بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ
الرَّحِیم
::::::: آپ کا دِل ، قُران کا اثر حاصل کرنے کا مُقام ہے :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ
عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ
علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ
لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے
نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے
ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس
کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی
میں جا پڑا ۔
السلامُ
علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اگر آپ قران کریم سے فائدہ حاصل کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں
تو قران حکیم کی قرأت اور تلاوت کے دوران اپنے دِل، دِماغ جسم و جاں کو مکمل طور
پر حاضر کر لیجیے کہ آپ اپنے ، اس کائنات ، اور تما م تر مخلوق کے
اکیلے ، لا شریک خالق اور مالک کی بات سُن رہے ہیں ، وہ بات جو اُس نے اپنے آخری اور محبوب ترین
رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زُبان مبارک سے آپ کے ساتھ کی ہے ، پس
اللہ کے ساتھ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت بھی اپنے دِل و
دِماغ میں حاضر رکھیے اُللہ کی اس بات کی
طرف اپنے کانوں کی سماعت کو بھی خُوب متوجہ رکھیے ،کہ ایک حرف بھی ایسا نہ ہو جو
آپ کی کانوں کی سماعت ، اور دل و رُوح کی سماعت میں نہ آنے پائے ،
دیکھیے ، اس رب العالمین نے اپنی اِسی کتاب میں فرمایا ہے ) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ
قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ :::بے شک اِس قُران میں یقیناً اُس شخص
کے لیے نصیحت ہے جو(درست سمجھ والا)دِل رکھتا ہے یا پوری توجہ سے(اس کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو ، اور وہ پوری طرح سے(جسمانی اور روحانی ، ظاہری اور باطنی طور پر
) حاضر ہو(سُورت ق /آیت 37،
کسی بات کا بہترین
اور مکمل ترین اثر اسی وقت ہوتا ہے جب وہ بہترین مؤثر ہو ، یعنی اثر انداز ہونے والے پر مطلوبہ اثر کے تقاضوں پر
پوری اتر رہی ہو ، اور اِدھر اُدھر ہونے
کی بجائے اُس اثر کو قبول کرنے والی جگہ یا شخصیت پر ہی وارد
ہو ، اور اثر قبول کرنے والی جگہ یا شخصیت
موجودہو ، اور اثر حاصل کرنے والی جگہ یا شخصیت کی مکمل توجہ مؤثر کی طرف ہونے کی شرط پو ری ہو رہی
ہو ،اور اثر واقع ہونے سے روکنے والا کوئی
سبب موجود نہ ہو ، اس آیت کریمہ میں نازل کرنے والے کی شان کے مطابق اعلیٰ ترین،مکمل
بے عیب اور واضح الفاظ میں ان تمام باتوں کابیان ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى :::بے شک
اِس قُران میں یقیناً ( ایک یقینی مؤثر کی موجودگی کی یقینی خبر لیے ہوئے ہے ، اور ،
اللہ پاک کا فرمان ) لِمَنْ كَانَ لَهُ
قَلْبٌ:::اُس شخص کے لیے جو(درست سمجھ والا)دِل رکھتا ہے (
میں اثر قبول کرنے والی جگہ
اور شخصیت کا ذِکر ہے جو اس بات کی دلیل
ہے کہ اِس یقینی اثر کرنے والے مؤثر قران الکریم کا اثر کہیں اِدھر اُدھر ہونے والا نہیں بلکہ صِرف اثر قبول کرنے والی
شخصیت میں اثر قبول کرنے کے قابل جگہ پر ہی اثر انداز ہونے والا ہے ، اور وہ اثر
قبول کرنے کے قابل جگہ ایسا زندہ دِل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کو دُرُست
طور پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، نہ کہ
کوئی ایسا مُردہ دِل جو اور تو سب کچھ سمجھ لے
لیکن اللہ کا کلام یا تو سمجھے ہی نہیں یا پھر اپنی خواہشات اور افکار کے
مطابق سمجھے ،
جیسا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اس
فرمان میں سمجھایا ہے کہ )
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآَنٌ مُبِينٌ O لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ
الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ :::اور
ہم نے محمد کو شاعری نہیں سِکھائی اور نہ ہی یہ اُن کی شان کے مطابق ہے (بلکہ)
یقینا ً (جو کچھ یہ تمہیں سناتے ہیں) وہ تو یاد دہانی ہے اور واضح قُران ہے
O
تا کہ جو کوئی زندہ (ٹھیک سوچ و سمجھ والا
دِل)ہے اسے تنبیہ کر دے اور انکار کرنے
والوں پر (اللہ کی )باتوں کی حجت تمام کر دے (
سُورت یٰس/آیات 69،70،
ہماری زیر
مطالعہ آیت میں اثر قبول کرنے والی جگہ کا ذِکر فرمانے کے بعد اللہ عزّ و جلّ نےاثر
حاصل کرنے والی جگہ یا شخصیت کی مکمل توجہ مؤثر کی طرف ہونے کا ذِکر فرماتے ہوئے
اِرشاد فرمایا ) أَلْقَى السَّمْعَ :::پوری توجہ سے(اس کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو ( ،
اور اس آیت
مبارکہ کے اختتام میں رب العالمین نے اثر قبول کرنے والی جگہ یا شخصیت کی موجودگی ، اور
اثر واقع ہونے سے روکنے والا کسی سبب کے موجود
نہ ہونے کے بارے میں راہنمائی فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ) وَهُوَ شَهِيدٌ ::: اور
وہ پوری طرح سے(جسمانی اور روحانی ، ظاہری
اور باطنی طور پر ) حاضر ہو (
امام ابن
القتیبہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے """ایسے (شخص کا ذِکر ہے )جو اللہ
کی کتاب مکمل ترین توجہ سے سنے اور درست سمجھ اور دِلکی حاضری کے ساتھ اس پر گواہ ہو ، نہ ہی غافل ہو اورنہ ہی
کسی بھول کا شِکار ہو کر مطلوب و مقصود کے علاوہ کچھ اور سمجھنے یا کرنے والا ہو """
امام صاحب رحمہ
ُ اللہ کی اس بات میں یہ سبق ہے کہ قران میں دی گئی تعلیمات سے دُور رہنا ، اوردرست فہم کے خلاف بھول کرتے ہوئے غلط
فہم کے مطابق قران کریم کو سمجھنا ، اللہ کی اس کتاب کے اثر کے حصول میں روکاٹ ہیں
،
پس اللہ تعالیٰ
کے اس مذکورہ بالا فرمان کی روشنی میں حاصل کلام یہ ہوا کہ قران کریم کے درست فہم
کے مطابق اس کے حقیقی فوائد کے حصول کے لیے قران پاک کے ساتھ تین چیزوں کی موجودگی لازم ہے :::
:::::
(1) اثر قبول کرنے والی جگہ یا
شخصیت کا وجود، اور وہ ہے "زندگی
والا دِل " یعنی دُرسُت فہم کا حامل دِل ، ایسا دِل نہیں جو اپنی خواھشات ،
یا قران میں دی گئی ربانی تعلیمات اور احکام ہی کے خلاف فلسفوں پر مشتمل افکار کا حامل دِل ،
:::::
(2) اثر حاصل کرنے والی جگہ یا شخصیت کی مکمل توجہ مؤثر کی طرف ہونے کی شرط کا پورا ہونا
، یعنی ایک زندہ دِل رکھنے والی شخصیت مکمل طور پر اپنی سماعت و بصیرت کو اللہ کا مطیع کرتے ہوئے
اللہ کی کتاب میں تدبر کرے ،
:::::
(3) اثر
واقع ہونے سے روکنے والا کسی بھی سبب کا موجود نہ ہونا ، یعنی قلبی و روحانی اور جسمانی سماعت و بصیرت
کا کسی بھی اور طرف مشغول نہ ہونا اور قران میں دی گئی تعلیمات سے خارج ہو
کر کسی سوچ و فِکر سے مرتبط نہ ہونا ۔
اللہ تبارک و
تعالیٰ ہم سب کو ہر کلمہ گو اس کی کتاب کا درست فہم عطاء فرمائے وہ فہم جس کی
تبلیغ کے لیے اُس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اپنی یہ کتاب
نازل فرمائی ، اور ہمیں ہمارے نفوس ، تمام تر شریر نفوس ، گمراہ نفوس اپنی خواھشات
اور نا دُرسُت سوچوں کے پیروکار نفوس ، اور حق کی باطل تاویلات کرنے والے نفوس سے
محفوظ رکھے ۔
امام ابن القیم
الجوزیہ کی کتاب """ بدائع الفوائد """ سے ماخوذ ۔
تاریخ کتابت :18/10/1432ہجری ، بمطابق،16/09/2011عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔