ریشم
ایسا ہو گا جس کی کوئی مقابلہ دُنیا میں پائے جانے والا کوئی ریشم نہیں کر سکتا ،
ایک دفعہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی کپڑا پیش کیا گیا، صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین اُس کپڑے کی نرمی اور خوبصورت دیکھ کر حیران رہ گئے تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لَمَنَادِيلُ سَعْدِ
بْنِ مُعَاذٍ خَيْرٌ مِنْهَا::: یقیناً سعد بن معاذ کے (جنّت میں ملنے والے) رومال اِس سے
زیادہ بہتر ہیں ﴾صحیح بخاری/حدیث/3802کتاب مناقب الانصار/باب12،صحیح مُسلم /حدیث /6502کتاب
فضائل الصحابہ/باب24،
:::::::
اور وہ لباس
کبھی خراب بھی نہ ہو گا ،
:::::
دلیل ::::: ﴿ مَنْ يَدْخُلُ
الْجَنَّةَ يَنْعَمُ لاَ يَبْأَسُ لاَ تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلاَ يَفْنَى شَبَابُهُ:::جو کوئی جنّت میں داخل ہو
گا ، تر و تازہ ہی رہےگا باسی اور پرانا نہیں ہو گا،اُس کا لباس مَیلا نہ ہو گا
اور نہ ہی اُس کی جوانی فنا ہو گی ﴾ صحیح مُسلم/ حدیث7335/کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها/باب9 ،
:::::::
اُس گھر کے باسیوں کو ملنے والی ابدی
نعمتوں میں یہ بھی ہے کہ اُن کے دِل ہر قسم کے حسد اور بغض وغیرہ سے پاک کر دیے
جائیں گے ، محبتوں سے بھر پور بھائی چارہ عطاء ہو گا ،
:::::
دلائل ::::: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ
مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ:::اور ہم نے اُن(جنّتیوں) کے
دِلوں میں جو غصہ و ناراضگی تھی صاف کر دِیا ، بھائی بھائی بن کر وہ لوگ تختوں پر
آمنے سامنے (بیٹھیں)ہوں گے ﴾ سُورت الحَجر (15)/آیت47،
﴿لاَ اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ وَلاَ تَبَاغُضَ ،
قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ ، يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا:::اُن(جنّتیوں)کے درمیان نہ
کوئی اختلاف ہو گا نہ کوئی بغض، اُن کے دِل ایک ہی دِل ہوں گے ، وہ لوگ صبح و شام
اللہ کی تسبیح کیا کریں گے ﴾صحیح بخاری/حدیث /3245کتاب بدء الخلق/باب8، صحیح مُسلم/حدیث /7330 کتاب الجنة وصفة
نعيمها وأهلها /باب8،
:::::::
ابدی نعمتوں والے اُس دائمی گھر میں
ملنے والی نعمتوں کے بارے میں یہ معلومات بہت ہی کم ہیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ اُس
نے اپنی جنّتوں میں اپنے اِیمان والے نیک بندوں کے لیے کیا کچھ بنا رکھا ہے ،
:::::
دلیل ::::: ﴿قَالَ اللَّهُ""" أَعْدَدْتُ لِعِبَادِى الصَّالِحِينَ مَا لاَ
عَيْنَ رَأَتْ ، وَلاَ أُذُنَ سَمِعَتْ ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ """ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ﴿ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِىَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾:::اللہ کا فرمان ہے کہ""" میں نے اپنے نیک
بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ، اور نہ ہی کسی
کان نے سنا ، اور نہ ہی کسی اِنسان کے دِل پر اُس کا گمان بھی گذرا"""
پس اگر تُم لوگ چاہو تو (اللہ کا یہ فرمان)پڑھ لو ﴿ کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ اُن (جنّتیوں )کے لیے(جنّت میں) آنکھوں
کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چُھپا رکھا گیا ہے﴾ ﴾ صحیح بخاری/حدیث /3244
کتاب بدء الخلق/باب8، صحیح مُسلم/حدیث /7310 کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها /پہلا باب،
:::::::
اِن سب نعمتوں
اور جن کی ہمیں کچھ خبر نہیں اُن سب نعمتوں اور راحتوں سے بڑھ کر جو نعمت اور راحت
جنّتیوں کو ملے گی وہ ہو گی ، اُن کے رب اللہ جلّ جلالہُ کا دیدار ،
یہ ایسی نعمت
اور ایسی راحت ہو گی جو جنّتیوں کے دِل و دِماغ کو جنّت میں ملنے والی ہر ایک نعمت
اور راحت کی لذت سے بڑھ کر لذت دے گی ،
:::::
دلیل ::::: ﴿ تَلاَ رَسُولُ اللَّهِ
-صلى الله عليه وسلم- هَذِهِ الآيَةَ ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾وَقَالَ
، إِذَا دَخَلَ أَهْلُ
الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ نَادَى مُنَادٍ يَا أَهْلَ
الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ.
فَيَقُولُونَ وَمَا هُوَ ؟ أَلَمْ يُثَقِّلِ اللَّهُ مَوَازِينَنَا وَيُبَيِّضْ
وُجُوهَنَا وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَيُنْجِنَا مِنَ النَّارِ،
قَالَ فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ فَوَاللَّهِ
مَا أَعْطَاهُمُ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ
وَلاَ أَقَرَّ لأَعْيُنِهِمْ::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے یہ آیت شریفہ پڑھی ﴿ جنہوں نے نیک کام کیے اُن کے لیے جنّت ہے اور
اُس سے بھی بڑھ کر ﴾ اور اِرشاد فرمایا ، جب جنّتی لوگ جنّت میں داخل
ہو جائیں گے اور جہنمی لوگ جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو آواز دینے والا آواز دے
گا ، کہ ، اے جنّتیوں تُم لوگوں کےلیے اللہ کے پاس ایک وعدہ ہے ، اللہ چاہتا ہے کہ
وہ تم لوگوں کے لیے وہ وعدہ پورا فرما دے ، تو وہ لوگ کہیں گے ، وہ کونسا وعدہ ہے
؟ کیا اللہ نے ہمارے ترازو بھاری نہیں کر دیے ؟ اور ہمارے چہرے سفید (روشن) نہیں
کر دیے ؟ اور ہمیں جنّت میں داخل نہیں فرما دِیا ؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دے
دی؟
(اور
پھر مزید) اِرشاد فرمایا ، تو اللہ( اپنا) پردہ ہٹائے گا، تو جنّتی اللہ کی طرف
دیکھیں گے ، تو اللہ کی قَسم ، اُن لوگوں کے لیے،اللہ کی طرف دیکھنا اُن سب سے بڑھ
کر محبوب اور آنکھوں کی ٹھنڈک والا ہو گا جو کچھ اللہ نے اُنہیں عطاء کیا ہو گا ﴾سُنن ابن ماجہ/حدیث /192المقدمہ/باب35،سُنن الترمذی/حدیث /2749کتاب ٍٍصفۃ الجنۃ/باب16،إِمام
الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا
صحیح مُسلم کی
روایت میں ہے کہ ﴿ إِذَا دَخَلَ أَهْلُ
الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ - قَالَ - يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى تُرِيدُونَ
شَيْئًا أَزِيدُكُمْ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا أَلَمْ تُدْخِلْنَا
الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ - قَالَ - فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا
أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ
وَجَلَّ::: جب
جنّتی لوگ جنّت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا ، کیا تم
لوگ کچھ چاہتے ہو جو تمہیں مزید عطاء کروں ؟ تو وہ لوگ کہیں گے ، کیا آپ نے ہمارے
چہرے روشن نہیں فرما دیے؟ کیا آپ نے ہمیں جنّت میں داخل نہیں فرما دِیا ؟ کیا آپ
نے ہمیں جہنم سے نجات نہیں دے دی؟ تو اللہ( اپنا) پردہ ہٹائے گا، تو جنّتیوں کو جو
کچھ عطاء ہوا ہو گا اُس میں سے، اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی، اُن کے رب عزّ و جلّ کی
طرف دیکھنے سے زیادہ محبوب نہ ہو گا ﴾صحیح مُسلم/حدیث /467کتاب الاِیمان/باب82،
اللہ تعالیٰ ہم
سب کو ہمارے اہل خانہ و خاندان کو اور ہم مُسلمان بھائیوں بہنوں کو اُن میں سے
بنائے جنہیں وہ اپنے دیدار کی ناقابل بیان لذت عطاء فرمائے گا،
:::::::
اور پھر اللہ
جلّ و عُلا کی طرف سے وہ خوشخبری عطاء فرمائی جائے گی جو ملنے والی سب نعمتوں اور
راحتوں کا لطف دوبالا فرمانے والی ہو گی ،
:::::
دلیل ::::: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ
لأَهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ . فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا
وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِى يَدَيْكَ . فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ
وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَى يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا
مِنْ خَلْقِكَ . فَيَقُولُ أَلاَ أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ . فَيَقُولُونَ
يَا رَبِّ وَأَىُّ شَىْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ
رِضْوَانِى فَلاَ أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا:::اللہ جنّت والوں سے فرمائے
گا ، اے جنّتیوں، وہ لوگ عرض کریں گے،ہم حاضر ہیں اے ہمارے رب ، اور تیری خدمت کے
لیے تیار ہیں ، اور خیر تیرے ہاتھ میں ہے ،
تو
اللہ فرمائے گا ، کیا تم لوگ خوش ہو گئے ہو ؟
تو وہ
لوگ کہیں گے ، کیا وجہ ہے کہ ہم خوش نہ ہوں اے ہمارے رب؟جب کہ آپ نے ہمیں وہ کچھ
عطاء فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطاء نہیں فرمایا،
تو
اللہ فرمائے گا ، کیا میں تُم لوگوں کو اُس سے اعلیٰ و برتر عطاء نہ کروں؟
تو وہ
لوگ کہیں گے ، اے رب بھلا اُس سے اعلیٰ و برتر کون سی چیز ہے ؟تو اللہ فرمائے گا ،
میں تُم لوگوں کے لیے مستقل طور پر اپنی رضا مندی عطاء کرتا ہوں لہذا اِس کے بعد میں تُم لوگوں پر کبھی ناراض نہیں
ہوں گا﴾صحیح بخاری/حدیث /7518کتاب التوحید/باب38،صحیح مُسلم/حدیث /7318 کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها /باب3،
:::::::
جنّتیوں کو
دُنیا کی موت کے بعد پھر کوئی موت نہیں آئے گی ، اللہ کی نعمتوں اور رضامندی کا
دائمی حصول ہو جائے گا ،
:::::
دلائل ::::: ﴿ لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلا الْمَوْتَةَ الأُولَى:::تمہارا وہ لوگ(دُنیا والی) پہلی
موت کے علاوہ جنّت میں (کوئی) دوسری موت نہیں چھکیں گے﴾ سُورت الدُخان(44)/آیت56،
جنّت اور جہنم
کے درمیان موت کو ایک املح مینڈھے کی صُورت میں لایا جائے گا اور پکارنے والا
پکارے گا﴿ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ فَيَقُولُ
هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ ، وَكُلُّهُمْ قَدْ
رَآهُ ، ثُمَّ يُنَادِى يَا أَهْلَ النَّارِ ، فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ ،
فَيَقُولُ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ ،
وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ،
خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ ، خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ:::اے جنّت والو ، تو وہ لوگ
سر اُٹھا کر گردنیں لمبی کر کے(آواز کی سِمت)دیکھیں گے، تو آواز دینے والا کہے گا
، کیا تُم لوگ اِسے جانتے ہو؟
تو
جنّتی لوگ کہیں گے، جی ہاں یہ موت ہے ، اور اُن سب نے اُسے دیکھ لیا ہو گا،
پھر آواز
دینے والا کہے گا ، اے جہنم والو، تو وہ لوگ سر اُٹھا کر گردنیں لمبی کر کے(آواز
کی سِمت)دیکھیں گے، تو آواز دینے والا کہے گا ، کیا تُم لوگ اِسے جانتے ہو؟
تو جہنمی
لوگ کہیں گے، جی ہاں یہ موت ہے ، اور اُن سب نے اُسے دیکھ لیا ہو گا،
تو
اُسے (یعنی موت کو) ذبح کر دِیا جائے گا، اور پکارنے والا کہے گا ، اے جنّت والو
ہمیشگی ہے پس کوئی موت نہیں، اور اے جہنم والو ہمیشگی ہے کوئی موت نہیں ﴾ صحیح بخاری/حدیث /4730کتاب التفسیر/باب قَوْلِهِ ( وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ )،صحیح مُسلم/حدیث /7360 کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها
/باب14،
[[[::::: املح مینڈھے
::::: سے مُراد وہ مینڈھا ہے جو سُفید و سیاہ رنگ کا ہو ، اور اِس
طرح کہ پاؤں اور آنکھوں کے آس پاس اور پیٹ کے نچلے حصے میں سیاہی ہو اور
باقی ساری جلد کی رنگت سُفید ہو ، جِسے عام طور پر ''' کاجلی ''' کہا جاتا ہے
۔]]]
محترم
قارئین کرام ، یہ بات خوب اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ جنّت میں داخلہ اپنے کیے ہوئے کاموں کی
وجہ یا بدلے کی وجہ سے نہیں ہونے والا بلکہ صِرف اور صِرف اللہ کی رحمت پر منحصر ہے،
:::::
دلیل ::::: ﴿ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَاعْلَمُوا أَنَّهُ لَنْ يَنْجُوَ أَحَدٌ
مِنْكُمْ بِعَمَلِهِ ،قَالُوا
يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ أَنْتَ قَالَ، وَلاَ أَنَا
إِلاَّ أَنْ يَتَغَمَّدَنِىَ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ:::کِسی غُلو اور کمی کے بغیر
عمل کرو ، اور دُرست طور پر مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ کی اطاعت اختیار کیے رکھو ، (اور
یاد رکھو کہ)بے شک تُم میں سے کوئی بھی ہر گز اپنے کاموں کے بدلے میں نجات نہیں
پائے گا،
صحابہ نے عرض کی""" اے اللہ کے رسول کیا
آپ بھی؟"""،
اِرشاد فرمایا ، نہ ہی میں ، سوائے
اِس کے کہ اللہ کی رحمت اور اُس کا فضل مجھے ڈھانپ لے﴾ صحیح مُسلم/حدیث /7295 کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها /باب18،
اور یہ
معاملہ بھی خُوب اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے والا ہے کہ اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کا اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی
فرمان شریف سے کوئی تضاد نہیں ، کوئی اِختلاف نہیں ،
کچھ
گمراہ ، عقل پرست ، خود ساختہ قران فہمی کے مارے ہوئےجاھلوں کو یہ محسوس ہوتا ہے
کہ یہ مذکورہ بالا حدیث شریف قران کریم کی درج ذیل آیات مبارکہ کے خِلاف ہے :
﴿ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا
كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ:::اور اُنہیں آواز دی جائے گی کہ یہ ہے وہ جنّت جِس کے تم لوگ
اپنے کاموں کی وجہ سےوارث بن گئے ہو ﴾ سُورت الاعراف(7)/آیت43،
﴿ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ
تَعْمَلُونَ:::جنّت
میں داخل ہو جاؤ اُس کی وجہ سے جو کچھ تُم لوگ کیا کرتے تھے ﴾ سُورت النحل(16)/آیت32،
جب کہ اِن دونوں
آیات مبارکہ میں مذکور """با ، یعنی ، حرف ب """سبب یعنی وجہ کا بیان ہے ،
اور حدیث شریف میں مذکور """با ،
یعنی ، حرف ب """سبب کا
نہیں ، بلکہ بدلے کا بیان ہے ، پس الحمد للہ ، اِس صحیح حدیث کا بھی کسی بھی اور
صحیح حدیث شریف کی طرح قران کریم کی کسی آیت مبارکہ سے کوئی اِختلاف نہیں۔
اللہ تبارک
وتعالیٰ ہم سب کو ہمارے اہل خانہ و خاندان کو اور سب کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو
ہمیشہ رہنے والی اِن نعمتوں والے ابدی گھر کا مکین بنائے ۔ و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 20/05/1435
ہجری ، بمطابق ، 21/03/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ
درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔