Saturday, July 25, 2015

::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں : سوال رقم 4 اور اُس کا جواب ::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کی تبلیغ اور رسالت کی ذمہ داری کی تکمیل :::

::::::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں ::::: سوال رقم 4 اور اُس کا جواب :::::
::::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کی تبلیغ اور رسالت کی ذمہ داری کی تکمیل :::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدہٗ  وَ نَستَعِینہٗ  وَ  نَستَغفِرہٗ  وَ  نَعَوذ  بَاللَّہِ  مِن  شرورِ  أنفسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن  یَھدِ ہ  اللَّہُ   فَلا  مُضِلَّ  لَہ ُ وَ   مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ، وَ أشھَد  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہ  وَحدَہ  لا  شَرِیکَ   لَہ ، وَ  أشھَد  أن  مُحمَداً   عَبدہٗ  وَ  رَسو لہٗ :::بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں  اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔
::::::: سوال :::::::
یہ تو ہم سب جانتے اور اِس پر اِیمان رکھتے ہیں کہ ہماری طرف بھیجے جانے والے رسول محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ و علی آلہ وسلم اللہ کے ا ٓ خری رسول تھے،کیا اُنہوں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اللہ کے تمام تر پیغام و أحکام ہم تک پہنچا دئیے؟یا کوئی بات چھپا گئے؟یا کِسی کو خاص رکھتے ہوئے کوئی پیغام یا حُکم صِرف اُسے ہی بتایا؟اور ایک الگ شریعت اُس کے پاس چُھپا گئے؟یا کوئی عِلم یا کچھ عُلوم کے دُرُست اور فائدہ مند ہونے کے باوجود اُن کے بارے میں کچھ نہ بتائے بغیر تشریف لے گئے ؟     
::::::: جواب :::::::
اللہ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے اپنی ساری اُمت کواللہ کے تمام تر پیغام و أحکام  مکمل طور پر پہنچا دئیے اور سب کو ایک ہی جیسے پہنچا دیے،اِس میں کِسی کی کوئی خصوصیت نہیں،جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بعض خاص پیغام و أحکام کچھ قریبی شخصیات کو دیے جو کِسی ا ور کو نہیں دیے گئے،
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے خصوصاً اور اِنسانیت کے لیے عموماً ہر وہ بات واضح فرما دی جس میں اُن  سب کے لیے اللہ کی رضا کا حصول تھا ،  پس  ایسا کوئی  عِلم ، کوئی عقیدہ کوئی عمل جو اُس وقت تک اِنسانی اور بالخصوص عرب معاشرے میں موجود تھا ،اور اُسے پانا ، یا اُس  پر عمل پیرا ہونے میں خیر تھی  ، باقی نہ بچا کہ اُس کی خبر نہ کی گئی ، اور جن میں خیر نہیں اُن سے منع نہ کیا گیا ۔    
:::::: قُرآن کریم   سے دلیل :::::::
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے اِس بات کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا:::آج میں نے تم لوگوں کے لیے تمہارا دِین مکمل کر دِیا اور تُم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اِس بات پر راضی ہو گیا کہ اِسلام تمہارا دِین ہوسُورت المائدہ(5)/آیت3،
:::::: سُنّت شریفہ سے دلائل ::::::
::: دلیل (1) ::: أبو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ نے کہا""""" ﴿ترَکَنَا  رَسُولَ  اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم وَ مَا  طَائِرٌ یُقلِّبُ جَناحِیہِ فِی الھَواءِ إِلَّا و ھُوَ یَذکُرُ لَنَا مِنہ ُ عِلماً،  قال  ؛  فقال  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ﴿ مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں اِس حال میں چھوڑا کہ ہوا میں پر ہلاتے ہوئے کِسی پرندے کے پر  ہلانے میں بھی جو عِلم ہے وہ بھی ہمیں بتایا ، اور پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿کوئی ایسی چیز نہیں بچ رہی،جو تم لوگوں کو جنّت کے قریب کرنے والی ہو اور دوزخ سے دور کرنے والی ہو، اور وہ تم لوگوں پرواضح نہ کر دی گئی ہو"""""
المعجم الکبیر للطبرانی/حدیث/1647کتاب الجیم/ میں سےباب24،شیخ علی بن حسن حفظہُ اللہ نے "عِلم اصول البدع/صفحہ19"میں کہا کہ اِس کی  سند صحیح ہے ۔ 
::: دلیل (2) ::: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین نے اِس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کے تمام پیغام و احکام اُن تک پہنچا دئیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر صحابہ سے پوچھا ::: ﴿وَ أنتُم تُسألُونَ عَنِی فَمَا أنتُم قَائِلُونَ ؟::: تُم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تُم لوگ کیا جواب دو گے؟
 قالُوا ؛نَشھَدُ إِنَکَ قَد بَلّغتَ رِساَلاتِ رَبِکَ و أدِیتَ ، و نَصَحَتَ لِاُمتکَ ، و قَضِیتَ اَلَّذِی عَلِیکَ::: سب نے کہا :::: ہم اِس بات کی گواہی دیں  گے کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کی تبلیغ کر دی ، اور أدا ئیگی کر دی ، اوراپنی اُمت کو نصحیت کر دی ، اور جو آپ پر فرض تھا وہ آپ نے پورا کر دِیا،
﴿ فَقال بِأصبعِہِ السّبابَۃِ یَرفَعُھَا إِلیٰ السَّماءِ و یَنکَتُھَا إِلیٰ  النَّاسِ ، اللَّھُم فَأشھِد ، اللَّھُم فَأشھِد ، اللَّھُم فَأشھِد ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اُنگلی آسمان کی طرف اُٹھا ئی پھر لوگوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ صحیح مُسلم /حدیث/3009کتاب  الحج/باب19 حَجَّةِ النَّبِىِّصلی اللہ علیہ وسلم،
::: دلیل (3) ::: مسروق رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ، يَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ - صلى الله عليه وسلم - رَبَّهُ::: امی جان ، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟"""،
تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا """لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا - صلى الله عليه وسلم - رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ . ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ، ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الآيَةَ ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فِى صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ:::تُم اِن تین معاملات(کے عِلم،ا ور اِن کی حقیقت)سے کہاں(غائب)ہو ،جو کوئی بھی تُمہیں اِن تین معاملات (موضوعات) کے بارے میں (وہ کچھ کہے جِس کا اظہار تمہارے سوال میں ہے)تو یقیناً اُس نے جھوٹ کہا ،
(1) جو کوئی تُم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  رب کو دیکھا  تو یقیناً اُس نے جھوٹ کہا ،  اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ)پڑھی  ﴿اور اللہ کو کوئی نگاہ (کوئی بصارت) نہیں دیکھ سکتی لیکن وہ سب کی نگاہیں دیکھتا ہے، اور وہ بہت باریک بین اور سب سے زیادہ خبر رکھنے والا ہے،
(اور یہ آیت مُبارکہ پڑھی کہ ) ﴿ اور کسی اِنسان کے لیے یہ (معاملہ)نہیں ہے کہ اللہ پردے کے بغیر ، یا وحی کے عِلاوہ (براہ راست ، بالمشافہ) اُس سے کوئی بات فرمائے،
اور(2)جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جانتے تھے کہ  کل کیا ہو گا ، تو یقیناً اُس نے جھوٹ بولا ، اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ) پڑھی  ﴿اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی،
اور(3)جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کچھ چُھپایا ، تو یقیناً اُس نے جھوٹ بولا ، اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ) پڑھی﴿اے رسول جو کچھ آپ کے رب نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے اُس کی تبلیغ فرمایے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )نے جبریل (علیہ السلام کو اُن کی اصلی حالت میں)کو دو دفعہ دیکھا ہے """""صحیح البُخاری/حدیث/4855کتاب التفسیر /باب 53سورت النجم کی تفسیر، 
إِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا  کے اِن فرماین میں ہمارے لیے عقیدے کے بہت سے مسائل کے فیصلے بیان کیے گئے ہیں ،
میں یہاں صِرف اُسی موضوع کے بارے میں سنائے گئے فیصلے کی بات کروں گا جِس موضوع کا ہم یہاں مطالعہ کر رہے ہیں ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی یہ خیال کرے یا کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے پیغامات یا احکامات میں سے، اُمت کے لیے خیر پہنچانے والے معاملات  کی خبر میں سے ،یا نقصان پہنچانے والے معاملات کی خبر میں سے  کچھ چھپایا ہے، تو بلا شک وہ شخص جھوٹا ہے ، کیونکہ ایسی بات کہہ کر وہ اللہ کے اِس فرمان ﴿اے رسول جو کچھ آپ کے رب نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے اُس کی تبلیغ فرمایےکی تکذیب کرتا ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر یہ اِلزام لگاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اپنے منصب رسالت کا حق ادا نہ کیا۔
اِن گواہیوں کے بعد بھی اگر کوئی دِین میں کِسی خفیہ پیغام رسانی ، ولایت، و وصیت و خلافتءِ خاصہ اور نئے نئے کاموں کو دُرُست جانتا ہو ، تو پھر کِس کی بات دُرُست مانی جائے؟؟؟
اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی؟؟؟
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ؟؟؟
یا قصے اور حکایات بیان کرنے والوں کی؟؟؟
بلا دلیل اور بلا حُجت باتیں کرنے والوں کی ؟؟؟
قُران و سُنّت کو مخصوص و محدود سوچ و فِکر، منطق و فسلفہ ، ذاتی آراء اور اھواء اور باطل تاویلات ، ظنی امکانیات (ایسا ہو سکتاہے تو ایسا کیوں نہیں ؟ ایسا ہوا تھا تو ایسا بھی تو ہوسکتاہے، اسیا نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا، وغیرہ )کی بِناء پر بیان کرنے والوں کی؟؟؟
قارئین کرام ، مجھے آپ سے اِن سوالات کے جوابات  درکار نہیں ہیں، یہ سوالات آپ کے لیے ہیں ، آپ اپنے آپ سے یہ سوالات کیجیے اور جوابات کے مُطابق میرے گذارشات سمجھیے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمارے سب کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو اُس کا او ر اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کا سچا ، حقیقی عملی محب اور تابع فرمان بنائے ، اور اِسی حال  میں اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 طلب گارء دُعا ،
 آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 23/03/1427ہجری، بمُطابق 21/04/2006عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 22/12/1435ہجری،بمُطابق،16/10/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ربط سے نازل کیا جاسکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔