::::::: قبروں پر نشانی لگانے اور قبروں پر کچھ لکھنے ، اور تعمیر کرنے کا بیان ::::::
بِسم اللہ ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علی رسول اللہ محمد و
علی آلہ و اصحابہ و أزواجہ،
:::سوال
::: قبروں پر کوئی
نشانی لگانے کا ہماری اِسلامی شریعت میں کیا حُکم ہے ؟
:::
جواب ::: کسی قبر کو دُوسری قبروں میں سے پہچاننے کے لیے
، اُس قبر پر نشانی کے لیے کوئی ، پتھر ، لوہے یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا رکھنا جائز ہے ، بشرطیکہ اُس
پر کوئی لکھائی نہ کی گئی ہو ، نہ حروف و اِلفاظ کی صورت میں اور نہ ہی ارقام
(نمبرز) کی صُورت میں ، اور نہ ہی کسی بھی قسم کا کوئی نقش ونگار ہو ، اور نہ ہی
وہ پتھر ، لوہا ، لکڑی وغیرہ کسی بھی طور پر کسی شکل میں تیار کیا گیا ہو ،
قبر
پر نشانی لگانے کے جائز ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے :::
﴿ لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ
مَظْعُونٍ أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، أَمَرَ
النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- رَجُلاً أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ فَلَمْ
يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ
اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ - قَالَ كَثِيرٌ
قَالَ الْمُطَّلِبُ قَالَ الَّذِى يُخْبِرُنِى ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى
الله عليه وسلم- قَالَ - كَأَنِّى أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَىْ رَسُولِ
اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا
ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ ( أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ
أَخِى وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِى)::: جب عثمان بن مظعون(رضی اللہ عنہ ُ )کی موت واقع ہوئی ، اور اُن
کا جنازہ ہوا اور تدفین ہوئی ،تو، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم
دِیا کہ ایک پتھر لایا جائے ،
وہ شخص اُس پتھر کو اُٹھا نہ سکا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُس
کی طرف گئے اور اپنے دونوں(پاکیزہ اور مُبارک) بازوؤں سے کپڑا ہٹایا ،
(راوی)کثیر کا کہنا ہے کہ (راوی)المُطلب
نے کہا کہ ، جِس (صحابی رضی اللہ عنہ ُ )نے مجھے یہ خبر دِی ، اُس نے کہا کہ (مجھے یہ بات
سناتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ) گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی بازوؤں کی سُفیدی دیکھ رہا ہوں،جب اُنہوں نے اپنے بازوؤں سے کپڑا ہٹایا تھا،
تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وہ پتھر اُٹھایا اور(عُثمان بن مظعون
رضی اللہ عنہ ُ) کی قبر کے سرہانے رکھا ، اور اِرشاد فرمایا ،(اِس کے ذریعے میں
اپنے بھائی کی قبر پہچان سکوں گا ، اور اِس کے خاندان میں سے جو کوئی فوت ہوا اُسے
اِس (کی قبر) کے قریب دفن کروں گا﴾ سُنن ابو داؤد/حدیث 3208/کتاب
الاِیمان/باب 63، حدیث کا درجہ صحت """حَسن"""ہے ، تفصیلات کے
لیے ملاحظہ فرمایے إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ کی """سلسلۃ
الاحادیث الصحیحۃ/حدیث3060"""
:::::
فقہ
الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام :::::
اِس مذکورہ بالا
حدیث شریف میں ہمیں درج ذیل احکام و مسائل ملتے ہیں :::
:::
(1) ::: کسی مُسلمان کی قبر پر کوئی پتھر وغیرہ بطور نشانی کے
رکھنا جائز ہے ، پتھر پر قیاس کرتے ہوئے لکڑی یا کسی دھات وغیرہ کو بھی شامل کیا
گیا ، لیکن سب کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی قدرتی حالت میں ہوں، اُن میں کسی قسم
کی کوئی تبدیلی یا اضافہ نہ کیا گیا ہو،
:::::::
کچھ عُلماء کرام
، نشانی لگانے کے ضمن میں قبر پر میت کے
نام لکھنے کو بھی دُرُست کہتے ہیں ، لیکن اُن کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے فعل مُبارک کے موافق نہیں، کیونکہ اگر ایسا کرنا دُرُست یا بہتر
ہی ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ُ
کی ، یا کسی اور کی قبر پر نام بھی تو لکھوا سکتے تھے ، لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں
کیا اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اجمعین میں سے کسی نے ایسا کیا ،
لہذا قبر پر
صِرف میت کا نام بطور نشانی لکھنے کے جواز والی بات خطرے سے خالی نہیں ،
اِسی قسم کے
جواز مزید غلطیوں ، برائیوں اور شرک و کفر والے کاموں کا راستہ کھولتے ہیں ،جیسا
کہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قبروں پر وہ کچھ لکھا جاتا ہے ،جو کسی بھی طور حقیقت کے
مُطابق نہیں ہوتا ، پس ایسے کسی کام کو جِس کی وجہ سے لوگ مزید غلطیوں ، برائیوں ،
اور شرک وکفر والے کاموں میں ملوث ہوتے ہوں جائز یا دُرُست کہنا مُناسب نہیں ،
بلکہ
"""سد ذرائع """ کے مُطابق اِس کام سے روکا جانا ہی
زیادہ خیر ہے ،
:::::::
اِسی طرح کچھ
لوگ نشانی کے طورپر قبروں پر کچھ تعمیر کرنے کو بھی جائز بنانے کی بات کرتے ہیں ،
جبکہ اُن کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے درج ذیل حکم کے بالکل خِلاف ہے ،
جابر بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿نَهَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-
أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قبروں
پر لیپ کرنے ، اُن پر بیٹھنے اور اُن پر کچھ تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے ﴾صحیح مُسلم/حدیث 2290/کتاب الاِیمان/باب 32،
:::
(2) ::: کوئی افضل و اعلیٰ شخصیت کسی بدنی مشقت میں کسی کم رتبے
والے کی مدد کرے تو اُس اعلیٰ رُتبے والے کی
شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی ،
:::
(3) ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جِلد مُبارک
سُفید تھی ،
:::
(4) ::: کسی فوت شُدہ کے رشتہ داروں کو اُس کی قبر کے قریب دفن کیا
جانا جائز ہے ، لیکن اِس میں ایسا کوئی عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ قبروں کے قریب
ہونے کی وجہ سے مرنے والے بھی ایک دوسرے قریب ہوجاتے ہیں ، یا آخرت کی پہلی منزل
قبر، اور پھر برزخ اور پھر قیامت میں ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں، یا ایک
دُوسرے کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں،کیونکہ اِن باتوں کی کوئی دلیل قران کریم اور
صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ میں میسر نہیں ،
میری کتاب
"""ایصال ثواب اور اس کی حقیقت """کا مطالعہ اِن
معاملات کو مزید اچھی طرح سے سمجھنے میں مددگار ہو گا ، اِن شاء اللہ ، کتاب کا
ربط درج ذیل ہے : http://bit.ly/1TgHVID
اللہ تبارک
وتعالیٰ ہم سب کو اُس کادِین اُسی طرح سمجھنے
، ماننےاور اپنانے کی ہمت عطاء
فرمائے جِس طرح اُس نے یہ دِین اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم پر نازل فرمایا ، اور اُس طرح اِس دِین پر عمل کرتے ہوئے اُس کے حضور پیش
ہونے کی توفیق عطاء فرمائے جِس طرح وہ راضی ہوتا ہو۔ والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 02/20/1436ہجری، بمُطابق،18/07/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ
درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔