Saturday, April 30, 2016

:::: اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق پہچانیے، اور ادا کیجیے(1)::: رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت،تعظیم اور توقیر، اور نافرمانی کا انجام :::


٦ ٦ ٦ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق پہچانیے، اور ادا کیجیے  (1) ٥ ٥ ٥
٦ ٦ ٦ رسول  اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی عِزت،تعظیم اور توقیر، اور نافرمانی کا انجام ٥ ٥ ٥

بِسمِ اللہ ، و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لَم یَکُن مَعہُ  نَبِيًّا وَ لا رَسولً وَ لا مَعصُومً و لَن یَکونَ بَعدَہُ  أحدً إلیٰ أبد الأبد ،  وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،

شروع اللہ کے نام سے ، خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہی ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے ساتھ نہ کوئی نبی تھا، نہ کوئی رسول ، اور نہ کوئی معصوم ، اور نہ ہی اُن کے بعد  ابد الابد تک کوئی اور ایسا ہوسکتا ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم ، و فداہُ نفسی و رُوحی ،  کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

جب کِسی سے مُحبت کی جاتی ہے تو لا مُحالہ یا تو اُس کی عِزت کی جاتی ہےاور اُس کے ساتھ مہربانی والا رویہ رکھا جاتا ہے ، یااُس کی  عِزت وتعظیم و توقیرکی جاتی ہیں ،

 جِس طرح اللہ تعالی نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سےمُحبت کرنا فرض کیا ہے ،  اُسی طرح اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر بھی اُمت کے ہر فرد پر فرض کی ہے،

جی ہاں ، ایسا ہی ہے ،  اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ لِتُؤمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکرَۃً وَاَصِیلاً::: لازم ہے کہ تُم لوگ اللہ پر اِیمان لاؤ اور رسول پر اور اُس کی عِزت کرو اور اُس کی توقیر کرو اور صُبح اورشام اللہ کی پاکیزگی بیان کروسورت الفتح(48)/آیت 9 ،

قُران پاک میں اللہ سُبحانہُ وتعالیٰ نے رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر و تعظیم اور مکمل تابع فرمانی کے بارے میں بہت سے احکامات نازل فرمائے ہیں (جِن کا بیان """اپنے عقیدے کا جائزہ لیں، سوال رقم 7"""میں کیا جا چکا ہے ، وللہ الحمد، اِس مضمون کا مطالعہ درج ذیل ربط پر کیا جا سکتا ہے http://bit.ly/1we1Opq )

ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنی مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کا ، جِسے عموماً لوگ غلط الفاظ میں عِشقء رسول کہتے ہیں،اپنی اُس محبتء رسول کا ، اورہمارے اعمال میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر کا اندازہ کریں کہ ہم اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان مُبارک  میں گُستاخی کرنے والوں کے خِلاف کیا کرتے ہیں ؟؟؟

کیسی مُحبت ہے اور کیسی عِزت،تعظیم اور توقیر  ہے  ؟؟؟

 دوستیاں اُن لوگوں  سے  جو ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں،

کہیں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  صحیح ثابت شُدہ   قولی یا عملی سُنّت شریفہ کی مخالفت کر کے ، اور،

کہیں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ   قولی یا عملی سُنّت شریفہ کا مذاق اُڑا کر، اور،

کہیں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ   قولی یا عملی سُنّت شریفہ کا  اِنکار کر کے، اور،

کہیں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کا مذاق کرکے ، اور اِنکار کر کے ، اور،

کہیں ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ   قولی یا عملی سُنّت شریفہ پر عمل کرنے والوں کا مذاق اُڑا کر،اُس کی تذلیل کر کے ،  کہ درحقیقت یہ مذاق ، یہ تذلیل اُس شخص کے لیے نہیں ہوتے جو سُنّت شریفہ پر عمل کر رہا ہوتا ہے ، بلکہ اُس کے لیے ہوتے ہیں جِس کی سُنّت شریفہ پر عمل کیا جا رہا ہوتا ہے،

ہماری  معاشرت ،معیشت ، رنگ ڈھنگ ، انداز و اطوار حلیہ و لباس ، سب کچھ اُن  لوگوں جیسا ، اوردعویٰ مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کا !!!؟؟؟،

 اگرہم لوگ  اور کچھ نہیں کرسکتے  تو کم از کم اُن لوگوں کے مالِ تجارت اور اُن کی معاشرت ، اُن کی عادات ، اُن کے رسم و رواج کو تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا کے طور پر اپنی زندگیوں میں مکمل طور پر خارج کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں ،

لیکن ہم ایسا بھی نہیں کرتے ، ہمارے لیے تو محبتء رسول کا دعویٰ اور اُس دعوے کی تصدیق کے لیے خود ساختہ ، مَن گھڑت عیدیں منانا، جلسے جلوس کرنا، نعرے لگانا ، اور بھانڈوں اور میراثیوں کے گائے ہوئے بے ہودہ گانوں  کی لے و تال کے مُطابق کفر و شرک سے بھری ہوئی نعتیں پڑھنا سننا ہی کافی ہے ،   

آیے ، کچھ دیر کے لیے ہم سب ہی اپنی اپنی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں تو سہی کہ ہم ، ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی عِزت ، تعظیم اور توقیر کو برقرار رکھنے کے لیے ، اُس میں اضافے کے لیے ، اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کیا مددکرتے ہیں ؟؟؟

 کیا ہماری مُحبت یہی ہے کہ اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں کے پیچھے چلتے رہیں؟؟؟

 یا گانوں کی طرز پر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ذِکر کرتے رہیں ؟؟؟

جبکہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں گانا حرام قرار دِیا گیا ہے (اِس کی تفصیل موسیقی والے مضمون میں بیان کی جا چکی ہے )،

اور یہ سب کچھ کر کے یہ سمجھیں کہ اِس طرح ہم اپنی مُحبت و عِزت و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ثبوت دے رہے ہیں ،

 اوردُوسری طرف کافر اور مُنافق لوگ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں واقعتا ہی گستاخیاں کرتے رہیں ، اُن کی طرف ہم توجہ ہی نہ دیں ، اُن کے خِلاف بات کرتے ہوئے بھی ہمیں بہت سے ڈر اور مصلحتیں یاد آئیں ، لیکن اللہ کے حُکم کی خِلاف ورزی کرتے ہوئے آپس میں لڑتے ہوئے ، بغیر کِسی صحیح دلیل کے اِختلاف کرتے ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کے خِلاف اپنی آراء کے مُطابق کام کرتے ہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ کو اپنی گمراہ اور اندھیر عقلوں کی کسوٹیوں پر پرکھ کر ، سُنّت مُبارکہ کا اِنکار کرتے ہوئے  ہمیں یاد نہ آئے کہ اِس کا انجام کیا ہے ؟؟؟

::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کا انجام :::ایک مثال :::::::
آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی کی وجہ سے آج ہم بھی اُسی ہزیمت کا شکار ہو رہے جِس کا ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہوئے ، جب جہادِ اُحد کے موقع پر تیر انداز صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک حُکم پر عمل نہ کیا اور کچھ دیگر مالِ غنیمت کی تقسیم میں اِختلاف کا شِکار ہوئے اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی نافرمانی اور آپس کے اِختلاف کی سزا کے طور پر مُسلمانوں کی کامیابی ناکامی میں بدل دی اور مُسلمانوں کو ایک سخت ترین امتحان اور عظیم نقصان کا سامنا کرنا پڑا ،

اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب """زاد المعاد"""میں لکھا:::

"""جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی اور اپنے اختلاف اور ناکامی کا ذائقہ چکھا تو پھر اُس کے بعد وہ لوگ بے عِزتی کے (اِن اور دیگر تمام )اسباب سے بہت ہوشیار رہنے لگے"""،

دیکھیئے ، صرف ایک نافرمانی کی سزا کے طور پر مُسلمانوں کو کتنا شدید نُقصان اُٹھانا پڑا ، اور کتنا سخت سبق ملا کہ ستر بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیشانی مُبارک پر زخم آئے اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا پاکیزہ خون اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چہرہ مُبارک پر بہہ نکلا ، فِداہُ کُلّ ما رزقنی اللَّہ ، اللہ نے مجھے جو کچھ بھی عطاء کیا ہے سب اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر فِدا ہو جائے،

آج کے مُسلمانوں کا معاملہ بھی جِہادِ اُحد میں ہونے والی اُس غلطی سے کچھ مختلف نہیں ،

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کی نافرمانیوں پر نافرمانیوں کرتے چلے جا رہے ہیں ، اور بے عِزتی اور ہزیمت کا شِکار ہوتے چلے جا رہے ہیں ، کِسی ایک دو ، دس بیس میں نہیں ، کئی معاملات میں اِختلاف کیے چلے جا رہے ہیں ، لیکن اصل سبب کی طرف توجہ کرنے کی بجائے اور اور فضولیات اور فلسفیات پر بھروسہ کرتے چلے جا رہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گُستاخیاں ہوتی رہیں ہماری جان مال اور جِسے ہم عِزت سمجھتے ہیں اُس پر کوئی آنچ نہ آئے ، اِس حال و کیفیت میں رہتے ہوئے کیسے یہ اُمید بھی جائے کہ اللہ کی مدد ملے گی ، دُنیا و آخرت کی عِزت و آسائش ملے گی؟؟؟

اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد حاصل کرنے ، اور اُس کی رضا پانے کے أہم ترین اسباب میں سے ایک سبب اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور عملی طور پر  عِزت ، تعظیم اور توقیر کرنا ہے ، اور دُوسروں سے بھی کروانا ہے ،

محترم قارئین کرام ، معاشرے کی تبدیلی فرد کی تبدیلی کی مرہون مِنت ہوتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ افراد کی تبدیلی کے بغیر یک دم ہی معاشرہ بدل گیا ہو ، جو لوگ ایک ہی ھلے میں یا قوت و حکومت کے بل بُوتے پر پورا معاشرہ بدلنے یا تیار کرنے کی سعی میں مشغول ہوتے ہیں وہ اللہ کی سُنّت کے خِلاف راہ اپنائے ہوئے ہیں اور اگرتا قیامت بھی اِس راہ پر چلیں گے تو بھی کوئی دیرپا اور مُثبت نتیجہ حاصل نہیں کر سکیں گے ،پس ضروری یہ ہے کہ ہر ایک مُسلمان اپنے دِین کی بُنیاد کو سمجھے اُسے اپنائے اُس پر عمل کرے تو اِن شاء اللہ خود بخود اِسلامی معاشرہ تیار ہو جائے گا اور اُس میں سے صالح قیادت و سیاست بھی ظاہر ہوگی ،

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  والا اِسلامی جمہوری نظام نظر آئے گا نہ کہ سروں کو گننے والا کافرانہ جمہوری نظام ،

اور جب ہر مُسلمان اپنے دِین کی بُنیاد سمجھ جائے گا تو اِن شاء اللہ خود بخود وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مددگار بن جائے گا ،اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت ،تعظیم اور توقیر کے اسباب میں سے ہو جائے گا،

 پس اِس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے دِین کی بُنیاد کو سمجھنا ہوگا ، جِس کو ہم اپنی ز ُبانوں پر تو رکھتے ہیں لیکن دِل و دِماغ میں اُس کا صحیح معنی ٰ و مفہوم شاید ہی ہے ، اور اگر کہیں ہے بھی تو مطلوب حد تک اُس پر عمل نہیں ،

آج مُسلمانوں ، یعنی ، اللہ کی واحدانیت کا اور محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے، اللہ کے بندے اور رسول ہونے کا زُبانی اقرار کرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں ،لاکھوں نہیں ، کڑوڑوں نہیں ، اربوں میں ہے ، اور مال و دولت والوں کی بھی کمی نہیں ، دِینی ، دُنیاوی عِلم والوں کی بھی کمی نہیں،

لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان اُن پر بالکل پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ﴿یُوشِکُ الاُمَمُ اَن تَدَاعَی عَلَیکُم کما تَدَاعَی الاَکَلَۃُ اِلی قَصعَتِہَا ::: بہت قریب ہے کہ(کافر)قومیں تُم لوگوں کے خِلاف (ہر قِسم کی کاروائیاں کرنے کے لیے )اِس طرح ایک دوسرے کو دعوت دیں گی جیسے کھانا کھانے والوں کو اُس کے حلقے (دستر خوان ) کی طرف دعوت دی جاتی ہے،

 کِسی(صحابی رضی اللہ عنہ ُ) نے عرض کیا """ کیا ہم لوگ اُس دِن(یعنی اُس وقت تعداد میں)کم ہوں گے ؟"""،

 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشادفرمایا﴿ بَل اَنتُم یَومَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُم غُثَاء ٌ کَغُثَاء ِ السَّیلِ وَلَیَنزَعَنَّ اللَّہ من صُدُورِ عَدُوِّکُم المَہَابَۃَ مِنکُم وَلَیَقذِفَنَّ اللَّہ فی قُلُوبِکُم الوَھنَ::: (نہیں )بلکہ تُم لوگ تو اُس وقت دِن (یعنی اُس وقت )بہت زیادہ ہوگے، لیکن تُم لوگ سیلاب کی (یعنی سیلاب کے پانی میں بہنے والی ) بُھس (خشک گھاس پھونس )کی طرح ہو گے ، اور ضرور اللہ تعالیٰ تُمہارے دُشمنوں کے دِلوں میں سے تُمہارا خوف اُتار دے گا اورضرور اللہ تُم لوگوں کے دِلوں میں وھن ڈال دے گا ،

تو کِسی(صحابی رضی اللہ عنہ ُ)نے عرض کِیا """اے اللہ کے رسول اوریہ وھن کیا ہے ؟"""،

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِرشاد فرمایا﴿حُبُّ الدُّنیَا وَکَرَاھِیَۃُ المَوتِ:::دُنیا کی محبت اور موت سے کراہت (یعنی ناپسندیدگیسُنن ابن ماجہ /حدیث 4297/کتاب الملاحم /باب5 ، السلسلۃ الصحیحۃ / حدیث 958 ،

جی ہاں ، یہ حقیقت  آج واقعاتی طور پر ثابت ہو رہی ہے ، کہ ، مُسلمانوں کی بہت ہی بڑی اکثریت اِس بیماری کا شِکار نظر آ رہی ہے ، ہر طرف سے کافر قومیں ایک دُوسرے کو دعوت دے دے کر مُسلمانوں کے خِلاف کاروائیاں کر رہی ہیں ، کہیں مُسلمان کی قدامت پسندی کے خِلاف ، کہیں مُسلمان کی بُنیاد پرستی کے خِلاف ، کہیں مُسلمان  عورت   کے پردے کو اُس کے لیے قید کہہ کہہ کر، اور کہیں مُسلمان عورت کی پردہ داری کی وجہ سے اُس مُسلمان عورت کو بے وقعتی کہہ کہہ کر، کہیں مُسلمانوں کی غیر سُودی معیشت کے خِلاف ، کہیں قُران کریم کے خِلاف کہ وہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ، کہیں مُسلمانوں کے دینی مدرسوں کے خِلاف کہ وہاں دہشت گرد بنائے جاتے ہیں ، کہیں مُسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف کہ اُنہوں نے دہشت گردی کی تعلیم دی ہے ، وغیرہ وغیرہ،،،،،

اور ہم مُسلمان محبتِ رسول  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دعوے کرتے ہوئے اِک دُوجے کا گریبان پھاڑنے میں مشغول ہیں ،

کتنے ہیں جِن میں بات کرنے کی حد تک ہی جرأت ہو کہ اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر کوئی حرف احتجاج ہی بُلند کریں ،

 اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کھلے عام نافرمانی کرنے والوں یا والیوں (کافر ہوں یہ کلمہ گو مُسلمان) میں سے اگر کِسی کی ''' شان میں گستاخی ''' ہو جائے کہ اُسے وہی کچھ کہہ دِیا گیا جو کچھ وہ ہے ، تو کئی طرف شور و غوغا مچ اُٹھتا ہے ، لیکن ، رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، اُن پر میرا سب کچھ قُربان ہو جائے ، کی شان میں گُستاخیوں پر گُستاخی کی جائے اور پھر بڑی فرعونیت سے اُس کو درست مانا جائے ، اور مُسلمان بھی یہ کہیں کہ ''' حق رائے ''' سب کا ہے،

کہیں یہ گستاخیاں ز ُبانی طور پر ہو رہی ہیں ، اور کہیں یہ گستاخیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف خود ساختہ رسموں ، رواجوں ، عقائد اور عبادات بنا کر اُنہیں مروج کر کے ،

اللہ کی قسم کچھ بعید نہیں کہ ، زمین پھٹ کر ہمیں نگل لے ، آسمان ہم پر ٹوٹ پڑیں ، سمندر ہمیں غرق کر دیں ، پہاڑ ہمیں پیس دیں ، درندے جنگلوں میں سے نکل آئیں اور ہمیں چیر پھاڑ دیں ، اللہ کے فرشتے ہمارے گھر ہماری بستیاں ہم پر اوندھی کر دیں ، بادلوں میں سے پانی کی بجائے آگ برس پڑے ، ہمارے دریا و سمندر لاوا بن جائیں اور ہم پر اُمڈ آئیں ، کیسے مُسلمان ہیں ہم کہ جِس کی رسالت کا کلمہ پڑہتے ہیں ، جِس کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ، اُسکی شان میں گستاخیاں کی جائیں اور گستاخی کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے ہم اُن کے کُفر کی توجہیات پیش کرتے پھریں کہ ''' حق رائے ''' کا اِستعمال سب کے لیے ہے ، بلکہ اگر کہیں کِسی غیرت مند اور محبِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کوئی کاروائی کی تو اُس کے لیے معذرت بھی کریں ، کیا یہ ہی ﴿حُبُّ الدُّنیَا وَکَرَاھِیَۃُ المَوتِ:::دُنیا کی محبت اور موت سے کراہت (یعنی ناپسندیدگینہیں ہے ؟؟؟

اِس بُزدلی کا ایک بُنیادی سبب یہ کہ ہم اُس کلمے کا مفہوم ہی نہیں جان پائے جِسکے بولنے اور پڑہنے کی وجہ سے ہم مُسلمانوں کی صفوں میں گنے جاتے ہیں ، اگر ہم اُس کلمے کا مفہوم جانتے تو اُسکے تقاضے بھی جانتے اور اُنہیں پورا کرتے ہوئے نہیں تو کم از کم اُنہیں پورا کرنے کی کوشش میں تو مشغول نظر آتے ،

یاد رکھیے کہ لا اَلہَ اِلَّا اللَّہَ ، مُحمَد رَسُول اللَّہ ، پر اِیمان زندگی کے ہر معاملے میں اِس کلمے کے مکمل نفاذ کاتقاضا کرتا ہے ، اِس رواں موضوع """ اپنی نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مدد کیجیے """ کو اِن شاء اللہ تعالیٰ مکمل طور پر سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل روابط کا بالترتیب مطالعہ کیجییے ، میں بات کو روک نہیں رہا ، بلکہ بات سے متعلق ایسے موضوعات کو الگ مراسلات کی صُورت میں ارسال کر دیا ہے ، کیونکہ اُن میں سے ہر یک موضوع اپنی جگہ پر ایک الگ اور مُستقل موضوع بھی ہے ،

اِن مضامین کے عناوین درج ذیل ہیں :::

::: لا اِلہَ اِلَّا اللَّہَ ، مُحمَد رَسُول اللَّہ ، پراِیمان کا تقاضا  :::

::: اِیمان کی تکمیل کی شرط ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت کرنا :::

::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت کی نشانیاں اور سب سے بڑا فائدہ ::::

::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت کا تقاضا :::

یہ سب مضامین درج ذیل ربط کے ذریعے مطالعہ کے لیے میسر ہیں :

http://bit.ly/249uSl5

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::::: حاصلِ کلام :::::::

مندرجہ بالا تمام متعلقہ مضامین پڑہنے کے بعد اِن شاء اللہ اب یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عزِت، تعظیم اور توقیر میں کس طرح اضافہ کر سکتے ہیں ؟

اِس کے لیے پہلے بنیادی معلومات کا حُصول درکار ہے ، جو تو کچھ مذکورہ بالا مضامین میں مہیا کی گئی ہیں ، اور مزید کے لیے درج ذیل ذرائع اور طریقے اپنانے کا مشورہ پیش کرتا ہوں :::

:::::: مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کے قطعی اور یقینی دلائل کا مطالعہ کیا جائے، جِن کی اصل بُنیاد اللہ عزّ و جلّ کا کلام قُران ہے ، اور اِن کو اچھی طرح سمجھ کر اِن کو نشرکیا جائے،

:::::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کے احکامات کا عِلم حاصل کیا جائے ، اورصحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال و افعال اور اجماعِ اُمت کی روشنی میں اُن کو سمجھا جائے ، تا کہ صحیح راستے پر رہتے ہوئے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی جائے جو یقینا ہم سب کی دِین دُنیا اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مدد ہے ،

:::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت مُبارک کا مطالعہ کیا جائے اور اُس پر عمل کرنے اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت کا عملی نمونہ بن کر اپنی آخرت سنوارنے اور دُنیا میں اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر میں اضافہ کرنے کے لیے مطالعہ کیا جائے ،

یہ بھی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عِزت ، تعظیم اور توقیر میں اضافے کا سبب ہے ، کہ جب ہم سچا اور یقینی  عِلم رکھتے ہوں گے، اور عملی طور پر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت کا نمونہ ہوں گے تو کِسی کافر، کسی مُنافق کو یہ ہمت نہ ہو گی کہ وہ جھوٹی سُنی سنائی باتوں کی بُنیاد پر، یا اپنے ذاتی افکار ، مادی عُلوم ، منطق ، فلسفے ،عقل اور فاتر العقل اور مفقود الحواس شاعروں ، اور ادب نگاروں وغیرہ کی سوچوں کی بُنیاد پر ہمارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں کوئی گُستاخی کرے ، کیونکہ پھر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیروکار ایسے ہیں تو وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خود کیسے ہوں گے؟؟؟

اب اِس وقت، کسی اور کے بارے میں کوئی  گلہ، کوئی شکوہ کرنے سے پہلے اپنی یہ کمزوری ہی مار جاتی ہے کہ  ہماری اکثریت اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذاتِ مُبارک کے لیے بدنامی اور الزامات کا باعث ہے نہ کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر کا،

کیونکہ ہماری معاشرت و معیشت ، پوری کی پوری نہ اِدھر کی ہے نہ اُدھر کی ، ہم افراط و تفریط کا شِکار ہو چکے ہیں ،

ایک طرف تو دِین کے نام پر اپنے ہی کلمہ گو بھائی بہنوں سے لڑتے ہیں ،

اور ایک طرف اِسلام کے ، اور مُسلمانوں کے خِلاف کام کرنے والوں سے صَرف نظر کیے رکھتے ہیں ،

اور ایک طرف اُن کو مارتے پیٹتے ہیں جو اِسلام اور مُسلمانوں کے خِلاف کچھ کرنے والے نہیں ہوتے،

 تو کون سوچے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہر گِز ایسے نہ تھے جیسے ہم اُن کے پیروکار ہیں؟؟؟

 پس ، ہمیں  اپنے رسول کریم محمد صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کو مکمل طور پر اپنا کر اُسے اپنی زندگیوں پر مکمل طور پر نافذ کر کے، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سےاپنی مُحبت کا عملی ثبوت دینے کی ضرورت ہے ،

 جب ہم یہ کر چُکیں اور پھر کوئی کافر اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو اُسکی گردن اُڑا دینے کی ضرورت ہے ، پس پہلا مرحلہ پورا کرنے میں جلدی کیجیے اور ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اخلاق اپنایا جائے ، کہ اُن سے بڑھ کر با اخلاق نہ کوئی تھا اور نہ ہوسکتا ہے

 :::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی معاشرت اختیار کی جائے ،

 :::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی معیشت اختیار کی جائے ،

 :::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حُلیہ اپنایا جائے کہ وہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ،

 :::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ہر حُکم پر ہر مُمکن حد تک بِلا چُوں و چراں ، و تاویل کے عمل کیا جائے ،

 :::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جِس جِس کام سے منع کِیا ہے اُس سے ہر صورت میں باز رہا جائے، کوئی بہانے بازی ، تاویل و فلسفہ آڑ بنا کر راہِ فرار اختیار نہ کی جائے ،

اگر ہم یہ سب کچھ کریں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مدد کرسکیں گے ، اور اِن شاء اللہ ہم ایسے مُحمدی ہوں گے جنہیں دیکھ کر دیکھنے والےتقریباً سب ہی لوگ ، ہمارے محبوب رسول اللہ مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شخصیت مُبارک کی أہمیت اور پاکیزگی کا اندازہ کر سکیں گے اور ہماری مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مریض سے مریض دِل والے گندے سے گندے کافر یا مُنافق کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں کوئی گُستاخی کرنے سے اگر بالکل روکے گی نہیں تو کم از کم اُن کو لگام ضرور ڈال دے گی اِن شاء اللہ تعالیٰ ،

اے اللہ میرے یہ اِلفاظ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی  عِزت ، تعظیم اور توقیر میں اضافے کی سعی میں قُبُول فرما ، اور ہر پڑہنے والے کو اِن پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما ، اور ہر کلمہ گو کو تیری مخلوق میں سے سب سے بہترین، پاکیزہ ترین ، مکمل ترین ،اور تیری محبوب ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حقیقی مُحبت عطاء فرما ، اور اُس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے والوں میں سے بنا ، کہ ہم اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور تعلیمات پر عمل کریں ، اور اُن کی مقرر کردہ حُدود میں رہیں ، اور اپنے خود ساختہ عقائد اور عبادات  سے بچ سکیں ،  اور ہم سے ہمارے نیک عمل قُبُول فرما اور ہماری غلطیوں کوتاہیوں سے درگزر فرما ، اے اللہ اپنی رحمت اور لطف و کرم سے میری دُعا قُبول فرما ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔طلبگارء دُعاء، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر،

تاریخ کتابت :17/03/1429ہجری، بمُطابق،25/03/2008عیسوئی،

تاریخ تجدید و تحدیث :20/07/1437ہجری، بمُطابق،25/04/2016عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور  صوتی نسخہ  (آڈیو  فائل) درج ذیل  ربط پر مُیسر ہے : 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

https://www.youtube.com/channel/UC2pg9jtcMlP6RAABSxhxFRQ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔