::::::: نماز میں سُترہ یعنی آڑ کی تعریف اور أحکام :::::::
بِسّمِ اللہِ ، و الحَمدُ
للہ وَحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیَ مَن لا نَبیَّ بَعدَہُ و عَلیَ آلِہِ واَصحَابِہِ
و أزوَاجِہِ و مَن تَبِعَھُم باِحسَانٍ اِلی یومِ الدِین::: شروع اللہ کے نام سے جو یک و تنہا ہے ، اور (اللہ کی) رحمت اور سلامتی ہے
اُس(محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں ،
اور اُس کی آل پر اور اُس کے اصحاب پر اور اُس کی بیگمات پر اور جنہوں نے ٹھیک طور
پر اُن سب کی پیروی کی اُن پر ،
السلامُ علیکم ورحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
نماز پڑھتے ہوئے ہر ایک نمازی
کے لیے واجب ہے کہ وہ کسی چیز کی آڑ لے کر نماز پڑھے ، اس چیز کو """سُترۃٌ """ کہا جاتا ہے ، جس کا اُردُو
تلفظ """سُترہ
""" ہو گا ، وہ چیز کیسی
ہونا چاہیے ؟؟؟ اور کس کس کے لیے واجب ہے؟؟؟ اور کہاں کہاں واجب ہے؟؟؟اِس کے بارے میں تفصیلات ابھی بیان کی جائیں گی اِن
شاء اللہ ،
اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام مُبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں :::
::::: (1) :::::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا کہنا
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لا تَصلِّ إلا إلى سُترةِ ولا تَدعَ أحدًا يَمُرُ بَينَ
يَديكَ فَإن أبىٰ فَلتُقَاتِلهُ فَإن مَعهُ القَرِين :::
تُم سُترہ کی طرف رخ کیے بغیر نماز مت پڑھو اور نہ ہی کسی کو
اپنے سامنے سے گذرنے دو (یعنی اسے روکو) اور اگر وہ باز نہ آئے تو اس کے ساتھ
جھگڑا کرو ﴾ المُستدرک الحاکم / حدیث 921 / کتاب الطہارۃ / باب
التأمین ، صحیح ابن حبان/حدیث 2369 ، (صحیح ابن حبا ن کی روایت میں
""" لا تَصلُّوا
إِلاّ إِلى سُترةِ ::: تم لوگ سُترہ کی طرف
رخ کیے بغیر نماز مت پڑھو""" ہے ،اس میں جمع کے صیغے میں
سب کو مخاطب کر کے حُکم دیا گیا ہے جو اس
بات کی تاکید ہے کہ یہ حُکم کسی ایک شخص کے لیے نہیں ، یعنی خاص نہیں بلکہ عام ہے ، اور کسی ایک جگہ
کے لیے نہیں ، بلکہ ہر جگہ اور مسجد کے لیے ہے ، نہ تو اس میں سے مسجد الحرام میں نماز پڑھتے ہوئے کوئی رخصت ہے اور نہ ہی
مسجد نبوی میں )
::::: (2) ::::: سھل بن ابی حثمۃ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا صَلَّى أحدكم فَليُصَلِّ إلى سُترَةٍ وَليَدنُ مِنهَا لا يَقطعُ الشَّيطانُ عَلِيهِ صَلاتَهُ ::: جب تُم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سُترہ کی طرف (رُخ کر کے )نماز
پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے (تو ایسا کرنے کی وجہ سے )شیطان اس کی نماز کاٹ نہ
سکے گا﴾ المُستدرک
الحاکم /حدیث 922/کتاب الطہارۃ /باب
التأمین ،
::::: (3) ::::: ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ سے ان کے بیٹے
عبد الرحمٰن روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد
فرمایا ﴿ إذا صَلَّى أحدكم
فَليُصَلِّ إلى سُترَةٍ وَليَدنُ مِنهَا ولا يَدَع أَحَدًا يَمُرُّ
بين يَدَيهِ فَإِن جاء أَحَدٌ يَمُرُّ فَليُقَاتِلهُ فإنه شَيطَانٌ ::: جب تُم
میں سے کوئی نماز پڑھے تو سُترہ کی طرف
(رُخ کر کے ) پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے اور اپنے سامنے (یعنی اپنے اور سُترہ کے
درمیان میں )سے کسی کو گذرنے نہ دے اور
اگر کوئی آئے (اوروہاں سے )گذرے تو (نمازی ) اس کے ساتھ جھگڑا کرےبے شک وہ
(گذرنے ) والا شیطان ہے﴾سنن ابو داؤد /حدیث 954 /کتاب الصلاۃ و السُنّۃ فیھا /باب 39 ،
:::::
(4) :::::
انہی ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إذا صَلَّى أحدكم إلى شَيءٍ يَستُرُهُ مِن الناس فَأَرَادَ أَحَدٌ أَن يَجتَازَ بين يَدَيهِ فَليَدفَعهُ فَإِن أَبَى
فَليُقَاتِلهُ فَإِنَّمَا هو شَيطَانٌ ::: جب تُم میں سے
کوئی کسی ایسی چیز کی طرف (رُخ کر کے ) نماز پڑھے جو اسے لوگوں سے آڑ میں رکھے اور
(پھر ) کوئی یہ ارادہ کرے کہ وہ اس کے سامنے سے گذرے (یعنی اس نمازی اور اس کے
سُترے کے درمیان سے گذرے) تو نمازی اسے دھکا دے اور اگر گذرنے والا باز نہ آئے تو
نمازی اس کے ساتھ جھگڑا کرے بے شک وہ گذرنے والا شیطان ہے ﴾صحیح البُخاری /حدیث487 /کتاب الصلاۃ /ابواب سُترۃ المُصلی
/باب 10، صحیح مُسلم /حدیث505 /کتاب
الصلاۃ /باب48 ،
::::::
فقہ الاحادیث الباب ::::::: موضوع سے متعلق اِن احادیث مُبارکہ میں بیان کردہ
مسائل :::::::
:::::
(1) ::::: سُترہ لے کر ، یعنی کسی چیز کے پیچھے اس کی آڑ
لے کر نماز پڑھنا واجب ہے ، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا
حُکم ہے اور """علم اصول الفقہ """میں اللہ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
طرف سے دیے گئے حُکم کے بارے میں یہ ایک
طے شدہ قانون ہے کہ """ الامر یقتضی الوجوب """
یعنی """ حُکم واجب یعنی فرض ہونے کا تقاضا کرتا ہے
""" ، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیشہ اس پر
عمل فرمایا ہے ، اس کا ذِکر ان شاء اللہ آگے کروں گا ، پس بعض فقہا
شافعیہ کی طرح اس
""" امر """ کو ""' استحباب
""" کے طور پر بھی نہیں
لیا جا سکتا ،
::::: (2) ::::: نمازی کے سامنے سے ، خاص طور پر اس کے اور اس
کے سُترہ کے درمیان سے گذرنا سخت گناہ ہے
، اور ایسا کرنے والا اس وقت بُری طرح اُس
شیطان کے زیر اثر ہوتا ہے جو اُس کے ساتھ ہوتاہے ، (اس کے بارے میں وضاحت """کھڑے ہو کر کچھ کھانے پینے کا شرعی حُکم ،اور
اُس کی حِکمت""" میں موجود ہے )اسی لیے نبی اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس گذرنے
والے کو ہی اُس شیطان سے اتنی مشابہت
دی کہ اسے ہی شیطان فرما دیا ،
::::: (3) ::::: اگر کوئی نمازی
کے سامنے سے گذرنا چاہے تو نمازی اس کو روکے ، اور اگر وہ زبردستی گذرنا ہی چاہے
تو نمازی اس سے جھگڑا کرے ، کیونکہ نمازی کےسامنے سے گذرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ
گذرنے والے کو اس سے روکا ہی جانا چاہیے ،
(یہ ایک الگ
مسئلہ ہے ان شاء اللہ اس کا بیان بھی ایک الگ موضوع کے طور پر کروں گا ، اور ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ یہ پورا
واقعہ بھی بیان کروں گا جس میں ان معاملات
کی شدت کا واضح ثبوت ہے)
:::::
(4) ::::: سُترہ لینے کا حُکم ہر ایک نمازی کے لیے ، اور
ہر جگہ کے لیے اس حُکم میں سے کسی جگہ کو
خارج سمجھنے یا قرار دینے کی کوئی دلیل میسر نہیں ، پس اگر کوئی مسجد الحرام یا
مسجد بنوی الشریف علی صاحبہ الصلاۃ و السلام میں بھی نماز پڑھتا ہے تو اس پر واجب
ہے کہ وہ اپنی نماز سُترہ لے کر اس کے
پیچھے کھڑا ہو کر ادا کرے ، اس کی دلیل ابھی ذکر کی جائے گی ان شاء اللہ ،
یہاں تک کی بات سے یہ واضح ہوا کہ کسی بھی نمازی کے
لیے واجب ہے کہ وہ کہیں بھی نماز پڑھتے ، نماز با جماعت کی صورت میں اِمام پر واجب ہے کہ
وہ کسی چیز کو """ سُترہ
""" اختیار کرے اور اس کے پیچھے ، اس کی آڑ میں نماز پڑھے ،
::::::: ایک مسئلہ :::::::: امام کا سُترہ تمام مقتدیوں کے لیے کافی ہے ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ﴿إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤتَمَّ بِهِ ۔۔۔۔۔::: بے شک امام کو اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے (نماز
کا)اتمام ہو ۔۔۔۔۔﴾صحیح البُخاری /حدیث689 /کتاب الجماعۃ و الاِمامۃ /باب45 ، صحیح مُسلم /حدیث411 /کتاب الصلاۃ /باب 19،
اور اس کے علاوہ
خاص طور پر سُترہ کے معاملے میں امام کے سُترے کا مقتدیوں کے لیے کافی ہونے کی
خصوصی دلیل کا ان شاء اللہ ابھی ذکر کروں گا ،
::::: سُترہ کی پابندی کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کا عمل ::::: اس کے بعد ہم یہ
دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خود نماز کے لیے سُترہ کے
بارے میں کس طرح عمل فرماتے تھے ، تا کہ ہمیں اس کام کی اہمیت کا مزید اچھی طرح سے
اندازہ ہو جائے اور ہم کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر نماز کے لیے سُترہ لینے کا
مسئلہ معمولی نہ سمجھیں یا اسے صرف مُستحب یعنی پسندیدہ کام سمجھ کر کبھی کر لیا
اور کبھی چھوڑ دیا کے مخمصے میں نہ رہیں ،
::::: گھر میں
سُترہ کا حُکم ::::::
ایمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ
رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے"""""أَعَدَلتُمُونَا بِالكَلبِ وَالحِمَارِ لقد
رَأَيتُنِي مُضطَجِعَةً على السَّرِيرِ ﴿فَيَجِيءُ النبي صلّی
اللہ عَلیہِ وعَلیٰ آلہِ وسلَّمَ
فَيَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ فَيُصَلِّي ﴾فَأَكرَهُ أَن أُسَنِّحَهُ فَأَنسَلُّ من قِبَلِ رِجلَي السَّرِيرِ حتى
أَنسَلَّ مِن لِحَافِي :::تُم لوگوں نے ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے
برابر بنا دیا ہے (***) جب کہ اکثر ایسا ہوا کہ میں بستر پر لیٹی ہوتی تھی اور﴿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تشریف
لاتے اور بستر کے درمیان (کی سِیدھ)میں
نماز ادا کرتے ﴾تو میں یہ پسند نہ کرتی کہ میں ان کے سامنے سے ظاہر ہو کر (یعنی کھڑی ہو کر ) نکلوں تو میں آہستگی سے (نیچے نیچے سے کھسک)اپنے لحاف
سے نکل جاتی﴾صحیح البُخاری /حدیث486 /کتاب الصلاۃ /ابواب سُترۃ المُصلی
/باب 9،
::::: فقہ الحدیث
:::::
::::: (1) :::::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ
کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے لیے اُن کے ادب کی ایک واضح دلیل ہے
::::: (2) ::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ کا یہ
عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عبادات میں مخل نہ ہونے اور ان صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عبادت کرنے کے
لیے توجہ تبدیل نہ کر دینے والا ماحول میسر کرنے کی کوشش کی دلیل ہے
::::: (3)
::::: کسی آڑ یا پردے کے بغیر ، کسی انسان کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھنا بالکل
جائز ہے ، خواہ وہ لیٹا ہی ہو ،
::::: (4) :::::کسی انسان کو بھی سُترہ بنایا جا سکتا ہے ،
::::: (5)
::::: اگر کسی انسان کو سُترہ بنایا جائے
اور وہ نمازی کی نماز کے درمیان ہی اُٹھ کر سامنے سے ہٹ جائے تو نمازی کی نماز میں
کوئی کمی نہیں ہوتی ،
::::: (6)
::::: سُترہ لینا گھر میں بھی واجب ہے جہاں
کسی کے سامنے سے گذرنے کا کوئی امکان نہیں ،
::::: (7) ::::: جب تک کوئی
نمازی کے سامنے سے مکمل طور پر ایک طرف سے دوسری طرف نہیں گذرتا اس کا گذرنا
ممانعت کے زمرے میں نہیں آتا ، اور نماز کاٹنے کے زُمرے میں نہیں آتا ،
(***) ایمان والوں کی والدہ محترمہ رضی
اللہ عنہا کا یہ فرمان ایک دوسری حدیث کے عام
لفظی مفہوم کا انکار ہے ، اور یہ
انکار ہمارے لیے اس حدیث پاک میں سے نئے مسائل اور مفاہیم سمجھنے کا سبب ہے ، اُس
حدیث کا ذکر ان شاء اللہ:::سُترہ کی مقدار :::میں ہو گا ، اور
اس کی وضاحت ان شاء اللہ ::::: گھر میں
سُترہ کا حُکم :::::: میں کروں گا ، اور ایمان والوں کی والدہ محترمہ رضی اللہ
عنہا کے اس انکاری جملے کی کچھ شرح بھی ان
شاء اللہ ،
::::: کعبہ
کے اندر سُترہ کا حُکم ::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے کعبہ کے اندر بھی سُترہ کے احکام کو عملی طور پر برقرار رکھا ، اور کعبہ
کی دیوار سے صرف ڈیڑھ بازو کے برابر کی دوری پر قیام فرما کر نماز پڑھی ، صحیح البُخاری /کتاب الصلاۃ /ابواب سُترۃ
المُصلی /باب 7کی تین احادیث ، صحیح ابن خزیمہ / حدیث 3011
/باب ذكر القدر الذي جعل النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بين مقامه الذي صلى فيه بين الكعبة وبين الجدار،
::::: فقہ الحدیث
::::: سُترہ لینے اور اس
کے قریب ہو کر نماز پڑھنے کا حُکم ہر جگہ
کے لیے یکساں ہے حتیٰ کہ کعبہ شریف کے اندر بھی اس کی کسی دیوار کو سُترہ بنایا
جائے گا اور اس کے قریب ہوا جائے گا ،
::::: مسجد میں سُترہ کا حُکم :::::
یزید بن ابی عبید رحمہ ُ اللہ
کا کہنا ہے کہ """ میں سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز
کے لیے (مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلاۃ والسلام ) آیا کرتا تھا اور دیکھتا تھا
کہ وہ مُصحف ( عُثمان رضی اللہ عنہُ کے لکھوائے ہوئے قُران) کے پاس والے ستون کے
پاس (یعنی اس کی طرف رُخ کر کے )نماز پڑھتے ہیں ، تو میں نے ان سے کہا ، اے ابا
مُسلم آپ ہمیشہ اس ستون کے پاس (یعنی اس کی طرف رُخ کر کے )ہی نماز کیوں پڑھتے ہیں
تو انہوں نے جواب دیا ﴿فَإِنِّي رأيت النبي صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّم يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِندَهَا ::: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ اس ستون
کے پاس (یعنی اس کی طرف رُخ کر کے )نماز پڑھتے تھے ﴾صحیح البُخاری / حدیث 480/ کتاب الصلاۃ
/ابواب سُترۃ المُصلی /باب6
،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلاۃ والسلام میں سُترہ لیتے تھے اور فرض کے علاوہ
اپنی نمازیں مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلاۃ والسلام کے ستونوں کی طرف رخ کر کے
ادا کیا کرتے تھے اور ستونوں کے پیچھے اپنی جگہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پہل
کیا کرتے تھے ، صحیح البُخاری / حدیث 481/ کتاب الصلاۃ
/ابواب سُترۃ المُصلی /باب6
، صحیح مُسلم / حدیث509
/کتاب الصلاۃ /باب 49 ،
::::: فقہ الحدیث ::::: مسجد
نبوی شریف علی صاحبہ الصلاۃ والسلام ، اور مسجد الحرام میں بھی سُترہ کے احکام سے
کوئی چُھوٹ یا استثناء نہیں ،
::::: کسی کھلی
جگہ میں یعنی کسی عمارت سے باہر سُترہ کا حُکم :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم گھر اور مسجد کے علاوہ جب کہیں باہر ہوتے ، یعنی
کسی کھلی جگہ ، کسی عمارت سے باہر ہوتے تو
بھی سُترہ کا خاص اہتمام فرماتے اور مخلتف
چیزوں کو اپنے سامنے سترے کے طور پر استعمال فرماتے ، اس بارے میں کئی صحیح روایات میسر ہیں ، مثلاً :::
::::: (1) :::::
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ """ أَنَّ النبي صَلّی
اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّم
كان يُركَزُ له الحَربَةُ فَيُصَلِّي
إِلَيهَا :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
لیے """ حربہ """ گاڑا جاتا تو وہ اس کی طرف (رُخ
مبارک فرما کر ) نماز پڑھتے ﴾صحیح البُخاری / حدیث 476/کتاب الصلاۃ /ابواب سُترۃ المُصلی / کے باب رقم 3،(حربہ اور عَنزہ حبشہ یعنی موجودہ ایتھوپیا کے لوگوں کا ایک
ہتھیار کا عربی نام ہے ، یہ ہتھیار بیک وقت ہاتھ میں تھامنے والے متوسط لمبائی کے
ڈنڈے اور نیزے کا کام دیتا تھا )
اور صحیح مُسلم کی روایت میں یہ
وضاحت بھی ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عید والے دن جب وہ بستی سے باہر کھلی جگہ میں
عید کی نماز پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے اور اپنے ہر سفر میں ہمیشہ ہی ایسا
فرمایا کرتے تھے انہی عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ ﴿ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ
وعَلی آلہِ وسلّم كان إذا خَرَجَ
يوم العِيدِ أَمَرَ بِالحَربَةِ فَتُوضَعُ بين يَدَيهِ فَيُصَلِّي إِلَيهَا
وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ وكان يَفعَلُ ذلك في السَّفَرِ فَمِن ثَمَّ اتَّخَذَهَا
الأُمَرَاءُ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب
عید والے دن (نماز کے لیے ) باہر تشریف لے جاتے تو حربہ (گاڑنے ) کے لیے حُکم
فرماتے تو حربہ ان کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس کی
طرف (رُخ مبارکہ فرما کر) نماز ادا کرتے اور لوگ ان کے پیچھے ہوتے اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سفر میں ایسا ہی کیا کرتے تھے پھر وہاں سے (یعنی رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس عمل مبارک سے) حکمرانوں نے بھی یہ کام
اختیار کر لیا ﴾صحیح مُسلم / کتاب الصلاۃ
/حدیث 501 ، باب49 سُترۃِ المُصّلیِ
::::: (2) ::::: ابی جُحیفہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ﴿ خَرَجَ
عَلَينَا رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّم بِالهَاجِرَةِ فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ
فَتَوَضَّأَ فَصَلَّى بِنَا الظُّهرَ وَالعَصرَ وَبَينَ يَدَيهِ عَنَزَةٌ
وَالمَرأَةُ وَالحِمَارُ يَمُرُّونَ مِن وَرَائِهَا ::: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمارے پاس ھاجرہ(مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے) میں تشریف لائے ، انہیں وضوء کا
پانی پیش کیا گیا تو انہوں نے وضوءُ فرمایا او ہمیں ظہر اور عصر کی نمازپڑھائی اور
ان کے سامنے """ عَنزہ """ (گاڑا ہوا) تھا ، اور
عورتیں اور گدھے اس """ عَنزہ """ کے پیچھے سے گذر
رہے تھے ﴾صحیح البُخاری / حدیث 477/ کتاب الصلاۃ
/ابواب سُترۃ المُصلی /باب4
الصّلاۃ الی العَنزۃِ،
اس سے اگلے ہی باب میں انہی
ابی جُحیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کچھ مختلف الفاظ میں ہے جس سے یہ امام بُخاری
رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ مکہ المکرمہ میں بھی سترے کا وہی حُکم ہے جو کسی
اور جگہ ہے ، یعنی کسی جگہ بھی سترے کے حُکم سے استثناء نہیں ، اس روایت کے الفاظ
یہ ہیں ﴿خَرَجَ رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّم بِالهَاجِرَةِ فَصَلَّى بِالبَطحَاءِ الظُّهرَ وَالعَصرَ
رَكعَتَينِ وَنَصَبَ بين يَدَيهِ عَنَزَةً وَتَوَضَّأَ فَجَعَلَ الناس
يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ھاجرہ میں تشریف
لائے اور بطحاء میں ظہر اور عصر دو دو رکعت نماز ادا کی
اور اپنے سامنے عَنزہ گاڑا اور وضوء فرمایا تو لوگ اُن صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم کے وضوء سے بچے ہوئے پانی سے مسح
کرنے لگے (یعنی اپنے چہروں وغیرہ
پر ملنے لگے ) ﴾صحیح البُخاری / حدیث 479/ کتاب الصلاۃ
/ابواب سُترۃ المُصلی /باب5
بَاب السُّترَةِ بِمَكَّةَ وَغَيرِهَا، کچھ مزید وضاحت اور مختلف الفاظ کے ساتھ یہ واقعہ صحیح مُسلم / کتاب الصلاۃ
/حدیث 503 ، باب49 سُترۃِ المُصّلیِ میں بھی ہے ،
::::: فقہ
الاحادیث :::::
::::: (1) ::::: مذکورہ بالا احادیث کے مطالعے سے یہ بات زیادہ
یقینی ہو جاتی ہے کہ گھر ، باہر ، مسجد ، مکہ المکرمہ یا کسی بھی جگہ نماز پڑھتے
ہوئے سُترہ یعنی آڑ لینے کا حُکم ایک ہی جیسا ہے اور اس میں سے کہیں کسی جگہ کے
لیے کوئی استثناء نہیں ،
::::: (2) ::::: سُترہ
کے پیچھے سے اگر کوئی بھی چیز گذرے تو نماز پر کوئی اثر نہیں ہوتا ،
::::: (3) ::::: امام کا سُترہ مقتدیوں کے بھی کافی ہوتا ہے
(اس مسئلہ کی ایک عمومی دلیل پہلے بیان کر چکا ہوں اور ان مذکورہ بالا
احادیث میں خاص طور پر سُترہ کے متعلق
بھی دلیل میسر ہے و للہ الحمد )
::::: (4) :::::
ایسے سفر میں ، اور ایسی جگہ جاتے ہوئے
جہاں سُترہ کے لیے کوئی چیز ملنے کا امکان نہ ہو یا کم
ہو تو اپنا سُترہ ساتھ رکھا جا سکتا ہے، بلکہ رکھنا ہی چاہیے ،
::::: (5) ::::: سفر
میں نماز قصر کرنا اور دو نمازیں جمع کر کے پڑھنا ،
::::: (6) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جسم
اطہر اور مبارک سے چھو جانے والی چیز کے استعمال سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ،
:::::سُترہ کے طور
پر سواری کے جانور یا درخت وغیرہ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے :::::
::::: (1) :::::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ﴿أَنَّهُ كان يُعَرِّضُ رَاحِلَتَهُ فَيُصَلِّي إِلَيهَا :::رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی سواری (کے جانور )کو(اس طرح ) اپنے سامنے بِٹھا
لیتے (کہ اس کا پہلو سامنے رہے ) اور(پھر) اس کی طرف (رُخ مبارک فرما کر )نماز
پڑھتے﴾
نافع رحمہُ اللہ جو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل
کر رہے ہیں کہتے ہیں """ قلت أَفَرَأَيتَ إذا هَبَّت الرِّكَابُ ؟::: میں نے پوچھا اگر (کبھی )سواری کا جانور(دوران نماز)
بدک جاتا ہو تو ؟ """" تو عبداللہ رضی اللہ عنہُ نے فرمایا﴿ كان يَأخُذُ هذا الرَّحلَ فَيُعَدِّلُهُ فَيُصَلِّي إلى آخِرَتِهِ أو قال
مُؤَخَّرِهِ ::: تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم(سواری کرنے والی) کاٹھی لیے کرتے تھے اور اس
کاٹھی کا رُخ درست فرماتے اور اس کے پچھلے ّاونچے والے )حصے کی طرف (رُخ مبارک
فرما کرتے )نماز ادا کرتے﴾
نافع
رحمہُ اللہ کا کہنا ہے """ وكان بن عُمَرَ رضي الله عنه يَفعَلُهُ ::: اور ابن عُمر رضی اللہ عنہُما ایسا کیا کرتے تھے
""" صحیح البُخاری / حدیث 485/ کتاب
الصلاۃ /ابواب سُترۃ المُصلی /باب 8 ،
::::: (2) ::::: امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿ لقد رَأَيتُنَا لَيلَةَ بَدرٍ ومَا
مِنَّا إِنسَانٌ الا نَائِمٌ اِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ
عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ فإنّه ُ
كان يُصلِي إلى شَجَرَةٍ ويَدعُوا حَتى أَصبَحَ وما كان مِنَّا فَارِسٌ يوم بَدرٍ غير المِقدَادِ بن الأَسوَدِ :::
ہم نے (جہادِ ) بدر والی رات میں دیکھا کہ ہم میں سے کوئی انسان
ایسا نہ تھا جو جاگ رہا ہو سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، کہ وہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (ایک)درخت کی طرف (رُخ مبارک کیے ہوئے)نماز پڑھ رہے
ہیں یہاں تک صبح ہو گئی ، اور (جہادِ) بدر والے دِن ہم میں سے صرف(اکیلے) مقداد بن أٔسود (رضی اللہ عنہ ُ
) ہی گُھڑوار تھے﴾مُسند
أحمد /حدیث 1161 /مُسند علی بن ابی طالب (رضی
اللہ عنہ ُ ) کی حدیث رقم 599 ،
اور
دوسری رویت کے الفاظ ہیں ﴿ما كان فِينَا فَارِسٌ يوم بَدرٍ غَيرُ المِقدَادِ وَلَقَد رَأَيتُنَا وما
فِينَا الا نَائِمٌ الا رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ تَحتَ شَجَرَةٍ يصلي ويبكي حتى أَصبَحَ :::(جِہادِ ) بدر والے دِن ہم
لوگوں میں سوائے مِقداد (رضی اللہ عنہ ُ) کے کوئی اور گُھڑ سوار نہ تھا اور ہم نے
( اُس رات ) دیکھا کہ ہم میں سے کوئی بھی جاگ
نہ رہا تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے (اور )وہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم (ایک)درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے یہاں
تک صُبح ہو گئی﴾مُسند
أحمد /حدیث 1023 /مُسند علی بن ابی طالب (رضی
اللہ عنہ ُ ) کی حدیث رقم 461 ،
::::: فقہ الاحادیث :::::
::::: (1) ::::: کسی ایسی چیز کو بھی سُترہ بنایا جا سکتا ہے جس
کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے یا چلے جانے کا امکان ہو ،
::::: (2) ::::: اگر دوران نماز وہ چیز جسے سُترہ بنایا گیا تھا
سامنے سے ہٹ جائے تو کسی اور چیز کو پکڑ کر سامنے رکھا جا سکتا ہے ،
::::: (3) ::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو انسان ہی سمجھتے تھے ، اللہ کی کوئی اور مخلوق نہیں
اور نہ ہی اللہ کا کوئی جُز یا اللہ کی کوئی صفت ،
::::: (4) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پریشانی
، مُصیبت ، اور ضرورت کی وقت اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ سے دُعا فرماتے تھے ،
خود حاجت روا ، مشکل کُشا ہوتے تو ایسا نہ فرماتے ، یا اُن کے ساتھ کوئی اور مُشکل
کُشا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اتنی مُشقت نہ فرماتے ،
::::: سُترہ کے
قریب ہو کر نماز پڑہنے کا حُکم :::::
سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا
کہنا ہے کہ﴿
كان بين مُصَلَّى رسول
اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ وَبَينَ الجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی نماز کی جگہ (یعنی سجدہ کرنے کے مُقام )اور (مسجد کی )دیوار کے درمیان
بکری گذرنے کی جگہ کے برابر جگہ ہوتی تھی﴾ صحیح البُخاری / حدیث 471/ کتاب الصلاۃ
/ابواب سُترۃ المُصلی /باب2
،
اور سلمہ بن الاکوع رضی اللہ
عنہ والی حدیث جس کا ذکر :::::
مسجد میں سُترہ کا حُکم ::::: میں کیا گیا
ہے ، کی دو روایت میں یہ الفاظ بھی
ہیں کہ﴿
وكان بين المِنبَرِ
وَالقِبلَةِ قَدرُ مَمَرِّ الشَّاةِ :::اور منبر
اور قبلہ (یعنی سجدہ کرنے کی جگہ ) کے درمیان ایک بکری کے گذرنے کے برابرجگہ ہوتی
تھی﴾ صحیح مُسلم / حدیث509
/کتاب الصلاۃ /باب 49 ،
::::: سُترہ کی مقدار :::::
::::: ( 1
) ::::: طلحہ بن عُبید اللہ رضی اللہ عنہ
ُ کا کہنا ہے
""""" كنا نُصَلِّي وَالدَّوَابُّ تَمُرُّ بين أَيدِينَا فَذَكَرنَا ذلك لِرَسُولِ
اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ ::: پہلے جب ہم لوگ نماز پڑھا کرتے تھے تو پالتو جانور
ہمارے سامنے سے گذارا کرتے تھے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے
اس معاملے کا ذِکر کیا ، تو انہوں نے اِرشاد فرمایا ﴿ مِثلُ مُؤخِرَةِ الرَّحلِ تَكُونُ بين يَدَي أَحَدِكُم ثُمَّ لَا
يَضُرُّهُ ما مَرَّ بين يَدَيهِ ::: اگر تُم سے کسی (نمازپڑہنے والے )کے سامنے اُونٹ
پر رکھی جانی والی کی کاٹھی کے پچھلے
حصے کےجیسا ( سُترہ ) اُس کے سامنے ہو تو
پھر کوئی (اُس نمازی کے سامنے ( یعنی اُس سُترہ کے پار سے ) گذرنے والا (اُسکی
نماز میں )کوئی نقصان نہیں دیتا ﴾
""""" صحیح مُسلم /حدیث499/کتاب الصلاۃ /باب 47
بَاب سُترَةِ المُصَلِّى،
::::: (2)
::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی
اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ
""""" سُئِلَ رسول اللَّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلّی
اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ عَن
سُترَةِ المُصَلِّى :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے نمازی کے سُترہ
کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اِرشاد فرمایا﴿ مِثلُ مُؤخِرَةِ الرَّحلِ :::اُونٹ پر رکھی جانی والی کی
کاٹھی کے پچھلے حصے کے جیسا (سُترہ ہونا چاہیے) ﴾ """"" صحیح مُسلم /حدیث500/کتاب الصلاۃ /باب 47 بَاب سُترَةِ المُصَلِّى،
::::: (3) ::::: عبداللہ بن صامت رحمہُ اللہ ابو ذر الغفاری رضی
اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا قَام أحدكُم يُصَلِّي فإنه يَستُرُهُ إذا
كان بين يَدَيهِ مِثلُ آخِرَةِ الرَّحلِ فإذا لم يَكُن بين يَدَيهِ مِثلُ آخِرَةِ
الرَّحلِ فإنه يَقطَعُ صَلَاتَهُ الحِمَارُ وَالمَرأَةُ وَالكَلبُ الأَسوَدُ ::: جب تُم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا
ہو تو اُونٹ پر رکھی جانی والی کی کاٹھی کے
آخری حصے کےجیسا (کچھ ) اُس کے سامنے ہو (تو اُس کی نماز محفوظ رہتی ہے )
اور اُونٹ پر رکھی جانی والی کی کاٹھی کے
آخری حصے کےجیسا (کچھ ) اُس کے سامنے نہ
ہو تو گدھا اور عورت اورکالا کُتا
(اگر اُس کے سامنے سے گذریں تو وہ ) اُس کی نماز
کاٹ دیتے ہیں﴾عبداللہ بن صامت
رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ میں نے کہا """ قلت يا أَبَا ذَرٍّ
ما بَالُ الكَلبِ الأَسوَدِ من الكَلبِ الأَحمَرِ من الكَلبِ الأَصفَرِ ::: اے ابا ذر
(رضی اللہ عنہ ُ )سُرخ کُتے ، (یا) پیلے
کُتے کی نسبت کالے کُتے کا کیا (خاص)معاملہ ہے ؟ """ تو ابو ذر
(رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا """يا بن أَخِي سَأَلتُ رَسُولَ اللَّهِ
رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ كما سَأَلتَنِي فقال ::: اے میرے (مُسلمان) بھائی کے بیٹے میں نے بھی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے یہ سوال اِسی طرح کیا تھا جِس طرح تُم نے مجھ سے
کیا ہے تو انہوں نے اِرشاد فرمایا تھا ﴿الكَلبُ الأَسوَدُ
شَيطَانٌ ::: کالا
کُتا شیطان ہوتا ہے﴾صحیح مُسلم /حدیث510/کتاب الصلاۃ /باب 47 بَاب قَدرِ ما يَستُرُ المُصَلِّي ،
اور ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی و علی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ يَقطَعُ الصَّلَاةَ
المَرأَةُ وَالحِمَارُ وَالكَلبُ وَيَقِي ذلك مِثلُ مُؤخِرَةِ الرَّحلِ ::: عورت اور گدھا اور کتا نماز کاٹ دیتے
ہیں اور اس (نماز کاٹے جانے) سے اُونٹ پر رکھی جانی والی کی کاٹھی کے آخری حصے کےجیسا ( کوئی سُترہ)محفوظ رکھتا ہے﴾صحیح مُسلم /حدیث 511 /کتاب الصلاۃ/ باب 47 بَاب قَدرِ
ما يَستُرُ المُصَلِّي ،
(***) ابھی کچھ دیر پہلے میں نے :::::
گھر میں سُترہ کا حُکم
::::::کے بیان میں اِیمان والوں کی
والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ
فرمان ذِکر کیا تھا کہ """""أَعَدَلتُمُونَا بِالكَلبِ وَالحِمَارِ :::تُم لوگوں نے ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر بنا دیا ہے""""" اور کہا تھا کہ اس فرمان کے بارے میں کچھ
بات تھوڑی دیر بعد کی جائے گی ،
تو
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس فرمان میں یہ
بتایا ہے کہ بغیر سُترہ لیے نماز پڑھنے
والے نمازی ، درمیان کےسامنےسے ، یا نمازی اور اُس کے سُترے کے درمیان سے عورت کے
گذرنے کا معاملہ منسوخ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
میرے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھا کرتے تھے ، بلکہ بسا اوقات تو اتنا قریب ہوتے تھے
کہ سجدہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پیروں سے ان کا سر
مبارک چھو جانے کا اندیشہ ہوتا ، جیسا کہ ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ ُ
اللہ کا روایت کردہ اِِیمان والوں کی والدہ
کا فرمان ہے کہ """"" كنت أَنَامُ بين يَدَي رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ
وعَلی آلہِ وسلّمَ وَرِجلَايَ في قِبلَتِهِ فإذا سَجَدَ غَمَزَنِي فَقَبَضتُ رِجلَيَّ وإذا قام
بَسَطتُهُمَا قالت وَالبُيُوتُ يَومَئِذٍ ليس فيها مَصَابِيحُ ::: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے سو
رہی ہوتی اور میرے پیر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قِبلہ (یعنی سجدہ والی
جگہ ) میں ہوتے تو جب وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سجدہ فرماتے تو مجھے چھوتے
تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی اور جب وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کھڑے ہو جاتے تو
میں اپنے پیر لمبے کر لیتی اور فرمایا ان دِنوں گھروں میں چراغ نہ ہوتے تھے
""""" صحیح البُخاری /حدیث491/کتاب الصلاۃ /ابواب الصلاۃ /باب
14 بَاب التَّطَوُّعِ خَلفَ المَرأَةِ ، صحیح مُسلم/حدیث512/کتاب /باب 51 بَاب الِاعتِرَاضِ بين يَدَي
المُصَلِّي
،
::::: اس حدیث
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے گھر کی حالت کا بھی اندازہ ہوتا ہے
کہ اُن کے گھر میں چراغ بھی نہ تھا اور آج ہم دُنیا جہاں کی نعمتوں میں رہتے ہیں
لیکن اپنے رب کی تابع فرمانی کی طرف نہیں آتے ، محبت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کا زعم رکھتے ہیں لیکن ان کی سُنّت کے مطابق اپنی راتیں اللہ کی عبادت میں گذرانے کی طرف نہیں
آتے ، انا اللہ و انا الیہ راجعون ،
اس کے علاوہ عروہ بن الزبیر رحمہُ
اللہ کا کہنا ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (ہم سے ) کہا (((((""" ما يَقطَعُ الصَّلَاةَ ؟::: کیا چیز نماز کاٹتی ہے ؟ """،
قال فَقُلنَا المَرأَةُ وَالحِمَارُ
فقالت إِنَّ المَرأَةَ لَدَابَّةُ سَوءٍ لقد رَأَيتُنِي بين يَدَي رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلّمَ مُعتَرِضَةً كَاعتِرَاضِ الجَنَازَةِ وهو يُصَلِّي ::: ہم نے کہا عورت اور گدھے کا کیا معاملہ ہے ؟ تو فرمایا عورت
تو یوں ہی برائی والی جانی جاتی ہے میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی نماز کے دوران اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے اس طرح
لیٹے ہوئے دیکھا ہے جس طرح کوئی جنازہ ہوتا ہے )))))صحیح مُسلم /حدیث 512/
کتاب الصلاۃ / بَاب 51الِاعتِرَاضِ بين يَدَي المُصَلِّي،
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ مذکورہ
بالا عمل بیان فرما کر یہ سمجھایا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عورت ، گدھے اور کالے کُتے کے نمازی کے سامنے
سے گذرنے والے فرمان میں سے عورت کا معاملہ منسوخ ہے ، یعنی
اگر کسی نمازی کے سامنے عورت ہو ، یا اس کے سامنے سے گذرے تو نمازی کی نماز نہیں
کٹے گی ، لیکن عورت کو نمازی کے سامنے سے گذرنے کا گناہ ضرور ہو گا ، جو بہت بڑا
گناہ ہے ، اس کی تفصیل ان شاء اللہ ایک الگ موضوع کے طور پر ذکرکروں گا ،
:::: سُترہ
کی کیفیت ::::::
مذکورہ بالا احادیث کےمطالعے سے سُترہ
کی مقدار اور کیفیت بالکل صاف سمجھ میں آتی ہے کہ
:::
::::: سُترہ زمین کے ساتھ لگا ہونا
چاہیے ،
::::: کرسی میز ، قران کی رحل
وغیرہ سُترہ کا کام نہیں دے سکتے سوائے اس
کے کہ کرسی میز وغیرہ کی ٹانگ کو سُترہ بنایا جائے ،
:::::
اور قران کریم کی رَحل (جِس پر
قران کریم رکھ کر پڑھا جاتا ہے )اگر کافی بڑی ہو تو اسے ترچھا لٹا کر سُترہ بنایا
جا سکتا ہے تا کہ وہ """ مُؤخِرَةِ الرَّحلِ""" یا
"""آخِرَةِ الرَّحلِ""" کے برابر
ہو ، اُس
سے چھوٹی چیز سُترہ کے طور پر کام نہیں دے سکتی ،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی ٓلہ
وسلم کے زمانہ مبارک میں ، اُن کے ماحول میں استعمال ہونے والی """ مُؤخِرَةِ الرَّحلِ"""یا
""" آخِرَةِ الرَّحلِ""" کی اونچائی ایک
متوسط قد کاٹھ کے آدمی کی """ذِراع """ یعنی
"""کلائی سے کہنی تک کی ہڈی کے برابر بتائی جاتی ہے ، پس اس اونچائی سے چھوٹی کوئی چیز سُترہ کا کام
نہیں دے سکتی ،
::::: اسی طرح نمازی کا اپنے سامنے خط
کھینچنا ، یعنی نمازی کا اپنے سامنے لائن لگانا بھی سُترے کا م نہیں دیتا ، اس کا ذکر ایک روایت میں ہوا ہے جس سے بعض
لوگ نمازی کے سامنے لائن لگانے کو سُترہ
کے طور پر درست سمجھتے ہیں ، لیکن وہ روایت ضعیف یعنی کمزور ہے اور
ناقابل حجت ہے ،
یہ کمزورروایت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا ﴿إذا صلى أحدكم فَليَجعَل تِلقَاءَ وَجهِهِ شيئا فَإِن لم يَجِد فَليَنصِب
عَصًا فان لم يَكُن معه عَصًا فَليَخطُط خَطًّا ثُمَّ
لَا يَضُرُّهُ ما مَرَّ أَمَامَهُ :::جب
تُم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے چہرے کے سامنے کی طرف کوئی چیز رکھ لے اور اگر
کوئی (رکھنے والی) چیز نہ ملے تو اپنا عصا
)ہاتھ میں پکڑنے والا ڈنڈا (زمین میں) گاڑ لے اور اگر اس کے پاس عصا نہ ہو تو
(اپنے سامنے)لائن لگا لے پھر اس کے بعد اگر کوئی اس کے سامنے سے گذرے گا تو (اُس
کی نمازمیں)اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ﴾سنن ابو داؤد/حدیث 689/کتاب
الصلاۃ /باب 104 ،
::::: خلاصہ کلام
:::::
ان سب عملی او رقولی احادیث
کی روشنی میں بہت اچھی طرح سے یہ واضح ہے کہ کسی بھی نمازی کے لیے یہ لازم ہے کہ :::
::::: وہ اپنی نماز کے آغاز سے پہلے اپنے
سامنے سُترہ رکھے ، یا کسی چیز کو سُترہ بنا کر نماز پڑھے اور اس حُکم سے کوئی جگہ
مُستثنیٰ نہیں،
::::: ایسا نہ کرنے والا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک حکم کی نافرمانی کا گناہ بھی کمائے گا ،
::::: اگر گدھا یا کالا کُتا اُس کےسامنے
سے گذر جائے تو اُس کی نماز بھی کٹ جائے
گی ، یعنی فاسد ہوجائے گی ،
::::: اگر کوئی اور اس کے سامنے سے گذرے تو
وہ نمازی کے سامنے سے گذرنے کا گناہ گار ہو گا جس کا سبب یہ نمازی ہوگا جس نے اپنے
سامنے سُترہ نہیں رکھا اور اس طرح وہ اپنے سامنے سے گذرنے والے کے گناہ میں شامل
ہو گا ،
جس کی دلیل رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک ہے کہ﴿ لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّى مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ
أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ:::
اگر نمازی کے سامنے سے گذرنے والے جان لے کہ (اِس گذرنے کی وجہ سے )اُس پر کتنا (گناہ
اور عذاب واجب) ہوجاتا ہے ، تو وہ (جان جائے کہ)اُس کے خیر اِسی میں ہے کہ وہ
نمازی کے سامنے سے گذرنے کی بجائےچالیس(دِن ، مہینے یا سال) کھڑا رہے﴾صحیح بُخاری/حدیث/510کتاب
الصلاۃ/باب101 إِثْمِ الْمَارِّ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّى ،صحیح مُسلم/حدیث/1160کتاب الصلاۃ/باب48 مَنْعِ
الْمَارِّ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّى،
یہ حدیث شریف، صحیح بخاری، صحیح مسلم ، کے علاوہ
مؤطا مالک، صحیح ابن حبان ، سنن ابو داود، سنن النسائی، سنن الترمذی ، سنن الدارمی
، اور مُسند احمد میں ابو جُھیم رضی
اللہ عنہ ُ سے روایت ہے ، اور کسی بھی
روایت میں چالیس کو قوت اور مدت کے کسی
پیمانے سے منسلک نہیں فرمایا گیا ،
مذکورہ بالا کتب میں اِس حدیث شریف کی روایات کی
اسناد میں مشترکہ راویوں میں سے ایک راوی """سالم ابو النضر مولیٰ عُمر بن عُبید اللہ، رحمہُ اللہ
""" ہیں ،
اور تقریباً سب ہی کتب میں ،
روایت کے بعد ، اِن """سالم ابو النضر مولیٰ عُمر بن عُبید اللہ،
رحمہ ُ اللہ """ کے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ """ لاَ أَدْرِى أَقَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً::: میں نہیں جانتا کہ (یعنی مجھے یاد نہیں کہ
مجھے بتانے والے)راوی نے چالیس دِن کہا ، یا چالیس مہینے ، یا چالیس سال"""،
اب ہم اگر اسے کم سے کم مدت
چالیس گھنٹے یا چالیس منٹ ہی سمجھ لیں تو بھی یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا کہ
وہ سزا کتنی بڑی ہو گی ، جس سے بچنے کے لیے ہم چالیس منٹ تک کھڑا رہنا گوارہ کر
لیں ،
افسوس کہ اب عموماً مساجد میں
اور گھروں میں ہمارے نمازی بھائی بہن ، نماز پڑھتے ہوئے سُترے لینے کی کوئی پرواہ
نہیں کرتے ، اور اُن کے سامنے سے گذرنے والے بھی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، اور
دونوں ایک دوسرے کے لیے گناہ پانے کا سبب بنتے ہیں،
جبکہ نمازی کے لیے سُترہ یعنی
آڑ لینا واجب ہے خواہ وہ گھر میں نماز پڑھ رہا ہو یا دُنیا کی کسی بھی مسجد میں ،
اور نمازی کے سامنے والے
گذرنے والے پر واجب ہے کہ وہ نمازی اور اُس کی آڑ کے درمیان میں سے نہ گذرے ، اور
اگر نمازی بلا آڑ نماز پڑھ رہا ہو تو یا تو اُس
کے پیچھے سے گذرے ، اور خیال رکھے کہ کسی اور کے سامنے سے بھی نہ گذرے ،
اور یا ایسے تمام نمازیوں کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرے جو آڑ لیے بغیر
نماز پڑھ رہے ہوں،
چلتے چلتے ایک اور بات گذراش
کرتا چلوں کہ """سالم ابو النضر مولیٰ عُمر بن عُبید اللہ، رحمہُ
اللہ""" کی طرف سے ایک لفظ بھولنے کا اقرار حدیث شریف میں کسی
کمزوری کا سبب نہیں ، بلکہ اِن"""سالم ابو النضر رحمہُ
اللہ""" کی امانت داری اور پھر اِس حدیث مُبارک کو روایت کرنے والے
تمام تر محدثین رحمہم اللہ جمعیاً کی امانت داری کی دلیل ہے ، کہ جو لفظ یاد نہیں تھا، جو لفظ روایت میں نہیں آیا ، اُس کی جگہ اپنی طرف سے کچھ نہیں لگا دِیا ،
نمازی کے سامنے سے گذرنے والے
پر گناہ کی بڑائی اور عذاب کی شدت کا اِس حدیث شریف سے اندازہ ہو جاتا ہے ، لیکن
اِس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اکثر اوقات اِس گناہ کا سبب نمازی
ہی بنتا ہے ، کیونکہ وہ سُترہ (آڑ)لیے بغیر نماز پڑھتا ہے،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کے
احکام اسی طرح سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں دیے ہیں ، اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم نے اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان پر عمل فرمایا ہے اسی طرح
ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر قسم کے تعصب ، منطق فلسفے وغیرہ کی
ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھے ، و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت :29/09/1430ہجری،بمُطابق،19/09/2009 عیسوئی ،
تاریخ تجدید و تحدیث :19/07/1436ہجری،بمُطابق،08/05/2015عیسوی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج
ذیل ربط پر سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔