Thursday, May 21, 2015

::::::: إِیثار ، إِیمان کے درجات میں سے ایک اعلیٰ درجہ :::::::

::::::: إِیثار ، إِیمان کے درجات میں سے ایک اعلیٰ درجہ :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتداعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اگر آپ اُن لوگوں میں سے ہیں جنہیں دُوسروں کو کچھ دیتے ہوئے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ، اور دُوسروں پر خرچ کرتے ہوئے آپ کو غم محسوس نہیں ہوتا، دُوسروں کو خوشیاں پہنچاتے ہوئے آپ بھی خوش ہوتے ہیں ،  تو آپ سخی ہیں ، اور سخی ہونا ایک بہت اچھی صِفت ہے ، جِس میں دُنیا کی خیر کے ساتھ ساتھ آخرت کی خیر بھی میسر ہوتی ہے بشرطیکہ وہ سخاوت صِرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہو ، لوگوں کو دِکھانے ، یا کسی اور مقصد کی وجہ سے نہ ہو ،
اور اگر آپ دُوسروں کو دیتے ہوئے اپنی ضرورت کا خیال بھی رکھتے ہیں ، لیکن دُوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتے ہیں تو آپ """إِیثار""" کے مرتبے پر پہنچے ہوئے ہیں ، جو کہ ہمارے دِین کے اعلیٰ رُتبوں میں سے ایک رُتبہ ہے ،  جِس کے اپنے بھی مزید کئی درجات(رُتبے) ہیں ،
إِیثار ، جسے ہم عام طور پر یُوں سمجھتے ہیں کہ ، اپنی کسی چیز کو اپنی ضرورت یا چاہت ہونے کے باجود کسی کو دے دینا ، کسی پر صَرف کر دینا ،
یہ عمل اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ کاموں میں سے ہے ، اِسی لیے اللہ جلّ و عُلا نے ایسا کرنے والوں کی تعریف فرمائی:::
﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:::اور وہ لوگ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے ہیں ، خواہ خود بھی ضرورت مند ہوں ، اور جو کوئی اُس کے نفس کی کنجوسی اور لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ خیر (اورکامیابی)پانے والے ہیں سُورت حَشر(59)/آیت9،
اللہ عزّ و جلّ کی مشیئت سے ، ایسا إِیثار کرنے کی صِفت  ، اللہ جلّ و عُلا کی عطاء پر یقین رکھنے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے مُحبت کرنے، اور اپنا مال دُوسروں پر خرچ کر دینے کی صُورت میں پیش آنے والی تکلیف اور مُشقت پر اللہ عزّ و جلّ کی خوشی حاصل کرنے کے لیے  صبر  کرنے ، اور اللہ تعالیٰ سے أجر و ثواب کے یقین کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ، 
اِس کے عِلاوہ """ إِیثار """کو اپنے اندر پانے اور جگائے رکھنے کےلیے درج ذیل عوامل کو اِستعمال کرنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے ،
:::::: شُح سے کراھت کرتے رھنا [[[شُح کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون پہلے نشر کر چکا ہوں ، و للہ الحمد ]]]
::::: دُوسروں کے حُقوق کی جان کاری رکھنا اور اُن کا احترام کرتے ہوئے اُن کی ادائیگی کی کوشش کرتے رہنا ،
::::: خود کو دُوسرے ضرورت مندوں کی جگہ پر رکھ کر اُن کی ضروریات کا احساس پانا،
::::: بدنی ، مَعاشی اور مَعاشرتی طور پر کمزور اور غریب  لوگوں کے احساسات کا احساس رکھنا ،  
::::: دُنیا اور اُس کے مال و متاع کی حقیقت کا ادراک اور اُس سے بے رغبتی رکھنا ،
::::: دُنیا کے مال ومتاع کی آخرت میں ضرورت کا احساس اور وہاں کا ثواب کمانے کی فکر رکھنا ،
::::: اپنے نفس کو ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں ، راحتوں اور آسانیوں حاصل کرنے کے لیے دُنیاوی زندگی کی مشکلیں برداشت کرنے پر لگائے رکھنا ،
::::::: إِیثار کے مختلف درجات :::::::   
عُلماء کرام رحمہم اللہ  میں سے کچھ نے""" إِیثار"""کے کئی مراتب (رُتبے، درجات) بیان کیے ہیں ،
 إمام ابن القیم رحمہُ اللہ کا"""إِیثار"""کے بارے میں  کہنا ہے کہ :::
"""وَهُوَ عَلَى ثَلَاثِ دَرَجَاتٍ. الدَّرَجَةُ الْأُولَى: أَنْ تُؤْثِرَ الْخَلْقَ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا لَا يَخْرِمُ عَلَيْكَ دِينًا. وَلَا يَقْطَعُ عَلَيْكَ طَرِيقًا، وَلَا يُفْسِدُ عَلَيْكَ وَقْتًا.
يَعْنِي: أَنْ تُقَدِّمَهُمْ عَلَى نَفْسِكَ فِي مَصَالِحِهِمْ. مِثْلَ أَنْ تُطْعِمَهُمْ وَتَجُوعَ. وَتَكْسُوَهُمْ وَتَعْرَى، وَتَسْقِيَهُمْ وَتَظْمَأَ، بِحَيْثُ لَا يُؤَدِّي ذَلِكَ إِلَى ارْتِكَابِ إِتْلَافٍ لَا يَجُوزُ فِي الدِّينِ. وَمِثْلَ أَنْ تُؤْثِرَهُمْ بِمَالِكَ وَتَقْعُدَ كَلًّا مُضْطَرًّا، مُسْتَشْرِفًا لِلنَّاسِ أَوْ سَائِلًا. وَكَذَلِكَ إِيثَارُهُمْ بِكُلِّ مَا يُحَرِّمُهُ عَلَى الْمُؤْثِرِ دِينُهُ. فَإِنَّهُ سَفَهٌ وَعَجْزٌ يُذَمُّ الْمُؤْثِرُ بِهِ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ النَّاسِ ::: إِیثار  کے تین درجے ہیں ، پہلا درجہ یہ ہے کہ تُم اُن کاموں میں دُوسروں کو خود پر ترجیح دو جو معاملات دِین میں حرام نہیں ہیں ، اور جن کاموں کی وجہ سے خود تُمہارے راستے ہی بند نہ ہو جائیں ، اور تُمہارا وقت  کسی فساد کا شِکار نہ ہو جائے،
یعنی ، تُم لوگوں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دو ، مثلاً اُنہیں کھانا کھلاؤ اور خود بھوکے رہو، اُنہیں لباس پہناؤ اور خود بے لباس رہو ، انہیں پلاؤ اور خود پیاسے رہو ، لیکن اِس طرح کہ  ایسا کرناکسی ایسی چیز کے اتلاف کا سبب نہ ہو جسے تلف کرنا دِین میں جائز نہیں ،
جس کی مثال یہ ہے کہ تُم اپنا مال اِس طرح دوسروں پر خرچ کر دو کہ خود تہی دست ہو کر رہ جاؤ ، لوگوں سے ملنے کے منتظر بن جاؤ یا دُوسروں کے سامنے سوالی بن جاؤ ، اور اِسی طرح ہر اُس چیز کا إِیثار کر دینا جس کا إِیثار کرنا دِین میں جائز نہیں ، کیونکہ ایسا کرنا جہالت ہے اور عاجز ہو کر رہ جانا ہے اور پھر ایسا  إِیثار کرنے والا اللہ اور لوگوں دونوں کے سامنے ہی مذموم قرار پاتا ہے"""،
اور دوسرے درجے کے بارے میں بیان فرمایا کہ""" الدَّرَجَةُ الثَّانِيَةُ: إِيثَارُ رِضَا اللَّهِ عَلَى رِضَا غَيْرِهِ. وَإِنْ عَظُمَتْ فِيهِ الْمِحَنُ. وَثَقُلَتْ فِيهِ الْمُؤَنُ، وَضَعُفَ عَنْهُ الطَّوْلُ وَالْبَدَنُ،
فَإِنَّهُ قَاوَمَ الْعَالَمَ كُلَّهُ. وَتَجَرَّدَ لِلدَّعْوَةِ إِلَى اللَّهِ. وَاحْتَمَلَ عَدَاوَةَ الْبَعِيدِ وَالْقَرِيبِ فِي اللَّهِ تَعَالَى. وَآثَرَ رِضَا اللَّهِ عَلَى رِضَا الْخَلْقِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ. وَلَمْ يَأْخُذْهُ فِي إِيثَارِ رِضَاهُ لَوْمَةُ لَائِمٍ. بَلْ كَانَ هَمُّهُ وَعَزْمُهُ وَسَعْيُهُ كُلُّهُ مَقْصُورًا عَلَى إِيثَارِ مَرْضَاةِ اللَّهِ، وَتَبْلِيغِ رِسَالَاتِهِ، وَإِعْلَاءِ كَلِمَاتِهِ، وَجِهَادِ أَعْدَائِهِ. حَتَّى ظَهَرَ دِينُ اللَّهِ عَلَى كُلِّ دِينٍ. وَقَامَتْ حُجَّتُهُ عَلَى الْعَالَمِينَ. وَتَمَّتْ نِعْمَتُهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ. فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ. وَأَدَّى الْأَمَانَةَ. وَنَصَحَ الْأُمَّةَ. وَجَاهَدَ فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ. وَعَبَدَ اللَّهَ حَتَّى أَتَاهُ الْيَقِينُ مِنْ رَبِّهِ. فَلَمْ يَنَلْ أَحَدٌ مِنْ دَرَجَةِ هَذَا الْإِيثَارِ مَا نَالَ. صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
وَقَدْ جَرَتْ سُنَّةُ اللَّهِ - الَّتِي لَا تَبْدِيلَ لَهَا - أَنَّ مَنْ آثَرَ مَرْضَاةَ الْخَلْقِ عَلَى مَرْضَاتِهِ: أَنْ يُسْخِطَ عَلَيْهِ مَنْ آثَرَ رِضَاهُ، وَيَخْذُلَهُ مِنْ جِهَتِهِ. وَيَجْعَلَ مِحْنَتَهُ عَلَى يَدَيْهِ. فَيَعُودَ حَامِدُهُ ذَامًّا. وَمَنْ آثَرَ مَرْضَاتَهُ سَاخِطًا. فَلَا عَلَى مَقْصُودِهِ مِنْهُمْ حَصَلَ، وَلَا إِلَى ثَوَابِ مَرْضَاةِ رَبِّهِ وَصَلَ. وَهَذَا أَعْجَزُ الْخَلْقِ وَأَحْمَقُهُمْ ،،،،،،،،،،،،،،،
هَذَا مَعَ أَنَّ رِضَا الْخَلْقِ: لَا مَقْدُورٌ، وَلَا مَأْمُورٌ، وَلَا مَأْثُورٌ. فَهُوَ مُسْتَحِيلٌ. بَلْ لَا بُدَّ مِنْ سُخْطِهِمْ عَلَيْكَ. فَلَأَنْ يَسْخَطُوا عَلَيْكَ وَتَفُوزَ بِرِضَا اللَّهِ عَنْكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ وَأَنْفَعُ لَكَ مِنْ أَنْ يَسْخَوْا عَلَيْكَ وَاللَّهُ عَنْكَ غَيْرُ رَاضٍ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
أَنَّهُ إِذَا آثَرَ رِضَا اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مُؤْنَةَ غَضَبِ الْخَلْقِ. وَإِذَا آثَرَ رِضَاهُمْ لَمْ يَكْفُوهُ مُؤْنَةَ غَضَبِ اللَّهِ عَلَيْهِ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،.
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: رِضَا النَّاسِ غَايَةٌ لَا تُدْرَكُ. فَعَلَيْكَ بِمَا فِيهِ صَلَاحُ نَفْسِكَ فَالْزَمْهُ.
وَمَعْلُومٌ: أَنَّهُ لَا صَلَاحَ لِلنَّفْسِ إِلَّا بِإِيثَارِ رِضَا رَبِّهَا وَمَوْلَاهَا عَلَى غَيْرِهِ.
ترجمہ  ::: دوسرادرجہ ،،،، دُوسروں کی رضا کو اللہ کی رضا پر قربان کرنا ، خواہ اِس کام میں کتنی ہی مصیبتیں پیش آئیں ، اور اُس میں ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جائے ، اور إِیثار کرنے والے کی (مالی ،مَعاشی، اور مُعاشرتی)قوت اور بدن کمزور پڑ جائے ،
اللہ کے عِلاوہ کسی بھی اور کی رضا کو ،اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اِنسان وہی کچھ چاہے اور وہی کچھ کرے جِس میں اللہ کی رضا ہے ، خواہ ایسا کرنے میں ساری ہی مخلوق اُس سے ناراض ہو جائے ،
إِیثار کا یہ درجہ انبیاء کا درجہ ہے ، اور اِس میں سے بلند ترین درجہ رسولوں علیہم صلوات و السلام کے لیے ہے ، اور اُس میں سے سب سے بلند درجہ رسولوں علیہم السلام میں سے  اولیٰ العزم رسولوں علیہم السلام کے لیے ہے ، اور اُن میں سے سب سے بلند درجہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے ہے ، کہ اُنہوں نے ساری ہی دُنیا کی مخالفت مول لی ، اور اللہ کے لیے دُور اور قریب ، ہر طرف سے ہی دُشمنی پا ئی ، اور ہر لحاظ سے مخلوق کی رضا کو اللہ کی رضا پر قربان کیا ، اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اُنہیں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت روک نہ سکی ، بلکہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تمام تر کوششیں مخلوق کی رضا کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے میں ہی منحصر رہیں ، اللہ کے پیغامات کی تبلیغ ، اللہ کے کلمے کی سر بلندی ، اور اللہ کے دُشمنوں سے جِہاد ہی کرتے رہے ، یہاں تک اللہ کا دِین ہر دِین پر ظاہر ہو گیا ، اور اللہ کی حُجت دونوں جہانوں پر قائم ہو گئی ، اور اللہ کی نعمت اِیمان والوں پر تمام ہو گئی ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچا دِیا ، اور امانت ادا فرما دی ، اور اُمت کو مکمل طور پر نصیحت فرما دِی ، اور اللہ کی راہ میں جِہاد کا حق ادا کرتے ہوئے جِہاد فرمایا ، اور اللہ کی ہی  عبادت کرتے رہے یہاں تک کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رب کی طرف سے موت آن پہنچی ، پس یقینی بات ہے کہ إِیثار کے جِس درجے تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پہنچے اُس درجہ تک کوئی نہ پہنچ سکا (اور اُن کے بعد کسی کے لیے اور کوئی موقع تک بھی نہیں کہ وہ اِس درجہ تک پہنچ سکے)، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اور اللہ کی سُنّت جِس میں کوئی تبدیلی نہیں اِس طرح جاری ہے کہ جو کوئی مخلوق کی رضا  کا إِیثاراللہ کی رضاپر کرے گا (یعنی مخلوق کی رضا کو اللہ کی رضا پر قربان کرے گا)تو(مخلوق میں سے ) وہ کہ جِس کی رضا کو قربان کیا جائے گا ، إِیثار کرنے والے پر ناراض ہو گا ، اور اُسے اپنی طرف سے(کسی نہ کسی انداز میں) رُسوا کرے گا ،اور إِیثار کرنے والے کے لیے (کوئی نہ کوئی تکلیف ، پریشانی، دُکھ اور)مُشقت وغیرہ ایسی  بنائے گا جو اِس کے اپنے اختیار میں  رہے(تا کہ یہ إِیثار کرنے والے کو تنگ کر سکے،رُسوا کر سکے)یہاں تک إِیثارکرنے والے کی تعریف کرنے والے اُسی إِیثار کرنے والے کو ہی بُرا بھلا کہنے لگے ،
اور جو کوئی کسی مخلوق کی رضا کو  نا پسندیدگی اور غصے کی وجہ سے ترک کرے گا (یعنی اگر کسی کی مرضی کے خِلاف کوئی کام اپنے کسی دُنیاوی یا مادی مقصد کے لیے کرے گا ، اللہ کی رضا کے حصول کی نیّت سے نہیں )تو ایسی صُورت میں نہ تو اُس مخلوق سے اپنی مُراد حاصل کر سکے گا ،ا ور نہ ہی اپنے رب کی رضا تک پہنچ سکے گا،  اور ایسا کرنے والا مخلوق میں سب سے زیادہ عاجز اور احمق ہوتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اِن سب باتوں سے یہ واضح ہوا کہ مخلوق کی رضا حاصل کرنا نہ تو تقدیر میں مقرر ہے ، نہ اِس کا کوئی حکم ہے ، اور نہ ہی اِس پر عمل کا کوئی ثبوت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور بعد والے صالحین )سے ملتا ہے ، لہذا یہ کام نا ممکن ہے ، بلکہ لازم ہے کہ (آپ کی طرف سے لوگوں کی رضا حاصل کرنے کی ہر کوشش کے باوجود )لوگ آپ پر ناراض ہوتے رہیں ،  پس ہونا یہ چاہیے کہ اگر آپ کو  لوگوں کی ناراضگی کے عوض آپ اللہ کی رضا کی کامیابی حاصل کر لیں ، تو وہ آپ کو اِس سے زیادہ محبوب ہو کہ لوگ آپ سے راضی ہوں اور اللہ آپ سے راضی نہ ہو، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر کوئی  اللہ کی رضا کو فوقیت دے گا تو  اللہ ہی اُسے مخلوق (کے غصے اور غصب) کی (وجہ سے ملنے والی)تکلیف  سے محفوظ کرے گا ، اور کر کوئی لوگوں کی رضا کو اللہ کی رضا پر فوقیت دے گا تو وہ لوگ اُسے اللہ کے غصے کی سختی سے محفوظ نہ کر سکے گا ،،،،،،،،،،،
(إمام )الشافعی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ """ لوگوں کی رضا ، ایسا مطلوب ہے جو حاصل نہیں ہو سکتا ، لہذا تُم اُس کی فِکر کرو جِس میں تمہارے نفس کی  بھلائی اور خیر ہے ، پس اُس کو لازم رکھو """،
اور یہ بات معلوم ہے(یعنی تقریباً ہر ایک کے فہم و ادراک میں ہے کہ) نفس کی بھلائی اور خیر سوائے ، نفس کے رب (اللہ جلّ جلالہُ )کی رضا کو دُوسروں کی رضا پر فوقیت دینے (یعنی دُوسروں کی رضا کو اللہ کی رضا پر قربان کر دینے )کے عِلاوہ کسی  اور کام میں نہیں ۔"""،
اور تیسرے درجے کے بارے میں بیان کیا کہ""" إِيثَارُ إِيثَارِ اللَّهِ،،،،،،،،،،،يَعْنِي بِإِيثَارِ إِيثَارِ اللَّهِ: أَنْ تَنْسِبَ إِيثَارَكَ إِلَى اللَّهِ دُونَ نَفْسِكَ. وَأَنَّهُ هُوَ الَّذِي تَفَرَّدَ بِالْإِيثَارِ، لَا أَنْتَ. فَكَأَنَّكَ سَلَّمْتَ الْإِيثَارَ إِلَيْهِ. فَإِذَا آثَرْتَ غَيْرَكَ بِشَيْءٍ فَإِنَّ الَّذِي آثَرَهُ هُوَ الْحَقُّ، لَا أَنْتَ. فَهُوَ الْمُؤْثِرُ حَقِيقَةً. إِذْ هُوَ الْمُعْطِي حَقِيقَةً :::إِیثار (درحقیقت )اللہ کا إِیثار ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،، إِیثار (درحقیقت )اللہ کا إِیثار ہے ، کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کیے ہوئے إِیثار کی نسبت اپنی طرف کرنے کی بجائے اللہ کی طرف کیجیے ، کہ وہی ہے جِس نے إِیثار کیا ہے ،آپ نہیں ، یعنی کہ آپ(اپنا کیا ہوا )إِیثار اللہ کے حوالے کردیں ، کیونکہ اگر آپ نے إِیثارکرتے ہوئے کسی کو کچھ دِیا ہے تو (حقیقت  تو یہ ہی ہے کہ )جِس نے إِیثار کیا ہے وہ اللہ ہے ، آپ نہیں ، پس حقیقتا إِیثار کرنے والا اللہ ہے ، کیونکہ (آپ نے جو کچھ بھی إِیثار کیا، وہ سب کچھ، اور إِیثار کرنے کی توفیق بھی)دینے والا اللہ ہی تو ہے"""۔مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين/فصل منزلۃ الإِیثار /فصل منزلۃ الإِیثار، میں سے اختصار کے ساتھ ۔
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ ہمیں بھی یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اپنے مُسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے ، اللہ کی رضا کی نیّت سے إِیثار کر سکیں ، و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 10/06/1435ہجری ، بمطابق ، 11/04/2014عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 02/08/1436ہجری،بُمطابق،20/05/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔