::: مُسلمان ہی دہشت
گرد ہے ؟ :::
بِسمِ
اللَّہِ ، و لہُ الحمدُ فی الاُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ
اللَّہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ ::: شروع اللہ کے نام سے ، اور اُسی
کے لیے ہے خالص تعریف دُنیا میں اور آخرت میں ، اور سب سے بہترین صلاۃ و سلام ہے
اللہ کے رسول پر ، جِس کے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی کوئی معصوم،
السلام علیکم ورحمۃ
ُ اللہ و برکاتہ،
اِنسانی معاشرے میں ہمیشہ کچھ انکشافات ہوتے
رہتے ہیں ، پچھلے کچھ سالوں سے دُنیا میں کئی انکشافات ہوئے، اور اُن انکشافات میں
سے ایک تو بہت ہی اہم اور تہکلہ خیز رہا،
جِس کی بِناء پر پوری دُنیا میں سیاست و قیادت کی بساط میں ہی ہلچل نہیں ہوئی، جا
بے جا مہرے تبدیل نہیں ہوئے ، بلکہ عوامی سطح پر بھی دِلوں اور دِماغوں کی کایا پلٹ
بلکہ اندھیر ہونا شروع ہو گئی ،
اور وہ انکشاف یہ تھا کہ مُسلمان ہی تو دھشت گرد ہیں ،
اِس انکشاف کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ رہا کہ کِسی دُوسرے سے پہلے خود مُسلمانوں کی
اکثریت نے اِس کو مان لیا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دُرست مان لیا، اور اپنے اندر
بنائے جانے والے کھلونوں کو چلانے والوں کو جاننے پہچاننے کے باوجود اُن کھلونوں
کو خود کار سمجھ بیٹھے ،
مسلمانوں کو دہشت گردی کا تمغہ عطاء کرنے والوں کو ، اور
اِس تمغے کو قُبول کرنے والے مُسلمانوں میں سے کِسی کو آج تک دھشت گردی کی کوئی ایسی تعریف پیش کرنے کی توفیق نہ
ہوپائی ، جِس تعریف کے زد میں خود وہ لوگ
نہ آتے ہوں ، یا ، وہ لوگ جو اُن کے محبوب ہوتے ہیں ،
فلسطین ہو یا کشمیر ، فلپائن ہو یا برما، بوسنہ و ہرسک
ہو یا افغانستان، شام ہو یا عراق ، مُسلمان پر ہونے والے کوئی ظلم کوئی سِتم کِسی
کو دہشت گردی سجھائی نہیں دیتا، کیونکہ
دہشت گردی کو اِسلام اور مُسلمان سے منسوب کرنے والوں کے ہاں دہشت گردی صِرف مُسلمان کرتا ہے ، کافر جو کچھ بھی کرے وہ اُس کے اِنسانی ، وطنی ،
مذہبی حقوق وغیرہ میں سے ہوتا ہے،
دِل چِیر دینے والا دُکھ اِس حقیقت پر ہوتا ہے ، کہ ،،، اب مُسلمان کو بھی مُسلمان کا
درد نہیں ، وہ اُمت جِس کے رسول کریم نے تو مُسلمانوں کے باہمی تعلق کا یہ معیار مقرر فرمایا تھا کہ:::
((( تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ
مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ
بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى:::اِیمان والوں کی مثال ایک
دوسرے سے محبت کرنے میں ، اور ایک دوسرے پر صِرف اِیمان کی وجہ سے رحم کرنے میں ،
اور ایک دوسرے کے مددگار رہنے میں اس طرح
ہے کہ جیسے کوئی ایک جِسم ہوتا ہے کہ جب اُس جِسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے
تو سارا ہی جِسم اُس تکلیف کی وجہ سے بخار اور بے خوابی کامیں مبتلا رہتا ہے )))صحیح البخاری/حدیث6011/کتاب
الادب/باب27،صحیح مُسلم/حدیث6751/کتاب
البِر والصلۃ ولآداب/ باب17،
((( الْمُؤْمِنُ
لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا:::اِیمان والے ایک دوسرے کے لیے چُنی ہوئی دیوار کی طرح ہوتے
ہیں جو(اپنے حصوں کو ) ایک دوسرے کومضبوط
کرتی ہے )))صحیح
البخاری/ حدیث481/کتاب الصلاۃ / باب88،صحیح
مُسلم/حدیث6750/کتاب البِر والصلۃ
ولآداب/ باب17،
لیکن
اب ، ہم جدی پُشتی مُسلمان ، اپنے کلمہ گو بھائی بہنوں کے لیے، کلمے کی یگانگت
کی وجہ سے کوئی درد نہیں رکھتے ، طرح طرح کے طاغاتوں کے
قیدی بنے ہوئے ہیں ، کئی وطن کا طاغوت ، کہیں جماعت کا طاغوت ، کہیں مذھب و مسلک
کا طاغوت، کہیں شخصیات کا طاغوت ، کِسی مادر پدر آزاد قِسم کی اِنسانیت کا طاغوت،
درد
ہو گا تو اِن ہی میں کِسی کے سبب سے ہوگا،
ابھی
حال میں ایک دفعہ پھر سے برما میں ، لا اِلَہَ اِلَّا اللَّہ مُحمد رَسولُ
اللَّہ ، کہنے والے ہمارے
کلمہ گو بھائی بہنوں کو جانوروں سے بھی بدتر انداز میں قتل کیا گیا، لیکن ،،،
نہیں ناکامی ، متاع ء
کارواں جاتا رہا
ہے ناکامی کہ احساسء زیاں جاتا رہا
پوری اُمت ء مسلمہ میں سے کہیں حکومتی سطح پر کوئی حرکت
نہیں ہوئی سوائے ترکی کے طیب اردغان کی طرف سے کچھ امداد بھیجنے کے ، اللہ
تعالیٰ اُس کا حامی و مددگار ہو،
کہیں کِسی طور
موثر انداز میں کِسی جماعتی سطح پر کوئی صدائے احتجاج نہیں، چہار سُو خاموشی ،،،
کہ کہیں دھشت گردی کا بٹہ نہ لگ جائے ، ارے میاں اپنے گھر میں سکون سے ہو تو سکون
سے رہو، کاہے کو آ بیل مجھ مار والا کام کرنا چاہتے ہو،
کہیں کسی مُسلمان کے ہاتھوں ، غیر مسلموں کا کوئی ایک شخص بھی مارا جائے تو ساری دُنیا کا میڈیا شور مچانے
لگتا ہے ، لیکن مُسلمان پر کیے جانے والے ظلم پر سوائے چند ایک خبروں کے اور کچھ
ظاہر نہیں ہوتا،
اِس کا سبب ،،، کچھ اور نہیں ، خود ہم مُسلمانوں کی اپنی کمزوری بلکہ بزدلی ہے ،
اگر اس وقت کی
مُسلم ریاستوں اور لیڈرز میں سے اِسلام
اور مُسلمان کی حمایت میں بولنے کی بجائے
خاموش رہنے والوں کی فہرست بنائی جائے تو شاید "اِسلامی" جمہوریہ
پاکستان ، جِسے لوگ غلطی
فہمی سے "اِسلام کا قلعہ "سمجھتے ہیں ، اِس قلعے کے ذرائع ابلاغ و نشر و
اشاعت ( میڈیا) اورسیاست دان ، اور لیڈرز
سر فہرست ہی ملیں گے،
جی ، اِس قلعے
میں اگر کہیں کوئی اِکا دُکا فردی طور پر، یا کوئی چند لوگ مل جل کر ، اُنہیں کے دِلوں میں محسوس ہونے والے درد پھر کچھ سسکیاں بھر رہے ہوں ، تو نقار خانے میں طُوطی کی آواز کون سنے
گا ،
کاش کہ ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ جِس قدر خاموشی اور بے
حسی کا مظاہرہ ہوتا رہے گا اُسی قدر مُسلمانوں کے گِرد گھیرا تنگ ہوگا،
برما کے مُسلمانوں کا معاملہ کوئی نیا نہیں ، بوذیوں کو
سب سے پہلے 1942عیسوئی میں برطانیوں نے مدد دے کر مُسلمانوں کے
خِلاف کھڑا کیا، اور اُس ایک سال میں تقریباً ایک لاکھ مُسلمانوں کو قتل کیا گیا ،
دُنیا بھر کے مُسلمانوں کی طرف سے ایسی کوئی حرکت نہ
ہوئی جو بوذیوں کو اپنی اِس بہیمانہ دہشت گردی کو دہرانے سے روکنے کا سبب ہو سکتی،
لہذا اُس وقت سے اب تک ، ہر کچھ عرصے کے
بعد برما میں مُسلمانوں کا قتل عام ہوتا
ہے، اور اُمت خاموش ہے،
اگر کہیں سے کچھ امداد پہنچائی بھی جاتی ہے تو وہ اصل مطلوب امداد نہیں ،
کہیں سے کچھ کھانے پینے کا سامان ، کچھ کپڑے ، کچھ
دوائیاں اگر پہنچائی بھی جاتی ہوں تو کیا واقعتا ہمارے اُن بھائی بہنوں کی حقیقی
حاجت یہی چیزیں ہیں ؟
کیا اُنہیں بوذی کافروں کی دہشت گردی سے نجات دِلانے اور
محفوظ رکھنے کے لیے یہی کچھ درکار ہے ؟
میرے بھائیوں ، بہنوں ، میں جانتا ہوں ، میں بھی آپ جیسا ہی ہوں ، سوائے اِس کے اور کچھ
نہیں کر سکتا کہ اپنے مظلوم بھائی بہنوں
کے درد کا احساس جگانے کی کوشش کروں ، اپنے اور اُن کے ، اور ساری ہی مخلوق کے
اکیلے خالق اور مالک اللہ عزّ و جلّ کے حضور صدقء قلب سے اپنے مظلوم بھائی بہنوں
کے لیے دُعاء کروں ، کم از کم قیامت والے دِن اللہ کے سامنے اُن بھائی بہنوں کے
حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کے وزن میں کمی کا کچھ تو انتظام ہو،
الحمد للہ ، دُنیا کے مختلف حصوں میں کچھ مسلمانوں نے
اپنے برمی بھائی بہنوں کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کی ہے، اور پاکستان میں
بھی مختلف شہروں میں اجتماعات کے اعلانات
ہو رہے ہیں ،
اللہ جلّ
جلالہُ کا تو فرمان ہے کہ ﴿وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ
فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء
وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ھَذِہِ
الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَھلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل
لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً:::تُم لوگوں کو
کیا (روکاٹ )ہے کہ اللہ کی راہ میں لرائی نہیں کرتے ہو جبکہ عورتوں مَردوں اور
بچوں میں سےبے بس لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اِس بستی میں سے نکال دے
جِس کے لوگ(ہم پر )ظُلم کرنے والے ہیں ، اور (اے ہمارے رب ہمیں اِس ظُلم سے نکالنے
کے لیے ) اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حاکم بنا دے اور اپنے پاس ہمارے لیے کوئی مدد
گار بنا دے﴾سورت النِساء(4)/آیت 75 ۔
اگر ہم وہاں پہنچ کر اپنے اُن مظلوم بھائی بہنوں کی کوئی
داد رسی نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو ضرور کیجیے گا کہ جماعتی ، مسلکی، شخصیاتی، سیاسی قلادے اتار کر،
فقط ایک مُسلمان کی حیثیت میں اِن میں
شامل ہو کر اپنے برمی بھائی بہنوں پر ہونےو الے ظلم کے خِلاف احتجاج میں اپنا حصہ تو ڈال ہی دیجیے ،
اپنے اُن مظلوم بھائی بہنوں کی مدد کے لیے کیے جانے والی
کِسی بھی کام کو اِس وقت کم تر یا کمزور
مت سمجھیے ، ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے، اپنی اپنی استطاعت کے مُطابق ہر
کوشش میں اپنا حصہ ڈالیے ، قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے، اپنا قطرہ ڈالنے سے مت
ہچکچایے گا ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہی اپنے مظلوم بھائی بہنوں کی مدد
کرنے ، اور اُن کے حق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،
والسلام علیکم ،
طلب گارء دُعاء، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 11/12/1438ہجری،بمُطابق،
02/09/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر موجود ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔