::::::: بات ہی تو ھے :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً صَلی اللہ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّم و مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ عَلیٰ مَسلکہِ
::: اکیلے اللہ کے
لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور
کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ اپنائی
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا:
السلامُ علیکُم
و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
تمام تر خالص تعریف اُس اللہ کی ہے جو أکیلا تمام تر
مخلوق کو بنانے والا ہے ، اور اُس سے بڑھ کر بہتر اور مُکمل طور پر بنانے والا
کوئی نہیں اُس نے اپنی سب سے بہترین مخلوق اِنسان کو بنایا ، اور اُس اِنسان کو
دیگر تمام مخلوق سے بڑھ کر نعمتیں قدرت اور وسائل عطاء فرمائے، اِن ہی نعمتوں میں
سے ایک نعمت """ ز ُبان """ ہے ، جی ہاں ز ُبان ، وہ بھی جو بولی جاتی ہے ، اور وہ بھی جِس سے بولا جاتا
ہے ، اور جِسکے ذریعے ہم مُختلف آوازیں نکالتے ہیں وہ آوازیں جو مُختلف حروف اور
الفاظ اور جملوںاور باتوں کی صورت میں ہم سُنتے اور سمجھتے ہیں ، اِن میں کچھ
الفاظ ، کُچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے لیئے دِین ، دُنیا اور آخرت میں اللہ کی خوشی ، اور اللہ کی طرف سے خیر اور عزت کا سبب
بنتی ہیں ، اور کُچھ ایسی جو اللہ کی ناراضگی اور اللہ کے طرف سے عذاب اور ذلت کا
سبب بنتی ہیں ،
دیکھنے میں تو """ ز ُبان """ گوشت کا ایک
لوتھڑا ہی ہے ، لیکن اِسکی حرکت بسا أوقات کِسی کو تلوار کے وار یا زہر سے زیادہ
نقصان دیتی ہے کبھی استعمال کرنے والے کو ، اور کبھی جِس کے لیئے استعمال کی جائے
اُس کو ، اور کبھی اُن کو جِن کے لیئے اُسے استعمال تو نہیں کیا گیا ہوتا لیکن اُس
کے وار کا وہ بھی شِکارہو جاتے ہیں ،
اِیمان والے اپنی '' ز ُبان '' کے استعمال کے بارے میں بہت
ہی محتاط ہوتے ہیں
اور فالتو باتوں سے دُور ہی دُور رہتے ہیں ، نہ کرتے ہیں
نہ سُنتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے
فرمایا ﴿ قَد أَفلَحَ المُؤمِنُونَ الَّذِینَ ::: یقینا اِیمان والے فلاح پا گئے O ھُم فِی صَلَاتِھِم خَاشِعُونَ ::: وہ جو اپنی نمازوں
میں خشوع ( اللہ کے سامنے انکساری) اختیارکرتے ہیں O وَالَّذِینَ ھُم عَن
اللَّغوِ مُعرِضُونَ ::: اور وہ جو فالتو باتوں اور کاموں سے
مُنہ موڑلیتے ہیں O وَالذَّینَ ھُم لِلز ّکٰوۃِ فَاعِلُونَ :::اور جو اپنی زکاۃ
أدا کرتے ہیں O وَالذَّینَ ھُم لِفُرُوجِھِم حَافِظُونَ :::اورجو اپنی شرمگاھوں
کی حفاظت کرتے ہیں O إِلّا عَلیٰ أزاوجِھِم أو مِا مَلکَت اَیمَانُھُم
فَإِنَّھُم غَیرُ مَلُومِینَ ::: سوائے اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی
لونڈیوں کے یقینا یہ ملامت کیے جانے والوں میں سے نہیں ہیں O فَمَن ابتَغٰی وَرآءَ ذَلِکَ فَاُولِٰۤئِکَ ھُمُ
العٰدُونَ :::( لہذا ) جو کوئی
اِسکے عِلاوہ کچھ اور چاہیں گے وہ ہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں O وَالَّذِینَ ھُم لِأمَانَتِھِم و عَھدِھِم رٰعُونَ ::: اور ( اِیمان والے )
جو اپنی أمانتوں اور وعدوں ( کی تکمیل )کا خیال رکھتے ہیں O وَالَّذِینَ ھُم عَلٰی صَلوٰتِھِم یُحَافِظُونَ :::اور جو اپنی نمازوں
کی حفاظت کرتے ہیں O اُولِٰۤئِکَ ھُمُ الوٰرِثُونَ ::: یہی ہیں وارث O اَلَّذِینَ یَرِثُونَ الفِردُوسَطھُم فِیھَا خَالِدُونَ :::جو (جنّتِ) فِردوس کےوارث
ہوں گے جِس میں وہ ہمیشہ رہیں گے O ﴾ سورت المؤمنون / آیت 1 تا 11،
اور اللہ تعالیٰ اِیمان والوں کو پُکار کر حُکم دیتے
ہوئے فرماتا ہے ، ﴿ یَا أَیُّھَا الَّذِینَ أَمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ
وَقُولُوا قَولاً سَدِیداً O
یُصلَح لَکُم أعمَالَکُم و یَغفِر لَکُم
ذُنُوبَکُم وَمَن یُطِع ِ اللَّہ َ وَ رَسَولَہُ فَقَد فَاز َ فَوزًا عَظِیمَاً ::: اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ(کے عذاب )سے بچو ، اور
سیدہی سیدہی(سچی )باتیں کیا کرو O اللہ تمہارے تمام کام سنوار دے گا
اور تمہارے گُناہ معاف کر دے گا اور جو کوئی اللہ اور اُسکے رسول کی تابع فرمانی
کرے گا یقینا بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا ﴾سورت الأحزاب /آیت 71،70،
اور فرمایا ﴿ وَ مَا
یَلفِظُ مِن قَولٍ إِلَّا لَدیہِ رَقِیبٌ عَتِید ::: اور(اِنسان ) ایک لفظ بھی جو ز ُبان سے نکالتا ہے ،
تو اُس کے پاس ( ہر لفظ کو حساب کے لیے محفوظ کرنے والا ) نگران تیار اور حاضر
ہوتا ہے ﴾ سورت ، ق/ آیت 18،
لہذا ہمیں اپنی""" ز ُبان"""کے استعمال میں یہ
خیال رکھنا ہی چاہیے کہ ہم اُسے لغویات میں اِستعمال کر رہے ہیں ، یا صاف سیدہی
سچی بات کرنے میں ، گُناہ میں اِستعمال کر رہے ہیں یا نیکی کمانے میں ، اللہ کی
مخلوق کی بھلائی کےلیئے استعمال کر رہے ہیں ، یا اُنکی برائی کےلیئے ، مُسلمانوں
کی جان مال عزت کے دفاع کےلیئے استعمال کر رہے ہیں یا اُن پر حملے کر رہے ہیں ،
بلکہ اُن کو لُوٹ رہے ہیں یا لُوٹے جانے کا سبب بن رہے ہیں ،اللہ کی رضا حاصل کرنے
کے لیئے اِستعمال کر رہے ہیں یا اُس کی ناراضگی اور عذاب کمانے میں ، دونوں صورتوں
کا انجام ہمارے سامنے ہے ،
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد آپ نے پڑھ لیا ، اب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی مُلاحظہ فرمائیے ﴿ إِنَّ العَبدَ لَیَتکَلمُ بالکَلِمَۃِ مِن رِضوَان ِ
اللَّہِ لا یُلقی لَھَا بَالاً، یَرفَعُ اللَّہ ُ بِھَا دَرَجَات ، وَ إِنَّ
العَبدَ لَیَتکَلمُ بالکَلِمَۃِ مِن سَخطِ اللَّہِ ، لا یُلقی لَھَا بَالاً،
یَہوِی بِھَا فِی جَھنَم ::: کبھی اِنسان اللہ کی رضا والی ایسی بات کرتا ہے جِس کا اُسے خود بھی احساس
نہیں ہوتا لیکن اللہ اُس بات کی وجہ سے بات کرنے والے کے درجات بُلند کر دیتا ہے ،
اور کبھی اِنسان اللہ کی ناراضگی والی ایسی بات کرتا ہے جِسکا اُسے خود بھی احساس
نہیں ہوتا لیکن اللہ اُس بات کی وجہ سے بات کرنے والے کو جہنم میں ڈال دیتا ہے ﴾صحیح البُخاری /حدیث 6478/کتاب الرقاق/باب23 ،،،
ذرا غور فرمائیے یہ معاملہ ایسی باتوں کا ہے جِن کے شرعی حُکم اور آخرت میں
اُن کے نتیجے کا بات کرنے والے کو احساس نہیں ہوتا ، تو اُن باتوں کا کیا معاملہ
ہو گا جِن کے شرعی حُکم اور آخرت میں اُن کے نتیجے کا بات کرنے والے کو عِلم ہو ،
کتنی باتیں ہم بس کر دیتے ہیں اور
کرتے ہی رہتے ہیں ، جو دِلوں کو جلا دیتی ہیں ، گھروں کو اُجاڑ دیتی ہیں ، لوگوں
کے مال اور حقوق کو تلف کر دیتی ہیں ، لوگوں کی محبتوں کو نفرتوں میں بدل دیتی ہیں
، پُر أمن اِنسانوں کو وحشی قاتل اور جنونی مُجرم بنا دیتی ہیں ، اور أکثر ایسا
ہوتا ہے کہ خود بات کرنے والا بھی اپنی ہی بات کا شِکار ہو جاتا ہے ، واہ ، یا ،
ہائے ، دُنیا میں بھی ذلت و نُقصان
اُٹھایا اور پھر آخرت میں بھی وہ بات یا باتیں اُسکے انتظار میں ہیں ابھی چند سطر
پہلے اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان نقل کیا تھا ، پھر پڑھیے ، اللہ کرے کہ یہ بھی
ہمارے دِلوں میں بیٹھ جائے ﴿ وَ مَا
یَلفِظُ مِن قَولٍ إِلَّا لَدیہِ رَقِیبٌ عَتِید ::: اور ( اِنسان ) ایک لفظ بھی جو ز ُبان سے نکالتا ہے ، تو
اُس کے پاس (ہر لفظ کو حساب کے لیئے محفوظ کرنے والا ) نگران تیار اور حاضر ہوتا
ہے ﴾ سورت ، ق/ آیت 18،
کتنی باتیں بس کر دی جاتی ہیں ،
کہہ دی جاتی ہیں ، اور وہ باتیں کرنے والوں کو نہ تو ان کی سچائی کی کچھ خبر ہوتی
ہے اور نہ ہی ان کی درستگی کا کوئی ثبوت جانتے ہیں ،،،،،، بات ہی تو ہے ،،،،، لیکن
، ایسی باتیں کرنے والے کا انجام کیا ہو گا ، سُنیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ إِنَّ
العَبدَ لَیَتَلّمُ بِالکَلِمَۃَ مَا یَتَبِینُ فِیھا یَزِل فی النَّارِ أبعَدُ
مَا بَینَ المَشرِقِ، وَ المَغرِبِ ::: کبھی اِنسان کوئی ایسا لفظ بولتا ہے جِس کی(سچائی کی )کوئی دلیل نہیں ہوتی ،
تو اِس لفظ کی وجہ سے اُسے جہنم میں مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ
گہرائی میں پھینکا جائے گا﴾صحیح
مُسلم /حدیث2988/کتاب الز ُھدوالرقائق/باب6 ، صحیح البُخاری /حدیث2477/کتاب
الرقاق/باب23 ،،
کہنے کو تو صِرف ، بات ہی تو ہے ،لیکن
بات کیا کیا ہوتی ہے اور کیا کیا کرواتی ہے اور کروائے گی ، ذرا غور فرمائیے ،
[[[1]]] قذف یعنی الزام تراشی ، [[[ بُہتان لگانا]]] کِسی مُسلمان مرد یا عورت پر الزام ، بہتان لگانا ،
[[[1]]] اُسکے کردار کے بارے میں ، یا [[[2]]] اُس کے اِیمان
کے بارے میں،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ ایک لمبی حدیث
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
کا فرمان ہے ﴿ وَ مَن بَھَتَ مؤمناً
أو مؤمنۃً حَبَسَہُ اللَّہ ُ فی ردغَۃ الخَبَالِ یوم القیامۃ حتیٰ یَخرُج مما قالَ
و لیس بِخارجٍ :::جِس نے کِسی اِیمان والے مرد یا عورت پر کوئی الزام
لگایا ، تو اللہ تعالیٰ اُس الزام لگانے والے کو اہل جہنم کو پیسنے والی جگہ میں
قید کر دے گا اور وہ شخص وہاں سے اُس وقت تک نہیں نکلنے پائے گا جب تک کہ وہ اپنے
لگائے ہوئے الزام سے نہیں نکل پاتا ، اور ایسا کبھی نہیں ہوگا ﴾معجم
الکبیر ، حدیث صحیح ہے ، مُسند أحمد /حدیث 5544 ، 5552
[[[1]]] لفظ قذف کا عام
مفهوم هے کِسی پاکباز عورت پر بدکاری کا الزام لگانا،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، جو بہت آسانی
سی کر دی جاتی ہے ،،،،، لیکن ،،،،، الله کا فرمان هے ﴿ إِنَّ اَلَّذِینَ یرمُونَ المُحصَناتِ الغٰفِلٰتِ المُؤمِنَاتِ لُعِنُوا فِی
الدُّنِیا وَ الاٰخِرةِ وَلَهُم عَذَابٌ عَظِیمٌ ::: جو لوگ پاک دامن ، بُرائی سے غافل
، ایمان والی عورتوں پر تهمت لگاتے هیں ، اُن پر دُنیا اور آخرت میں لعنت کر دی
گئی هے اور اُن کے لیئے بهت برا بھاری عذاب هے ﴾
سورت النور/آیت 23،
اور دُنیا کی سزا کے طور پر فرمایا ﴿ وَاَلَّذِینَ یرمُونَ المُحصَناتِ ثُمَّ لَم یاتُوا
بِأربَعةَ شُهدَاءَ فَاجلِدُوا هُم ثَمَانِین جَلدَة وَلا تَقبَلُوا شَهَادَتِهِم
أبَداً اُولٰۤئِکَ هُم الفَاسِقُون ::: اور وه لوگ جوپاک دامن
عورتوں پر تهمت لگاتے هیں ، اور پر (اُس تہمت کے ثبوت کے طور پر )چار گواهوں کو
پیش نهیں کر پاتے ، تو اُن تُهمت لگانے والوں کواسی 80
کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی اُنکی گواهی قبول مت کرو یه هی فاسق لوگ هیں﴾سورت النور/آیت 4،
الله نے پاک
دامن صاف کردار والی مُسلمان خواتین پر تُہمت
لگانے والوں کو دُنیا میں اسی 80 کوڑے مارنے
اور اُنکی گواهی ناقابل قبول هو جانے کی سزا دی اور اُن پر فاسق هونے کا حُکم لگا
دیا ، ذرا سوچیے جو فاسق هونے کی حالت
میں مرے گا اُس کا انجام کیا هوگا ؟
اور یه معامله صرف عورتون پر بدکاری کے الزام تک محدود
نهیں بلکه اگر کِسی مرد یا بچے یا بچی پر اِس قِسم کا الزام لگانے کا بھی یه هی
معامله هے، جیسا که اُوپر نقل کی گئی حدیث مین بیان هوا هے ، کہ هر ایمان والے مرد اور عورت پر بهتان تراشی
کا ایک هی حُکم هے ، أفسوس اور صد أفسوس که همارے مرد حضرات ایک دوسرے کو مُخاطب
کرتے هوئے یا کِسی کا ذِکر کرتے هوئے ایک دو الفاظ بهت هی کثرت سے اِستعمال کرتے
هیں جو بالکل بدکاری کا الزام هوتے هیں، الله همیں مُسلمانوں کی عزتوں کی حفاظت
کرنے والا بنائے نہ کہ ز ُبان کا مزه لیتے لیتے مُسلمانوں کے عزتیں لوٹنے والا .
[[[2]]] کسی مسلمان کے اِیمان پر الزام
لگانا
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے فرمایا ﴿ إِذا قَالَ الرَّجُلُ لِأخِیهِ '' یا کافِر '' فَقَد باءَ بِها أحدهُما فَإِن کَانَ کَما قَالَ وَ
إِلا رجعَت عَلِیهِ ::: اگر کوئی اپنے (مُسلمان )بھائی کو کافر کهتا هے تو (یه بات )دونوں میں سی کِسی
ایک پر ضرور سچی هو جاتی هے اگر تو وه جِسے(کافر)کہا گیا هے ویسا نهیں ہےتو وہ بات
کہنے والے پر پوری هو جاتی هے﴾(یعنی وه کہنے والاکافر
قرار پاتا هے)صحیح البُخاری/حدیث2014/ کتاب الأدب
/باب 73 ، صحیح مُسلم /حدیث 60،
هم میں سے کتنے ایسے هیں جو کِسی مُسلمان پر ناراضگی کا اِظهار فرماتے هوئے
اُسے منافق یا مُشرک وغیره کهتے هوئے رتّی برابر بھی نهیں هچکچاتے ۔
[[[ 2]]] قسم اُٹھانا
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، غلط هونے کی صورت میں الله نے کُفاره أدا کرنے کا حُکم دِیا ، اور الله کے عِلاوه کِسی اور کی قسم اُٹھانا یا کھانا حرام هے
، شرک هے ،
رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ مَن کان حالفاً فَلیحلف باللَّهِ أو لَیصمُت ::: اگر کوئی قسم اُٹھانا چاهے تو الله
کی قسم اٹهائے یا خاموش رهے ﴾صحیح البُخاری /حدیث2679/کتاب
الشهادات /باب26،
اور اِرشادفرمایا ﴿ ألا مَن
کان حالفاً فَلا یحلف إِلَّا باللَّهِ ::: خبرادار جو کوئی قسم اُٹھانا چاہے تو اللہ کے علاوہ کِسی بھی اور کی قسم نہ
اُٹھائے﴾صحیح البُخاری /حدیث3836/کتاب فضائل
أصحاب النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
/ کتاب مناقب الأنصار / باب26 ،
گو کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکم مُبارک سے یه صاف پته چلتا هے که الله کے عِلاوه کِسی بھی اور کی قسم اُٹھانا حرام هے
، لیکن پھر بھی همارے هاں لوگوں کی عادات میں سے هے که وه طرح طرح کی قسمیں
اُٹھاتے رهتے ہیں ، کہیں بچوں کی قسم ، کبھی بڑوں کی قسم ، کبھی """
آپ کی قسم """ ، کبھی قُرآن کی قسم ، کبھی کلمه کی قسم ، کبھی کعبه
کی قسم ، کبھی بزرگوں ، ولیوں ، شہیدوں ، اور نبیوں کی قسم ، یه سب قسمیں غیر الله
کی هیں،اور رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکم اور فیصلے کے مُطابق الله کے عِلاوه
کِسی بھی اور کی قسم اُٹھاناکُفر اور شرک هے ،
الله تعالیٰ همیں اِس سے بھی محفوظ
رکھے ، مُقدس چیزوں یا کاموں کی قسم
اُٹھانے کے بارے میں لوگ زیاده غلط فهمی کا شکار هیں اور اُن کاموں یا
چیزوں کے تقدس کے وجه سے اُن کی قسم اُٹھاتے هیں ، جبکه الله تعالیٰ کے عِلاوه
کِسی بھی اور کا یه تقدس اور حق نهیں که اُس کی قسم اُٹھائی جائے ، اور اِسی لیے
رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے الله کے عِلاوه کِسی بھی دوسرے کی قسم اُٹھانے سے منع فرمایا هے ، مُلاحظه فرمائیے ،،،
عبدالله ابن عُمر رضی الله عنهما نے کِسی کو کعبه کی قسم اُٹھاتے هوئے سُنا تو
فرمایا :::
""" الله کے عِلاوه کِسی بھی اور کی قسم نهیں اُٹھائی جاسکتی ،
میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کو فرماتے هوئے سُنا هے که﴿مَن حَلَفَ بِغَیرِ اللَّهِ فَقَد کَفَرَ أو أَشرَکَ ::: جِس نے الله کی عِلاوه کِسی اور کی قسم اُٹھائی تو اُس نے
کُفرکِیا یا شِرک کِیا ﴾"""سُنن الترمذی /
حدیث 1535 / کتاب النذور و الایمان / باب 8 ما جا فی کراهیة الحلف بغیر الله
، صحیح ، إرواءُ الغلیل /حدیث 2561 ،
اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے ﴿مَن حَلَفَ بِالأمانَةِ فَلَیسَ مِنَّا:::جِس نے فرض عبادات (جیسے
نماز روزه حج وغیر ه )میں سے کِسی کی قسم اُٹھائی تو وه هم میں سے نهیں﴾ سُنن أبی داؤد /حدیث 3253/کتاب الأیمان و النذور/باب 6 فی کراهیة الحلف بالأمانة ، إمام الالبانی نے فرمایا
که یه حدیث صحیح هے سلسلة الأحادیث الصحیحه/ حدیث 94 ،
یه مذکورہ بالا عبارت ایک لمبی حدیث کا حصہ هے ، اِس اور اِس سے اگلی
کے بعد والی حدیث شریف کی شرح جاننے کے لیے میری کتاب """
وه هم میں سے نهیں """ کا مُطالعه اِن شاء الله مُفید
هو گا ،یہ کتاب ابھی زیر تکمیل ہے اِن شاء اللہ مکمل ہونے پر مطالعے کے لیے پیش کر
دی جائے گی ،
ایک دفعه ایک یهودی رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا """ اے
مُحمد تُم لوگ تو الله کے ساتھ برابری کرتے هو اور الله کے ساتھ شِّرک کرتے هو ،
تُم لوگ ایک دوسرے سے کہتے هو،ما شاءَ اللَّه ُ و
شِئتَ ،جو الله چاهے اور تُم چاهو ، اور کہتے هو و
الکعبۃ ، کعبه کی قسم """،
تو رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم نے صحابه رضی الله عنهم اجمعین کو
مُخاطب کرتے هوئےحُکم فرمایا که﴿ اگر تُم لوگ قسم اُٹھاؤ تو کہو ﴿و رب الکعبه::: کعبه کے رب کی قسم ﴾ ،
اور(ما شاءَ اللَّه ُ و شِئتَ ،جو الله چاهے اور تُم چاهو)کی بجائے کہا کرو کہ﴿ما شاءَ اللَّه ُ ثُمَّ شِئتَ ::: جو الله چاهے اور پھر جو تُم چاهو ﴾یعنی الله کی اجازت کے بعد اور اُس کی دی هوئی قدرت کے مُطابق جو تُم چاهو ، سُنن
النسائی /حدیث 3872/کتاب الإیمان / باب 9 الحلف بالکعبه ، سلسله الأحادیث
الصحیحة /حدیث 136 ،
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم حسبی نسبی مُسلمان اپنے زنده و مرده سچے یا نام نهاد بزرگوں اور ولیوں
کے بارے میں آج یہی عقیده رکهتے هیں که وه جو چاهیں کر دیتے هیں ، اور اُن کی
قسمیں اُٹھاتے رهتے هیں ،
جبکه رسول الله صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم نے فرمایا﴿ مَن حَلَف َ فَقَال فِی حَلفِهِ :: بِالَّاتِ و العُزی ،
فَلیقُل ، لا إِله َ إِلَّا اللَّه ُ ، و مَن قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعال أُقامِرُکَ،فَلیتَصدَّق ::: اگر کوئی قسم اُٹھاتے هوئے اپنی
قسم میں لات اور عزی کی قسم اُٹھائے تو وه کہے که الله کے عِلاوه کوئی سچا معبود
نهیں ، اور جو اپنے کِسی ساتھی سے کہے ، آؤ میرے ساتھ بازی لگاؤ(یعنی جوا کھیلو )،
تو ایسا کہنے والا(گناه کی دعوت دینے پرکفارے کے طور پر )صدقه کرے ﴾صحیح
البُخاری /حدیث 4860 / کتاب التفسیر / باب تفسیر سورت النجم / حدیث 2 ،،صحیح
مُسلم /حدیث1647 / کتاب الأیمان و النذور / باب 6،
اِس حدیث میں رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے الله کے عِلاوه باطل معبود کی قسم اُٹهانے
کے کفارے کے طور پر الله کے اکیلےمعبودِ حق هونے کی شهادت دینے کا حُکم فرمایا هے
، اور یه اِس بات کی دلیل هے که الله کے علاوه کِسی اور کی قسم اُٹھانے والا ایسا
شرک اور کبیره گُناه کرتا هے جِسکی وجه سے تجدید اِسلام کی ضرورت پیش آتی هے ، اور
اُسکے تجدید اِسلام کے لیے هی رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یه حُکم دیا هے که﴿ فَلیقُل :: لا إِله َ إِلَّا اللَّه ُ::: وه ( یعنی قسم اٹھانے والا ) کہے
الله کے عِلاوه کوئی سچا معبود نهیں﴾
دیکھیےاور خُوب اچھی طرح سے غور فرمایے قارئین کرام ، کہ ،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے ایسی شخصیات جِن کو ولی
اور الله کے قریبی سمجھ کر اُن سے دُعائیں کی جاتی هیں ، اُن کے نام کے چڑھاوے
چڑھائے جاتے هیں ، نذریں منتیں مانی اور دی جاتی هیں ، اُن کی قسم اُ ٹھانے
یا کھانے والے کو، قسم اُٹھانے کی صورت
میں کفارے کے طور پر فوراً ہی الله کے یک
و تنها سچا معبود هونے کے اقرار کی ز ُبانی أدائیگی کا حُکم صادر فرمایا ہے،
غور فرمایے
محترم قارئین ، غور فرمایے ، کہ ،،، ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، ایک ہی بات گویا که اِیمان ختم کر
دینے والی هے اور دوسری ایک ہی بات اِیمان
کی تجدید کرنے والی ،
اگر کوئی یه سوچے که لات و عُزیٰ تو مکه کے مشرکوں کے معبود تھے اور ہم جِن کی
قسم اٹھاتے ہیں وہ تو مُسلمان اور اللہ کے ولی ہیں ،تو ایسا سوچنے والا غلطی پر هے
، کیونکه مکه کے وه مشرک بھی لات و عُزیٰ اور جِن جِن سے وه الله کے عِلاوه
دُعائیں کرتے تھے اور اُن کے ناموں پر چڑھاوے چڑھاتے تھے، اُن میں سے کِسی کو بھی
وه الله کا شریک نهیں مانتے تھے ، بلکه الله کے ولی اور الله کے هاں بهت عزت اور
مُقام رکھنے والے جانتے تھے، اور اِسی لیے اُن سے دُعائیں کرتے تھے که وه اُن کی
دُعائیں الله کی سامنے پیش کریں ، اور اِن دُعائیں کرنے والوں کو الله کے قریب کر
دیں تا که الله تعالیٰ اُنهیں وه دے دے جو وه مانگ رهے هیں ﴿ أَلَا لِلَّهِ الدِّینُ الْخَالِصُ وَالَّذِینَ
اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِیاء مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِیقَرِّبُونَا إِلَی
اللَّهِ ز ُلْفَی إِنَّ اللَّهَ یحْکُمُ بَینَهُمْ فِی مَا هُمْ فِیهِ
یخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا یهْدِی مَنْ هُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ::: خبردار ، الله تعالیٰ کے لیے هی خالص عبادت کرنا (جائز )هے،
اور جِن لوگوں نے الله کے عِلاوه ولی بنا رکھے هیں(اور وه لوگ یه کہتے هیں) که هم
اِن کی عِبادت(یعنی اِن سے دُعائیں اور اِن کے نام کے چڑهاوے ، نذریں منتیں ماننا
اور دینا ، اللہ کے اِس فرمان کی روشنی میں یه سب کام عِبادات هیں )صرف اِس لیے
کرتے هیں که(یہ بزرگ ، ولی ہمیں )الله کے نزدیکی لوگوں میں شامل کروا دیں ، یه لوگ
جِس میں اِختلاف کر رہے هیں ، اُس کا (صحیح)فیصله الله خود کرے گا ، اور جھوٹے اور
ناشُکرے لوگوں کو الله راه نهیں دِکھاتا ﴾سورت الز ُمر /آیت2،
دُعا عبادات محضہ
یعنی ایسے اعمال جو یقنیاً عبادات ہیں ، میں سے ایک عِبادت هے ،
جیسا که الله تعالی فرماتا هے ﴿ وَقَالَ
رَبُّکُمُ ادعُونِی أَستَجِب لَکُم إِنَّ الَّذِینَ یستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِی
سَیدخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَ ::: اور تمهارا رب(فیصله کُن طور پر)کہتا هے که مجھ سے دُعا کرو میں تمهاری
دُعائیں قُبُول کروں گا ، بے شک جو لوگ میری عِبادت کرنے سے خود سری کرتے هیں وه
بهت جلد هی ذلیل هو کر جهنم میں داخل هوں گے﴾سورت الغافر(المؤمن) / آیت 60 ، اور رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے اِس(مذکورہ بالا) آیت کی طرف اِشاره فرماتے هوئے اِرشاد فرمایا ﴿ الدُّعاءُ هُوَ العِبَادَة ، قَالَ رَبُّکُم ادْعُونِی
أَستَجِب لَکُم ::: دُعا عین عِبادت هے،(اِسی لیے )تمهارے رب نے کہا هے ، مجھ
سے دُعا کرو میں تمهاری دُعائیں قُبُول کروں گا﴾سُنن أبی داؤد /حدیث 1476/کتاب الصلاة/تفریح أبواب الوتر
/باب354 باب الدُعاء، صحیح سُنن أبی داؤد / حدیث 1329،
پس هر وه چیز ، یا شخصیت جِس سےدُعا کی جاتی ہے اُس کی عبادت هو رهی هے ، الله کےحقوق میں سے
ایک حق اُس کو دِیا جا رها هے، جو کام صرف
الله تعالیٰ کے لیے کیاجانا چاهئے وه اُس کے لیے بھی کیا جا رها هے ، الله تعالیٰ
کی صفات کا حامل اُس کو بھی جانا جا رها هے ، کہیں کوئی مُشکل کُشا هے، کہیں کوئی
حاجت روا هے ، کہیں کوئی داتا هے ، کہیں کوئی جنّت کے دروازے لگائے هوئے جنت میں
داخلے کروا رہا هے، کہیں کوئی أولاد دینے کیلیئے أجازت یافتہ (لائسنس هولڈر ، License holder) هے ،
اور چونکہ
زمانہ ماهرین کا هےلهذا اُن میں مختلف
معاملات کے ماهرین (specialist)بھی هیں تو
کہیں کوئی بیٹے بانٹتا هے اور کوئی بیٹیاں ، کوئی کاروبار کی ترقی کے لیے أجازت یافته هے ، تو کوئی من پسند رشتے کروانے
والا هے، اور ، اور ، اور ، آج مُسلمان هو
کر بھی هم میں سےکتنےهیں جو مُشرکینِ مکه سے بھی زیاده شِّرک والے عقیدے رکھتے هیں
اور اُن پر عمل کرتےهیں اور بُزرگوں اور ولیوں کو الله کےقریب کرنےوالا هے نهیں
بلکہ اپنی مرضی سے کام کرنے والا مانتے هیں ، ،إِنَّا لِلَّه و إِنَّا إِلیهِ رَاجِعُون۔
یهاں همارا موضوع یہ نهیں تھا چلتے چلتے ذِکر آ گیا ،،
بات هو رهی تھی الله کے عِلاوه کِسی اور کی قسم اُٹھانے کی، جِس میں همارا حال یہ
هےکہ نہ جانے کِس کِس کی قسم اُٹھائی جاتی هے اور کیا کیا قسم اُٹھائی جاتی هے
،الله تعالیٰ همیں اپنی ز ُبانوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
[[[ 3]]] طلاق ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، کتنے گھر، کتنی زندگیاں ،کتنے خاندان اُجڑ جاتے هیں بلکه
بعض أوقات تو کئی زندگیاں ختم هو جاتی هیں.
[[[ 4 ]]] جھوٹ ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، ایسی بات کرنے والے پر الله کی لعنت هے ، اور اُس کا
ٹھکانہ جهنم هے ، اور دُنیا میں بھی جھوٹے کی کوئی عزت و قدر نهیں ، خواه لوگ
اُسکی باتوں پر خوش هوتے هوں ، اُسکو بلا بلا کر محفلیں منعقد کرواتےهوں ، لیکن
عزت و قدر کچھ نهیں هوتی بلکہ وه بھانڈ اور میراثی سمجھا جاتا هے ، یا ذرا مهذبانہ
الفاظ میں """ فنکار""" یا """ انٹرٹینر """، اور پھر یہ بھی کہتے هیں کہ لوگوں کو خوش رکھنا عِبادت هے ، نیکی ہے
،
سبحان اللہ ، کیا جھوٹ بول کر !!! حرام کام کر کے عِبادت اور نیکی کی جاتی ہے !!! ؟؟؟
اگر یہ عِبادت ہے تو ،،،
کِس کی عِبادت هے ؟ الله کی یا شیطان کی ؟
رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ ویلٌ لِمَن یحدِثُ فَیکذِبُ لِیضحِکَ بِهِ القَومَ ،
وَیلٌ لَه ُ ، وَیلٌ له ُ ::: اُسکے لیے ہلاکت هے جو کِسی کو ہنسانے
کیے لیے جھوٹ بولتا هے ، اُس کے لیے ہلاکت
هے ، اُس کے لیے ہلاکت هے ﴾سُنن الترمذی / حدیث 2315 /کتاب الز ُهد / باب 10 ، ،حدیث حسن
هی ، صحیح الجامع الصغیر ، للالبانی ،حدیث 7136 ،
[[[5]]] غیبت یعنی :::
[[[1]]] کِسی کا کوئی عیب یا برائی جِس کو لوگ
نہ جانتے هوں اور وه لوگوں کے لیے نُقصان
ده بھی نہ ہو ،اُسکو لوگوں میں نشر کرنا ، اور ،
[[[2]]] کِسی کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات
جو اگر وه شخص سُنے تو اُسے بُرا لگے یا دُکھ پهنچے ،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، الله تعالیٰ نے اِسے اپنے مُرده بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا. سورت
الحُجرات/آیت12 ، ہر مُسلمان سمجھ سکتا هے که
اتنا بڑا گُناه کرنے والے کا انجام کیا هو گا ؟؟؟
[[[6]]] نمیمه یعنی لوگوں میں بگاڑ اور فساد اور دُشمنی پھیلانے والے قصے کهانیاں اِدھر
اُدھر سُناتے پھرنا،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿لا یدخُلُ الجنّة قَتات ::: چغل خوری کرنے والا جنت میں داخل
نهیں هو گا ﴾صحیح البخاری /کتاب الأدب /باب 50.
[[[7]]] لعنت کرنا باتوں باتوں میں کِسی کا ذِکر کرتے کرتے اُسے لعنت کهنے یا اُس
پر لعنت بھیجنے والے بہت سُنائی دیتے هیں،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے فرمایا ﴿ لَعن المؤمِن کَقتلهِ ::: کِسی ایمان والے کو
لعنت کرنا اُس کو قتل کرنے کے برابر هے ﴾معجم الکبیر ، مُسند أحمد ، مسند البزار ،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 710،
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کِسی
کو بغیر حق کے قتل کرنے والے کا انجام
جهنم هے، پس جو جرم اس کے برابر قرار دیا جا رہا ہے اس کی سزا بھی اسی کے برابر ہو
گی ۔
[[[8]]] گالی دینا ، جھگڑے والی بات کرنا
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے فرمایا ﴿ سباب المُسلم فُسُوقٌ و قِتاله ُ کُفرٌ ::: مُسلمان کو گالی دینا فِسق هے اور
اُس سے جھگڑا کرنا کُفر هے ﴾صحیح البخاری /کتاب الأدب
/باب44،
همارے معاشرے میں ایک عام سی عادت هو
چُکی هے کہ کِسی کا ذِکر کرتے هوئے ایک دو گالی دینا کچھ بُرائی نهیں سمجھا جاتا ،
بلکه اگر اِسکے بغیر بات کی جائے تو اُسے کمزور سمجھا جاتا هے، بے تکلف اور أچھی
دوستی ایک دوسرے کو گالیاں دیئے بغیر بنتی نہیں، إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلِیهِ رَاجِعُونَ ، هم میں سے کتنے اِس کا شِکار هیں.
[[[9]]] مذاق اُڑانا ، طعنه دینا ، عیب لگانا ، بُرے لقب دینا کِسی کی کمزوری سے فائده اُٹهاتے
هوئے اُسے کمتر جانتے هوئے اُسکا مذاق اُڑانا ، کیونکہ وه جواب دینے کی طاقت نهیں
رکھتا ، یا کِسی کی کمزوری کو عیب بنا کر اُسکو طعنه دینا ، جیسے ابے گنجے ، أو
کالے ، ارے موٹی وغیره ، کِسی کو بُرے القاب دینا ، مذاق کے نام پر گالیاں دیتے هوئے کِسی کی عزت اُچھالنا ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، الله تعالیٰ فرماتا هے﴿ یٰۤاَیهَاالَّذِینَ اٰمَنُوا لَا یسخَر قَومٌ مِن قَومً
عَسٰی اَن یکُونُوا خَیراً مِنهُم وَ لَا
نِسآءٌ مِن نِسآءٍ عَسٰی اَن یکُنَّ خَیراً مِنهُنَّ وَ لا تَلمِز ُوۤا اَنفُسَکُم
وَلَا تَنَابَز ُوا بِِالاَلقَابِ ط بِئسَ الاِسمُ الفُسُوقُ بَعدَ الاِیمَانِ
وَمَن لَم یتُب فَاُولٰۤئِکَ هُمُ الظّالِمُونَ ::: اے اِیمان لانے والو، (تُم لوگوں میں) کوئی گروہ کِسی
دوسرے گروہ کا مذاق نہ اُڑائے ، ممکن ہے کہ وہ (لوگ جِن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ،
اللہ کے ہاں )اُن (مذاق اُڑانے والوں )سے زیادہ خیر والے ہوں، اور نہ ہی (اِیمان
والی )عورتیں(دوسری اِیمان والی)عورتوں کا مذاق اُڑائیں ، ممکن ہے کہ وہ (عورتیں
جِن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ، اللہ کے ہاں )اُن (مذاق اُڑانے والیوں)سے زیادہ خیر
والی ہوں، اور آپس میں ایک دوسرےکو عیب نه لگاؤ، اور نه کِسی کو بُرے لقب دو
،اِیمان(قبول کر لینے)کےبعد(کُفر اور )گناه والے نام(دینا)بہت بُرا هے، اور جو(اِن
کاموں سے)توبه نه کرے وه هی ظالم هے ﴾سورت الحُجرات /آیت11،،
اِس آیت مُبارکہ میں ایک بات کافی غور طلب هےکه الله تعالیٰ نے
سب ایمان والوں کو ایک عام حُکم دینےکے بعد عورتوں کو خاص طور پر حُکم دِیا ہےکا
اِس آیت میں ذِکر کِیا گیا هے ، وه باتیں کرنے والے اگر توبه نهیں کرتے تو الله
تعالیٰ نے اُنکو ظالم قرار دِیا هے ، اورکِسی بھی قِسم کا کوئی بھی ظُلم کرنے والا
ظالم هوتا هے﴿واللَّه ُ لا یحِبُ الظَّالِمِینَ ::: اور الله ظُلم کرنے والوں کو پسند نهیں کرتا﴾سورت آل عمران/آیت 140،
اور ﴿ ألا لَعنت ُ اللَّهِ عَلٰی الظالمِینَ ::: بے شک ظُلم کرنے والوں پر الله کی لعنت هے ﴾ سورت هُود/آیت 18 ،
اور ظالموں کا ٹھکانا جهنم هے. ﴿ ألا إِنَّ الظَّالِمِین فی عَذابٍ مُقِیم ::: بے شک ظُلم کرنے والے همیشہ رهنے والے عذاب میں هوں گے ﴾ سورت الشُّوریٰ /آیت 45،
الله تعالیٰ همیں هر کِسی کے ظُلم سے
محفوظ رکھے ، نه کرنے والوں میں بنائے اور نه جِن پر کیا جاتا هے اُن میں سے ۔
[[[10]]] بے حیائی
اور بے شرمی والی بات ،،،،، بات ہی تو
،،،،، لیکن ،،،،، رسول الله صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ لیس المؤمن
بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذیء ::: إِیمان والا نه تو طعنےدینے والا هو تا هے اور نه هی
لعنت کرنے والا ، اور نه هی بُری بات کرنے والا ،اور نه هی بے حیائی کی باتیں کرنے
والا ﴾ صحیح الترمذی 1610،
[[[11]]] بغیر یقینی عِلم کے جواب دینا اگر کِسی سے کوئی بات پوچھی جائے تو أکثریت کا
حال یه هوتا هے که وه کوئی نه کوئی جواب
دے کر هی سوال کرنے والے کو رُخصت کرتے هیں ، که کهیں اُس کی بارے میں یه خیال نه
کر لیا جائے که وه جانتا نهیں ، یه معامله دِینی فتوؤں میں زیاده پایا جاتا هے ، کیونکه مسلمانوں کی عادت بنائی جا چکی هے
که وه اپنے اپنے پسندیده أشخاص کی بات کو بلا دلیل مان لیتے هیں ، اور بعض لوگ
اپنی بات کو جاندار بنانے کے لیے کہتے اور لکھتے رهتے هیں که"""
حدیث میں آیا هے """، """ حضور سے مروی ہے"""وغیره
،
اور اُنکی بات کو اُن کا عقیدت مند
بڑی هی عقیدت اور یقین کے ساتھ قبول کرتا هے ،
دِین کا معامله جو هوا ، لیکن دُنیاوی معاملات میں عام طور پر ایسا نهیں
هوتا عقیدت أحترام اپنی جگہ ، هر کوئی بات کی چھان پھٹک کرنا چاهتا هے ، بہر حال ،
معامله دینی هو یا دُنیاوی جواب دینے والا تو جواب دے هی دیتا هے ،بات کر هی دیتا
هے،
،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،،
رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تو اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿مَن قَال عَلیّ مَا لَم أقُل فَلیتَبواء مَقعَدَه، مِن
النَّارِ ، وَ مَن استَشارَهُ أخاه، فأشارَ عَلیهِ بِغَیر رُشدهِ فقد خانَهُ ،وَ
مَن أفتیٰ بِفُتیا غَیر ثبتٍ فِإِنَّمَا إثمهُ علیٰ مَن أفتیٰ ::: جِس نے مجھ سے منسوب کر کے کوئی ایسی بات کہی ، جو میں
نے نہ کہی هو تو اُسکا ٹھکانه جهنم هے ، اور جِس سے اُس کا کوئی(مُسلمان)بھائی
مشوره طلب کرے اور وه بغیر هدایت والا(یعنی جِس کی درستگی اور انجام وه نهیں جانتا
) مشوره دے تو اُس نے اپنے(مُسلمان )بھائی سے خیانت کے ، اور جِس نے ایسا فتویٰ
دیا جو ثابت نهیں هوتا (یعنی سُنی سُنائی باتوں ، یا حُسنءِ ظن کی مُطابق هو) تو
اُس( غیر یقینی اور غیر عِلمی فتوی پر عمل کرنے) کا گُناه اُس فتویٰ دینے والی پر
هے ﴾ مُستدرک الحاکم/ احدیث349،
همارے اِرد گِرد أکثر ایسے لوگ سُنائی اور دِکھائی دیتے هیں جو دِینی اور
دُنیاوی معاملات میں فتویٰ ضرور دیتے هیں ، اور اُس کی کوئی دلیل یا یقینی عِلم
اُن کی پاس نهیں هوتا ، لیکن بات ضرور کرنا ہوتی ہے اور محض اپنی خام خیالیوں کی
بنا پر ہی کرنا ہوتی ہے لہذا فرماتے رہتے هیں کہ""" میرا خیال هے
که ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،"""، پس اپنے ذاتی خیالات کی بُنیاد پر اپنے ساتھ دوسروں کو بھی
گمراہ کرتے رہتے ہیں ۔
[[[12]]] قول اور فعل کا تضاد :::
دوسروں کو خوب نصحیت کرتے رهنا اور خود اُس پر عمل نه کرنا ، اور ایسی باتیں کرنا
جِن پر خود عمل نہ کیا جائے ،
یه مُصیبت عام طور پر دین کی دعوت دینے والوں میں زیاده
پائی جاتی هے ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،،
الله سُبحانه و
تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں پر ناراضگی کا اظهار فرمایا ﴿ یا أَیهَا الَّذِینَ أٰمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا
تَفعَلُونَ O کَبُرَ مَقتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا
تَفعَلُونَ ::: اے لوگو جو اِیمان لائے هو وه بات کیوں کرتے هو جِس پر عمل
نهیں کرتے O
جو تُم کرتے نهیں وه بات کرنا الله کو سخت نا پسند هے ﴾ سورت الصف / آیات 2،3 ،
اور جِس کا خاتمه اِس حال میں هو
جائے که الله اُس سے ناراض هو تو اُس کی آخرت کا کیا حال هو گا ؟؟؟
یه بات شاید هی کِسی مُسلمان کو معلوم نه هو.
[[[13]]] اپنی یا کِسی کی اُسکی موجودگی میں بغیر ضرورت تعریف ، برائی
کرتے رهنا ، یانیک ومتقی هونے کا دعویٰ کرنا
أکثر لوگ اپنے بارے میں بڑائی اور خوبیوں والی بات کرتے
رهتے هیں گویا که اُن سے بڑھ کر اورشاید هی کوئی هو ، یا کِسی کو خوش کرنے کے لیے یا کوئی مقصد حاصل کرنے کے لیے اُسکے سامنے اُس کی تعریف کرتے هیں ،،،،، بات ہی تو ،،،،، لیکن ،،،،، الله تعالیٰ نے اپنی یا کِسی اور کی بڑائی بیان
کرنے سے منع فرمایا هے ،سورت النجم/آیت32 ،
کِسی نے رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کِسی کی تعریف کی تو اُنهوں نے
فرمایا﴿ تمهارا بُرا هو﴾اور بار بار فرمایا ﴿ تُم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی﴾ پھر فرمایا﴿ اگر تُم میں سے کوئی
اپنے کِسی بھائی کی اچھائی جانتا هے اور اُسکی تعریف کرنا ضروری سمجھتا هے توکہے ،
میرا خیال هے که فُلان ایسا ایسا هے ، میں الله کے سامنے کسی کی تعریف نهیں کر رها
، الله هی اُس کے بارے میں بہتر جانتا هے ( اُسکے بارے میں )میرا خیال یوں هے﴾ صحیح البخاری/حدیث2662/کتاب الشهادات/باب 16،،صحیح
مُسلم/حدیث 3030/کتاب الزهد/باب 14،
:::::: ز ُبان کے غلط اِستعمال کے نتائج:::::::
جی هاں ، باتیں تو بهت هیں جو ،،،،، بات هی تو هوتی هیں ،،،،، لیکن ،،،،، کرنے
والے کی دُنیا اور آخرت کی تباهی کا سبب بنتی هیں ، اور ایسی تمام باتیں ز ُبان کا
غلط اِستعمال هیں ، اِس مضمون کے آغاز میں رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کی ایک دو حدیثیں بیان کی گئی تھیں
، جو ز ُبان سی نکلی هوئی بات کا انجام بتاتی هیں ، مزید
چند ایک مُلاحظه فرمائیے ،،
ایک دفعه عبدالله (ابن عباس ) تلبیہ کہتے هوئے صفا پر
چڑهے اور اپنی ز ُبان کو پکڑا اور پھر فرمایا """ اے ز ُبان خیر کی
بات کر فائده اُٹھائے گی ، اور شر کی بات کرنے سے خاموش ره ، اِس سے پہلے که صرف
ندامت هی باقی ره جائے """،
لوگوں نے پوچھا """ کیا یه آپ اپنی طرف
سے کہہ رهے هیں یا کہیں سے سُنا هے ؟ """،
تو عبدالله رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """
نهیں ، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کویہ فرماتے هوئے سُنا که
﴿ أکثر خطایا ابن آدم فِی لِسانهِ ::: آدم کی أولاد کی زیاده تر خطائیں اُس کی ز ُبان میں هوتی
هیں﴾ """،سلسله الأحادیث الصحیحه /حدیث534،
معاذ ابن جبل رضی الله عنه ُ ایک لمبی حدیث مین بیان کرتے هیں که """ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پوچھا ::: کیا هر بات جو هم کرتے هیں اُس
پر هماری گرفت هو گی ؟::: """،
تو رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا ﴿ثَکِلَتکَ اُمکَ یا مُعاذ ! وَ هَل یکُبُ النَّاسَ فِی النَّارِ
عَلیٰ وُجُوهِهِم إِلَّا حَصائدُ ألسِنَتِھم :::تمهاری ماں تُمہیں کھو دے، کیا لوگوں کو اُنکے مُنه کی بل آگ میں پھینکے
جانے کا سبب اُن کی ز ُبانوں کے پھل کے عِلاوه کچھ اور بھی هو گا ؟ ﴾ سُنن ابن ماجه / حدیث 3973
/کتاب الفِتن / باب 12 ،، سُنن الترمذی /حدیث2616 / کتاب الایمان / باب 8 ، اور
إِمام الترمذی رحمہُ اللہ نے کہا یه حدیث حسن صحیح هے ، اور إِمام الالبانی رحمہُ
اللہ نے کہا یه حدیث اپنی تمام اسناد کے مجموعے کی بِنا پر صحیح هے ، سلسله
الأحادیث الصحیحه/حدیث 1122 .
إِمام الطبرانی رحمہُ اللہ نے """ معجم الکبیر/من اسمه معاذ/أیوب بن
کریز عن عبدالرحمان بن غنم """ میں اور إِمام البیهقی رحمہُ اللہ نے """ شعب الایمان / وجه آخر موصول فی کتاب الحج/ الرابع و ثلاثون فی شعب الایمان و
هو فی باب حفظ اللسان عما لا یحتاج الیه /فصل 8""" میں اِس حدیث کے آخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان
بھی نقل کیا ہے کہ ﴿ إِنَّکَ
لَن تَزال سَالِماً مِا سَکَتَّ فَإِذا تَکلَّمتَ کُتِبَ لَکَ أو عَلِیکَ ::: تُم جب تک خاموش هو محفوظ هو ،
جونہی بات کرو گے تو لکھ لی جائے گی ، یا تُمهارے حق میں یا تُمهاری خِلاف ﴾ إِمام الالبانی رحمہُ اللہ
نےاِس أضافی جُملے کو بھی صحیح قرار دِیا
، صحیح الجامع الصغیر /حدیث 5136 ،
عبدالله بن عَمر بن العاص رضی الله عنهُما ، کا کہنا هے که رسول الله صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ مَن صَمَتَ نَجَا ::: جو
خاموش رها ( آخرت میں) نجات پا گیا ﴾ سُنن الترمذی / حدیث 2501 / کتاب
صفة القیامة /باب 50 ، سلسلة الأحادیث الصحیحة / حدیث 536،
ابو هُریره رضی الله عنه ُ سے روایت هے که رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم نے فرمایا ﴿مَن کَانَ یؤمِنُ بِاللَّهِ و الیومِ الآخِرِ فَلیقُل
خَیراً و لیصمُت ، ومَن کَانَ یؤمِنُ بِاللَّهِ و الیومِ الآخِرِ فَلا یؤذِ جَارَه
ُ ،و مَن کَانَ یؤمِنُ بِاللَّهِ و الیومِ الآخِرِ فَلیکرُم ضَیفَه ُ:::جو الله اوریومِ
آخرت پر یقین رکهتا هے وه خیر کی بات کہے یا خاموش رهے ، اور جو الله اوریومِ آخرت
پر یقین رکهتا هے وه اپنی پڑوسی کو تکلیف نه دے ، اور جو الله اوریومِ آخرت پر
یقین رکهتا هے وه مہمان کا اِکرام کرے ﴾صحیح البُخاری /حدیث 6475 /کتاب الرقاق / باب 63 حفظ اللسان ،
أنس بن مالک رضی الله عنه ُ سے روایت هے که رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم نے فرمایا ﴿لا یستقیمُ اِیمان ُ عبدٍ حتیٰ یستقیمُ قَلبُهُ، ولا
یستقیمُ قلبُهُ حتیٰ یستقیمُ لِسانُهُ و لا یدخُلُ رِجلٌ الجَنَّةَ لا یأمَن ُ
جارُه ُ بَوَائِقهِ:::کِسی کا اِیمان اُس وقت تک دُرُست نهیں هو سکتا جب تک
اُسکا دِل دُرُست نه هو ، اور کِسی کا دِل اُسوقت تک دُرُست نهیں هو سکتا جب تک
اُس کی ز ُُبان دُرُست نه هو ، اور جو
کوئی اپنے پڑوسی کو اپنے شرّسے محفوظ نهیں رکهے گا وه جنّت میں داخل نهیں هو سکتا ﴾ مُسند أحمد /حدیث(13389) /13079مسند أنس ابن مالک رضی اللہ
عنہ ُ میں سے حدیث 1125 ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ
/حدیث 2841 ،
گو کہ یہاں اِس مضمون میں ، میں نے اِس موضوع کو کافی مختصر رکھا ہے لیکن
اُمید هے که الله اور رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مندرجہ بالا فرامین همیں یه سمجھانے کے
لیئے کافی هیں که همیں اپنی """ز ُبان""" کِس طرح
اِستعمال کرنی چاهیے ، الله کرے که هم اِس أهم معاملے کو سمجھ لیں اور اپنی باتوں
کی اِصلاح کر لیں اِس سے پہلے کہ هماری باتیں هماری خِلاف بات کرنے لگیں.
اس مضمون کے ساتھ ز ُبان کے اِستعمال اور بات چیت کے نتائج
کے بارے میں دیگر ، درج ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مفید ہو گا ،
(1) ھنڈیا اور چمچ ،،، (2) اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے سانچے ہوتے ہیں ،،،
(3) دوسروں
کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں بیان کرنے سے
پہلے سوچیے ،،، (4) کسی کی
تعریف کرنے کا شرعی حکم، (5) خاموشی
نجات ہے،،، (6) صِدق ، سچائی ،
الحمد للہ یہ مضامین میرے بلاگ پر بھی موجود ہیں اور مختلف فورمز پر بھی ، والسلام
علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 19/06/1428 ہجری ، بمطابق ، 05/07/2007عیسوئی،
تاریخ تجدید : 22/03/1435 ہجری ، بمطابق ، 24/01/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امانت داری کا پاس رکھتے ہوئے کو ئی بھی قاری اِس مضمون کو کِسی کمی بیشی کے
بغیر نقل یا نشر کر سکتا ہے ، اور اِس میں موجود مواد کو بھی کسی کمی بیشی کے
بغیر اِستعمال کر سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔