إِیصال ثواب اور اُس
کی حقیقت
ایصال ثواب
کے مروجہ طریقوں کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ
پیش لفظ
(مُقدمہ)
دوسرے اصدار کا مقدمہ
اِیصالِ ثواب
کے مرو جہ طریقوں
کی حقیقت اور
اُنکا حُکم
::: دو اہم
سوال :::
علِم
غیب کا تعارف
پہلے سوال کا جواب :::
دوسرے سوال کا جواب :::
حاصلِ
مطالعہ:::
میت کو فائدہ دینے والی چیزیں
(1):دُعاء
(۲) میت کی جائز نذر کو پُورا کرنا
::::: نذر
کے بارے میں کچھ أہم وضاحتیں :::::
فرض اور نذری روزے کے بارے میں ایک غلط
فہمی کا ازالہ
(۱) پہلی دلیل
(۲) دوسری دلیل
(3)میت
کا قرض ادا کرنا (اُس کا ولی کرے یا کوئی بھی مُسلمان)
(1) پہلا مسئلہ
(2) دوسرا مسئلہ
(3) تیسرا مسئلہ
::::: دو أہم
باتیں :::::
(4)
(صالح )نیک اولاد کے
نیک اعمال
::::: یاد
رکھنے کی دو
باتیں :::::
(5)جاری رہنے والی
نیکیاں اور صدقات جو مرنے والے چھوڑ گیا
رائی کا
پہاڑ
موت سے
متعلقہ امور کی
بِدَعات اور غلط
عقائد
::::: ( 1 ) نزع (جان نکلنے) کے وقت
کی بِدَعات اور
غلط عقائد :::::
::::: ( 2 ) موت سے لے کر غُسل کے وقت
کی بِدَعات اور
غلط عقائد :::::
::::: ( 3 ) مُردے کے
غُسل سے متعلق بِدَعات اور
غلط عقائد :::::
::::: ( 4
) تکفین سے متعلق بِدَعات اور
غلط عقائد :::::
::::: ( 5
) جنازہ لے کر چلتے وقت کی بِدَعات
اور غلط عقائد
:::::
::::: ( 6
) نمازءجنازہ سے متعلق بِدَعات
اور غلط عقائد
:::::
::::: ( 7
) کفن اور دفن متعلق بِدَعات
اور غلط عقائد
:::::
::::: ( 8
) تعزیت متعلق بِدَعات
اور غلط عقائد
:::::
:::::
( 8 ) قبروں کی زیارت سےمتعلق بِدَعات
اور غلط عقائد
:::::
::::: خصوصی وضاحت :::::
مُلحق رقم 1 ::: مسلمانوں کی قبروں کی تعظیم کی
حُدود:::
مُلحق رقم 2 ::: خلیل ، اور حبیب کا فرق :::::
پیش لفظ (مُقدمہ)
أعوذُ باللَّہِ مِن الشیطٰانِ الرَّجِیم و
مِن ھَمزِہِ و نفخہِ و نفثِہِ
بِسمِ
اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
اِنَّ
اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدُہٗ
وَ نَستَعِینُہٗ وَ
نَستَغفِرُہٗ وَ نَعَوُذُ
بَاللَّہِ مِن شُرُورِ
أنفُسِنَا وَ مِن سِیَّئاتِ
أعمَالِنَا، مَن یَھدِ ہِ اللَّہُ فَلا
مُضِلَّ لَہُ وَ مَن
یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہُ ، وَ أشھَدُ أن لا
إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ
وَحدَہُ لا شَرِیکَ لَہُ ، وَ
أشھَدُ أنّ َمُحمَداً
عَبدہٗ وَ رَسُولُہٗ ۔
﴿یَا أیُّھا
الذَّینَ آمَنُوا اتَّقوا
اللَّہَ حَقَّ تُقاتِہِ
وَ لا تَمُوتُنَّ
إِلَّا وَ أنتُم مُسلِمُونَ﴾
﴿یَا أیُّھا النَاسُ
اتَّقُوا رَبَّکُم الَّذی
خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَۃٍ
وَ خَلَقَ مِنھَا زَوجَھَا وَ بَثَّ
مِنھُمَا رِجَالاً کَثِیراً
وَ نِسا ءَ وَ
اتَّقُوا اللَّہ َ الذَّی تَسَاءَ لُونَ بِہِ
وَالأرحَامَ إِنَّ اللَّہَ
کَانَ عَلِیکُم رَقِیباً﴾
﴿یَا أیُّھا الذَّینَ
آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَ قُولُوا
قَولاً سَدِیداً O یُصلح لَکُم أعمَالَکُم وَ یَغفِر لَکُم
ذُنُوبَکُم وَ مَن یُطِعِ
اللَّہَ وَ رَسُولَہٗ فَقَد فَاز َ
فَوزاً عَظِیماً﴾
أ مَا
بَعدُ ؛ فَإنَّ أصدَق َ الحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ ، وَخیرَ الھُدٰی ھُدٰي مُحمَّدٍ
صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، وَ
شَرَّ الأمُورِ مُحدَثَاتُھَا
، وَ کَلَّ
مُحدَثَۃٍ بِدَعَۃٌ، وَ
کُلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ ، وَ
کُلَّ ضَلالۃٍ فِی
النَّارِ ـ
اِن اِلفاظ
کو خُطبۃُ الحاجہ کہا جاتا ہے اور
یہ وہ اِلفاظ ہیں جِن سے رَسولُ
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے خُطبات
، دروس
، اور وعظ
کا آغاز فرمایا
کرتے تھے ،
رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اُسوہِ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے میں
بھی اپنی بات کا آغاز
اِسی خُطبہ سے کر رہا
ہوں شیخ الاسلام
ابن تیمیہ رحمہُ
اللہ کا فرمان ہے کہ """یہ خُطبہ
نظامِ اِسلام اور
ایمان میں گِرہ
کی حیثیت رکھتا
ہے """مگر افسوس
کہ ہمارے نظامِ زندگی
میں جو جو
گِرہ اللہ اور
رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
لگائی اُنہیں ہم
کھولے جا رہے
ہیں اور جو
جو دُشمنانِ دین نے لگائی
ہیں اُن پر پُھونک پُھونک کر
ہم اُنہیں پکا
کیے جا رہے ہیں ،
کھولنا تو درکنار
کھولنے کا ذِکر بھی
گوارا نہیں کرتے ۔
ہماری
اُمت پر آنے
والی مصیبتوں میں سے ایک بہت
بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے بہت سے دینی
مسائل اور بہت
سے معاشرتی معاملات کی شکلیں
بگاڑ کر ہماری
زندگیوں میں اُنہیں رائج
کر دیا گیاہے ،
اور ہماری اکثریت ،
جہاں کہیں سے ، جو کُچھ
، جِس
حالت میں بھی مِل رہا ہے اُسے
بِلا حیل و حُجت قبول
کر کے اُس
پہ عمل کیے چلی
جا رہی ہے ،
یہ دیکھے اور سوچے بغیر کہ جو
کُچھ دین اور
اِسلام کے نام پر
ہمیں دیا جارہا
ہے کیا واقعتًا یہ
دینِ اِسلام میں سے
ہے بھی یا نہیں
اور جِس کے پاس جو
کُچھ ہے اُس کی سچائی
کی چھان بین کیے
بغیر وہ اُس
پر خوش اور
راضی ہے جیسے کہ
اللہ تعالیٰ نے گروہ
بندی اور جماعت
بندی کی مذمت
کرتے ہوئے فرمایا
:
﴿کَلُّ حِزبٍ
بِمَا لَدِیھِم فَرِحُونَ::: اور
ہر گروہ اُس پر
خوش ہے جو کُچھ اُس کے
پاس ہے﴾سُورت الروم/ آیت 36،
اور اِس سے بڑھ کر مصیبت
یہ ہے کہ ﴿وَ إِذا قِیلَ لَھُم اتَّبِعُوا مَا أنزَلَ اللَّہُ قَالُوا
بَل نَتَّبِعُ مَا ألفَینَا عَلِیہِ اَبَآءَ نَا :اَوَ لَو کَانَ اَبَآؤُ ھُم لَا یَعقِلُونَ شِیئاً
وَ لَاھُم یَھتَدُونَ:::اور
جب اُنہیں کہا
جاتا ہے کہ جو کُچھ اللہ نے
نازل کیا ہے اُسکی اِتباع
(اُس پر عمل ) کرو تو (یہ )کہتے
ہیں کہ ہم تو اُسکی
اِتباع (اُس پر عمل )کریں
گے جِس پر ہم
نے اپنے آبا ءَ
و اجداد (بڑے
بزرگوں )کو پایا ہے
، خواہ اُن کے آبا
ءَ و اجداد(بڑے ، بزرگ )نہ تو
کوئی سمجھ رکھنے والے
ہوں اور نہ
ہی ھدایت یافتہ ہوں؟﴾ سُور ت
البقرہ / آیت 170،
اللہ تعالیٰ کے
اِس فرمان کے عملی
نمونے آج بھی
ہمیں اپنے اِرد گِرد
نظر آتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم
سب کو ہر گُمراہی سے
محفوظ رکھے ۔
اِیصالِ ثواب
بھی اِن
بگاڑ دیے گئے مسائل میں سے ایک
مسئلہ ہے اور حسبِ
عادت اِس مسئلے
کو بھی اندھی تقلید اور
آبا ء و اجداد کی
پیروی کی بُنیاد
پر اِختلافی اور
نزاعی مسئلہ بنا لیا
گیا ہے ، اگر
دِل و دماغ
سے تعصب کی پٹی
اُتار کر تحقیقی نظر سے
دیکھا جائے تو معلوم ہوتا
ہے کہ یہاں بھی بہت سے
دوسرے مسائل کی طرح
اصل میں کوئی
اِختلاف ہے نہیں ، بلکہ اِختلاف
پیدا کر لیا گیا ہے ،
کِسی چیز کو اُس
کی اصل جگہ سے
ہٹا کر کِسی اور جگہ
پر پُہنچا دینا
بھی ہمارے دینی مشغلوں میں سے ایک
مشغلہ ہے ،
اور یہ ِ شر ہے
، کیونکہ خیر
اور شر کی
تعریف یہ کی
گئی ہے """ کِسی
چیز کو اُس
کی درُست جگہ
پر رکھنا خیر ہے اور
غلط جگہ پر رکھنا
شرّہے """،
اِسی شرّ کا
شِکار ہو کر
اِیصالِ ثواب کو بھی اُس کی
جگہ سے اُٹھا
کر کہیں کا کہیں پُہنچا دیا
گیا ہے ،
اب
حالت یہ ہو چُکی
ہے کہ نہ تو مرنے والے
کو چین سے
مرنے دیا جاتا
ہے یعنی مرنے سے
پہلے ہی اُسے
اپنے لیے ایصالِ ثواب
کے انتظامات میں مشغول کر دیا جاتا
ہے ، اور نہ
ہی مرنے کے بعد مُردے
اور اُسکے لواحقین کو آرام یا سکُون پُہنچایا
جاتا ہے بلکہ ایسے
کام کرنے اور کروانے کا چلن
ہو گیا ہے جِن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، نہ
ہی آگے جانے والوں کو
اور نہ ہی
پیچھے رہ جانے والوں
کو ، البتہ یہ کام کروانے
والے کُچھ دُنیاوی
فائدہ ضرور حاصل کر لیتے ہیں ،
کھانے پینے کو مزے
دار چیزیں مِل جاتی
ہیں ، کپڑے لتّے کا
بھی کُچھ اِنتظام
ہو جاتا ہے ،
اور بسا اوقات
نقد بھی مل جاتا
ہے ، بلکہ وہ
لوگ جو دوسروں
سے یہ کام
کرواتے ہیں اُنکا
مقصد تو یہی ہے کہ نقد
دیا جائے، کُھل
کر مُدعا بیان
کر نہیں سکتے
لہذا فرماتے ہیں کہ """سب سے
افضل اور بہتر
صورت تو یہی ہے کہ
مستحقین کو نقد
تقسیم کر دیا جائے کیونکہ
نہ معلوم اِنہیں کیا ضرورت
ہے """،ولا
حول ولا قوۃ الا باللہ ، وھوَ
المُستعان و إلیہ اشتکی،
یہ افسوسناک فتویٰ
ایک بڑے معروف عالم کا ہے ، جنہیں
مفتی، بلکہ ایک زمانے میں مُفتی اعظم ہونے کا اعزاز بھی مہیا تھا ،
کوئی پُوچھے تو کہ
افضل اور
مفضُول ، بہتر
اور کمتر ، میں
فرق کرنے کے لیے کون
سا پیمانہ اِستعمال
کر کے اِس قِسم
کے فتوے دیے
جاتے ہیں اللہ جانے کہ
اِس قسم کے فتوے دینے
والے جو کہ بُہت
بڑے عالِم نبے
ہوتے ہیں ، اور
اِن فتووں پر
عمل کروانے والے
جو ذرا کُچھ
چھوٹے عالِم ہوتے
ہیں ، مگر
ہوتے عالِم ہی
ہیں ، اللہ
تعالیٰ کا یہ
فرمان کیوں یاد
نہیں رکھتے ::
﴿قُل ھَل نُنَبِئُکُم
بِالأَخسَرِینَ أعمَالاً Oالذَّینَ ضَلَّ سَعیُھُم فَی الحَیاۃِ الدُنیا
وَ ھُم یَحسَبُونََ أنَّھُم
یُحسِنُونَ صُنعَاً:::فرمایے(اے
نبی )کیا ہم تُمہیں اُن کی
خبر نہ
دیں جِن کے اعمال
بہت زیادہ خسارے والے
ہیں O یہ
وہ لوگ ہیں جِن
کی ساری کوشش دُنیا کی
زندگی میں بھٹکی
ہوتی ہے اور یہ
سمجھتے کہ وہ بہت اچھے
کام کر رہے ہیں﴾ سُور ت الکھف/آیات 104,103،
اِن جیسے عُلماء کرام،مُفتیانِ عظام
، اِمام الأنبیاء
رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ
فتویٰ کیوں بُھول جاتے
ہیں کہ ﴿بَشِّرھَذِہِ الاُمَۃَ
بِالسَّنَا ءِ وَ التَمکِینِ فِی البِلادِ
وَ الرَّفعَۃِ فی الدِینِ، و َمَن عَمِلَ مِنھُم
بِعَمَلِ الآخرِۃ ِ للدُنیا،
فَلیسَ لَہُ فِی الآخرِۃِ
مِن نصِیبٌ:::اِس اُمت کو
بُلند ر تبوں اور
ملکوں میں اُس کی مضبوطی اور
دین کی بُلندی کی خُوشخبری
دو ، اور اُن
(میری اُمت کے لوگوں )میں
سے جِس نے آخرت کا
کوئی کام دُنیا
کے کِسی مقصد کے لیے کیا تو اُس کے
لیے آخرت (کی خیر )میں
کوئی حصہ نہیں﴾
اِس حدیث شریف کو اِمام
احمد اور اُنکے بیٹے
عبداللہ نے زوائد المسند میں ، اِمام
ابنِ حبان نے ا
پنی صحیح
میں ، اور
اِمام الحاکم نے اپنی
المُستدرک میں اِس حدیث
کو روایت کیا ،
اور اسے صحیح قرار
دیا ، اِمام
الذھبي نے بھی
اِمام الحاکم کی
بات کو درست
قرار دیا ، إِمام
الالبانی نے کہا کہ عبداللہ
ابن احمد کی
سند اِمام بُخاری
کی شروط کے مطابق صحیح ہے ۔رحمہم اللہ جمعیاً ۔
تو دُنیا کی
چند چیزیں حاصل کرنے کے لیے دِین کی آڑ
لینے والے اللہ
تعالیٰ اور رَسُول
اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم کے اِن اِرشادات پر
ذرا غور فرمائیں
اور اپنی اور دوسروں
کی آخرت تباہ
نہ کریں ، نہ
خود شیطان کا
کھلونا بنیں اور نہ ہی دوسروں
کو شیطان کے ہاتھوں
میں پہنچائیں ،
یہ بدبخت تو
ہر وقت اِنسان
کو دھوکہ دیتا
رہتا ہے ، کِسی کے مرنے کے
بعد اُس کے لواحقین
کو سب سے زیادہ
جِس بات کے
ذریعے شیطان بھٹکاتا
ہے ، وہ ہے مرنے
والے کے لیے اُس کے ساتھ یا اُس
کے بعد
کُچھ ثواب پہنچوانا، اسی عمل کو """ اِیصالِ
ثواب """ کہا جاتا ہے ،
کُچھ لوگ تو مرنے
والے کے مرتے ہی اُسے
ثواب پُہنچانا شروع کر دیتے
ہیں اور کُچھ لوگ مُردہ
دفنانے کے بعد شروع کرتے
ہیں ، اِن کاموں
میں سے جو کہ
اِس موقع پر
کیے یا کروائے
جاتے ہیں ،
کیا درست ہے اور کیا
نہیں ؟
الحمد للہ ، اِس کتاب میں اِس مسئلہ کو قُران کریم
اور صحیح سُنّت مبارکہ کی روشنی
میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا
ہے ، اور الحمد للہ یہ بھی
بیان کیا گیا ہے
کہ ہماری شریعت مُطھرہ
میں وہ کون سے
کام ہیں جِن کا
ثواب اِنسان کے
مرنے کے بعد اُسے
پُہنچتا ہے ۔
میں نے اِس
کِتاب کو آسان
اور بالکل عام
فہم زبان میں
لکھا ہے اور ہر
ممکن کوشش کی
ہے کی ایسے
اِلفاظ اِستعمال نہ
کیے جائیں جِنہیں سمجھنا پڑہنے والوں
کے لیے مُشکل
ہو ، ہو
سکتا اِس وجہ
سے پڑہنے والوں
کو کئی الفاظ
یا جملے لغوی قواعد کے خلاف محسوس
ہوں ،
ایسی کسی غلطی پر نظر کرنے والے قاری سے گذراش ہے کہ وہ
مذکورہ بالا بات کو یاد رکھے ، کہ میں نے اِس کتاب کو لکھتے ہوئے الفاظ کی لغوی
درستگی اور خوش نمائی کی طرف کچھ توجہ نہیں رکھی، اور نہ ہی ادبی رنگینی کی طرف ،
میرا ہدف عام قاری کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانی سے سمجھ میں آنے والے اسلوب میں
لکھنا تھا ،اسی لیے اُردُو کی لکھائی کے عام معمول سے ہٹ کر میں نے اُردُو عبارات
پر بھی ضروری أعراب کو مسلسل ظاہر کیا ہے
،
قُرآن حکیم کی آیات شریفہ ، أحادیث
مُبارکہ، اور ائمہ (اِماموں )رحمہم اللہ جمعیاً کے اقوال (باتوں) کا ترجمہ بھی سلیس ز ُبان
میں کِیا ہے
، جہاں جہاں
جو کُچھ قوسین (
)کے درمیان ہے
وہ بات کی
روانی برقرار رکھتے
ہوئے اُس کے معنی
اور خاص طور
پر اُس بات
کے مفہوم کو
واضح ترین کیے جانے کی غرض سے
اضافہ ہے ، تا کہ پڑھنے والا تعلیمی
اعتبار سے خواہ کِسی بھی
طبقے سے تعلق رکھتا
ہو بات کو اچھی طرح
سے سمجھ سکے
، اِن شاءَ اللہ
تعالیٰ ۔
ہر اچھائی کی
توفیق اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ہوتی
ہے ، اور ہر غلطی
نفس کی جانب
سے ، اور معصوم
سِوائے نبیوں اور
رَسُولُوں کے کوئی نہیں
ہوتا ، لہذا قارئین سے
گُذارش ہے کہ اگر
وہ میری کِسی غلطی
کو پائیں تو
مجھے اُس کی
اِطلاع ضُرور کریں
، تا کہ اُس کی
اِصلاح کی جا
سکے ، اِن شاء
اللہ ُ تعالیٰ ۔
اللہ تعالیٰ میری
اِس کوشش کو
پڑھنے اور سُننے
والوں کی ہدایت
کا ذریعہ بنائے
ا ور اِسے قبول فرمائے اور مُجھ پر
راضی ہو ،
اور میرے اور
ہر اُس مُسلمان بھائی
کے آثار صالحہ
اور عِلمِ نافع
میں شامل فرمائے
جِس نے اِس
کی تیاری اور اِشاعت
میں میری مدد
کی ۔
عادِل سُہیل ظفر ، بتاریخ ، یکم
، جمادی الثانی
1426
ہجری /// متبادل2005/7/7 عیسوی۔
دوسرے اصدار کا مقدمہ
الحمد للہ ، اس کتاب کا پہلا اصدار تو 2005 عیسوئی میں ہی چھپ کر نشر ہو چکا ، اُس کے بعد ایک عرصہ
تک اِس کتاب کی کتابت کے رنگ و ڈھب کو تبدیل کرنے ، اور اس میں کچھ اضافے کرنے کی
نیت سے روکے رکھا،
اب اللہ کی عطاء کردہ توفیق سے اِس کا دوسرا اصدار تیار کر
پایا ہوں ۔
اِس اصدار میں کئی عبارات میں ایسے اضافے کیے گئے ہیں جو عبارات کو مزید آسان
فہم کرنے والے ہیں ، اور "نذر " ماننے اور پورا کرنے کے بارے میں بھی
بنیادی اور أہم معلومات شامل کی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل کتاب کے آن لائن مطالعہ کے لیے اور برقی نسخہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل ربط کی زیارت فرمایے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔