Thursday, August 13, 2015

::::::: عِلمءِ غیب ، اور عالِمُ الغیب :::::::


::::::: عِلمءِ غیب ، اور عالِمُ الغیب :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
ہمارے ہاں پائے جانے والے بڑے نزاعی، اور شدید افراط و تفریط کے شکار  مسائل میں سے ایک مسئلہ""" عِلمءِ غیب ، اور عالِمُ الغیب """ کا بھی ہے ،
مجھے اِس کے بارے میں بھائیوں کی مناظرے اور مباحث پڑھ سُن کر کافی حیرت ہوتی ہے ، کیونکہ مجھے یہ سُجھائی دیتا ہے کہ اگر ہم لوگ ضد اور مسلکی تعصب چھوڑ کر اِس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اِن شاء اللہ ، اِس میں موجود اِختلاف ختم ہو سکتا ہے ، اور اگر ختم نہ بھی ہو تو بھی اس کی شدت میں اِس قدر کمی ہو سکتی ہے کہ گویا نہ ہونے کے برابر ہو جائے ، باذن اللہ ،
میری اِس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو اپنے اپنے اذہان و قُلوب سے مسلکی ، مذھبی ، جماعتی اور شخصی تعصبات کو اتارنا ہو گا ، اور پھر اُس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہدایت پانے کی دعاء کرتے ہوئے ،  کافی توجہ کے ساتھ اُن گذارشات اور معلومات کا مطالعہ کرنا ہو گا جو میں  یہاں ، اِس مضمون میں پیش کرنے والا ہوں ، اِن شاء اللہ ،
سب سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ لغوی طور پر""" غیبٌ  """ کا کیا معنی اور مفہوم ہے ،  
لغوی طور پر """غیبٌ """ کا لفظی مفہوم ہے """وہ قول یا فعل یا کوئی مادی چیز جو اِنسان کے حواس کے اَحاطے سے باہر ہو """،
لسان العرب میں ہے """"""  الغَيْبُ: الشَّكُّ  ::: وجمعه غِيابٌ و غُيُوبٌ؛ قال: أَنْتَ نَبِـيٌّ تَعْلَـمُ الغِيابا، لا قائلاً إِفْكاً ولا مُرْتابا ،، و الغَيْبُ: كلُّ ما غاب عنك .
 أَبو إِسحق فـي قوله تعالـى: ((((( يؤمنون بالغَيْبِ ))))) ؛ أَي يؤمنون بما غابَ عنهم، مـما أَخبرهم به النبـيُّ، مِن أَمْرِ البَعْثِ والـجنةِ والنار . وكلُّ ما غابَ عنهم مـما أَنبأَهم به، فهو غَيْبٌ؛ ،،، وقال أَبو الأَعرابـي: يؤمنون با للہ ، قال: و الغَيْبُ أَيضاً ما غابَ عن العُيونِ، وإِن كان مُـحَصَّلاً فـي القلوب ،،، ويُقال: سمعت صوتاً من وراء الغَيْب، أَي من موضع لا أَراه ،،، وقد تكرر فـي الـحديث ذكر الغيب، وهو كل ما غاب عن العيون، سواء كان مُـحَصَّلاً فـي القلوب؛ أَو غير مـحصل ،،،،،،،،،،، وقولهم: غَيَّبه غَيَابُه أَي دُفِنَ فـي قَبْرِه .،،، قال شمر: كلُّ مكان لا يُدْرَى ما فـيه، فهو غَيْبٌ؛ وكذلك الـموضع الذي لا يُدْرَى ما وراءه، """،
::: مذکورہ بالا عبارت کا  ترجمہ :::
 غیب یعنی شک اور اِس کی جمع ہیں غِیابٌ و غُیوبٌ ،
 کہا (جاتا ہے)، آپ نبی ہیں غیب جانتے ہیں :  نہ جھوٹ بولتے ہوئے اور نہ  ہی شک والی بات کرتے ہوئے ،
اور غیب (کا دوسرا معنی یہ کہ )ہر وہ چیز جو تُم سے غائب ہو ،
ابو اسحق (رحمہُ اللہ)نے اللہ (تعالیٰ )کے فرمان (((((یؤمنون بالغیب)))))کی تفیسر میں کہا """یعنی نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن لوگوں کو دوبارہ زندہ کیے جانے اور جنت اور جہنم کے بارے میں جو کچھ اُن  لوگوں سے غائب تھا اس میں سے جو کچھ بتایا ، اور جو کچھ بھی اُن لوگوں سے غائب تھا اس کے بارے میں جو جو خبر دی  وہ سب(اُن لوگوں کے لیے جنہیں یہ خبریں دی گئیں ، اور جن تک یہ خبریں پہنچتی ہیں) غیب ہے"""  ،
اور أبو الأعرابی نے ((((( یؤمنون باللہ ))))) کی تفیسر میں کہا """اور غیب وہ بھی ہے جو کچھ آنکھوں کی پہنچ سے باہر ہو خواہ وہ دل میں موجود ہو """،
 اور (جیسا کہ )کہا جاتا ہے کہ """ میں نے غیب کے پیچھے سے آواز سنی یعنی ایسی جگہ سے جو دکھائی نہیں دیتی """ ،
اور حدیث میں غیب کا بار بار ذکر ہوا ہے اور غیب ہر وہ چیز ہے جو آنکھوں سے غائب ہو خواہ دل میں پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو """ ،،،،،،،،
 اور (جیسے کہ)لوگوں کا یہ کہنا کہ """ فلاں کو اس کے غائب ہونے کی جگہ نے غائب کر دیا یعنی اسے قبر میں دفن کر دیا گیا """،
 شمر کا کہنا ہے """ہر وہ جگہ جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ اس میں کیا ہے ، غیب ہے ، اور اسی طرح  وہ جگہ(بھی غیب کہلاتی ہے) جس کے پیچھے والی چیز کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو"""،
یہاں تک ہوا لغوی مفہوم کا بیان ، جِس  میں شرعی مفہوم کا بھی ذکر کیا گیا ہے ،
اب اِن شاء اللہ ، ہم اُس شرعی مفہوم کو ، شرعی طور پر مقبول دلائل کے مطابق سمجھتے ہیں ،
تفسیر الطبری میں (((((یؤمنون بالغیب))))) کی تفیسر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان مذکور ہے کہ """"" بما جاء به، يعني مِن اللهِ جل ثناؤه ::: جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  اللہ کی طرف سے لے کر آئے """""
اور تفسیر الطبری اور تفیسر ابن کثیر میں ہے کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ اور  دیگر کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے یہ تفیسر منقول ہے کہ """" فما غاب عن العباد من أمر الجنة وأمر النار وما ذكر في القرآن ::: پس جو کچھ بندوں سے غائب ہوا ، جنت اور جہنم کے معاملات میں سے اور جو کچھ قران میں ذِکر کیا گیا وہ سب غیب ہے """"
پس ہمیں اپنی کسی اور بحث میں داخل ہونے سے پہلے، خُوب اچھی طرح سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ لغوی اور شرعی اعتبار سے غیب کا مفہوم کچھ مختلف ہو جاتا ہے ،
اب ہم اِن دونوں مفاہیم کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
    مثلا :::
میں آپ کے سوال کے جواب میں یہ اِلفاظ تحریر کر رہا ہوں ، مجھے آپ کے بارے میں صرف اتنا پتہ ہے کہ آپ کا نام کیا ہے ؟ اور  اس کے علاوہ  آپ کے بارے میں چند ایک دیگر معلومات رکھتا  ہوں،  آپ کی شخصیت کے بارے میں دوسری اور مزید  معلومات میرے لیے غیب ہیں ، اور اُس غیب کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہو جو مجھے آپ کی شخصیت کے بارے میں معلومات دے ، اور یہ بات یقینی ہو کہ وہ ذریعہ آپ کو یقینی طور پر جانتا ہے اور آپ اُس کے لیے غیب نہیں ہیں ، اب اگر وہ ذریعہ انسان کی ایجادات میں سے  کوئی آلہ نہیں ، اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی مخلوق ہے  تو اُس ذریعے کی لائی ہوئی معلومات کی درستگی کے لیے اُس ذریعے کا سچا ، برائی اور شیطانی عمل دخل سے محفوظ ہونا ایک لازمی اور یقینی ضرورت ہے ، ورنہ اطلاعات و معلومات پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا،
 پس ہر چیز ، قول یعنی بات ہو یا فعل یعنی کام ، جِس کے علم میں ہے اُس کے لیے غیب نہیں ، اور جس کے علم میں  نہیں اُس کے لیے وہ غیب ہے،
 لہذا  """ علم ءِ غیب """جب اِسلامی اصطلاح کے طور پر اِستعمال ہو تو اُس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ """ کسی بھی  کام یا بات یا چیز کا ایسا علم جو انسان کو عمومی اور فطری طور پر دیے گئے علوم سے خارج ہے یا جِس کا علم تو ہے لیکن نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی یقینی """،
 جیسا کہ :::
 تمام تر مخلوق کی تخلیق کے معاملات کہ کس کو کب اور کیسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ؟؟؟
فرشتوں کے معاملات کہ وہ کتنے اور کیسے ہیں ؟ کیا کیا کام کرتے ہیں اور کیسے کیسے کرتے ہیں ؟؟؟
کسی کے رزق کے معاملات کہ اسے کب کیا اور کتنا اور کیسے ملے گا اور کیسے اس سے لے لیا جائے گا ؟؟؟
ماں کے پیٹ میں موجود کسی بچے کے بارے میں یہ جاننا کہ وہ خوش نصیب ہوگا یا بد نصیب یعنی یہ جاننا کہ  وہ جنتی ہے یا جہنمی ؟؟؟
[[[جی ہاں ، مافی الارحام کا یہ ہی مفہوم ہے ، نہ کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس جاننا ، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں ، اور جیسا کہ کچھ لوگ حدیث شریف کے بارے میں دھوکہ دینے کی کوشش میں غلط بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ]]]
بلکہ اُس  بچے یا بچی کے پیدا ہو چکنے کے بعد بھی اور اُس کے مرنے کے بعد بھی کسی کے بارے میں یہ جاننا کہ اُس کا آخری ٹھکانا کیا ہے ؟؟؟
زندگی موت کے معاملات کہ کب اور کیسے اور کہاں کون پیدا ہوگا اور کون مرے گا ؟؟؟
قبر کے معاملات کہ اُن جگہوں میں کس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟؟؟
اور یہ کہ قیامت کب اور کیسے واقع ہو گی؟؟؟
حشر اور حساب کے معاملات کہ ان جگہوں میں کس کے ساتھ کیا ہو گا ؟؟؟
 بارش کب اور کیسے اور کتنی ہو گی ؟؟؟  وغیرہ ، وغیرہ،
اِن باتوں اور کاموں کا علم اُس  """ غیب """ میں سے ہے جِس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ، یعنی شرعی مفہوم کے مطابق اُن کا علم اور یقینی علم """علمء غیب"""ہے ، جو صِرف اللہ کے پاس تھا اور ہے اور رہے گا ،
اور بلا شک و شبہ اِس غیب کا کوئی بھی معاملہ جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رَسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی طرف سے خبر کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کے مطابق کوئی اس """غیب """ کا کچھ عِلم حاصل کر سکتا ہے ، اور اگر یہ خبر میسر نہیں تو پھر ایسے کِسی معاملے میں کوئی حکم دینا گویا کہ """ علمءِ غیب """ جاننے کا دعویٰ کرنا ہے ، اور یہ سراسر شرک اور اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِرشادات کا اِنکار ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ::::
(((((قُل لَّا یَعلَم مَن فِی السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اللَّہ وَ مَا یَشعرونَ اَیَّانَ یبعَثونَ:::فرمایے( اے رسول )زمین اور آسمانوں میں جو کوئی بھی ہے(ان میں سے کوئی بھی) غیب نہیں جانتا سِوائے اللہ کے اور وہ سب کے سب اِس بات کا شعور(عِلم) نہیں رکھتے کہ کب انہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا)))))سورت النمل (27)/ آیت65 ،
اب اگر کوئی کسی کے بارے میں یہ خیال یا عقیدہ رکھے کہ وہ اپنی یا کسی اور کی موت کا وقت اور مقام جانتا ہے یا جانتا تھا ،،،، تو کیا ایسا خیال یا عقیدہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے ابھی اوپر ذکر کیے گئے فرمان کا عملی منکر نہیں؟؟؟
 اور اگر اللہ کے اِس فرمان کو سن اورجان کر بھی وہ ایسا عقیدہ رکھے تو کیا وہ اللہ کے اِس فرمان کا عقیدۃً اِنکار کرنے والا نہیں ؟؟؟
::::::یاد رہے کہ حق پر مبنی  عقیدے کا اِنکار اور اِقرار ہی تو اِسلام میں داخل ہونے اور خارج ہونے کا سبب ہوتا ہے ۔
اور اللہ  سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے فرمایا (((((وَ عِندَہ، مَفَاتِح الغَیبِ لا یَعلَمھَآ اِلَّا ھوَ:::اور غیب (کے عِلم اور خزانوں )کی چابیاں اس (اللہ )کے پاس ہیں کوئی نہیں جانتا ان(چابیوں )کے بارے میں سِوائے اللہ کے)))))سُورت الانعام(6)/ آیت 59،
    اور اِرشاد فرمایا (((((وَ لِلَّہِ غَیب السَّمٰوٰات ِ وَ الاَرضِ وَ إِلِیہ یرجَع الأمر کلّہ::: اور زمین اور آسمانوں کا ( عِلمِ )غیب اللہ کے لیے ہی ہے اور اسی کی طرف ہر کام پلٹتا ہے)))))سورت ھود(11)/آیت 123 ،
اور ارشاد فرمایا ((((( وَ لِلَّہِ غَیب السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرضِ:::اور زمین اور آسمانوں کا (عِلمِ )غیب اللہ کے لیے ہی ہے)))))سُورت النحل(16)/آیت 77 ،
     اوراِرشاد فرمایا (((((عَالِم الغَیبِ فَلا یظھِر عَلیٰ غَیبِہِۤ أحداً اِلَّا مَن اَرتَضٰی مِن رَّسولٍ فَاِنَّہ یَسلُکُ مِن بَینِ یَدَیہِ وَمِن خَلفِہِ رَصَداً ::: (اللہ )عالِم الغیب ہے پس اپنا عِلمِ غیب کِسی پر ظاہر نہیں کرتا سِوائے اُس کے ، جِس کو رَسولوں میں سے(اللہ)چُن لے لہذا بِلا شک اُس (چُنیدہ  رَسول)کے آگے اور پیچھے (اللہ کی طرف سے)حفاظت کرنے والا چلتا ہے)))))سُورت الجِن(72)/ آیت 26،
    اِس آیتِ کریمہ میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ وہ اپنے غیب کے علم میں سے جتنا چاہتا ہے صرف اپنے چُنیدہ  رسولوں کو اُتنا بتا دیتا ہے ، ہر رَسول کو بھی نہیں ، صرف چُنیدہ  رَسولوں کو ،
 اب اگر کوئی کِسی بھی رسول یا نبی علیہ السلام کے علاوہ کِسی کے بارے میں یہ خیال یا عقیدہ رکھے کہ وہ اللہ کے  غیب میں سے کچھ تھوڑا سا بھی  جانتا ہے ، تو کیا وہ اللہ کے اِس فرمان کا منکر نہیں ؟؟؟
یا کسی بھی رسول یا نبی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اللہ کے غیب  کو سارے کا سارا  کُلّی طور پر جانتا ہے تو کیا ایسا سمجھنے یا ماننے والا اللہ تبارک وتعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان کا مُنکر نہیں ؟؟؟
اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے فرامین کے ساتھ ساتھ اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی ز ُبان پاک سے بھی اُس کے """ غیب """کی شرح ادا کروائی ،
 پس اِرشاد کروایا کہ (((((مفَاتِیح الغِیبِ خَمسٌ لایَعلَمھَا اِ لَّا اللَّہ(1)لا یَعلم مَا تَغِیض الأرحام اِلِّا اللَّہ (2)ولایَعلم مَا فيغَداً اِلَّا اللَّہ(3)ولا یَعلم مَتیٰ یأتي المَطر أحدٌ اِلَّا اللَّہ (4)و لا تَدرِی نَفسٌ بِأيّ أرضٍ تَموت إلا اللَّہ(5) ولایَعلم مَتیٰ تَقوم السَّاعَۃ اِلا اللَّہ:::غیب کی چابیاں پانچ ہیں ، اللہ کے سِوا انہیں کوئی نہیں جانتا (1) رحم ( بچہ دانی ) میں کیا نکلے گا سِوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا (2) اور کل کیا ہونے والا ہے سِوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا (3) اور بارش کب ہو گی سِوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور(4)کون کِس جگہ مرے گا سِوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور (5)قیامت کب قائم ہو گی سِوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ))))) صحیح البخاری /حدیث /7379کتاب التوحید/باب4،
    اور اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا (((((مَن حَدَّثَکَ أنَّ محمَداً صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رأی ربَہ فَقَد کَذَب، و ھَو یَقول """ لا تدرَکہ الأبصار """وَ مَن حَدَّثَکَ أنَّہ یَعلَم الغَیبَ فَقَد کَذَب، و ھَو یَقول"""لایَعلَم الغَیبَ إِلَّا اللَّہ""" :::جو تمہیں یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو یقینا اس (یعنی یہ بات کہنے والے )نے جھوٹ بولا ، کیونکہ اللہ تو کہتا ہے کہ """اسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو) آنکھیں نہیں دیکھ سکتِیں """، اور جو تمہیں یہ کہے کہ وہ ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) غیب جانتے ہیں تو یقینا اِس (یعنی یہ بات کہنے والے )نے جھوٹ بولا ، کیونکہ اللہ تو کہتا ہے کہ (سِوائے اللہ کے غیب کا عِلم کوئی نہیں جانتا ))))))صحیح البخاری /حدیث /7380کتاب التوحید/باب4،
اسکے عِلاوہ اور بھی صحیح احادیث شریفہ ایسی  ہیں جو کہ اِس حق  عقیدے کو ثابت کرتی ہیں کہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے سِوا کوئی بھی دُوسرا  """عالِم ءِ غیب""" نہیں ہے ، لہذا اللہ کے سِوا کِسی اور کو """عالِم ءِ غیب """ ماننا ، یا سمجھنا ، کلیاً یا جزئیا ً ، ہر گِز ہر گِز درست نہیں ہے ،
 اولیاءَ اللہ ، أتقیا ، ابرار ، صالحین ، علماء ، قطب ، ابدال ، شہداء  وغیرہ وغیرہ کوئی کچھ بھی ہو نبی یا رسول نہیں ہوتا ،
 اوراللہ نےاپنے  غیبی أمور میں سے  جتنے کے بارے میں چاہا اتنے کی خبر صِرف اور صِرف  اُس رسول علیہ السلام کو دی جسے اللہ نے رسولوں میں سے وہ خبر دینے کے لیے چُنا ،
کِسی بھی اور کو نہیں ،
یہ سب کچھ ابھی ذِکر کردہ ، سورت الجِن(72) آیت 26 میں اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں یہ بتایا ہے،  کسی اِنسان ، یا کسی اور مخلوق کا کوئی ذاتی خیال یا قیاس آرائی نہیں ،
 اِس آیت شریفہ  اور اوپر ذِکر کی گئی دیگر آیات مُبارکہ  اور احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے عِلاوہ کِسی بھی دوسرے کو """عالِم ءِ غیب """ ماننا سراسر باطل عقیدہ ہے ،
اب اِس بد عقیدگی کو چھپانے کے لیے اِسے """ عِلمِ لدنی """ کہا جائے ، """ کشف ِ قبور """ کہاجائے ، """ مکاشفۃ الاموات '""" کہا جائے ، """ وجدان """ کہا جائے ، """حالتِ جذب """ کہا جائے ، """ اِلقاءَ """کہا جائے ، """ اِلہام """ کہا جائے ، یا کوئی بھی اور نام دیا جائے غلط چیز غلط ہی رہتی ہے ،
 کیونکہ نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ،
 لہذا یہ بات طے شُدہ ہے کہ جب کِسی چیز پر شریعت کا کوئی حکم لگایا جاتا ہے تو اس چیز کے نام کے مطابق نہیں بلکہ اس چیز کی حقیقت کے مطابق اس پر حکم لگایا جاتا ہے ، یہ قاعِدہ اور قانون """ علم اصول الفقہ """ میں مقررہے ، اور رَسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں اپنایا گیا ہے (((((یَشرَبُ نَاسٌ مِن اُمتی الخَمرَ وَ یُسمُّونَھَا بِغِیرِ إِسمِھَا ::: میری امت میں سے لوگ شراب پیئیں گے اور اسے (حلال ثابت کرنے کے لیے)کوئی اور نام دیں گے))))) سنن النِسائی /حدیث /5676کتاب الأشربہ/باب41،
یہ اِلفاظ اِمام النسائی نے اپنی سنن میں نقل کیے ہیں ، جبکہ اِس حدیث کو اِلفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مختلِف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اِمام الطبرانی ، اِمام الدارمی ، اِمام الحاکم ، اِمام ابو داؤد ، اِمام ابنِ ماجہ نے اپنی اپنی کِتابوں میں نقل کیا ہے اور اِمام الالبانی نے اپنی کِتاب سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث نمبر 91 کی تحقیق میں اِس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ،
    لہذا اب اگر شراب کو کوئی اور نام دے کر پیا جا رہا ہے تو وہ شراب ہی رہتی ہے ، اسے آبِ جو ، انگور کی بیٹی ، سیب کا رس ، کھجور کا عرق، وغیرہ کہنے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی ،
 موسیقی کو اگر """ رُوح کی غذا""" یا """ جمالیاتی حِس کی تسکین """وغیرہ کہہ کر سنا جائے تو اُس کا شرعی حکم تو نہیں بدلے گا ،
 اِسی طرح'""" عِلمِ غیب """ ،""" عِلمِ غیب """ ہی ہے ، کوئی بھی اور نام دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی اور عِلمِ غیب جاننے کا ذریعہ صِرف اور صِرف اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آنے والی وحی ہے اور وحی صِرف اور صِرف نبیوں اور رسولوں کو ہی کی جاتی تھی،
اور وحی کا سلسلہ نبوت کے سلسلے کے ساتھ ختم ہو چکا ہے ،
یہاں تک کی معلومات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی""" عالم ءِغیب """نہیں  تھا ، نہ ہے اور ہی ہو سکتا ہے ،
اللہ نے اپنے  نبیوں اور رسولوں  علیہم السلام میں سے جسے چاہا ، اپنے علمءِ غیب میں سے جتنا چاہا اتنا علم عطاء فرمایا ، مکمل  طور پر نہیں ،  پس وہ چنے گئے نبی اور رسول علیہم السلام """ عالم ءِغیب """ نہ تھے ، بلکہ اللہ کے غیب میں سےصِرف اتنا جانتے تھے جس کی خبر انہیں اللہ  کی طرف سے عطاء کی گئی ، اور تمام تر نبیوں اور رسولوں میں سے سب سے زیادہ علم اللہ جلّ و عُلا نے اپنے دوسرے اور آخری  خلیل ، اور اپنے بلند ترین رتبے والے بندے ، اور اپنے آخری رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطاء فرمایا تھا ،     
آخر میں  یہ یاد دھانی بھی کرواتا چلوں کہ """ علم ءِ غیب """ کی بات شرعی مفہوم کے مطابق کی جا رہی ہے ، نہ کہ لغوی مفہوم کے مطابق ، کیونکہ لغوی مفہوم کے مطابق تو ہر ایک شخص دوسرے کے لیے """عالمءِ غیب """ ہو جاتا ہے ،  لیکن شرعی مفہوم کے مطابق """عالمءِ غیب """ سوائے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے نہ کوئی تھا ، نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔
اور اِسی طرح یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے علم غیب میں سے کچھ بھی عطاء ہونے سے انکار بھی غلط ہے ،
لہذا اگر اِس معاملے کو ضِد اور افراط و تفریط سے نکل کر ، مذکورہ بالا آیات شریفہ ، احادیث مبارکہ اور آثار کی روشنی میں سمجھا جائے تو اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ،
مان لیا جانا چاہیے کہ شرعی مفہوم کے مطابق """عالمءِ غیب """اللہ کے علاوہ کوئی بھی اور نہیں تھا ، نہ  ہے اور نہ ہو سکتاہے ،
اور اللہ نے اپنے غیب کے عِلم میں سے ، اپنے  رَسولوں میں سے جس کو چاہا اور جتنا چاہا عطاء فرمایا ،
اور ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سب انبیا ء اور رُسل علیہم السلام سے زیادہ عطاء فرمایا گیا ، لیکن سارے کا سارا عِلمء غیب کسی کو نہیں دِیا گیا ،
اور نبیوں اور رَسولوں  علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو اللہ کے غیب میں سے نہ کچھ دِیا گیا ، نہ دِیا جاتا ہے اور نہ دیا جائے گا ،   
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچان کر اس کی اِتباع کی توفیق عطا فرمائے ، اور شرک و بدعات سے محفوظ فرمائے ۔
طلبگارِ دُعا ، عادِل سہیل ظفر۔ تاریخ کتابت  ::: 29/06/1428ہجری ،بمطابق،15/07/2007 عیسوئی ۔
تاریخ نظر ثانی  27/02/1435ہجری ،بمطابق،31/12/2013 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔