Saturday, August 22, 2015

::::::: قران فہمی کا قرانی طریقہ :::::::

  ::::::: قران فہمی کا قرانی طریقہ :::::::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی اوالاد کی ہدایت کے لیے اور اسے اللہ کی پہچان کروانے کے لیے اسی میں سے اپنے نبی اور رسول چنے ، اور ان نبیوں اور رسولوں کی طرف اپنے آسمانی رسول جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے پیغامات ، احکامات ، ماضی حال اور مستقبل کے غیب کی خبریں ارسال فرمائیں ، جنہیں وحی کہا جاتا ہے ، اور کبھی اللہ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام کو ذریعہ بنائےبغیر بھی وحی کی جاری رہی ،
پس صحیح  عقیدہ  والے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے اپنی اپنی طرف نازل ہونے والی شریعت  میں جو بھی احکام  بتائے ، خواہ عقائد سے متعلق ہوں یا عِبادات  سے ، یا معاملات و عادات سے، سب اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اسی طرح غیب کی خبروں میں سے جو کچھ بتایا وہ بھی بالیقین اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قران کریم کو ، سابقہ تمام کتابوں کی کسوٹی بنایا ، اپنے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سابقہ تمام نبیوں سے بڑھ کر افضل و اعلیٰ مُقام اور درجہ عطاء فرمایا ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی جانے والی شریعت کو سابقہ تمام شریعتوں کا ناسخ بنایا ،
اور اسی طرح اپنے  آخری رسول محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس کی اپنی ذات و صفات ، اپنی مخلوق کی ابتداء تخلیق اور انتہاء ، قیامت تک اور قیامت میں اور قیامت کے بعد ہونے والے واقعات میں سے جتنا چاہا بتایا اور اُس میں سے جتنا آگے بتانے کی اجازت ہوئی وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو بتایا ،
اللہ تعالیٰ نے اپنی اختیار کردہ سنت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بنایا اور ان کو سابقہ تمام نبیوں اور رسولوں سے ممتاز رکھا ، اس امتیاز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی طرف اللہ کے احکامات اور پیغامات کو اللہ کی کتاب قران کریم میں سے ہی وحی نہیں کیا جاتا تھا ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کی جاتی تھی ،
اور اس کی سب سے بڑی حکمت یہ نظر  آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمہ داریوں میں اللہ تعالی نے یہ بھی مقرر فرمایا تھا کہ﴿ بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ :::اور(اے محمد)ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران)نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کے لیے واضح فرمائیں کہ اُن کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تا کہ وہ غور کریں سورت النحل(16)/ آیت44،
اور مزید تاکید فرمائی کہ﴿ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ::: اور(اے محمد ) ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ یہ لوگ جِس(چیز  ) میں(بھی) اِختلاف کرتے ہیں  آپ اِن لوگوں پر(اِس کتاب کے مطابق)وہ (چیز) واضح فرما دیجیے ، اور(ہم نے یہ کتاب)ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت (بنا کر نازل کی ہے) سورت النحل(16)/آیت64،
::::: اللہ تبارک و تعالیٰ  کے ان دو فرامین میں ہمیں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام مبارک کی وضاحت اور بیان  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذمہ داری تھی ، لہذا اللہ کی کتاب قران میں سے ہر ایک بات کو سمجھنے کے لیے، اللہ کے اسی کلام کے بعد سب سے پہلے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور عمل مبارک کو دیکھا جائے گا ،
لغوی قواعد ، منطقی قیاس آرائیاں ، عقلی چہ میگوئیاں ، فلسفیانہ غوطہ بازیاں ، تخیلات کی پروازیں ، سب کی سب قطعا کوئی حجت ، کوئی دلیل نہیں ہیں ، جبکہ تک کہ انہیں اللہ کے کلام سے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے سند قبولیت حاصل نہ ہو ،
اور ان دو مصادر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے براہ راست شاگردوں ، مدرسہ ءِ رسالت سے دین سیکھنے اور اللہ کے کلام کے معانی اور مفاہیم سیکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، جن کے دِلوں کے تقوے کی گواہی اللہ پاک نے دی ، ان کی جماعت کے اقوال و افعال سے
ورنہ تو  گمراہی ہی گمراہی ہے ، جس کا شکار خوشی فہمیوں میں گِھرے ہوئے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خود کو قران سمجھنے والے سمجھتے  ہیں اور جہالت زدہ  فلسفوں کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کبھی """صحیح ثابت شدہ سنت """ کا انکار کرتے ہیں اور تو کبھی کسی """غیر ثابت شدہ روایت """کو  مانتے ہیں ،  کبھی قران کریم کے عِلاوہ ہر ایک کتاب کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں ، اور کبھی پھر انہیں کتابوں میں سے اپنے لیے دلائل بھی پیش کرتے ہیں ، کبھی أئمہ اور عُلماء رحمہم اللہ کا ادب کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی ان کو جھوٹا اور جاہل ثابت کرنے کی کوشش میں مشغول نظر آتے ہیں، ان کی مثال اُس شخص جیسی ہے جسے خود ہی اپنے احوال کا پتہ نہیں ہوتا ، اپنے ہی اقوال کے جال میں ان کے فلسفوں کے پاوں پھنسے رہتے ہیں ، جتنا نکالنا چاہیں اتنی ہی نئی گرہیں ان  کے گِرد لگتی چلی جاتی ہیں ،
﴿  مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لاَ إِلَى هَـؤُلاء وَلاَ إِلَى هَـؤُلاء وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلاً ::: وہ  لوگ اس کے درمیان میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں ، نہ تو اِن کی طرف ہوتے ہیں ، اور نہ ہی اُن کی طرف ، اور(اے محمد )جسے اللہ گمراہ کرے آپ ہر گِز اس کے (ہدایت) کا کوئی راستہ نہیں پا سکتےسورت النساء /آیت143، 
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کا یہ فرمان مبارک بھی ذکر  کیا ہے ،
 عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا      ﴿ مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَائِرَةِ بين الْغَنَمَيْنِ تَعِيرُ إلى هذه مَرَّةً وَإِلَى هذه مَرَّةً:::منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے کبھی اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور کبھی اِس کی طرف صحیح مُسلم /حدیث 2784 /کتاب صِفات المُنافِقِینَ وأٔحکامِھِم ،
صدقَ اللہُ و رسولَہُ ، پس جب ایسے لوگوں کو اللہ کی طرف سے ہی گمراہ کر دیا جائے تو کسی کے لیے ان کو گمراہی سے نکالنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا ، ہم ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے ان کے سامنے قران اور صحیح ثابت شدہ سے براہین قاطعہ رکھ کر ان کے لیے دُعا ہی کر سکتے ہیں ، کہ ،
 اے اللہ تعالیٰ تُو  اِن میں سے کسی پر رحم فرمانا  چاہے تو وہ غفور اور رحیم ہے ، اور صرف تُو ہی ہے جو اُنکے دِلوں کو بدل سکتا ہے  اور اُنہیں تیرا دِین ،  تیرے فرمان ، تیرے ہی  اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے مطابق اورتیرےرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے افعال مبارکہ کے مطابق سمجھنے کی راہ پر چلا سکتا ہے ، پس ہمارے ساتھ اور ان کے ساتھ  اپنی رحمت والا معاملہ فرما ، آمین  ، و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت :03/11/1430ہجری،بمُطابق،22/11/2009عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔