::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (6) ::::
:::::
قیام اللیل فضیلت اور أہم مسائل :::::
::: قیام اللیل ::: فضیلت
اور أہم مسائل :::
قیام
اللیل یعنی رات کی نماز رمضان میں ہو یا کِسی اور ماہ میں ، شبِ قدر کے حصول کے
لیے ہو یا اِس کے عِلاوہ بِلا شک و شبہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی عِبادت ہے اور
عِبادت کی قبولیت کی اُمید کےلیے عِبادت کو دو شرطیں کے مُطابق کیا جانا ضروری ہے
،
عِبادت اِن دو شرطوں کے بغیر ہو تو مقبول ہونے
کا یقین تو دُور ٹھہرا ، اِس کی اُمید بھی نہیں رکھی جا سکتی ،
اِس
لیے ہے کہ یہ دو شرطیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے مقر رکی گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (((((وَ مَن کَانَ یَرجُو لَقاءَ
رَبِّہِ فَلیَعمَل عَمَلاًصَالحاً وَ لایُشرِک بِعِبَادَۃِ رَبِہِ اَحَداً::: اور جو اللہ سے
مِلنے کا یقین رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ صالح ( نیک )عمل کرے اور اپنے رب کی
عِبادت میں کِسی کو شریک نہ کرے ))))) سُورت الکھف(18) / آیت 110،
اِمام
ابنِ کثیر رحمہُ اللہ نے اِس آیت کی تفسیر میں کہا کہ عملِ صالح وہ ہے جو کہ شریعت
کے موافق ہو ،
پس
اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں کِسی کام کی قبولیت کی اُمید کے لیے بھی اِن دو شرطوں
کا ہونا ضُروری ہے ، ایک یہ کہ وہ کام صِرف اور صِرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول
کےلیے کیا جائے اور دوسری یہ کہ وہ کام نبی علیہ الصلاۃُو السلام کے طریقے کے مُطابق
ہو ، اگر یہ دونوں شرطیں یا اِن دونوں میں سے کوئی ایک شرط کِسی کام میں مُوجُود نہیں
تو اُس کام کے قبول ہونے کی اُمید بھی نہیں کی جا سکتی اُس کام کے دُھتکارے جانے
کا یقین رکھنا چاہیے کیونکہ اُس کے دھتکارے جانے ، اُسکے مردُود ہونے کی خبر ہمیں
اُس ہستی نے کی ہے جِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے کہ(((((وَ مَا یَنطِق ُ عَنِ الھَوا O اِن ھُوَ اِلَّا
وَحِيٌ یُوحیٰ ::: اوروہ ( ہمارا
رَسُول)اپنی مرضی سے نہیں بولتا O (اِسکا بولنا )سِوائے وحی کے اور کُچھ نہیں))))) سُورت النجم(53) / آیت 3،4،
***** رَسُول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ((((( مَن عَمِلَ عَملاً لیسَ علِیہِ اَمرُنَا فَھُوَ رَدٌ ::: ہر وہ کام
مردود ہے ، جو کام ہمارے معاملے کے مُطابق نہیں ہے)))))صحیح مُسلم / حدیث 1718(یعنی جِس کام کو کرنے کا ہماری طرف سے کوئی ثبوت نہیں ہے وہ کام اللہ کے ہاںمقبول نہیں بلکہ کرنے والے کی طرف
پلٹا یا ہوا ہے)،
محترم قارئین ، یاد رکھیے ، اور خُوب اچھی طرح سے یاد
رکھیے کہ
رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر کیے گئے کاموں کو
رَسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بدعت قرار دیا اور ہر بِدعت کو گُمراہی ، اور
ہر گُمراہی کا انجام آگ (جہنم ) قرار دیا ہے ،
کِسی بدعتِ حسنہ یعنی اَچھی بدعت یا بدعتِ سیئیہ
یعنی بری بدعت کی تقسیم نہیں فرمائی ،
لہذا اگر میں یہ کہوں کہ یہ تقسیم بذاتءِ خود ایک
بدعت ہے ، تو ایسا کہنا غلط نہ ہوگا،(اِس موضوع پر بات چیت ایک الگ مجلس میں کی جا
چکی ہے)
آئیے دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
رات کی عِبادت کیا تھی ؟ کتنی تھی ؟ کیسی تھی ؟ رمضان اور رمضان کے عِلاوہ اِس
عبادت میں کیا فرق تھا ؟
:::: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رات کی نماز کیا اور کتنی تھی ؟ :::
*****اِیمان والوں کی والدہ
محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ(((((مَا کان رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ عَلیہ وَسلم یَزیدُ فی رمضان و لا فی غیرہِ
علیٰ اَحدی عَشرۃ رَکعۃ، یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہنَّ و طُولِہنَّ ،
ثُمَّ یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہن َ و طُولِہنَّ ، ثُمَّ یُصلّی ثلاثا ً ::: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم رمضان یا رمضان کے عِلاوہ کبھی بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑہتے
تھے ، چار رکعت پڑہتے اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ،
پھر چار رکعت پڑہتے ، اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ،
پھر تین رکعت پڑہتے)))))صحیح البُخاری / حدیث 1147، صحیح مُسلم /حدیث 738 ،
::: اِس
مذکورہ بالا حدیث شریف میں بڑی وضاحت اور
صراحت سے اِس بات کا پتہ چلتا ہے کہ :::
***** رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی
رات کی عِبادت نماز تھی کوئی اور چلّہ کشی یا تسبیحاں پھیرنا نہیں،
***** رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز ، جِسے قیام اللیل ، تہجد ، یا رمضان میں تراویح کہا جاتا ہے اِس نماز کی رکعتوں کی تعداد گیارہ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی ، اِس سے زیادہ رکعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مُخالفت ہے ، بیس رکعت تراویح کے بارے میں بہت کُچھ کہا اور سُنا جاتا ہے مگر تحقیقی مواد کے ساتھ اور حق کے اَظہار سے اکثر یت کی بات خالی ہوتی ہے ، تسلی بخش تفصیلات کے خواہش مند بھائی اور بہنیں ، اِمام الاَلبانی رحمہُ اللہ کی کتاب """ صلاۃُ التراویح """ کا مطالعہ کر سکتے ہیں ، اُردُو میں ، میں نے اِس کتاب کا اِختصار"""قیامِ رمضان """ نامی کتابچہ میں تیار کیا ہے ،
***** رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز ، جِسے قیام اللیل ، تہجد ، یا رمضان میں تراویح کہا جاتا ہے اِس نماز کی رکعتوں کی تعداد گیارہ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی ، اِس سے زیادہ رکعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مُخالفت ہے ، بیس رکعت تراویح کے بارے میں بہت کُچھ کہا اور سُنا جاتا ہے مگر تحقیقی مواد کے ساتھ اور حق کے اَظہار سے اکثر یت کی بات خالی ہوتی ہے ، تسلی بخش تفصیلات کے خواہش مند بھائی اور بہنیں ، اِمام الاَلبانی رحمہُ اللہ کی کتاب """ صلاۃُ التراویح """ کا مطالعہ کر سکتے ہیں ، اُردُو میں ، میں نے اِس کتاب کا اِختصار"""قیامِ رمضان """ نامی کتابچہ میں تیار کیا ہے ،
:::::رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیسی تھی ؟ :::::
***** اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا
ہے کہ((((( کان النبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا دخل العِشرُ شدَّ مِئزرَہُ ، واَحیاءَ
لیلہُ ، واَیقظَ اہلَہُ ::: جب آخری عشرہ (یعنی رمضان کے آخری دس دِن اور راتیں )داخل
ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کمر بستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ کرتے ، اور
اپنے گھر والوں کو جگاتے)))))صحیح البُخاری/حدیث 2024/کتاب الصلاۃ التراویح / باب 6 ،
یعنی
اللہ تعالیٰ کی عِبادت کے لیے اپنے آپ کو خوب تیار کرتے ، اور اپنے معمول سے کہیں
زیادہ اللہ تعالیٰ کی عِبادت کر کے اپنی رات گُذارتے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر
والوں کو عِبادت کے لیے جگاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عِبادت یعنی
قیام اللیل کِس طرح کیا کرتے تھے مُلاحظہ فرمائیے ،
اِیمان
والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں
:::
کان رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا
صلَّی قام حَتیٰ تَفطر رجلیہ ،
قالت عائشہ : یا
رسول اللَّہ ! اَ تَصنَعُ ھذا و قد غُفِرَ لکَ ما تقدَّمَ مِن ذِنبِکَ و ما
تاَخَّرَ ؟
فقال صَلی اللَّہ
عَلِیہ وَسلم (((((
یا عائشۃُ ! اَفلا اَکون ُ عَبداً
شکُوراً )))))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب نماز پڑہتے تو اتنی دیر کھڑے
رہتے کہ اُن کے پاؤں مُبارک سُوج جاتے ، عائشہ(رضی
اللہ عنہا )نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے) عرض کیا ،
اے اللہ کے رسول ، آپ یہ (یعنی اتنی زیادہ مُشقت )کرتے ہیں
جبکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گُناہ معاف کیے جا چُکے ہیں (یعنی آپ کے ذمے تو کوئی
بھی گُناہ نہیں پھر بھی آپ اتنی مُشقت کیوں کرتے ہیں )،
تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((((اے عائشہ کیا میں شُکر گُزار بندہ نہ
بنوں))))صحیح البُخاری /حدیث 4837/کتاب التفسیر /سورت الفتح48/باب 2 ، صحیح مُسلم /حدیث 2820 /کتاب الصفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ،
***** یہ کیفیت
تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی رات کی نماز کی ، جبکہ اُنکے ذمے
کوئی گُناہ نہیں اور ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب
سے بُلند رُتبے والی ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہیں کوئی اور نہیں ، دیکھیے ، یہ
رُتبہ اور یہ محنت ، اِ س لیے کہ اللہ کا شُکر ادا کیا جائے ،
یہ تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
کا عمل تھا ، جو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ اور سب سے مُکمل ترین عِبادت کرنے
والے تھے ، نہ کوئی پہلے ویسا ہوا اور نہ کوئی بعد میں ہو سکتا ہے ، تو پھر یہ کون
ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر من گھڑت یا جھوٹی اور کمزور حدیثوں اور قصے کہانیوں کو
بُنیاد بنا کر عِبادات کرتے ہیں ؟؟؟
***** کیا اِنکی
نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عِبادت ناقص تھی ؟؟؟
یا غیر معیاری تھی جو یہ اپنے الگ طریقوں سے عِبادات کرتے ہیں ؟؟؟
***** ذرا سُنت کی
مُخالفت والے طریقے پر تراویح پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کِسی دِن کہیے کہ حضرت آج
ذرا سُنت کے مُطابق قیام اللیل فرمایے ، اور رات کے تین حصے نماز پڑہایے ،
اُن کے عِشق ومحبت کی گہرائی و سچائی کا اندازہ ہو جائے
گا،
***** کبھی عِشق و
محبت کے کسی دعویٰ دار سے کہیے کہ اِس
رمضان میں اتنی دیر قیام کیجیے کہ آپ کے پاؤں پر بھی سُوجن ہو جائے ، تا کہ آپ کے
عِشق کا پتہ چلے ،
***** کبھی اِن سے
پوچھیے تو کہ عِبادات کی تعداد زیادہ ہونا سُنت ہے یا اُن کا معیار بُلند ہونا ؟؟؟
***** کبھی اِن سے پوچھیے کہ جلد
بازی کے ہزار سجدے اچھے ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت سُنت
کے مُطابق کیا گیا ایک سجدہ؟؟؟
***** کبھی اِن سے
پوچھیے کہ اِلفاط کی غلط ادائیگی کے ساتھ زیادہ قُرآن پڑہنا بہتر ہے یا ترتیل کے
ساتھ تھوڑا پڑہنا ؟؟؟
***** کبھی اِن سے
معلوم کیجیے کہ دِل و دِماغ کی غیر حاضری کے ساتھ ہزار رکعت پڑہنا فائدہ مند ہے یا
دِل و یا دِماغ کی حاضری کے ساتھ دو رکعت ؟؟؟
شاید ایسے ہی سجدہ ریزوں اور نمازیوں کے بارے
میں اقبال نے کہا تھا :::
میں جو ہوا سر بسجود کبھی تو زمیں سے آنے لگی یہ
صدا
تیرا دِل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
تیرا دِل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اور
بھی کتنے ہی ایسے سوال ہیں جِن کا جواب اِن کے اعمال اور عِبادات کو غلط قرار دیتا
ہے ، مگر ایسے سوال کوئی اِن سے نہیں پوچھتا، لہذا جیسا اِن کا نفس چاہتا ہے ویسی
عِبادات یہ کرتے اور کرواتے چلے آ رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں حق اور سچ کو جاننے
اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے
ارشادات میں سے چند ارشادات مُلاحظہ فرمائیے (((((
وَ مَا اتاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَھا کُم عَنہ ُ
فَانتَھُوا
::: جو کُچھ (حُکم) ر سول تُمہیں دیتا ہے وہ لے لو اور جِس( کام
) سے منع کرتا ہے اُس سے باز آ جاؤ
))))) سورت الحشر(59) /آیت 7،
((((( یٰۤاَ اَیُّھَا
الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ لَا تُبطِلُوا
اَعمَالَکُم ::: اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، اللہ کی تابع فرمانی کرو اور
رسول کی تابع فرمانی کرو اور اپنے اعمال تباہ نہ کرو )))))یعنی
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے کا نتیجہ اعمال کی تباہی
ہے ۔ سورت محمد(47)
/ آیت33،
((((( فَلیَحذَر الَّذِینَ
یُخالِفُونَ عَن اَمرِہِ اَن تُصِیبَھُم فَتنَۃٌ اَو یُصِیبَھُم عَذَابٌ اَلِیم :::وہ جو اُس ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ) کے حُکم کی مُخالفت کرتے ہیں ، اِس بات سے ڈریں کہ کہیں اُنہیں کوئی مُصیبت
یا شدید عذاب نہ آن پکڑے)))))سورت النُور(24) / آیت 63 ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے ((((( کل اُمتی یَدخُلُ الجَنَّۃ اِلَّا مَن اَبیٰ :::میرا ہر اُمتی جنت میں داخل ہو گا سوائے
انکار کرنے والوں کے
)))))،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا """ کون انکار کرے گا اے
اللہ کے رسول ؟"""،
تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا(((((مَن اَطاعنی دخل الجنۃ و مَن عصانی فقد اَبیٰ :::جو میری تابع فرمانی کرے گا جنت میں داخل ہو
گا اور جو نا فرمانی گا یقیناً وہ انکار کرنے والا ہے)))))صحیح البُخاری / حدیث
80،
اللہ
تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم بھی سُنیے(((((صَلُّوا کما راَیتموُنی اُصلَّی:::جِس طرح مُجھے نماز پڑہتے دیکھا ہے اُسی طرح نماز پڑہو))))) صحیح البُخاری /حدیث7247 ،
گو
کہ مندرجہ بالا مواد موضوع کی اہمیت کے مُطابق کافی نہیں ہے لیکن وقت اور جگہ کی
کمی کی وجہ سے اِسی پر اِکتفاء کر رہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کِسی
کےلیے یہ فیصلہ کرنا اِن شاءَ اللہ مُشکل نہ ہوگا کہ قیام اللیل کیسے کرنا چاہیے ؟؟؟
اگر کِسی کے ذہن میں کوئی سوال کوئی شک کوئی شبہ
ہو تو بلا تکلف اُسکو سامنے لائے ، اِمام بُخاری رحمہ ُ اللہ نے اپنی صحیح میں اِمام
مجاہدرحمہُ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ"""لاَ
يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْىٍ وَلاَ مُسْتَكْبِرٌ ::: دو قِسم کے آدمی سیکھ نہیں سکتے ہیں شرم
کرنے والا اور تکبر کرنے والا """،کتاب العِلم /باب 50
الحیاء فی العِلم،
لہذا
جو کوئی بھی واقعتا حق بات کو جاننا اور سیکھنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ اِن دو
صفات سے اپنے آپ کو صاف رکھے ،
اللہ تعالیٰ ہماری غلطیاں اور کوتاہیاں معاف
فرمائے ، ہمارے دِلوں سے مُسلمانوں کے لیے غُصہ اور تعصب دور کرے ، اور ہمیں اپنے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے
اور اِسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد
ُ للہ ، """ ماہِ رمضان اورہم ::: (6) ::: قیام اللیل فضیلت
اور أہم مسائل """مکمل ہوا ،
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
اِن شاء اللہ
اگلا مضمون بعنوان """ ماہِ رمضان
اورہم ::: (7) ::::فضیلت، نشانیاں """والسلام علیکم۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔