::::: نیکیاں جو درحقیقت ہوتی نہیں ہیں :::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی
مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن
تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں
اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ
اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور
اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی
ہو محمد رسول اللہ کی پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن
کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
ایک دفعہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی مسجد شریف میں تشریف فرما تھے کہ ایک بدوی
صحابی رضی اللہ عنہ ُ داخل ہوئے اور نماز
پڑھنے لگے ، نماز پڑھ کر جب وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا ،
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((وَعَلَيْكَ
السَّلاَمُ فَارْجِعْ فَصَلِّ ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ::: اور تُم پر بھی سلامتی ہو ، اورواپس جاؤ(اور اپنی نماز
دوبارہ پڑھو ) کیونکہ تُم نے نماز نہیں پڑھی )))))،
وہ چونکہ ایک
صحابی تھے ، خواہ بدوی تھے ، اور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
خدمت میں حاضر رہنے والوں میں سے نہ تھے ، ہماری طرح اپنے مزاج ، اپنی سوچوں ،
اپنے افکار ، اور اپنے خود ساختہ فسلفوں کے پیروکار نہ تھے ، پس کوئی سوال کیے
بغیر ، کوئی بحث کیے بغیر ، کوئی منطق و فسلفہ بِگھارے بغیر اُسی جگہ واپس گئے جہاں نماز پڑھی تھی اور
دوبارہ نماز پڑھی ،
دوبارہ نماز
پڑھنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے
اورسلام عرض کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
سلام کا جواب دینے کے بعد پھر اِرشاد فرمایا (((((وَعَلَيْكَ
السَّلاَمُ فَارْجِعْ فَصَلِّ ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ::: اور تُم پر بھی سلامتی ہو ، اورواپس جاؤ(اور اپنی نماز
دوبارہ پڑھو ) کیونکہ تُم نے نماز نہیں پڑھی )))))،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ پھر کسی چُوں چَراں کے
بغیر واپس گئے اور نماز پڑھی ، انہیں اسی طرح تین دفعہ واپس پلٹایا گیا ، تیسری
دفعہ نما زپڑھنے کے بعد صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
خدمت میں سلام پیش کی تو جواب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
پھر وہی اِرشاد فرمایا ،
صحابی رضی اللہ
عنہ ُ نے کوئی عُذر کرنے کی بجائے ، کوئی نقص نکالنے کی بجائے ، کوئی بہانہ سازی
کیے بغیر ، کوئی فسفلہ بِگھارے بغیر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
خدمت میں انتہائے ادب اور اِیمان سے بھرپور الفاظ میں درخواست کی """وَالَّذِى
بَعَثَكَ بِالْحَقِّ فَمَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِى :::
اُس کی قَسم جِس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، میں اس سے زیادہ اچھے طور
پر نماز نہیں پڑھ سکتا ، لہذا آپ مجھے تعلیم عنایت فرمایے """
تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کچھ سخت
سُست بات نہیں فرمائی ، کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ، بلکہ (((وَمَا
أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ::: اور ہم نے تو آپ کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا
ہے))) کی عملی تفیسر کرتے ہوئے ، شفقت ،محبت اور نرمی کے ساتھ اِرشاد
فرمایا ( ((إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا
تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ،
ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ
سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى
تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِى صَلاَتِكَ كُلِّهَا:::جب تُم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو تو (سب سے پہلے) تکبیر کہو ، پھر
قران میں سے جو کچھ آتا ہو وہ پڑھو ، پھر اتنی دیر رکوع کرو کہ تُم رکوع کی حالت میں اطمینان پا جاؤ ، پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ یہاں
تک کہ تُم اس حالت میں اطمینان پا جاؤ ، پھر اتنی دیر تک سجدہ کرو کہ تُم سجدے کی
حالت میں اطمینان پا جاؤ ،پھر (سجدے سے)اُٹھ جاؤ یہاں تک بیٹھنے کی حالت میں
اطمینان پا جاؤ ، پھر اتنی دیر تک سجدہ کرو کہ تُم سجدے کی حالت میں اطمینان پا
جاؤ ،پھر اپنی ساری نماز میں اسی طرح کرو)))صحیح البُخاری /حدیث6251/کتاب بدء السلام /باب18، صحیح مُسلم/حدیث 911/کتاب الصلاۃ /باب 11،سنن
الترمذی / حدیث304/کتاب الصلاۃ/باب114، سنن ابؤ داؤد/حدیث856/کتاب الصلاۃ/باب150،
اس حدیث شریف میں ہمیں بہت سے اسباق ملتے ہیں ، لیکن میں یہاں
صِرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے ، بلکہ ہم جیسوں کی زندگی
میں تو اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم بہت سے کام ایسے کرتے ہیں
جو عبادات اور نیک اعمال میں سے ہوتے ہیں لیکن انہیں کرنے کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ نیک نیتی کے باجود وہ کام
نامکمل اور اللہ کے ہاں نا مقبول ہوتے ہیں ، کیونکہ ان کاموں کو اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کی موافقت کی بجائے اپنی عقل و سوچ ،
سمجھ و فلسفے کی موافقت میں کیا جاتا ہے ، پس وہ عمل نیکی نہیں ہو پاتے ،
اس حدیث کی شرح کے طور پر اپنے الفاظ میں کچھ کہنے کی بجائے
اُمت کے عظیم ترین لوگوں کے چند اقوال پیش کرنا ہی زیادہ بہتر سمجھتاہوں اور یقین
رکھتا ہوں کہ اُن کی باتوں میں اللہ نے کہیں زیادہ خیر رکھی ہے ، اللہ ہم سب کو اس
خیر میں سے وافر عطاء فرمائے ،
دوسرے بلا فصل
خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا
"""کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اِسلام میں ہی بوڑھا ہوجاتا ہے(یعنی
ساری زندگی ہی مُسلمان کی حیثیت سے گذارتا ہے )لیکن اُس نے اللہ کے لیے ایک رکعت بھی مکمل نہیں کی ہوتی """،
پوچھا گیا
"""یہ کیسے أمیر المؤمنین ؟"""،
جواب میں اِرشاد فرمایا
"""کیونکہ وہ (نماز میں ایک)رکعت
میں (بھی)رکوع اور سجدے مکمل (ٹھیک طور پرادا) نہیں
کرتا"""،
ابو ہُریرہ رضی
اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے """ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ساٹھ سال
تک نماز پڑھتے رھتے ہیں لیکن اس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی """،
اُن سے پوچھا گیا """یہ کیسے ؟
"""،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے جواباً فرمایا """ یہ وہ نمازی ہے جو
نماز میں رکوع ، سجدے ، قیام اور خشوع مکمل طور پر نہیں کرتا """
اِمام احمد بن
حنبل رحمہُ اللہ نے فرمایا """لوگوں پر ایسا وقت آنا ہے جِس میں
لوگ نماز پڑھتے دکھائی دیں گے لیکن نماز پڑھتے نہ ہوں گے،مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ زمانہ یہی ہمارا
زمانہ ہوگا"""
امام الغزالی
رحمہُ اللہ کا فرمان ہے """لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو سجدہ کرتے
ہوئے یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ اُس سجدے کے ذریعے اللہ کا قُرب حاصل کر رہے ہیں ،
اور اللہ کی قَسم اگر اُس سجدے کا گناہ اُس شخص کے شہر کے باسیوں پر بانٹ دیا جائے تو سب ہی ھلاک ہو
جائیں """،
امام صاحب
رحمہُ اللہ سے پوچھا گیا """ایسا کیوں ؟ """،
تو جواب میں اِرشاد فرمایا """کیونکہ
وہ سجدہ کرنے والا اپنا سر تو اپنے مولا کے سامنے جھکاتا ہے لیکن اُس کا دِل بےکار
کاموں اورباتوں میں ، اور گناھوں ، اور لالچ و ہوس ، اور دُنیا کی محبت میں مشغول
ہوتا ہے ، تو بھلا تُم ہی بتاؤ یہ کیسا سجدہ ہے ؟ """
کچھ ایسی ہی
حالت کو علامہ اقبال رحمہ ُ اللہ نے ان الفاظ میں تعبیر کیا :::
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
غو ر تو کیجیے
کہ اِن حالتوں میں سے کون سی حالت ہماری حالت ہے ، یا ہماری حالت کے قریب ترین ہے
؟
اور ہماری
نمازوں ، ہماری دیگر عِبادات ، ہمارے نیک کاموں میں سے کتنے ایسے ہیں جو بظاہر تو
ادا ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ادا نہیں ہوتے ، اور اِس حال میں ہوتے ہیں کہ اُنہیں
پھر سے دُہرایا جائے کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ، اللہ کے ہاں قابل قُبول
نہیں ہوتے ،
اللہ
تعالیٰ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اپنی
نیکیوں کو اُس کے ہاں قُبول ہونے والی کیفیات میں مکمل کر سکیں ، والسلام علیکم،
طلب گارء دُعاء
،
عادِل سُہیل
ظفر ،
تاریخ کتابت : 05/01/1433ہجری، بمُطابق،30/11/2011عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 comments:
Excellent
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔