::: اللہ سے ڈرو بھی اور اُس کی
رحمت کی اُمید بھی رکھو:::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و
السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا
مَعصُومَ بَعدَہ ُ مُحمدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و
مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ عَلیٰ مَسلکہِ ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ
اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے
والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور
سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور
سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے
والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ
ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم
و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( وَ
ادعُوہُ خَوفاً و طَعماً ::: اور اُس کو خوف اور
لالچ کے ساتھ پُکارو )))))
عُلماء میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ (((((ادعُوہُ ))))) کا معنی ہے
""" اعبُدُوہُ ::: اُس کی عبادت کرو
""" ،
اور کچھ کا کہنا ہے کہ اِس کا معنی ٰ ہے """ اُس سے دُعاء کرو
""" اِس مفہوم میں کہ اُس سے ہی خیر طلب کرو اور اُسی سے ہی نقصان
کی دُوری طلب کرو ،
حقیقتادونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ، کیونکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ دُعاءء کرنا عِبادات کی بڑی اور أہم اِقسام
میں سے ایک ہے ، جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((الدُعاءءُ هو الْعِبَادَةُ ::: دُعاء عِبادت ہے اور تُمہارے رب کا کہنا ہے )))))
اور پھر قرأت فرمایا ((((( وقال رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ::: اور تُمہارے رب کا کہنا ہے کہ مجھ سے دُعاء کرو میں ہی تُم لوگوں کی قبول کروں گا
))))) سُنن الترمذی /حدیث 3372/کتاب الدعوات /باب اول ،سنن ابو داود /حدیث1479 /کتاب الصلاۃ /باب359 ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
یہاں اِس بات کا ذِکر بھی مُناسب معلوم ہوتا ہے کہ (((الدُّعَاءُ
مُخُّ الْعِبَادَةِ::: دُعاء عِبادت کا مغز ہے ))) ایک ضعیف
روایت ہے ،
اللہ سے دُعاء کرتے ہوئے ہمیں یہ خُوب یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دُعاء کرتے ہوئے ، اُس کی عِبادت
کرتے ہوئے ، ہر وقت ، ہر عمل میں اللہ سے خوف کرتے رہنا چاہیے اور اُس سے رحمت اور
قُبولیت کا لالچ بھی رکھنا ہی چاہیے ، کہ اللہ تعالیٰ جس پر غُصہ کرے اُس کے لیے
انتہائی شدید گرفت کرنے والا، سخت ترین عذاب دینے والا والا ہے ، اور جو اُس کی
خوشی حاصل کر سکے اُس کے لیے انتہائی رحم کرنے والا اور آسانیاں عطاء فرمانے والا
ہے ،
اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ خبر ہمیں عطاء فرمائی ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کو حکم دیا کہ یہ خبر دیجیے کہ (((((نَبِّىءْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ O وَأَنَّ
عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ::: (اے محمد آپ ) میرے بندوں
کو خبر کر دیجیے( کہ) بے شک میں بہت بخشش
والا اور رحم کرنے والا ہوں O اور بے شک میرا عذاب ہی وہ (ہے جو کہ) انتہائی دردناک عذاب ہے ))))) سورت الحجر(15) /آیات 49,50،
پس دُعاء کرنے والے کو ، اللہ تعالیٰ کی عِبادت کرنے والے کو یہ جاننا چاہیے
کہ اُسے اللہ کی بخشش اور رحمت کا یقین رکھتے ہوئے دُعاء کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ
غفور و رحیم ہے ،
اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ بالکل اُسی یقین کی طرح اللہ سے خوف بھی کرنا ہے
اور یہ بھی یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ
کا عذاب انتہائی شدید ہے ،
لہذا ، صِرف بخشش اور رحمت کا یقین فائدہ دینے والا نہیں ، اور نہ ہی صرف عذاب
کا خوف فائدہ دینے والا ہے، بلکہ اللہ کا خوف اور اللہ کی بخشش کی اُمید دونوں کا
ساتھ ہونا لازم ہے ،
دُعاء کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی عِبادت
کرتے ہوئے ، نیک اعمال کرتے ہوئے بندے کے دِل و دِماغ پر یہ خوف بھی رہنا چاہیے کہ
کہیں اُس کا یہ عمل اللہ کے ہاں مردُود نہ ہو جائے ، اگر ایسا ہو گا تو بندہ اپنے ہر
عمل کو ادا کرنے سے پہلے اُس عمل کی قُبولیت
کی تمام شرائط پوری کرنے کا عِلم حاصل کرے گا اور اُن شرائط کو پوری کرنے کی بھر
پور کوشش کرے گا ،
اور اِس کے ساتھ اُسے اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید ہو جائے گی کہ اللہ پاک اپنی
رحمت سے اُس کے عمل کو قُبول فرما لے گا اور اُس پر راضی ہو جائے گا ،
پس دُعاءء کرنے والے کو ، کوئی بھی اور عِبادت کرنے والے کو اپنے اندر یہ
دونوں کیفیات برقرار رکھنا لازم ہے ،
جو لوگ اِس قِسم کی باتیں کرتے ہیں کہ """ جِس نے اللہ کی
عِبادت اللہ کے خوف سے کی ، یا اللہ کی رحمت کے لالچ میں کی تو اُس کی عِبادت ناقص
ہے ، کیونکہ اُس نے تو عِبادت اللہ کے خوف کو دُور کرنے کے لالچ میں ، اللہ کے عذاب کو دُور کرنے کے لالچ میں ، یا اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لالچ میں، اللہ
کی جنت حاصل کرنے کے لالچ میں کی، تو اُس نے گویا اپنی عِبادت کے ذریعے تجارت کی ،
ادلے بدلے کا سودا کیا ، لہذا یہ عِبادت ناقص ہے ، مکمل عِبادت وہ ہے جو اللہ کی
عظمت اور اس کے جلال کی وجہ سے کی جائے کسی اور لالچ یا غرض سے نہیں ، وغیرہ وغیرہ
"""
اس قِسم کی باتیں کرنے والے اللہ تعالیٰ کے فرامین اور اُس کے رسول کریم صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کا اِنکار کرتے ہیں ،
جی ہاں ، ہمیں کثرت سے ایسی آیات مُبارکہ
اور صحیح ثابت شُدہ احادیث مُبارکہ مُیسر ہیں جِن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اُس کے خوف کی وجہ سے ، اُس کے
عذاب سے بچنے کے لیے ، اُس کی رحمت اور اُس کی جنت کے حصول کے لیے کیے جانے کا سبق دیا
گیا ہے ،
اور سب اعلیٰ اور اکمل بات اور ہدایت وہ ہے جو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ میں ہے ، اور اِن دونوں
میں ہمیں یہ ہی سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اُس کے عذاب سے بچنے کے لیے ، اور
اُس سے رحمت اور بخشش کی امید رکھتے ہوئے اُس سے دُعاءء کریں ، اُس کی عِبادت کریں
،
صحت مند اور صحیح عقل رکھنے والوں کی دُعاءئیں ، خواہشات اور اعمال دو ھدف
رکھتے ہیں :
::: (1) ::: نقصان دہ چیزوں سے بچنا،
::: (2) ::: فائدہ مند چیزوں کو حاصل کرنا،
کوئی صحت مند اور ٹھیک عقل رکھنے والا کِسی ایسی چیز کے لیے دُعاءء نہیں کرتا،
نہ ہی کوئی ایسا عمل کرتا ہے جِس کے نتیجے میں
نہ تو کِسی نُقصان سے محفوظ ہونے کی توقع ہو اور نہ ہی کوئی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید ہو،
پس جب کوئی بندہ اللہ کے خوف کا مکمل شعور رکھتا ہو اور اُس کے خوف میں اُس کے
عذاب سے بچنے کی خواہش رکھتے ہوئے ، اور اُس کی بخشش اور رحمت کی وسعت پر یقین رکھتے
ہوئے اور اُس بخشش اور رحمت کے حصول کا خواہش مند ہوتے ہوئے اللہ کی عِبادت کرے گا
تو یہ دونوں کیفیات یعنی اللہ کا خوف اور
اللہ کی بخشش و رحمت کی اُمید اُس بندے کے
لیے دو ایسے پر ہو جاتے ہیں جو اُسے قوتء اِیمان کے ساتھ اِستقامت کی راہ پر محو
پرواز کرتے ہیں اور وہ اللہ کی رحمت اور بخشش کو حاصل کرنے والوں میں بن جاتا ہے ،
لہذابندے کو چاہیے کو جب وہ اللہ سے دُعاء کرتے ہوئے اُس کی عِبادت کرے ، یا کِسی
اور عمل کے ذریعے اُس کی عِبادت کرے ، بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بندہ اپنی زندگی کے ہر عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لے
تا کہ اِس ہر وہ عمل جو وہ اللہ کے لیے کر رہا ہے ، اُس کی طرف سے اللہ کی عِبادت
بن جائے ، اور اپنے اللہ کی اُس عِبادت کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند
بنانے کے لیے اللہ سے خوف اور اللہ کی بخشش اور رحمت کے حصول کی اُمید ، دونوں ہی
کیفیات کو جمع کیے رکھے ،
پس نہ تو اللہ کے خوف سے لا پرواہ ہو کیونکہ
ایسا کرنے سے وہ اُن میں سے ہو جائے گا جو
اللہ کے داؤ سے خود کو محفوظ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کے ہی ایک داؤ میں پھنسے ہوتے ہیں ،
اِس بات کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پاک میں تدبر کیجیے (((((أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللَّهِ فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلاَّ
الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ::: کیا یہ لوگ اللہ کے داؤ سے ڈرتے نہیں (جان رکھو کہ) اللہ کے
ڈر سے صِرف نُقصان پانے والے ہی نہیں ڈرتے)))))سورت الأعراف /آیت 99،
اور نہ
ہی صِرف خوف ہی رکھے اور خوف میں اِس قدر گم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کی اُمید تک کھو دے اللہ کا
فرمان ہے (((((إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ
مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ :::بے شک کہ
اللہ کی رحمت سے بےایمان لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں))))) سورت یوسف /آیت 87،
اللہ پر سچا اِیمان رکھنے والے بندے اپنی صحت و تندرستی اور خوش حالی کے ایام میں اللہ کی
بخشش اور رحمت کے پانے پر صِرف خُوش ہی نہیں ہوتے ، اور نہ ہی صِرف شُکر گذاری
کرتے ہیں ، بلکہ اُن پر اللہ کا خوف بھی طاری رہتا ہے کہ کہیں اُن کی کِسی
غلطی ، کِسی کوتاہی ، کِسی گناہ کی وجہ سے اُن کی عطاء کردہ نعمتیں واپس نہ لے لی
جائیں ، لہذا وہ اللہ کے خوف سے غافل ہو کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم کی نافرمانی کا شکار نہ ہوتے ،
اور جب کِسی اِیمان والے بندے پر بیماری یا سختی والے حالات ہوں تو اُس پر اللہ
کی رحمت اور بخشش کی کیفیت غالب ہونا چاہیے کہ اُس کا رب بڑی رحمت والا اور بہت ہی
رحم کرنے والا ہے اُس کی مشکلیں دُور کرے گا ، تا کہ مایوسی کا شکار ہو کر اللہ
اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کا شکار نہ ہو جائے
،
اِسی طرح جب اُس کی موت کا وقت آجائے
تو اُس پر اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید
کی کیفیت غالب ہونی چاہیے ، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے یہی حکم فرمایا ہے، توجہ سے پڑھیے (((((لَا يَمُوتَنَّ أحدكم إلا وهو يُحْسِنُ بِاللَّهِ الظَّنَّ :::تُم میں سے کوئی نہ مرے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بارے میں حُسنء ظن
رکھتا ہو ))))) صحیح مُسلم /حدیث 2877/کتاب الجنۃ و صفۃ
نعیمھا و اھلھا /باب 19،
پس جب بندہ جان لے کہ اب وہ دُنیا اور اُس کی بہاریں ، ماں باپ ، بیوی بچے ،
یار دوست ، مال و دولت ، عیش و آرام ، وہ مزے وہ راحتیں جِن کے لیے وہ دِن رات ایک
کرتا رہا ہے چھوڑنے والا ہے اور اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والا ہے تو اُسے چاہیے
کہ وہ یہ اُمید رکھے کہ وہ جِس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے وہ بخشش کرنے والا اور
رحم کرنے والا ہے ، اور یاد رکھے کہ اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
بتایا تھا کہ (((((يَقُولُ الله
تَعَالَى أنا عِندَ ظَنِّ
عَبدِي بِي :::
اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ میں اپنے بندے کے میرے بارے میں گُمان کے
مُطابق ہی اُس کے پاس ہوتا ہوں ))))) متفقٌ علیہ ،
پس ایک اِیمان والے کی ساری زندگی اللہ کے خوف میں ، اللہ کے عذاب کے خوف میں
اُس سے بچنے کے کوشش میں اور اُس کی بخشش اور رحمت کی اُمید میں اُس کے حصول کی
کوشش میں گذرنا چاہیے ، اور موت کے وقت زندگی کے آخری ترین لمحے تک میں اُس پر
اللہ کے لیے حسنء ظن کا غلبہ ہونا چاہیے ،
اِس موضوع کو الحمد للہ ، مزید تفصیل کے ساتھ """ اِیمان والا اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے"""
میں بیان کیا گیا ہے ، اِس کا ربط http://bit.ly/1nvQa6p ہے ،
اِن دونوں مضامین کے ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے گا ، اِن
شاء اللہ مزید خیر کا سبب ہو گا ،
::: قران کریم میں خوف کے معانی و مفاہیم
:::
اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو اُس کی رحمت اور بخشش کی اُمید کے ساتھ ساتھ اُس کی ناراضگی اور عذاب کا خوف
رکھنے والوں میں سے بنائے ، اور ہمیں اِن دونوں صِفات میں سے صِرف کِسی ایک کا
حامل ہو کر غلط کاریوں کا شِکار ہونے سے بچائے ،والسلام علیکم ورحمۃ ُاللہ و
برکاتہ، طلب گارء دُعاء، عادِل سُہیل
ظفر ،
تاریخ کتابت : 10/07/1432ہجری،
بمُطابق،12/06/2011۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔