::::: ہماری زندگیوں میں اِسلام کا مفہوم اِس قدر سِمٹ کیوں گیا ہے؟:::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین :::شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر ، کہ جن کے ساتھ اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ کی پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
میری آج کی گفتگو کا عنوان ایک سوال ہے ، اور وہ یہ کہ "ہماری زندگیوں میں اِسلام کا مفہوم اِس قدر سِمٹ کیوں گیا ہے ؟ "،
جبکہ اِسلام ، ایک مکمل ضابطہ ءحیات ہے جو نہ صِرف اِنسان کی زندگی کے لیے مکمل ترین ہے بلکہ اِنسان کے اِرد گِرد پائے جانے والی ساری ہی مخلوقات سے متعلق تمام مُعاملات کے بارے میں مکمل ترین قواعد و ضوابط پر مُشتمل ہے ، اِس ضابطہ حیات کا مفہوم ہماری زندگیوں میں چند عقائداپنانےیا رَد کرنےاور چند مخصوص عِبادات ادا کرنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے !!!
اِس کے عِلاوہ جو کچھ ہے اُسے ہم اِس ضابطہء حیات کے ضوابط سے خارج اور آزاد سمجھتے ہیں ، اور یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں کہ ہر کام میں اِسلام تو نہیں ہو سکتا ، ہر کام کو اِسلام کے مُطابق تو نہیں سمجھا جا سکتا ، ہر کام اِسلام کے ضوابط کے مُطابق تو نہیں ہوتا ، یا کبھی دُوسرے اِلفاظ میں یوں کہا جاتا ہے کہ اِسلام کے مفاہیم وہ نہیں جو سمجھائے گئے ، بلکہ وہ ہیں جو اب ہم اپنے وقت اور دور کے مُطابق سمجھ رہے ہیں ،
حیرت کی بات یہ ہے کہ ، یہ سب کچھ سوچنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو سچے پکے مُسلمان ہیں !!! ؟؟؟
مکمل دستور جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں احکام اور قواعد رکھتا ہے اور ایسے احکام اور قواعد رکھتا ہے جِن کی سچائی ، خیر اور حقانیت میں شک کی گنجائش تک نہیں ، جو دستور ہمارے لیے مادی ، رُوحانی ، اِخلاقی ، مُعاشرتی ، مُعاشی ، سیاسی ، حربی ، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے اور اُس کی شاخوں کے لیے مکمل نظم و ضبط کا حامل ہے ، وہ دستور ، اللہ کا دِین ، اِسلام ہماری زندگیوں میں محدود ہو کر رہ گیا ہے ،
اب ہماری زندگیوں میں صرف دِین اور مذھب کی نام نہاد نسبت کے ساتھ اِس دستور میں سے صرف کچھ احکام نشانی اور برکت کے طور پر دکھائی دیتے ہیں ، جِن کا حقیقت میں کچھ فائدہ نہیں ، نہ دُنیاوی نہ اُخروی ، اور اکثر اوقات تو ہم لوگ یہ نشانیاں صِرف اپنے اپنے نفوس میں رکھے رکھتے ہیں ، کہ ہم میں سے کئی تو ایسے مُعاشرے میں رہتے ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیوں سے بھرا ہوتا ہے ، اور اُس مُعاشرے کے اثر سے ، اور کہیں اُس مُعاشرے کے خوف سے ہماری دِینی حمیت اور نِسبت ہمارے اندر ہی اندر رہتی ہے عملی طور پر متحرک نہیں ہوپاتی ،
اور ہم میں سے اکثر ایسے مُعاشروں میں رہتے ہیں جو فقط اِسلام کے نام کی نِسبت سے مُسلم مُعاشرے سمجھے جاتے ہیں ، لیکن اجتماعی طور پر اُن کی حالت کِسی طرف سے بھی اِسلامی نہیں ، کہ وہ مُعاشرے جِن اَفراد پر مشتمل ہیں وہ ہم ہی ہیں جِن کے نام و نفوس میں اِسلام کی نسبت ہے لیکن اعمال میں نہیں ، ہماری عادات اِسلامی نہیں ، ہمارے حُلیے ، ہمارے اِخلاق ، ہمارے انداز و اطوار ، ہمارے کاروبار ، ہماری مُعاشرت ہمارے افکار ، کہیں بھی اِسلام نہیں سوائے نام کی نسبت کا اظہار برقرار رکھنے تک ، کیونکہ ہم لوگ یہ مان چکے ہیں کہ اِسلام زندگی کے ہر معاملے پر لاگو نہیں ہوتا ، یہ صرف چند عقائد اور مخصوص عبادات کا مجوعہ ہے اور بس ،
ایسا کیوں ہوا کہ اِسلام ہماری زندگیوں میں عملی طور پر نہیں رہا ؟؟؟
ایسا کیوں ہوا کہ اِسلام ہماری زندگیوں میں محدود ہو کر رہ گیا اور یہ کہا سنا اور مانا جانے لگا کہ دِین کا بین الاقوامی تجارت سے کیا تعلق ؟؟؟
دین کا نظامء اقتصادیات سے کیا تعلق ؟؟؟
دین کا جدید تعلیم و ترقی سے کیا واسطہ ؟؟؟
دین کا مُعاشرتی عادات سے کیا تعلق ؟؟؟ ہم جو عادت چاہیں اپنا سکتے ہیں ، کہ یہ ہمارا مُعاشرتی معاملہ ہے اور دِین کا اِس میں کوئی دخل نہیں !!!
دِین کا کِسی فرد کی ذاتیات سے کیا تعلق ؟؟؟
مختلف آلات کو اِستعمال کر کے ہم کچھ بھی دیکھتے رہیں ، کچھ بھی سنتے رہیں ، ٹی وی ، فلمیں ، انٹر نیٹ یہ سب تو مختلف فنون کا مظہر ہیں ، اور دِین کا بھلا اِن فنون سے کیا تعلق ہے ؟؟؟
ہم سچ جھوٹ ، گند برائی کچھ بھی لکھتے رہیں ، نشر کرتے رہیں ، دِین کا بھلا صحافت سے کیا لین دین ہے ؟؟؟
ہم یہ اِسلام دُشمن اِفکار اپنا چکے ہیں ،اِن کی تشہیر کرتے ہیں اور اِن کا دفاع کرتے ہیں اور پھر سینہ ٹھونک کر یہ کہتے ہیں کہ ہم ہی صحیح مُسلمان ہیں !!!
کیوں ہماری زندگیوں میں اللہ جلّ جلالہُ اور اُس کے خلیل اور اُس کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور اُن کی تعلیمات کی مخالفت رائج ہے، ہم امانت دار نہیں رہے ، ہم سچے نہیں رہے ، ہم حیاء دار نہیں رہے ،ہم دھوکہ دہی کرتے ہیں ، ہم خیانت کرتے ہیں ، ہم جھوٹ بولتے ہیں ، ہم بے حیائی پر فخر کرتے ہیں ،ہم بے پردگی کو کچھ برا خیال نہیں کرتے ، مرد ہیں تو عورتوں کی بے حیائی اور بے پردگی پر راضی ہیں ، عورتیں ہیں تو اپنی بے پردگی اور بے حیائی ، اور اُس کے ذریعے ملنے والی بے عزتی پر راضی ہیں ، بلکہ فخر کرتے ہیں کہ ہم دقیانوسی نہیں ، اپنے وقت ، اپنے دور ، اپنے مُعاشرے کے مُطابق ہم کچھ برا نہیں کر رہے ، اور دِین کا اِن مُعاشرتی معاملات سے بھلا کیا لینا دینا ہے ،
ہم مال و متاع کے حصول کے لیے بہت جان مارتے ہیں لیکن حلال ذرائع سے اُنہیں حاصل کرنے کے لیے معمولی سی بھی محنت نہیں کرتے حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر بس مال و متاع ، نام و جاہ کمانے کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، اور حرام ذرائع کو یہ کہہ کر حلال بنائے رکھتے ہیں کہ دِین اور معیشت الگ الگ چیزیں ہیں ،اِس مال و متاع ، نام و جاہ کو حاصل کرنے کے لیے ہم ذِلت و رسوائی کی انتہاء تک پہنچ کر اغیار کی غُلامی بھی قُبول کرتے ہیں ، لیکن جِس دِین کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لیے دُنیا اور آخرت کی مادی اور معنوی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا اُسے عملی طور پر قُبول نہیں کرتے ،
اِسی لیے ہم اِسلامی نظام اور اِسلامی مُعاشرے کے قیام کے لیے کام تو کیا بات بھی نہیں کرتے بلکہ اللہ کی نافرمانی ، ظلم اور تعصب پر مبنی غیر اِسلامی نظاموں اور مُعاشروں کے قیام ، نفاذ اور مضبوطی کے لیے دِن رات، ز ُبانی فلسفے بھی بِھگارتے رہتے ہیں اور عملی جدوجہد بھی کرتے رہتے ہیں ، اور پھر بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی صحیح مُسلمان ہیں کیونکہ ہم ہی اِسلام کو اپنے وقت اور دَور کی ضروریات کے مُطابق سمجھ رہے ہیں ،
اور اگر کبھی کبھار نماز بھی پڑھنے لگیں ، کچھ دینی دُروس وغیرہ میں حاضر ہونے لگیں ، کچھ ہلکا ہلکا سا اِسلامی نما حلیہ بھی اپنا لیں تو پھر تو یقیناً ہم ہی ساری دُنیا کے مُصلح اور خیر المُسلمین ہیں، خواہ یہ سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو بلکہ کسی اِسلامی نام کی نسبت کے اظہار کے لیے ہو ، اپنی اختیار کردہ جماعت، اپنے مذھب و مسلک کی تائید ، اپنی پسندیدہ شخصیت سے لگاؤ اور تعلق کے اظہار کے لیے ہی ہو ، لیکن ہم ہی سچے پکے مُسلمان ہیں ،
قصہ مختصر ہم مُسلمان عملی طور پر بھی یہ قُبول کر چکے ہیں کہ دیگر سچے جھوٹے مذاھب اور ادیان کی طرح معاذ اللہ اِسلام بھی صرف چند عقائد اور چند مخصوص عِبادات کا ہی نام ہے اور اِس کے عِلاوہ ہماری زندگی کے تقریباً سب ہی پہلو اُس سے مستثنیٰ و مُبراء ہیں ،
ایسا کیوں ہے کہ ہماری زندگیوں میں اِسلام کا مفہوم اور اس کی حدود اس قدر محدود ہو گئی ہیں ؟؟؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے دِین کو اللہ عزّ و جلّ کے مُقرر کردہ ذرائع کی بجائے ، اپنی اپنی عقل کے مُطابق سمجھنا شروع کر دیا ،جب مُسلمان ایسا نہ کرتے تھے اور اللہ کے دِین کو اللہ پاک کے مقرر کردہ ذرائع سے ہی سمجھتے تھے تو اپنی زندگی کے ہر چھوٹے سے چھوٹے قول و فعل اور سوچ و فکر کو اللہ جلّ و عَلا کے دِین کے مُطابق اپناتے اور رَد کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دُنیا کی عِزت اور مال ومتاع سے بھی سرفراز رکھا تھا ،،،
وہ زمانے میں معزز تھے مُسلماں ہو کے ::: اور تُم خوار ہو تارکء قراں ہو کے
اب بھی اگر ہم اُسی راہ پر چلیں تو اللہ کی وہی عنایات پھر حاصِل کر سکتے ہیں ، یہ اللہ القوی القدیر کا وعدہ ہے ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الأَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضَی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِہِم أَمناً یَعبُدُونَنِی لَا یُشرِکُونَ بِی شَیأً وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ھُمُ الفَاسِقُونَ ::: اللہ اِیمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں خلافت عطاء فرمائے گا جِس طرح اُن سے پہلے (اِیمان لانے)والوں کو عطاء فرمائی اور یقینا اللہ نے اُنکے لیے جو دِین پسند فرمایا ہے وہ اُنکے لیے مضبوطی سے قائم فرما دے گا اور یقینا اُنکے خوف کو امن میں بدل دے گا (اور یہ سب حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ سب)میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اس (واضح بیان اور یقینی وعدے )کے بعد (بھی)جو کوئی انکار کرے گا تو وہ ہی لوگ فاسق ہیں﴾ سورت النور(24)/آیت 55 ،
اور بلا شک و شبہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا وعدہ حق ہے اور اُس سے بڑھ کر سچا کوئی بھی اور نہیں ﴿ وَعدَ اللّہِ حَقّاً وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللّہِ قِیلا ::: اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ کی بات سے زیادہ بڑھ کر سچ کہنے والا بھلا کون ہے﴾سورت النساء(4)/آیت 122 ،
پس، اِدھر اُدھر کے شیطانی اور اپنے اپنے نفوس کے گمراہ وسوسوں ، سوچوں ، أفکار سے خُود کو آزاد کروایے، اور اپنے اکیلے لا شریک خالق و مالک اللہ جلّ جلالہُ کی ، اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل تابع فرمانی اختیار کر لیجیے، جِس طرح کہ اللہ کو مطلوب ہے، اِن شاء اللہ آخرت کی فلاح و کامیابی بھی ملے گی اور بونس میں دُنیا بھی باندی بنا دی جائے گی ، جیسا کہ پہلے والے سچے مؤمنین کے لیے اُن کے رب اللہ قادرء مُطلق نے کیا،
اللہ تعالیٰ ہمیں اُسکی مقرر کردہ راہ پر چلنے کی جرأت عطاء فرما دے۔
اس موضوع سے متعلق ، اِس سے جُڑا ہوا ایک اور موضوع ’’’ ہر کام میں اِسلام کیوں ہونا چاہیے ؟ ‘‘‘ کا بھی ضرور سماعت فرمایے ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
طلب گارء دُعا ء ، آپ کا بھائی عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 22/11/1437ہجری، بمُطابق ، 25/08/2016عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 06/01/1442 ہجری ، بمُطابق، 25/08/2020 عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی کتابی نُسخہ (PDF) : http://bit.ly/2jxSCv7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوتی نُسخہ (MP3 آڈیو فائل ) : https://archive.org/details/20200828_20200828_0941
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو ٹیوب (MP4 ویڈیو فائل) :https://youtu.be/ZUZfcsjckkM
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔