Wednesday, July 3, 2013

::: رمضان سے متعلق چند اہم فتوی جات ::: رمضان المُبارک سے متعلق أہم مسائل :::

✽✽✽ رمضان سے متعلق  کچھ     اہم مسائل اور   فتاویٰ جات   ✽✽✽
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ        
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::

::: بغیر جائز سبب کے روزہ خوری کرنے والے کا انجام  :::

ابی امامہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا(((بَینا اَنا نَائمٌ اِذ اَتاَنی رَجُلان فاَخَذَا بضبُعَی َّ فاَتَیا بی جَبَلًا وَعْراً فَقالَا لی: اصعَدْ، فَقُلْتُ اِنی لَا اَطِیْقُہُ فَقَالاَ اِناَّ سَنَسْہِلُہُ لَکَ فَصْعدت حَتٰی اِذا کُنْتُ فی سَواء الْجبل اِذا اَنَا باَصواتٍ شَّدیدۃٍ فقُلتُ ما ھَذہِ الاَصوات قالوا ھَذا عُواءٍ اَھلِ النَّارِ ثُّمَ انطَلقَ بِیَّ فَاِذا اَنَا بِقومٍ مُعلِقِینَ بِعِراقِیبِہِم مُشَقَّقۃً اَشدَاقُہُم تَسِیلُ اَشدَاقُہُم دَماً قال قُلتُ مَن ھَؤلاءِ قال ھَؤُلاءِ الَّذِینَ یُفطِرُونَ قَبلَ تَحِلَّۃِ صَومِہِم :::  میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے بازوں سے تھام کر ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ کے پاس لے گئے اور کہا" اِس پر چڑھیے "،
میں نے کہا "میں نہیں چڑھ سکتا "،
 اُنہوں نے کہا " ہم آپکے لیے سہولت مہیا کریں گے " ،
لہذا میں چڑھ گیا ، جب چوٹی پر پہنچا تو شدید (چیخ و پکار کی ) آوازیں سنِیں ،
 میں نے پوچھا " یہ آوازیں کیسی ہیں ؟"،
اُنہوں نے کہا "یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے "۔
 پھر وہ مجھے لے کر چلے، تو میں ایسے لوگوں میں پہنچا جو اپنی ایڑیوں کے اوپر والے پٹھوں کے ذریعے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے ( جیسے بکرے یا گائے وغیرہ کو ذبح کرنے کے بعد لٹکایا جاتا ہے ) اور اُن کے منہ پہلوں سے کٹے ہوئے تھے ، اور وہاں سے خُون بہہ رہا تھا ، میں نے پوچھا " یہ کون ہیں؟ "،
 اُن دونوں نے جواب دِیا "یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ حلال ہونے سے پہلے ہی کھا پی لیتے تھے"))) المُستدرک الحاکم ، حدیث 1568، تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان ، آخری حدیث ، صحیح ابن خُزیمہ ، حدیث 1986،
وہ لوگ جو افطار کے وقت سے پہلے خواہ ایک آدھ منٹ پہلے بغیر کسی جائز سبب کے روزہ کھول لیتے ہیں ، اور وہ جو بغیر کسی جائز سبب کے روزہ رکھتے ہی نہیں اُن کی سزا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ، اِس صحیح حدیث میں کچھ اور کاموں کا انجام بھی بتایا گیا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے اور رواں موضوع تک محدود رہنے کے لیے اِس کو پورا نقل نہیں کر رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::رمضان کا روزہ چھوڑنے کا مسئلہ :::
اللہ تعالیٰ کا ا،ڑشاد گرامی ہے (((شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ :::  رمضان کا مہینہ (وہ ہے ) جِس میں قُران نازل کیا گیا (قُران )جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جِس میں ہدایت کی اورحق و باطل میں فرق کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ، لہذا تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پائے تو اِسکے روزے رکھے اورجو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ (صحت یاب ہونے یا سفر ختم ہونے کے بعد ، چھوڑے ہوئے روزوں کے بدلے ) اور دِنوںمیں روزے رکھے ، اللہ تُم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور (یہ)اِس لیے کہ تُم لوگ (رمضان کے روزے رکھنے میںاُن کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ کی عطا فرمائی ہوئی ہدایت پر اُس کی بڑائی بیان کرو اور تا کہ تُم اللہ کا شُکر ادا کرو)))سورت البقرہ  (2) / آیت 185،
::::::: کِسی بیماری کی وجہ سے یا سفر پر ہونے کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے ، لیکن اِس مسئلے میں دو باتیں قابلِ غور ہیں اور اچھی طرح سے سمجھے جانے کی ہیں،
 (1) اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے (((عَلَى سَفَرٍ)))یعنی جب تک سفر پر ہو ،یعنی سفر میں ہو ،  یہ نہیں فرمایا کہ جب تک سواری پر ہو ، سوار ہو ، کیونکہ سفر صِرف سواری پر ہونے یا چلنے پھرنے کی حالت نہیں ہوتی ، ایسی حالت کو " فی السفر "کہا جاتا ہے ، اور(((عَلَى سَفَرٍ)))اُس حالت کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی انسان اپنے گھر والی بستی سے نکل کر  رہتا ہے اور جتنی دیر اُس حالت میں رہتا ہے وہ سفر پر ہی ہوتا ہے ،
لہذا اگر کوئی پورا مہینہ بھی سفر پر ہو تو وہ رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہے،  اور،
(2)سفر ختم ہونے کے بعد جتنے روزے چھوڑے رکھنا فرض ہے، اور اُن کا کوئی کُفارہ نہیں۔
سفر کتنی مسافت کے بعد شروع ہوتا ہے یا کتنی مسافت طے ہونے کے بعد سفر کا حُکم ہو گا اِس معاملے میں فقہاء کرام کی طرف سے بہت باتیں کی گئی ہیں لیکن سُنّتِ مُبارکہ میں ایسی کوئی کسوٹی نہیں ملتی جو مسافت یا فاصلے کو طے کرتی ہو بلکہ معاملہ نیّت پر منحصر ہے،
::: مسافر رمضان کا روزہ چھوڑے یا رکھے ، چھوڑنے کی صُورت میں کوئی کُفارہ نہیں:::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ حَمزہ بن عَمروْ الاسلمی رضی اللہ عنہ ُ بہت روزے رکھا کرتے تھے ، انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا """کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ((( اِن شِئتَ فَصُم و اِن شِئتَ فَاَفطِر ::: اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو)))صحیح البخاری / حدیث 1841 /کتاب الصوم / باب 33 ، صحیح مسلم / حدیث 1121/ کتاب الصیام / باب 17،
ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ((( ہم سولہ 16 رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم کے ساتھ جِہاد کے سفر پر نکلے اور ہم میں سے روزہ دار بھی تھے اور بغیر روزے کے بھی ، لیکن نہ کِسی روزدار نے کِسی بغیر روزے والے پر اعتراض کیا اور نہ بغیر روزے والے نہ روزہ دار پر ))) صحیح مُسلم/ حدیث 1116 /کتاب الصیام / باب 15 ۔
::: حیض (ماہواری ) نفاس اور دُودھ پلانے کی صُورت میں روزے کا حُکم:::
::::: ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((( اَلَیسَ اِذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم فَذَلِکَ نُقصَانُ دِینِہَا :::کیا ایسا نہیں ہے (یعنی ایسا ہی تو ہے )کہ عورت جب حیض (ماہواری) میں ہوتی ہے تو نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے ، اور اِس طرح یہ عورت کے دِین میں کمی ہے )))صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 40 ،
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ((( کَان یُصِیبُنَا ذلک فَنُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّومِ ولا نُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّلَاۃِ :::(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ رہتے ہوئے  ) ہم میں سے کِسی کو یہ موقع پیش آتا تھا(یعنی حیض واقع ہو جاتا تھا ) تو ہمیں روزوں کی قضاء کاحُکم تو دِیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا نہیں)))صحیح مُسلم /حدیث 335 /کتاب الحیض / باب 15 ،
انس ابن مالک الکعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( اِنَّ اللَّہَ عز وجل وَضَعَ عَن المُسَافِرِ شَطرَ الصَّلَاۃِ وَعَن المُسَافِرِ وَالحَامِلِ وَالمُرضِعِ الصَّومَ ::: اللہ عز و جل نے مسافر کے لیے روزہ (سفر کے بعد ) رکھنے اور (دوران سفر ) نماز آدھی کرنے کی اجازت دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو (خطرے کی صورت میں) روزےنہ رکھنے کی چھوٹ دی ہے)))صحیح سنن الترمذی / حدیث575 ،
:::::حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت اگر اپنی یادودھ پینے والے بچے کی جان کے خطرے کے باعث روزہ چھوڑتی تو اُس پر قضاء نہیں ہے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے """ اگر حاملہ عورتروزے کی وجہ سے اپنی جان پر خطرہ محسوس کرتی ہے اور دُدوھ پلانے والی اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے تو روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے کِسی غریب کو کھانا کِھلائے اور اِن دونوں عورتوں پر کوئی قضاء نہیں """ امام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا """ یہ حدیث طبرانی نے روایت کی ہے اور اِس کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے """ الاِرواءُ الغلیل/جلد 4 /صفحہ 19 ۔
*****ہو سکتا ہے کِسی ذہن میں خیال آئے کہ حیض اور نفاس میں روزے کی قضاء کیوں اورنماز کی قضا ء کیوں نہیں ؟
 گو کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن اُمت کے اماموں نے بہت اچھی نصحیت کی ہے کہ منطق و فلسفہ کا جواب منطق و فلسفہ سے دینے کی بجائے قران کریم  اور صحیح حدیث شریف سے دِیا جائے ،  پھر کوئی قران پاک  اور صحیح حدیث شریف  کی دلیل مانے یا نہ مانے ہم اِس کے ذمہ دار نہیں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ جو کہ دِین کے احکامات  کی اصل اور حقیقی کسوٹی  ہیں اُنہیں قبول کرنے کے لیے عقل و فلسفہ و منطق کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جاتے بلکہ اُنہیں  قُبُول کرنا فرض ہوتا ہے ،
 جی ہاں سمجھنے کے لیے اُنہیں کِسی بھی زاویے سے دیکھا جائے لیکن اِس شرط پر کہ اگر اپنی ناقص عقل کی  سمجھ میں نہ آ پائیں تو اُن کو غلط نہ جانا جائے بلکہ اپنی اصلاح کی جائے ، پس دِین کے احکامات عقل کے مُطابق قُبول نہیں کیے جاتے بلکہ قُران و صحیح سُنّت سے ثابت ہونے کی بنا پر قبول کیے جاتے ہیں اور اپنی عقل کو اُن کا تابع بنانا ہوتا ہے ، گو کہ یہ بات چلتے چلتے آ گئی لیکن جب آ ہی گئی تو ایک دو دلائل بھی ملاحظہ فرما تے چلیے ،
چوتھے بلا فصل امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ """ اگر دِین رائے کے مُطابق ہوتا تو چمڑے کی جُرابوں پر مسح کرنا نیچے کی طرف سے ہونا چاہیے تھا ، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کودکھا کہ وہ اُوپر والی طرف سے مسح فرمایا کرتے تھے """ سُنن ابو داؤد/حدیث46،اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
امام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب الصوم کے باب 40 کے عنوان میں نقل فرمایا کہ """ ابو الزناد رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ سُنّت اور شریعت کے حُکم بسا اوقات رائے (کسی کی ذاتی عقل و دانش )کے برعکس نظر آتے ہیں لیکن مسلمانوں  کےلیے اِن حکموں کی پیروی کرنا لازم ہے ، انہی احکام میں سے یہ بھی ہے کہ حیض والی عورت روزوں کی قضاء ادا کرے گی اور نماز کی نہیں """،
ابو الزناد رحمہُ اللہ کا نام عبداللہ بن ذکوان ہے اور یہ مدینہ المنورہ کے رہنے والے تھے اور تابعین رحمہم اللہ  میں سے فقہا ء تابعین میں شُمار ہوتے تھے ، یعنی یہ فرمان کسی ایسے شخص کا نہیں جسے صرف ایک راوی کہہ کر کم تر بنانے کی کوشش کی جا سکے بلکہ تابعین رحمہم اللہ  میں سے ایک فقیہ کا ہے ، پس خود خیالوں کے زعم میں مخالفت کرنے والوں کو اچھی طرح سے سوچنا چاہیے کہ اُنکی سوچ ، سمجھ اور فقہ درست ہے یا ایک تابعی فقیہ رحمہ ُ اللہ  کی ۔
::: بوڑھوں اور مریضوں کے روزوں کا حُکم :::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ((( رُخِّصَ لِلشَّیخِ الکَبِیرِ اِن یُفِطرَ ویُطعِمَ عَن کُلِّ یَومٍ مَسکِینًا وَلا قَضَاءَ عَلِیہِ ::: بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن (اِس صُورت میں کہ )وہ ہر روزے کے بدلے میں کِسی غریب کو کھانا کِھلائے (اُس کے لیے اتنا ہی کافی ہے )اور اُس پر کوئی قضاء نہیں ))) المُستدرک الحاکم ، حدیث 1607/کتاب الصوم ، اِمام الذہبی رحمہُ اللہ نے '' التلخیص '''کہا ، حدیث حسن ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان (((وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدیَۃٌ طَعَامُ مِسکِینٍ)))سورت البقرہ  (2)/ آیت 184کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ """ لَا یُرَخَّصُ فی ہذا اِلا لِلَّذِی لَا یُطِیق ُ الصِّیَامَ اَو مَرِیضٍ لَا یُشفَی ::: اِس معاملے میں (یعنی روزے رکھنے کی بجائے فدیہ دینا ) صِرف اُن کو اجازت دی جائے گی جو روزہ رکھنے کی (جسمانی ) طاقت نہ رکھتے ہوں یا ایسا مریض جِس کی بیماری ختم ہونے کی اُمید بھی نہ ہو""" سُنن النسائی المجتبیٰ ، حدیث 2316 / کتاب الصیام / باب 63، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ  نے کہا حدیث صحیح ہے ، الاِرواءُ الغلیل، حدیث 912 کی تخریج و شرح ۔
:::روزے کی حالت میں ہم بستری کا حُکم:::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ((( اُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِِلَی نِسَآئِکُم ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّہُنَّ ::: رمضان کی راتوں میں تم لوگوں کے لیے اپنی عورتوں سے ہم بستری حلال کر دی گئی ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تُم اُن کا لباس ہو ))) سورت البقرہ  (2)/ آیت 187،
اللہ تعالیٰ نے اِس فرمان میں رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں  یعنی بیویوں اور باندیوں سے ہم بستری کرنے کی اجازت فرمائی ،
::::: واضح رہے کہ باندی یا لونڈی کا مطلب خادمہ ، نوکرانی یا ملازمہ وغیرہ  نہیں ، بلکہ زر خرید عورت ہے یا جو کافر عورت میدانِ جِہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ لگی ہو اور خلیفہ کی طرف سے کِسی کو دی گئی ہو،
::::: اِس آیت مُبارکہ میں ایک اور معاملے کی بہت کھلی وضاحت ہے کہ میاں بیوی ایک دُوسرے کے سامنے مکمل طور پر بے لباس ہو سکتے ہیں ، پس جو لوگ میاں بیوی کے اس ملاپ کے لیے لباس داری کی حدود مقرر کرتے ہیں اور عجیب و غریب قسم کے فتوے داغتے ہیں وہ کتاب اللہ اور سُنّت رسول اللہ عل صاحبھا افضل الصلاۃو  التسلیم  کی طرف سے کوئی صحیح دلیل نہیں رکھتے ، یہ موضوع پھر کبھی اِن شا اللہ ،
یہاں تو اس مسئلے کا بیان درکار ہے کہ ، رمضان کی راتوں میں ہم بستری کرنا جائز ہے لیکن دِن میں یعنی روزے کی حالت میں ایسا کرنا گُناہ ہے اور اِ س سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ،
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ  :::
ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا """ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں مارا گیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے دریافت فرمایا ((( کیا ہوا؟ )))
اُس نے کہا """میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ(((کیا تُم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو ؟)))،
اُس نے  عرض کیا """ جی نہیں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو ؟ )))،
اُس نے  عرض کیا """ جی نہیں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((کیا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلا سکتے ہو)))،
اُس نے  عرض کیا """ جی نہیں """،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاموش تشریف فرما رہے ، کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((وہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ )))،
اُس نے  عرض کیا """ جی میں حاضر ہوں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((( یہ کھجوریں لے جاؤ اور صدقہ کر دو )))،
اُس نے  عرض کیا """ اے اللہ کے رسول کیا صدقہ اپنے سے زیادہ محتاجوں کو دوں ، اللہ کی قسم مدینہ میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں """،
(اُس کی یہ بات سُن کر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہنس دیے یہاں تک کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی داڑہیں مُبارک نظر آنے لگِیں ،
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((اچھا چلو اپنے گھر والوں کو ہی کِھلا دو)))،صحیح البخاری / حدیث1834  /کتاب الصوم /باب 30 ،
::: اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھ سکنے والا بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے اور بغلگیر ہو سکتا ہے:::
::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ((( کان النَّبیُّ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وَسلَّم یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وہو صَائِمٌ وکان اَملَکَکُم لِاِِربِہِ ::: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے (یعنی چومتے)اور بغلگیر ہوتے(یعنی گلے ملتے )لیکن وہ سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو پانے والے تھے)))صحیح البخاری / حدیث 1826 /کتاب الصوم/باب 23،
::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ((( کِسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کی حالت میں (بیوی یا لونڈی)سے بغلگیر ہونے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اجازت دِی ، پھر ایک اور نے پوچھا تو اُسے منع فرما دِیا ، جِسے اجازت دِی تھی وہ بوڑھا آدمی تھا اور جِسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا)))،حدیث حسن، صحیح سنن ابو داؤد /حدیث 2090،
یعنی جو اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھ سکتا اُس کے لیے روزے کی حالت میں بیوی یا لونڈی سے بغلگیر ہونا یا بوسہ لینا جائز نہیں۔
:::درج ذیل  کاموں یا چیزوں سے روزہ کی دُرستگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا:::
::: (1) ::: بُھول چُوک سے کھا پی لینا :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( اِذَاَ نَسِیْ فَاَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ فَاِنَّمَا اَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ  :::  اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے)))صحیح البخاری حدیث 1831/ کتاب الصوم / باب 26 ، یعنی ایسا ہو جانے کی صورت میں روزہ خراب نہیں ہوتا۔
::: (2) ::: روزے میں مسواک کرنا :::
عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے(((رَاَیْتَ النَبِّی صلّی اللہ عَلیہ  و عَلی آلہ وَسلّم یَسْتَاکَ وَھُوَ صَائِمْ مَا لَا اُحْصِیْ اَوْ اَعُدُ:::میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا ہے کہ گن نہیں سکتا )))صحیح البخاری /کتاب الصوم /باب 27 کے عنوان میں ،
::: (3) ::: سر میں تیل لگانا ، کنگھی کرنا :::
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو اسے تیل کنگھی کر نا چاہیے """،صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 25،
::: (4) ::: ناک ، کان اور  آنکھ  میں دوائی وغیرہ ڈالنا اور سُرمہ لگانا :::
حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں """روزہ دار کے لیے ناک میں دوا ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں بشر طیکہ حلق تک نہ پہنچے ،نیز روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے """ صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 28،
اگر ناک میں ڈالے جانے والی دوا  یا پانی وغیرہ کا قطرہ پیٹ میں جا پہنچے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اس کی دلیل لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ یہ حدیث شریف ہے کہ(((بَالِغْ فِى الاِسْتِنْشَاقِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ صَائِمًا :::(وضوء کے دوران)ناک میں پانی چڑھاکر نکالنے میں خوب تکلف کرو  مگر روزے کی حالت میں (ایسا )نہیں کرنا ) ) )سُنن ابو داؤد/حدیث2368/کتاب الصوم/باب27، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ،
لہذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے ناک میں ایسا کچھ ڈالے جو اس کے معدے تک جا پہنچے ،اس کے علاوہ جو قطرات ناک میں ڈالنے سے معدے تک نہ پہنچیں انہیں روزے کی حالت میں  بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے،
رہا معاملہ آنکھ میں ڈالے جانے والے قطرات کا تو وہ سُرمے کی طرح ہی ہیں (یعنی ان کا شرعی حُکم سُرمہ ڈالنے کے جیسا ہے کہ ان کے استعمال سے روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا )، اور کان میں ڈالے جانے والے قطرات کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ ان کے ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا نہیں برقرار ہی رہتا ہے ، کیونکہ اس کے استعمال سے روزے کے ٹوٹنے کے بارے میں کوئی منصوص خبر نہیں ہے اور نہ ہی کسی منصوص خبر پر قیاس کر کے اس کے بارے میں ایسا کوئی حکم ملتا ہے ،
یوں بھی تجرباتی ، مشاہداتی اور علمی طور پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنکھ اور کان کھانے پینے کے داخلے کے مقامات نہیں ہیں ، بلکہ جِسم کے دیگر مسامات کی طرح مسام ہیں (یعنی جِسم میں ایسے سوراخ جن میں داخل ہونے والی چیز جسم کے اندر نہیں جا پاتی بلکہ انہی سوراخوں تک محدود رہتی ہے )
اہل عِلم کا کہنا ہے کہ اگر کسی روزہ دار کے پاؤں سے کوئی چیز لگے اور وہ اس چیز کا ذائقہ اپنے حلق میں محسوس کرے تو اس سے اس کا روزہ ٹوٹ نہیں جاتا ، کیونکہ یقینی طور پر پاؤں کے مسام کھانے پینے کے مداخل نہیں ہیں (یہ احساس محض نفسیاتی ہوتا ہے حقیقت میں اس چیز کا ، یا اس کے کسی جُز کا حلق تک پہنچنا محال ہے) اسی طرح آنکھ اور کان بھی کھانے پینے کے مداخل نہیں ہیں لہذا اگر ان میں ڈالے جانے والے قطرات کی بنا پر حلق میں کوئی ذائقہ محسوس ہو تو بھی اس سے روزے کی درستگی پر کچھ اثر نہیں ہوتا ، جیسا کہ بعض  سُرمے ایسے ہوتے ہیں جنہیں استعمال کرنے کے بعد حلق میں کچھ ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے ، لیکن کبھی سُرمہ استعمال کرنے میں اس عِلت کی بنا پر اسے روزے کے فاسد ہونے کا سبب نہیں کہا گیا ،
 اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ان قطرات کی تاثیر حلق تک پہنچتی ہے تو بھی اس کا معدے تک خوارک کی طرح پہنچا ایک غیر ثابت شدہ امر ہے اور ایسے شکوک کی بنا پر روزے کے فاسد ہوجانے کی بات نہیں کی جا سکتی ،
یہی معاملہ جسم کے کسی حصے پر کسی چیز کی مالش کرنے کا ہےکہ اس سے بھی روزے کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا ، خواہ یہ مالش کسی علاج  کی غرض سے کی جائے یا بغیر  علاج کی غرض سے ،
اور اسی طرح سانس کی روکاٹ دُور کرنے والی ادویات کا معاملہ ہے جو منہ میں چھڑکی (سپرے کی) جاتی ہیں ، کہ ان کی بخارات بھی کچھ معمولی سے مقدار میں زیادہ سے زیادہ  حلق تک ہی پہنچتے ہیں ،معدے تک نہیں ، اور یُوں یہ خوراک میں شامل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی طور کسی خوراک کا بدل ہو کر جسمانی تقویت کا سبب  ہوتا ہے ، لہذا بوقتء ضرورت  اس قِسم کی ادویات کا استعمال بھی روزے کی صحت اور درستگی میں کسی کمی کا سبب نہیں ہوتا ۔ 
::: (5) ::: ہنڈیا یا کوئی چیز چکھنا :::
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا فرمان ہے """ روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں """، صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 25،
::: (6) ::: اپنا تھوک نگلنا :::
عطاء رحمۃ اللہ علیہ (تابعی ہیں )کا کہنا ہے """روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے"""صحیح البخاری /کتاب الصوم / باب 25۔
::: (7) ::: روزہ دار کے اِرادے کے بغیر کِسی چیز کا حلق میں داخل ہو نا :::
عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے """اگر روزہ دار (وضو کرتے ہوئے ) ناک میں پانی داخل کرے اور کچھ پانی بغیر اُس کے اِرادے کے حلق میں چلا جائے تو کوئی حرج نہیں"""،
 حسن رضی اللہ عنہ  کا کہنا ہے کہ  """ اگر مکھی روزے دار کے حلق میں چلی جائے تو کوئی حرج نہیں"""،صحیح البخاری / کتاب الصوم /باب 26 ،
::: وضاحت ::: یہ معاملہ بغیر اِرادے کے چیز داخل ہونے کا ہے لہذا روزہ دار کو وضو کرتے ہوئے پانی ناک یا منہ ُ میں بہت احتیاط کے ساتھ داخل اور خارج کرنا چاہیے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے درج ذیل  فرمان میں ہے :::
::: وضاحت  کی دلیل :::  لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ُ    کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم ) مجھے وضو کے بارے میں بتایے ، تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا ((( اَسبِغ الوُضُوء َ وَخَلِّل بین الاَصَابِعِ وَبَالِغ فی الِاستِنشَاقِ اِلا اَن تَکُونَ صَائِمًا ::: وضو کو رنگ چڑھانے کی طرح کرو اور اپنی انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو ، لیکن اگر روزے کی حالت میں ہو تو پھر ایسا نہیں کرو)))سنن ابو داؤد ، حدیث 124 /باب 55 ، حدیث صحیح ، الاِرواءُ الغلیل ، حدیث 935،
ایسی دوائیاں جو ٹیکوں (انجکشنز)یا قطروں (ڈارپس)یا سونگھائی (ان ہیلنگ )کے ذریعے استعمال کی جاتی ہیں ، یا منہُ کے اند ، دانت یا مسوڑھے یا ز ُبان وغیرہ پر لگائی جاتی ہیں اور جو حلق تک نہ پہنچتی ہوں اور نہ ہی پیٹ میں داخل ہوتی ہوں ، اور نہ ہی اُن کے داخلے کی وجہ سے جِسم کو غذائیت یا طاقت و توانائی پہنچتی ہو یا پیاس وغیرہ کو سہارا ملتا ہو ، کا حُکم بھی یہی ہے کہ اِن کے اِستعمال سے روزہ خراب نہیں ہوتا،
::: ایک تنبیہ ::: یاد رکھیے کہ ٹوتھ پیسٹ سے گریز کرنا  ہی بہتر ہے ، کیونکہ اِس سے روزہ دار کے منہ ُ کی بُو جو اللہ کو مِسک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، وہ خُوشبُوجاتی رہتی ہے ، رہا مسواک کرنا تو وہ اللہ کی رضا کا سبب ہے ،
::: (8) ::: گرمی کی شدت کی وجہ سے یا پیاس یا کسی اور سبب سے سر میں پانی ڈالنا :::
ابو بکر بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے کہا ((( لقد رَاَیْتُ النَبِی صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم بِالعَرْجِ یَصُبٌ عَلَی رَاسِہِ المَاءَ وَھُوَ صَائِمٌمِنَ العَطَشْ اَوْ مِنَ الحَرِ ::: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی بہا رہے تھے)))سنن ابو داؤد / حدیث2365/کتاب الصوم / باب 27 ، صحیح  المشکاۃ المصابیح /حدیث 2011،
::: (9) ::: بلا اِرادہ (احتلام یا کِسی اور سبب سے )مَنی یا مَذی خارج ہونا :::
عبداللہ بن عباس اور ، عکرمہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا کہنا ہے"""روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا """،
::: وضاحت ::: مَنی وہ سفید گاڑھا لیس دار مادہ ہے جو شہوت کی حالت میں قوت کے ساتھ شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ، اور مذی سفید پتلا ہلکی لیس والا مادہ ہے جوپیشاب سے پہلے یا بعد میں شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ۔
::: (10) ::: قے (اُلٹی) آنا :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم نے فرمایا ((( مَن ذَرَعَہُ قَیء ٌ وہو صَائِمٌ فَلَیسَ علیہ قَضَاء ٌ وَاِِن استَقَاء َ فَلیَقضِ ::: جِس روزہ دار کو خود قے ہو جائے تو اُس پر کوئی قضاء نہیں ، لیکن اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اُس روزے کی قضاء (ادا) کرے)))،
یعنی جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اُس کو قضاء کرنا پڑے گا یعنی پھر دوبارہ رکھنا ہوگا ۔صحیح ابو داؤد ، حدیث 2380۔
::: (11) ::: اذان کے جواب دینے کا کیا حُکم ہے اور کیا افطار کے وقت مغرب کی اذان کا جواب دینا افضل ہے یا افطار کرنے میں جلدی کرنا ؟:::
اذان کا جواب دینے کی شرعی حیثیت میں عُلماء کرام میں اختلاف رہا ہے ، سب کی آراء کی روشنی میں  جمہور عُلماء کی یہ بات دُرست ہے کہ اذان میں مؤذن کے کہے گئے کلمات کا جواب دینا مستحب ہے ، واجب نہیں ، مالکی ، شافعی اور حنبلی عُلماء کا یہی کہنا ہے ،
 مؤطا مالک میں ثعلبہ بن ابی مالک القرظی رحمہُ  اللہ سے روایت ہے کہ """وہ لوگ امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں جمعہ کی نماز کے لیے جب مسجد میں ہوتے اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ جب  منبر پر تشریف فرما ہوتے اور مؤذن اذان کہتے تو ہم لوگ آپس میں بات چیت کرتے رہتے ، اور جب مؤذن خاموش ہو جاتے تو اور امیر المؤمنین خطبہ فرمانا شروع کرتے تو ہم لوگ بالکل خاموش ہو جاتے اور ہم میں سے کوئی بھی کچھ بات نہ کرتا """
اس روایت کے راوی ابن شھاب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """(جمعہ کی نماز کے وقت )اِمام کا(مسجد یا نماز گاہ میں ) آ جانا نماز کو ختم کر دیتا ہے اور اُس کا خطبہ شروع کرنا (حاضرین کی باہمی )بات چیت کرنے کو ختم کر دیتا ہے """
امام الالبانی رحمہُ اللہ کا فرمان ہے کہ """اس روایت میں اذان کے جواب دینے کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے  کیونکہ یہ عمل امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ُ کے دور میں ان کے سامنے ہوتا رہا اور انہوں نے اس سے منع نہیں فرمایا (اگر اذان کا جواب دینا واجب ہوتا تو امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ اذان کے دوران بات چیت کرنے والوں کو یقیناً منع فرما دیتے )مجھ سے جب بھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ اذان کے جواب دینے کے حکم کو وجوب سے ہٹانے کی کیا دلیل ہے تو میں یہ روایت پیش کرتا ہوں """ تمام المنۃ /صفحہ 340،
لہذااگر کوئی اذان کا جواب نہیں اس پر کوئی گُناہ نہیں ، کیونکہ اس نے کسی  واجب پر عمل ترک نہیں کیا ، جی ہاں یہ ضرور ہے کہ اذان کا جواب دینے کا جو عظیم اجر ہے وہ شخص اُس سے محروم ہو جائے گا ،
رہا معاملہ مغرب کی اذان کا جواب دینے اور افطار کرنے میں جلدی کرنے میں کسی ایک کام کے افضل ہونے کا تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ دونوں کاموں کی افضلیت اپنی اپنی جگہ ہے اور ان دونوں کاموں کو بیک وقت کیا جا سکتا ہے ، وہ اس طرح کہ جوں ہی اذان کا آغاز ہو افطار کر لیا جائے اور افطار کرتے ہوئے درمیان میں رک رک کر مؤذن کے کلمات پر جواب دیا جائے ، ان شا اللہ اس طرح دونوں فضیلتیں جمع کی جا سکتی ہیں، افطار کرنے میں جلدی کی فضیلت اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت ۔
میں نے یہاںصرف اُن مسائل کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے جو عام طور پر پوچھے جاتے ہیں اور اکثر محض رائے کی بنیاد پر اُن کا جواب دیا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کِسی ناحق ضِد و تعصب سے محفوظ رہتے ہوئے حق سمجھنے ، ماننے اپنانے اور نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
والسلام علیکم، طلب گارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، 
عادِ سُہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔