Sunday, June 7, 2015

::::::: اِسلامی اخوت کی ایک صِفت ،اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کو خوشی دینا ، پاکیزہ لوگوں کا خاصہ ہے :::::::

::::::: اِسلامی اخوت کی ایک صِفت ،اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کو خوشی دینا ، پاکیزہ لوگوں کا خاصہ ہے  :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنسان بہت سے معاملات میں ایک دُوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، معاشی طور پر ، معاشرتی طور پر ، عادات میں ، اور مذاھب اور مسالک میں ،
لیکن اِسلام وہ دِین حق ہے کہ جِس میں شامل ہونے والوں کو اِن اختلافات کے باجود ایک دُوسرے کی محبت ، احترام ، ساتھ اور مدد کی تعلیم دی ، اور اِن اختلافات کو ایسے اختلافات نہ بنانے کی تعلیم دی  جو ایک دوسرے سے دُوری اور دُشمنی کا سبب ہوجائیں ،
بلکہ مُسلمانوں کو یہ سکھایا گیا کہ وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں  ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:::یقیناً إِیمان والے بھائی بھائی ہیں ، لہذا (اے إِیمان والو)اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کیا کرو ، اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو ، تا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائےسُورت الحُجرات (49)/آیت10،
پس ہم مُسلمانوں کو ہمارے اور ساری ہی مخلوق کے اکیلے خالق و مالک نے بھائی چارے کے بندھن میں باندھ دِیا ،  اور یہ بھی حکم فرمایا کہ اِس بھائی چارے ، اِس اخوت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی اِصلاح کے لیے کام کریں ، ہمارے درمیان موجود اندرونی یا بیرونی شر اور نقصان والے معاملات کو مل جل ختم کریں ، تا کہ ہماری ظاہری اور باطنی اِصلاح ہو ، اور اللہ ہم پر رحم فرمائے ، اور  ہم دِین دُنیا اور آخرت کی خیر اور کامیابی پانے والے بن سکیں ،
اللہ جلّ و عُلا نے اپنے اِس فرمان شریف ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ:::یقیناً إِیمان والے بھائی بھائی ہیں کے عِلاوہ اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے بھی اِس بندھن میں مطلوب صفات کے بارے میں بھی بتایا  
پس رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى:::إِیما ن  والوں کی ایک دُوسرے کے ساتھ محبت ، رحم اور اُنسیت کی مثال ایک جِسم کی طرح کہ اگر اُس جِسم کا کوئی ایک حصہ بھی تکلیف میں ہو تو سارا ہی جِسم اُس حصے(کی شفاء یابی)کے لیے بُخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہےصحیح مُسلم /حدیث/6751کتاب  البر والصلۃ والادب /باب17،
ایک اورموقع پر اِرشاد فرمایا ﴿الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا:::(ایک)إِیمان والا (دُوسرے)إِیمان والے کے لیے چُنی ہوئی دیوار کی مانند ہوتا ہے (کہ اُس دیوار کا)کچھ حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہےاور اس  باہم مضبوطی کو اپنے دونوں مُبارک ہاتھوں کی پاکیزہ انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر دِکھاتے ہوئے سمجھایا کہ إِیمان والے اِس طرح ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں،صحیح بخاری /حدیث/2446کتاب  المظالم/باب5، صحیح مُسلم /حدیث/6750کتاب  البر والصلۃ والادب /باب17،]صحیح مُسلم کی روایت میں انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کرنے کا ذِکر نہیں]،
ہم سب یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ تقریباً ہر ہی اِنسان کی زندگی مُشکلوں ، مُشقتوں ، پریشانیوں، فِکروں، دُکھوں ، دَردوں اور امتحانات کا مجموعہ ہوتی ہے ، کسی کے لیے کم ، کسی لیے بہت کم ، کسی لیے اس سے بھی کم ، اور کسی کے لیے زیادہ ، اور کسی کے لیے بہت زیادہ ، اور کسی کے لیے بہت ہی زیادہ ، زندگی کی المناکیوں میں صرف وہ چند لمحات ہی سکون آمیز ہوتے ہیں جو سچے اِیمان کے ساتھ ، اپنے حقیقی ، واحدو لا شریک خالق ، مالک اور معبُود کی عبادت میں گذرتے ہیں ،
جب کوئی مُسلمان ، اپنے اللہ کی رضا کے لیے ، اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ، اپنے کسی مُسلمان بھائی یا بہن کی کسی نیک کام میں مدد کرتا ہے ، اُس کی کوئی مشکل دُور کرتا ہے ، اُس کی خوشی میں شرکت کرتا ہے، یا اُس کے غم ، دُکھ اور درد میں کسی طور کچھ کم کرتا ہے، تو وہ ایسا کرنے والے  کی طرف سے اُس کے رب اللہ عزّ و جلّ کی عبادات میں شمار ہوتا ہے ، اور اِس عبادت کی ادائیگی میں اور اِس کی تکمیل کے بعد جو خوشی اور خوش نصیبی وہ اپنے دِل و جاں میں محسوس کرتا ہے اُسے اِلفاظ میں بیان کرنا محال ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ مجھ جیسے کے لیے محال ہے ،
یہ ایک ایسا احساس ہےجو صِرف  سچے إِیمان والے نفیس اور پاکیزہ نفوس کے حصے میں  آتا ہے ، ایسے نفوس جن کا مطمع ء نظر دائماً و ابداً اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ، اورخیر اور فلاح کی راہوں پر ثابت قدمی سے گامزن رہنے کے لیے  اُن کی کوششیں مستقل و غیر متزلزل ہوتی ہیں ،
ہر ایک اِنسان مُشکل ، مُصیبت ، پریشانی ، غم اور دُکھ کی حالت میں کسی نہ کسی ہمدرد اور مددگار کا متمنی ہوتا ہے ، کسی ایسے ہاتھ کا منتظر ہوتا ہے جو اُس کے کندھوں پر آن پڑےاِس  بوجھ کو اتار دے یا اُتارنے میں مدد کرے ، کسی ایسے کا منتظر ہوتا ہے جو اُس کے خشک حلق کو کسی تریاق سے تر کرے ، جو اُس کی ویران آنکھوں میں خوشی کی روشنی ڈالے ، جو اُس کے کانپتے لرزتے دِل کو سہارا دے ،
عملی زندگی کے بڑے  حقائق میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اِنسانوں میں قدر ومنزلت اور محبت و احترام حاصل کرنے والوں میں سرفہرست ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کو نفع بخش عِلم اور عمل کے ذریعے دُنیا اور آخرت کے کرب آمیز معاملات سے نکالنے میں مددگار ہوتے ہیں ، جودینی، دُنیاوی اور اُخروی طور پر تنگ حال لوگوں کے لیے نرمی اور آسانی مہیا کر کے اُن کے دِین ، دُنیا اور آخرت کے لیے آسانی کا سبب ہوتے ہیں ، جو دوسروں کی زندگیوں کو دُنیا اور آخرت میں کامیاب بنانے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں ، اور اُس میں اُن کا ھدف صرف اپنے اللہ کی رضا ہوتی ہے ، پس وہ اپنا ھدف حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے کاموں کی تکمیل کی جدوجہد میں اپنی کسی کمزوری یا کم مائگی کو روکاٹ نہیں بننے دیتے اور جتنا بھی کر سکتے ہیں کر  کے ہی رہتے ہیں ،
سچے إِیمان والوں کی نشانیوں میں سے یہ بیان فرمایا گیا کہ وہ اپنے إِیمان والے بھائیوں کی ضرویارت پوری کرنے کے لیے اور اُن کی مددگاری کرنے کے لیے ، ایک دُوسرے کے دُکھ دُور کرنے کے لیے اپنی جانوں پر سختی کرتے ہیں  ، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں،اور اپنی ضروریات کو بھی ترک کر دیتے ہیں ، خود خواہ تنگی کی حالت میں اپنے اِیمان والے بھائیوں کی مدد کرنے سے رُکتے نہیں ،
دیکھیے اِس عالی مرتبہ ، پاکیزہ نفس شخص کی طرف ، جِس نے ایک مہمان پایا اور اُس مہمان کی بھوک کے دُکھ کو پیٹ بھر خوارک حاصل ہونے کی خوشی سے بدلنے کے لیے اپنا ، اپنے بیوی بچوں کا کھانا بھی اُس کی خدمت میں پیش کر دِیا اور یہ ضیافت کرتے ہوئے چراغ بھی بھجا دیا کہ کہیں مہمان یہ محسوس نہ کر لے کہ میزبان خود بھوکا رہ رہا ہے ، اور وہ مہمان بھوک کے غم سے آزاد ہونے کی بجائے مزید غم زدہ ہوجائے ،
مادیت کے پیمانوں میں اعمال ماپنے  تولنے والوں کو شاید یہ عمل کچھ خاص محسوس نہ ہو ، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کو  اُس شخص کا یہ عمل  اِس قدر پسند آیا کہ اپنی کتاب کریم میں اِس عمل کے بارے میں آیات نازل فرما کر اُس شخص کے اِس عمل کی تعریف فرمائی اور اُس کے ، اور اُس کے اہل خانہ کے لیے آخرت کی کامیابی  کی یہ خوشخبری عطاء فرمائی﴿،،،،،وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ :::اور وہ (إِیمان والے )جو( اپنے  پاس آنے والے دُوسرے إِیمان والے بھائیوں کی ضرورتوں کو)اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ خود اِن کو ہی ضرورت ہو،اور جسے اُس کے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیابی پانے والے ہیںسُورت حشر (59)/آیت 9،
اس عظیم صحابی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ اور اس کی بیوی رضی اللہ عنہما نے اپنے پیٹ بھر کر ایک وقتی خوشی حاصل کرنے کی بجائے اپنے مسلمان بھائی کو وہی خوشی مہیا کرنے کے لیے بھوک کا دُکھ اپنے لیے اختیار کر لیا ، اور آخرت کی دائمی نعمتوں کے طلب گار ہوئے ،  اُن کے اِس عمل کا اللہ کے لیے خالص ہونے کا ثبوت اللہ کا مذکورہ بالا فرمان ہے ، جس کے مطابق انہیں اس نیک عمل کی بنا پر آخرت کی کامیابی مل گئی ،صحیح بخاری/حدیث/3798کتاب مناقب الانصار/باب10،
اور اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں سوچیے جو ایک جہادی مہم میں پیچھے رہ جانے والے اُن تین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے، جِن پر اللہ ناراض ہوا اور پھر اُن کی توبہ قبول فرمائی اور اپنے کلام مبارک میں اُس کا اعلان فرمایا تو وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ اپنے اُن مسلمان بھائیو ں کے شدید غم کو خوشی میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے معافی کی خبر سنانے کے لیے، کسی تاخیر کے بغیر اور کسی سواری کا انتظام کرنے میں وقت ضائع کیے بغیر ، اپنی تمام تر قوت کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی طرف پیدل ہی دوڑ اٹھا ، اور اُن تک پہنچ کر اُن کے سینوں میں سے غم  کی آگ  نکال کر خوشی کی ٹھنڈک بھرنے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ دُور سے آوازیں دینے لگا کہ میرے بھائیو کی غم جس قدر جلدی ختم ہو سکے ہو جائے ، پس دُور سے ہی سلع نامی پہاڑ کے اوپر سے ہی پکارنے لگا """ يا كعبُ بن مالكٍ أبشِر ::: اے کعب بن مالک خوش ہوجاؤ """،اور وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ اپنے بارے میں یہ کلمات سُن کر سمجھ گئے کہ اللہ نے اُن کی توبہ قُبُول فرما لی ہے ، اُن کے غم دُور ہوئے اور اللہ کے حضور شکر ادا کرتے ہوئےسجدہ ریز ہو گئے ،صحیح بخاری/حدیث/4418کتاب مناقب المغازی/باب79، صحیح مُسلم/حدیث/7192کتاب التوبہ/باب9،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں تو اِس طرح کے واقعات با کثرت میسر ہیں اور اِس طرح میسر ہیں کہ اِنسانی تاریخ میں اُن کی مثال نہیں ملتی ، اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ اُنہیں اُن کی محبوب ترین ہستی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اِس کی تعلیم دی جاتی تھی ، کہ اپنے مُسلمان بھائیوں کو خوشیاں اور سُرور مہیا کرو، اُن کے دُور کرنے کی کوشش کیا کرو،
جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ "اے اللہ کے رسول سب سے بہترین کام کیا ہے ؟ "،
تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ﴿تُدْخِلُ عَلَى أَخِيكَ الْمُؤْمِنِ سُرُورًا، أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، أَوْ تُطْعِمُهُ خُبْزًا :::(بہترین کاموں میں سے یہ ہے ) کہ تُم  اپنے اِیمان والے بھائی کو خوشی مہیا کرو ، یا اس کا قرض ادا کر دو ، یا اسے روٹی کِھلا دو السلسلۃ الاحادیث  الصحیحہ /حدیث 1494،
اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے  یہ بھی سنا تھا کہ ﴿مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ،،،،، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ::: جِس نے کسی اِیمان والے سے دُنیا کے کرب میں سے کوئی کرب دُور کیا تو اللہ اُس سے قیامت کے کرب میں سے کوئی کرب دُور فرما دے گا ، اور جس نے کسی تنگ حال کے لیے آسانی مہیا کی تو اللہ اُس کے لیے دُنیا اور آخرت میں آسانی مہیا فرمائے گا ،اور  جِس نے کسی مُسلمان کی پردی پوشی کی تو اللہ قیامت والے دِن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا،اور جب تک کوئی اپنے(مُسلمان)بھائی کی مدد میں (مشغول )رہتا ہےاللہ تعالیٰ اُس کی مدد فرماتا رہتا ہے ، اور جو کوئی (دین کے )عِلم حاصل کرنے کی راہ پر چلا  تو ایسا کرنے کی وجہ سے اللہ  اُس کے لیے جنّت کی راہ آسان فرمائے گا ، جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے درمیان اس کا درس کرتے ہیں ، تو ان پر ضرور سکونت نازل ہوتی ہے، اور انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے ، اور فرشتے ان پر(اپنےپروں سے )سایہ کرتے ہیں،اور جو  اللہ کے پاس ہوتے ہیں اللہ اُن کے سامنے ان (قران سیکھنے سکھانے والوں) کا (فخر اور محبت سے )ذِکر فرماتا ہے، اور جسکا عمل کم رہا اسے اُس کا حسب نسب فائدہ دینے والا نہیںصحیح مُسلم /حدیث2699/کتاب الذِکر و التوبہ والاستغفار /باب11،
اور  یہ بھی سُنا تھا کہ ﴿مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ:::جِس کے پاس سواری کا اضافی جانور ہو تو اسے دے دے جس کے پاس سواری کا جانور نہیں ،اور جِس کے پاس سفر کے سامان میں سے (اپنی ضرورت کے علاوہ )جو کچھ  اضافی ہے وہ اُسے دے دے جس کے پاس سامانء سفر نہیں
حدیث کے راوی ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ﴿فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسی طرح مال (و متاع) میں سےبہت سی چیزوں کا ذِکر فرمایا ، یہاں تک ہمیں یہ خیال ہونے لگا کہ ہمارے پاس جو کچھ(اپنی ضرورت سے ) اضافی ہے  اُس پر ہمارا حق نہیں ہےصحیح مُسلم/حدیث 1728/کتاب الحدود،
(یعنی اپنے مسلمانوں  کے دُکھ، پریشانی ، کمزوری ، مشقت وغیرہ کو دُور کرنے میں  اپنا مال خرچ کرنےکا بہترین سبق دیا)   
ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تو مُسلم معاشرے کو اِس طرح بنایا تھا کہ ہر ایک اپنے دُکھی ، غمگین ، بھوکے ، پریشان ، کمزور ، تنگ حال بھائی یا بہن کو آسانی مہیا کرنے کے لیے اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال دیتا تھا ،
لیکن اب معاملہ بالکل اُلٹ ہو چکا ، زندگی کے اور بہت سے معامالات کی طرح اِس معاملے میں بھی ہم نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑ رکھا ہے اور نتیجتاً ذاتی خواھشات،ذاتی مقاصد ، ذاتی اھداف، ذاتی مفادات اور  ذاتی تعلقات  کو نبھانے کے علاوہ ہمیں اپنے کسی مُسلمان بھائی ، بہن کی کسی تنگی یا ضرورت کا کوئی احساس نہیں ہوتا ، اور اگر کبھی کبھار کچھ احساس سا ہو بھی جائے تو وہ چند لمحات کی ایک سوچ سے زیادہ نہیں ہو پاتا ، بڑا ہی ہوگا تو کچھ الفاظ ایسے ادا کر لیے جائیں گے جو ہوتے تو بہت خوبصورت ہیں  لیکن ﴿لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِى مِن جُوعٍ:::نہ فربہ  کرے نہ ہی بھوک مٹائےکے مصداق  ہوتے ہیں ،
اب ، آج ہم مُسلمان اور ہمارا مُسلم مُعاشرہ ، سارے کا سارا ، اِن تعلیمات کو اپنانے اور اِن پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح عمل کرنے کا شدید حاجت مند ہے  ، کہ ذاتی مفادات کی دلدل سے نکل کر ہم پھر ایک دوسرے کے دُکھ درد دُور کرنے والا  مُعاشرہ اور اس مُعاشرے کو  ملنے والی برکتوں جیسی  برکتیں حاصل کر سکیں ، و ہ مُعاشرہ اور وہ برکتیں جنہیں کھوئے ہوئے صدیاں گذر چُکیں ،  وہ مُعاشرہ جس کا ہر فرد یہ  نہ صرف ایک دوسرے دکھ درد کا مداوا تھا  بلکہ دوسروں کے دُکھ دور کرنے کی صورت میں خود اپنے دکھوں سے بھی چھٹکارا پاتا تھا اور اپنے رب کی رضا اور آخرت کی کامیابیوں سے فائز ہوتا تھا ،  ،اس کی تفصیل ابھی بیان کر چکا ہوں ،
اس کے لیے کچھ زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں ، سب سے پہلے نیت کی دُرستگی، اور اس کے بعد صرف اتنا کرتے چلیے کہ جہاں جتنا ہو سکے اپنے مسلمانوں بھائیوں بہنوں کے لیے آسانیاں مہیا کرتے  رہیے، خود بھی خوش نصیبوں میں شامل ہوجایے اور انہیں بھی خوشیاں مُہیا کیجیے ،  نیک نفس لوگ اس کام میں پیچھے نہیں رہتے ، خواہ سچائی و خلوص کے ساتھ یہ کام صرف ز ُبانی مددگاری تک ہی  کر سکتے ہوں تو کرتے رہتے ہیں ، یہ سوچ کر رکتے نہیں کہ ز ُبانی تسلی دینے کا کیا فائدہ ، آیے ہم سب ہی ایسے نیک نفوس کے قافلے میں شامل ہوجائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں کی مددگاری اور خیر خواہی اور ان کی تکلیفوں میں کمی کی کوشش کرتے رہیں خواہ وہ خیر کے چند کلمات کے ذریعے ہی ہو ،
اپنے روؤف و رحیم نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ہمارے لیے محنتء شاقہ کو دیکھیے کہ ہمارے لیے ، ہم تک دُنیا اور آخرت کی خیر اور نفع پہنچانے کے لیے ، ہمیں دُنیا اور آخرت کی خوشیوں اور کامیابیوں کے راستے سمجھانے کے لیے اپنی ذات مُبارک کا کچھ خیال نہ فرمایا ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ """ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے ؟ """
تو فرمایا (((((نَعَمْ، بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ :::جی ہاں ، جب لوگوں (کی ذمہ داریوں اور فِکروں )نے انہیں کمزور کر دیا )))))صحیح مُسلم/حدیث732 /کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا/باب16،
کیا آپ اپنے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہ کریں گے ؟؟؟
کیا آپ برما ، شام ،فلسطین ،کشمیر اور دُنیا کے دیگر مُقامات پر ، ظلم و ستم اور حقیقی دہشت گردی کا شِکار ہونے والے اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کے کیے کچھ نہیں کریں گے ؟؟؟
کیا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت کا ہمارا دعویٰ فقط دعویٰ ہی رہے گا ، یا کبھی ہم اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر کے اُس دعوے کی کچھ سچائی بھی دکھائیں گے ؟؟؟ 
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
تاریخ کتابت :26/02/1432ہجری، بمُطابق،30/01/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :19/08/1436ہجری، بمُطابق،06/05/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔