Friday, August 7, 2015

::::::: دُعا ء کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا خِلافء سُنّت ہے :::::::

:::::::  دُعا ء کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا خِلافء سُنّت ہے :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔

السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ تبارک  وتعالیٰ سے سوال کرنا ، دُعا کرنا، اللہ کی عِبادات میں سے ہے اور  اللہ کے محبوب کاموں میں سے ہے ، اور دُعا کرتے ہوئے، اپنی عاجزی ، بے بسی اور ذلت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کی طرف  ہاتھ پھیلانا ، ہاتھ اُٹھانا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات میں سے ثابت شدہ کام ہے ،لیکن دُعاء کے بعد ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنّت مبارکہ سے ثابت نہیں ،  اس عمل کے مروج ہونے کا سبب چند ایسی روایات جو ضعیف ، یعنی ناقابل اعتماد اور ناقابل حُجت ہیں ، وہ روایات ، اور اُن کی صحت کا حال درج ذیل ہے :::
::::::: (1) :::::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا   (((  إِذَا دَعَوْتَ اللَّهَ فَادْعُ بِبُطُونِ كَفَّيْكَ وَلاَ تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فَإِذَا فَرَغْتَ فَامْسَحْ بِهِمَا وَجْهَكَ :::جب تُم اللہ سے  دُعاء کرو تو  اپنی ہتھیلوں کی طرف سے کرو(یعنی  ہتھیلیوں کو اللہ کی طرف اُٹھا کر کرو)اور اپنے ہاتھوں کی پُشت کی طرف سے مت کرو،اور جب (دُعاء سے)فارغ ہو جاؤ تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو)))سُنن ابن ماجہ /کتاب الدُعاء /باب13 ، اور کچھ دیگر کتابوں میں بھی یہ روایت ہے،
تمام کتابوں میں اس روایت کی سند میں  صالح بن حسان نامی ایک ایسا راوی ہے جِسے اِمام ابن معین ، اِمام احمد بن حنبل ، اِمام ابو حاتم اور اِمام الدارمی رحمہم اللہ نے ضعیف یعنی کمزور، ناقابل حُجت  قرار دِیا ہے ،
اس کے بارے میں اِمام بخاری رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ یہ منکر الحدیث ہے ، یعنی اس کی روایت کردہ حدیث منکر ہوتی ہے """،
اور اِمام ابو نعیم الاصبھانی رحمہ ُ اللہ کا اس کے بارے میں کہنا ہے """منکر الحدیث ، متروک ، یعنی اس کی روایت کردہ حدیث منکر ہوتی ہے اور اس کی روایت کو قبول کرنا ترک کر دیا جانا چاہیے """،
اِمام ابن حبان رحمہ ُ اللہ نے اس کے متعلق کہا کہ """ یہ گانے بجانے والیاں رکھتا تھا ، اور قابل اعتماد راویوں کی طرف منسوب کر کے  جھوٹی باتیں  روایت کرتا تھا """،
اِمام ابن الجوزی رحمہُ اللہ نے بھی اس روایت کے بارے میں کہا کہ """یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس  کی سند میں صالح بن حسان ہے"""،
::::::: (2) :::::::: دوسرے خلیفہ بلا فصل عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کیا گیا ہے کہ(((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَليهِ و عَلیَ آلہِ وسَلّم- إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِى الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ   :::جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُعا میں اپنے ہاتھ مبارک بُلند فرمایا کرتے تو اُنہیں واپس کرنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے مُبارک پر پھیر کیا کرتے تھے  تُم اللہ سے  دُعاء کرو تو  اپنی ہتھیلوں کی طرف سے کرو(یعنی  ہتھیلیوں کو اللہ کی طرف اُٹھا کر کرو)اور اپنے ہاتھوں کی پُشت کی طرف سے مت کرو،اور جب (دُعاء سے)فارغ ہو جاؤ تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو)))  سُنن الترمذی /کتاب الدعوات /باب 11،
اس روایت کے بارے خود امام الترمذی رحمہُ اللہ نے ہی کہا ہے کہ یہ روایت ہمیں  صرف حماد بن عیسی کی طرف سے ہی ملتی ہے اُس اکیلے نے ہی یہ روایت ذِکر کی ہے ، اور وہ بہت کم احادیث روایات کرنے والا ہے ،
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """ الاِرواء الغلیل """ میں اس روایت کی مکمل تخریج کرتے ہوئے لکھا کہ """(اِمام )ابو حاکم (رحمہُ اللہ) نے اس حماد بن عیسی کے بارے میں  کہا ہے کہ "ضعیف الحدیث " ہے ،
 اور (اِمام )ابو داؤد(رحمہُ اللہ) نے کہا "ضعیف ہے منکر روایات روایت کرتا ہے "
 اور( اِمام) حاکم  (رحمہُ اللہ)نے کہا کہ "یہ شخص ابن  جریج اور جعفر الصادق سے منسوب کر کے جھوٹی باتیں روایت کرتا ہے
 اور "(امام) الدار قطنی(رحمہُ اللہ) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے "
 اور( اِمام) ابن حبان رحمہُ اللہ نے کہا "یہ راوی  ابن جریج اور عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز سے منسوب کر کے  الٹی باتیں روایت کرتا ہے ، پس جس کی یہ عادت ہو اس (کی روایت ) کو حجت نہیں بنایا جا سکتا """،
لہذا یہ روایت بھی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں  ثابت نہیں ہوتی ،
::::::: (3) ::::::::  سائب ابن یزید رحمہُ اللہ ، نے  اپنے والد سے روایت کیا کہ(((أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ:::نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دُعاء سے فارغ ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ (شریف )اپنے چہرہ(مُبارک)پر پھیرتے)))سُنن ابود داؤد /حدیث/1494کتاب الوِتر/باب23،مُسند احمد/حدیث/18428حدیث یزید بن سائب میں سے چوتھی روایت، اِس روایت کی سند میں  دو مصیبتیں ہیں ،
::: (۱) ::: ابن لھیعہ ، اسے محدثین کرام رحمہم اللہ نے  ضعیف ، یعنی کمزور اور ناقابل اعتماد قرار دِیا ہے ، خاص طور پر جب وہ کوئی روایت ، عن، کے طور پر بیان کرے ،  یعنی جس راوی سے روایت کرے اور اُس سے براہ راست خود سننے کا ذِکر نہ کرے ، تو ایسی صُورت میں تو اِس کی روایت کو قبول کرنے کا امکان ہی نہیں ،
::: (۲) :::حفص بن ھاشم ، یہ راوی مجھول ہے ، یعنی محدثین کے ہاں  اِس کے حالات کی خبر میسر نہیں ، اور ابن لھیعہ نے یہ روایت اِس مجھول راوی کے ذریعے سے روایت کی ہے ، یعنی عن کے طور پر ،
لہذا یہ دو خامیاں اس روایت کو ضعیف ، یعنی ناقابل اعتماد ، اور ناقابل حُجت قرار دیتی ہیں ،
::::::: (4) ::::::::  عبداللہ ابن عُمر رضی  اللہ عنہما سے  روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((إنَّ رَبَّكُم حَيٌ كَريمٌ يَستحِي أن يَرفعَ العَبدُ يديه فيَردُهُما صِفراً لا خير فيهما فإذا رفع أحدكم يَديهِ فليَقُل : يا حيُّ یا قيومُّ لا إلهَ إلاَّ أنت يا أرحمُ الرَّاحمِين ،- ثلاث مرات - ثم ذا رَدَ يديه فليَفرُغ الخير عَلىٰ وجهه :::بے شک تم لوگوں کارب ہمیشہ زندہ رہنے والا ، کرم فرمانے والا ہے، اِس بات سے حیاء فرماتا ہے کہ کوئی بندہ اپنے دونوں ہاتھ (دُعاء کرتے ہوئے اُس کی )طرف بُلند کرے، اور اللہ اُن ہاتھوں کو خالی واپس لوٹا دے، کہ اُن میں کوئی خیر ہو ہی نہ ہو،لہذا جب تم میں سے کوئی (دُعاءکرتے ہوئے )اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تو تین دفعہ کہے، اے ہمیشہ زندہ رہنے والے ، ایے ہمیشہ قائم رہنے والے، تیرے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں، اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے، اور پھرجب اپنے دونوں ہاتھ واپس پلٹائے تو (اُن ہاتھوں میں ڈال دی گئی)خیر کو اپنے چہرے اتار لے (یعنی ہاتھوں کو چہرے پر پھیرے)۔ )))،
إِمام  ابی بکر الھیثمی رحمہُ اللہ نے """مجمع الزوائد/حدیث 17340"""میں اِس روایت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا """رواه الطبراني وفيه الجارود بن يزيد وهو متروك ::: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس( کی سند )میں الجارود بن یزید ہے جو (ایک)متروک(راوی)ہے"""،پس یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ دُعا ءکے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ  کی طرف ہاتھ اُٹھانا تو سُنّت مُبارکہ کے مُطابق ہے لیکن دُعا ء کے بعد اُن ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا خلافء سُنّت ہے ،
یہ مذکورہ بالا روایات وہ ہیں ،جنہیں سُنّت شریفہ میں سے سمجھا گیا، اور  جِن کو سبب بنا کر ہم مُسلمانوں میں دُعاء کرنے کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا رائج ہوا، اور اِس کے متعلق کچھ عقائد اور فلسفے بھی داخل ہو گئے ،
لیکن، یہ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں ثابت ہی نہیں ہوتِیں ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کے جو آثار اِس کام کے بارے میں منقول ہیں ، اگر اُن میں سے کوئی صحیح ہو بھی تو بھی، زیادہ سے زیادہ کِھنچ تان کر اِس عمل کے جواز کا جواز ہی نکالا جا سکتا ہے، علی الاطلاق اِس کو دُرُست کہنا دُرُست نہیں لگتا ، و اللہ اعلم بالصواب،
ہر ایک مُسلمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کسی تردد اور پس و پیش کے بغیر  ہر و ہ عقیدہ ، اور عبادت اور جو دینی عمل اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے ثابت نہیں چھوڑ دے ، کیونکہ بلا شک  وہ عقیدہ ، وہ عبادت وہ عمل اللہ کے ہاں  مقبول نہیں ، بلکہ اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوتا ہے ، جو یقیناً دِین دُنیا اور آخرت کی تباہی والا راستہ ہے،
خوب اچھی طرح سے سمجھ لیجیے محترم قارئین کرام،اور ہمیشہ یاد رکھیے کہ اللہ کی عِبادات کرنے کے طور طریقوں کے دُرُست نا دُرُست ہونے کے لیے، کِسی عِبادت کے جائز یا ناجائز ہونے کے لیے، کسی کے افکار، سوچ ، منطق، فلسفہ،امکانیات وغیرہ کی کوئی حیثیت کوئی وقعت نہیں،
الحمد للہ، اِس موضوع کو """قران کریم اور صحیح ثات شدہ سنت مُبارکہ کے مطابق وسیلہ کیا ہے؟""" میں بیان کیا گیا ہے، یہ کتاب درج ذیل ربط پر مطالعہ کے لیے میسر ہے :
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے، والسلام علیکم۔


تاریخ کتابت :18/10/143ہجری،بمُطابق،16/09/2011عیسوئی۔
تاریخ تحدیث و تجدید:22/10/1436ہجری، بمُطابق،07/08/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔