:::::::
ھنڈیا اور چمچ :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ
و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ
، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء
نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن
اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
اِمام محمد ابن القیم
الجوزیہ رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب الداء والدواء (الجواب الكافي لمن سأل عن
الدواء الشافي) میں ، امام یحیی بن معاذ أبو زکریا الرازی رحمہ ُ اللہ کی یہ
حِکمت بھری نصیحت نقل کی :::
"""""
دِل ہنڈیا کے مانند ہیں، اور ز ُبانیں اُن کے چمچ
ہیں ، تُم بات کرنے والے کی بات پر غور کرو ، تو تمہیں پتہ چلے گا کہ اُس کے دِل
میں کیا ہے ، کیونکہ چمچ ہنڈیا میں سے وہ ہی کچھ نکال کر لائے گا جو کچھ اُس میں
ہے ، کھٹا یا میٹھا ، نمیکن یا کھارا ،،،، """""،
پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ چاہیے کہ اپنے دِل کے اِس چمچ کی
حرکات کی خُوب نگرانی رکھے اور اچھی طرح
سے دیکھتا رہے کہ کہیں یہ چمچ دِل کی ہنڈیا کی بجائے کہیں اِدھر اُدھر سے تو نہیں
نکالے جا رہا ،
اور اُس کی بات سننے والے چمچ کے ذریعے نکلنے والے اِدھر اُدھر کے اِلفاظ کو اُس کے دِل کی بات
سمجھ لیں ،
پس بہت اچھی طرح سے اپنے دِل کے چمچ کو استعمال کیا جانا
چاہیے کہ وہ دِل کی ہنڈیا کا سامان ہی
باہر لائے اس کے ساتھ اِدھر اُدھر کی مِلاوٹ نہ کر پائے ،
اور جب ہم اپنے دِلوں کے چمچ دِلوں تک ہی محدود رکھ سکیں تو
پھر ہمیں اپنے دِل کی اندرونی حالت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو نے لگے گا کہ ہمارے دِل
کی ہنڈیا میں سے جو کچھ نکلے گا وہ ہمیں ہمارے دِل کا باطن دکھائے گا ،
اور ہمیں ہمارے دِلوں کی اِصلاح میں مدد ملے گی اِن شاء
اللہ ،
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ لاَ يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ
وَلاَ يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ وَلاَ يَدْخُلُ رَجُلٌ
الْجَنَّةَ لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ::: کِسی کا اِیمان اُسوقت تک دُرُست نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا
دِل دُرُست نہ ہو ، اور کِسی کا دِل اُس وقت تک دُرُست نہیں ہو سکتا جب تک اُس کی ز
ُبان دُرُست نہ ہو ، اور جو کوئی اپنے پڑوسی کو اپنے شرّ سے محفوظ نہیں رکھے گا وہ
جنّت میں داخل نہیں ہو سکتا ﴾ مُسند أحمد /حدیث(13389) /13079مسند أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث 1125 ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 2841 ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک
ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُسکا اِیمان مضبوط اور أستقامت والا
ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دِل کو مضبوط کرے اور جو کوئی اپنے دِل کو مضبوط
کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ز ُبان کو مضبوط کرے ،
یعنی ، اپنی ز ُبان کے اِستعمال پرنظر کرے اور دیکھے کہ اُسکی
ز ُبان سے کیا باتیں اور کیسے اِلفاظ أدا ہوتے ہیں ؟
گالی گلوچ ، غیبت ، چُغلی ، فحش کلامی ، جھوٹ ، لوگوں کو ہنسانے
کے لیے جھوٹی باتیں جنہیں لطیفے کہا جاتا ہے ، اور جنہیں دُکھ ، غم اور نفسیاتی
دباؤ (ٹینشنTension,Anxiety)دُور کرنے کے اسباب میں بھی سمجھا جاتا ہے ، ایسی جھوٹی
باتیں وغیرہ بیان کرتا ہے ،،، یا ،،، حق بات
اور خوبصورت ، میٹھے با أدب اِلفاظ ؟؟؟
کچھ لوگ جھوٹ کو سُفید
اور کالا کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں ، لکھتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں ،
اور اِن جھوٹوں کی جھوٹی
تعریف کچھ اِس طرح کرتے ہیں کہ ،،،
کِسی کو دُکھ اور دھوکا
دینے والا جھوٹ کالا جھوٹ ہے اور یہ حرام ہے ، اور کِسی کو خوش کرنے ، ہنسانے والا
جھوٹ سُفید جھوٹ ہے اور اِس میں کوئی مُضائقہ نہیں ،
ایسے لوگوں کو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے﴿ویلٌ لِلَّذِی
یُحدِث ُ فَیَکذِبُ لِیُضحِکَ
بِہِ القَومَ ، وَیلٌ لَہ ُ ، وَیلٌ لہ
ُ ::: اُس کے لیے ہلاکت ہے جو
کِسی کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے ، اُس کے لیے ہلاکت ہے ، اُس کے لیے ہلاکت ہے
﴾ مُسند أحمد /حدیث
20085 ،20178 ، سُنن أبو داؤد/حدیث4990 /کتاب الادب /باب 88 ، سُنن الدارمی / حدیث
2702/کتاب الاِستئذان /باب 66، اور دیگر کتب حدیث میں بھی ہے ، امام الالبانی
رحمہُ اللہ نے حَسن قرار دِیا ہے ،
جی ہاں ہماری شریعت میں ہمیں کچھ خاص مواقع اور حالات میں
جھوٹ کی اجازت دی گئی ہے ، اِس کی تفصیل """ صِدق ، سچائی
""" میں ذِکر کر چکا ہوں ، لیکن اُن مواقع یا حالات میں کسی کو
ہنسانے کے لیے ، خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا کہیں مذکور نہیں ، اور نہ ہی کہیں کوئی
سفید یا کالے جھوٹ کی تقسیم میسر ہے ،
مضمون کے آغاز میں ذِکر کی گئی حدیث شریف میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایمان کی مضبوطی کا دارو مدار ز ُبان کی مضبوطی کو قرار
دِیا ہے ، پس ہر شخص کو چاہیے کہ وہ بات کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لے ، کہ جو
بات ، اور جِن اِلفاظ کے جامے میں وہ جو بات کہنے لگا ہے ، وہ بات اور وہ اِلفاظ اُس کے لیے ، اُس کے دِین دُنیا
اور آخرت میں فائدہ والے ہوں گے؟؟؟ عِزت
کا باعث ہوں گے ؟؟؟
یا نُقصان دہ ہوں گے ؟؟؟
بے عِزتی کا سبب ہوں گے ؟؟؟
بہت ہی دُکھ کی بات ہے کہ آج ہم مُسلمانوں کی أکثریت اپنی
ز ُبان کے اِستعمال پر کوئی توجہ نہیں کرتی ، کیا کہنا چاہیے تھا ، کیا کہہ دِیا ،
کیا کہنا چاہیے ، اور کیا کہا جا رہا ہے ،
کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ، جس کا ایک فوری اور عمومی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے
کہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ، یا پیدا کر دی جاتی ہیں ،
رشتوں، تعلقات اور دوستیوں کے مزاج بدل جاتے ہیں ، کبھی
کہیں کسی کم عقل کی کم فہمی کی وجہ سے ، اور کبھی کہیں کسی عیار کی مکاری کی وجہ
سے الفاظ کو وہ مفاہیم دے دیے جاتے ہیں جو
بات کرنے والے کا مقصود نہیں ہوتے اور نہ ہی بات کرنے والے کے دِل و دِماغ میں وہ
مفاہیم موجود ہوتے ہیں ،
اگر تھوڑی سی بھی توجہ کر لی جائے تو ہر اِنسان اپنی بات چیت
کے ذریعے اپنے دِل کی أندرونی حالت کو جانچ سکتا ہے، اور اپنی بات کرنے کے لیے
دُرُست ترین اورواضح ترین الفاظ چن سکتا ہے ،
حیرت کی بات ہے کہ ہمارے کئی مسلمان بھائی اور بہنیں خود کو
بڑے اور معروف حرام کاموں ، جیسا کہ چوری ، زنا ، شراب خوری ، جوا ، غیر محرموں کی
طرف دیکھنے وغیرہ سے تو محفوظ رکھتے ہیں ، لیکن ،،،، ز ُبان کی لغزش سے نہیں ، کتنے
ایسے ہیں جو بظاہر بڑے دِین دار ، دینی جماعتوں دعوت و تبلیغ سے منسلک ، بڑے تقوے والے
اور عِبادت گذار نظر آتے ہیں ، لیکن جب بات کرتے ہیں تو کِسی زندہ یا مُردہ کی غیبت
والی ، یا اُس کی عِزت اُچھالنے والی بات ہوتی ہے ،
الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو سُننے والے کے دِل کو دُکھ اور تکلیف
دیتے ہیں ، اور نصیحت ، مُصیبت بن جاتی ہے
،
یہ سب کچھ اِس لیے کہ بات کرنے والا بلا سوچے بات کر دیتا ہے
، اُسے خیال نہیں آتا کہ ز ُبان سے نکلا ہوا ایک لفظ اُس کے درجات کی بلندی کا سبب
بھی ہو سکتا ہے اور جہنم کی گہرائیوں میں ڈبو دیے جانے کا بھی ،
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿ إِنَّ العَبدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالکَلِمَۃِ ما یَتَبَیَّنُ فیہا یَنزِلُّ
بِہا فی النَّارِ أَبعَدَ مِمَّا بین المَشرِقِ و المَغرِبِ :::کوئی بندہ کِسی وقت کوئی لفظ بولتا ہےجس میں
بظاہر(تو کچھ برائی یا نقصان کا)پتہ نہیں چلتا، (لیکن)اُس لفظ کی وجہ سے وہ جہنم میں
مشرق اور مغرب کے درمیان (کے فاصلے) کے برابر گہرائی میں جا پڑتا ہے﴾مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری
/ حدیث 6112/ کتاب الرقاق/باب 23، صحیح مُسلم / حدیث 2988/ کتاب الزھد و الرقائق/باب
6،
اور مندرجہ ذیل روایت میں زیادہ وضاحت سے اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّ
العَبدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالکَلِمَۃِ من رِضوَانِ اللَّہِ لَا یُلقِی لہا بَالًا یرفع
اللہ بہا دَرَجَاتٍ وَإِنَّ العَبدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالکَلِمَۃِ من سَخَطِ اللَّہِ
لَا یُلقِی لہا بَالًا یہوی بہا فی جَہَنَّمَ :::کوئی بندہ کِسی وقت کوئی لفظ ایسا ادا کرتا
ہے جو اللہ کو پسند آتا ہے اور اُس لفظ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس بندے کے درجات بلند
کر دیتا ہے ، اور کوئی بندہ کِسی وقت کوئی لفظ ایسا ادا کرتا ہے جو اللہ کی ناراضگی
والا ہوتا ہے اور اُس لفظ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس بندے کوجہنم کی گہرائیوں میں پھینک
دیتا ہے﴾صحیح
البُخاری/حدیث 6113/کتاب الرقاق/باب 23،
ایک اور حدیث شریف جو
کہ أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے، اُس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم کا یہ اِرشاد کریم مروی ہے کہ﴿من کان یُؤمِنُ بِاللَّہِ وَالیَومِ الآخِرِ فَلیَقُل خَیرًا أو لِیَصمُت ::: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان
رکھتا ہے ، وہ یا تو خیر والی بات کرے یا خاموش رہے﴾صحیح البُخاری/حدیث 6110/کتاب
الرقاق/باب23،صحیح مُسلم/حدیث47/کتاب الاِیمان/باب 19،
ز ُبان کے استعمال کے دوران دو عجیب مصیبتیں
پیش رہتی ہیں :::
( 1 ) بلا ضرورت
اور باطل بات کرنا ( 2 ) بلا ضرورت اور حق
بات کرنے سے خاموش رہنا ،
ز ُبان کے اِستعمال کے دوران یہ مذکورہ بالا دو ایسی بڑی مصیبتیں ہیں کہ عموماً ایک سے بچنے والا دوسری کے جال میں پھنس جاتا ہے
، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موقع محل اور ضرورت کے مُطابق ایک مُصیبت کا گُناہ
دوسری سے بڑھ جاتا ہے ، جیسا کہ بلا ضرورت اور باطل بات کرنے والا ، بڑ بولا شیطان
اور اللہ کا نافرمان ہوتا ہے ، اور ، بلا ضرورت اور حق بات کرنے سے خاموش رہنے والا
گونگا شیطان اور اللہ کا نا فرمان ہوتا ہے ،
محترم قارئین یہ بات اچھی طرح سے یاد کر لیجیے کہ """مضبوطی اور استقامت والے لوگ وہ ہوتے ہیں
جو اپنی ز ُبان کو خود اِستعمال کرتے ہیں نہ کہ اُن کی ز ُبان اُ نہیں اِستعمال کرتی ہے""" ،
،،، لہذا ہم سب کو چاہیے کہ ہم باطل ، فضول ، بے حیائی ، اور
ممنوع باتوں سے اپنی ز ُبانوں کو روکے رکھیں اور حق بات ، دُنیا اور آخرت کے فائدے
والی بات کرنے میں استعمال کریں ،
اور یہ خیال رکھیں کہ ہمارے دِلوں کے چمچ منافق نہ ہونے
پائیں اور وہی کچھ باہر لائیں جو ہمارے دِل میں ہے ،
سھل بن سعد رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿مَن یَضمن لي َّ مَا بَینَ لَحیَیہِ و مَا بَینَ رِجلیہِ
أضمنُ لَہ ُ الجَنَّۃ ::: جو مجھے اُس
چیز کی ضمانت دے جو اُسکے دونوں جبڑوں کے درمیان (یعنی ز ُبان) اور دونوں ٹانگوں کے
درمیان میں ہے (یعنی شرمگاہ) تو میں اُسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں﴾صحیح البُخاری/حدیث 6109/کتاب
الرقاق/باب 23،
کیا ہی بھلا ہو کہ ہم اپنی ز ُبانوں اور شرمگاہوں کو ہر حرام
، باطل اور فضول کام سے محفوظ رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی
عطاء کردہ جنّت حاصل کرنے کی یہ مندرجہ بالا
ضمانت حاصل کریں ،
بات کرنے والا اپنی کہی ہوئی بات کو اکثر صرف"""بات
ہی تو ہے""" سمجھ کراُس بات کے نقصانات کی طرف توجہ نہیں کرتا اور کسی
اور کو نقصان دینے سے پہلے اپنی آخرت اور بسا اوقات دُنیا کا بھی نقصان کر بیٹھتا
ہے ،
ایسی بہت سی باتیں ہیں جنہیں آج ہمارے ماحول و معاشرے میں کوئی
نقصان دہ بات نہیں سمجھا جاتا ، یا سمجھا جاتا بھی ہے تو اُن کے کر لینے میں دُنیاوی
فوائد یا مقاصد کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور آخرت کے نتائج کی طرف توجہ نہیں کی جاتی
،
الحمد للہ ، ایسی باتوں کو ایک تفصیلی مضمون""" بات ہی تو ہے"""
میں بیان کر چکا ہوں ،
اگر اُس مضمون کا مطالعہ کیا جائے تو اِن شاء اللہ اپنی اپنی
ز ُبان کے چمچ پر آنے والے مواد کو دیکھ کر اپنے اپنے دِل کی ہنڈیا میں پائے جانے
والے مواد کا خوب اچھی طرح سے اندازہ کیا جا سکتا ہے اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطاء
فرمائے کہ ہم کسی خوش فہمی کا چکار ہوئے بغیر اپنی کوتاہیاں پہچان پائیں اور اُن کی
اصلاح کر کے اپنے ظاہر و باطن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
احکامات و تعلیمات کے مطابق بنا کر اپنی آخرت اور دُنیا سنوار لیں ۔
ز ُبان کے استعمال کے بارے میں ، مختلف باتوں کے نتائج کے بارے
میں مندرجہ ذیل مضامین بھی شائع کیے جا چکے ہیں ،
(1) بات ہی تو ہے (2) اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے سانچے
ہوتے ہیں ،،،
(3) خاموشی نجات ہے (4) دوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں بیان کرنے سے پہلے سوچیے ،،،
(5) کسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم (6) صِدق ، سچائی ،
اِن شاء اللہ اِن مضامین کا مطالعہ بھی مُفید ہو گا ، و السلام علیکم و رحمۃ
اللہ وبرکاتہ ۔
طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 12/11/1429
ہجری ، بمطابق ، 11/11/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید : 22/03/1435
ہجری ، بمطابق ، 24/01/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا
برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔