::::: عورت اور مرد کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت میں فرق :::::
أَعُوذُ
بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ
وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و
السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ
صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ
أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں
شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور
اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ
سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس
شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور
ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا
وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر
دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس کی
خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ
علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
تمام نبیوں اور
رسولوں کے سردار ، اللہ کی مخلوق میں سے اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے ، اللہ کی
سب سے بہترین اور مکمل ترین عِبادت کرنے والے ، اللہ کے بندے اور رسول مُحمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی نگرانی اور اللہ کی عطاء کردہ عصمت میں اپنے منصبِ
رسالت کو بہترین اور مکمل ترین طور پر نبھاتے ہوئے اللہ کے ہر ہر حُکم کی عملی اور
ز ُبانی وضاحت فرما دی،
شاید ہی کوئی مُسلمان ایسا ہو گا جو ز ُبانِ قال سے اِس
بات سے اِنکار کرتا ہو لیکن افسوس کہ زُبانِ حال سے اِنکار کرنے والے نظر آتے ہیں
، اور ایسی باتیں کہی اور لکھی جاتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و
فعل سے ثابت نہیں بلکہ بسا اوقات اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کی مُخالفت
بھی نظر آتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی مکمل اتباع کی توفیق عطا فرمائے ،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے حُکموں میں سے ایک نماز قائم
کرنے کا حُکم بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دِین کے اِس رُکن اور سب
سے اہم ترین عِبادت کو زُبانی اور عملی طور پر بڑی وضاحت سے سمجھا دِیا اور اُن صلی
اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بڑی ہی باریک بینی اور امانت کے
ساتھ آگے پہنچا دِیا ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عورت اور
مرد کے لیے نماز کی کیفیت اور ادائیگی کے طریقے میں کہیں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ،
ہمارے کچھ بھائی
عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں فرق بیان کرتے ہیں، کہیں اُسے زمین کے ساتھ چپک کر نماز پڑھنے کا کہا جاتا ہے
، کہیں کسی خاص انداز میں بیٹھنے کا کہا
جاتا ہے ،
سالہا سال سے میں اُن کی کتابوں میں کوئی ایسی صحیح ثابت
شُدہ دلیل تلاش کر رہا ہوں جو اُن کے اِس دعوے یا فتوے کی تائید کرتی ہو ، لیکن
بے سُود ،
اُن سے اور اُن
کے کئی عُلماء سے جو ماشاء اللہ مُفتی کے
منصب دار ہیں ، بالمشافہ پوچھ چُکا ہوں لیکن جواب ندارد،
پھر بھی جو بات
اُن کو ملی ہے اُسی پر عمل کیے جا رہے ہیں اور اُس کی تشہیر بھی کیے جارہے ہیں ،
جبکہ اِس فرق کی کوئی صحیح ثابت شدہ دلیل اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں ،
سوائے اِس فلسفے کے کہ """چونکہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو ڈھک چُھپ کر نماز پڑھنے کا حُکم دِیا ہے
اِس لیے ہم اُسے زمین کے ساتھ چپک کر اور بازوپسلیوں کے ساتھ لگا کرسجدہ کرنے کا
طریقہ سِکھاتے ہیں"""،
اِس فلسفے کے لیے کوئی ثابت شدہ دلیل مُیسر نہیں ،
جی، دو ضعیف روایات ہیں ، جِن کو شاید عورت اور مرد کی
نماز کی کیفیت میں فرق کی بنیاد بنایا جاتا ہو، یہ دونوں روایات إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے اپنی "سُنن
الکبریٰ " میں روایت کی ہیں ،
اور اِن کو روایات کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ
"""وَقَدْ رُوِىَ فِيهِ
حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لاَ يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا::: اور اِس (مسئلے میں ، یعنی عورت کی نماز کا طریقہ یا
کیفیت الگ ہونے کے مسئلے ) میں دو ضعیف
(یعنی کمزور) حدیثیں روایت کی گئی ہیں ، ایسی حدیثوں کو حُجت نہیں بنایا جا سکتا """،
::: () ::: ابو سعید الخُدری رضی اللہ سے ایک طویل حدیث میں کے درمیان میں روایت کیا گیا ہے کہ (((وَكَانَ
يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافُوا فِى سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ
فِى سُجُودِهِنَّ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى
وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِى التَّشَهُّدِ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ
يَتَرَبَّعْنَ :::
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مَردوں کو حکم دِیا کیا کرتے تھے کہ
اپنے سجدوں میں اپنی بازؤں کو کھلا رکھیں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ اپنے سجدوں میں جُھک جایا کریں (زمین سے چپک
جایا کریں )اور مَردوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ تشھد میں اپنے الٹے پاؤں کو بچھایا
کریں اور سیدھے پاؤں کو کھڑا رکھیں کریں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ
(تشھد میں ) اپنے دونوں پاؤں جسم کے نیچے بچھا کر بیٹھا کریں )))سُنن الکبریٰ للبیہقی /حدیث /3014کتاب الحیض /باب 335ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود ،
اور خود إمام
البیہقی رحمہُ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ """ واللفظ الأول واللفظ الآخر من هذا الحديث
مشهوران عن النبي صلى الله عليه و سلم وما بينهما منكر والله أعلم:::اِس حدیث کا پہلا حصہ اور آخری حصہ دونوں ہی نبی
صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور (انداز میں
مروی )ہیں ،اور جو اِن دونوں کے درمیان ہے (یعنی یہ مذکورہ بالا اِلفاظ )
یہ منکر ہے """،
لہذا ا یہ روایت
قابل حُجت نہیں ، اِس سے کوئی حکم نہیں لیا
جا سکتا ،
اِس کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے درج ذیل روایت
ذِکر کی ،
::: () ::: عبداللہ ابن عُمر سے روایت کیا گیا کہ (((إِذَا جَلَسْتِ الْمَرْأَةُ فِى الصَّلاَةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى
فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدْتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِى فَخِذَيْهَا
كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا
وَيَقُولُ : يَا مَلاَئِكَتِى أُشْهِدُكُمْ أَنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَهَا::: جب عورت نماز میں بیٹھے
تو اپنی ایک ران کو دُوسری ران پر رکھے ، اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو
اپنی دونوں رانوں کے ساتھ چپکا لے ، کہ یہ
اُس کے لیے سب سے زیادہ پردے والا ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ اُس کی طرف دیکھتا ہے
تو فرماتا ہے کہ ، اے میرے فرشتو ، گواہ رہنا کہ میں اِس عورت کی بخشش کر دی ہے )))
سابقہ حوالہ ،
پہلی روایت کی
سند میں عطاء بن العجلان نامی راوی ، اور دُوسری روایت میں ابو مطیع نامی راوی کی
و جہ سے یہ دونوں روایات ضعیف ہیں ،
اِن دو ضعیف حدیثوں کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے ایک مُرسل
روایت بھی ذِکر ہے ، کہ ، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے دو عورتوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اُن دونوں سے اِرشاد فرمایا (((إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ
اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِى ذَلِكَ كَالرَّجُلِ ::: جب تم سجدہ کرو تو اپنے
جِسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ لگا دِیا کرو، کیونکہ نماز پڑھنے کے معاملے میں عورت
مرد کی طرح نہیں ہے )))سابقہ حوالہ ،
یہ روایت یزید
بن ابی حبیب کی مرسل روایت ہے ، اور مُرسل روایت بھی ضعیف یعنی کمزور، ناقابل حجت
ہوتی ہے ، بالخصوص جب کہ اُسے کِسی صحیح روایت کی گواہی مُیسر نہ ہو ،
لہذا معاملہ بالکل صاف ہوا کہ عورت اور
مرد کی نماز کی ادائیگی میں ، نماز کے
طریقے میں ، نماز کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی طرف سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا،
صِرف افضلیت کے باب میں سے کچھ بزرگوں کے اقوال ایسے
ملتے ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت کو نماز پڑھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ڈھکا
چھپا رکھنے کی کوشش کرنا ہی چاہیے ،
اور شاید اِسی
لیے عورت کو سینے پر ہاتھ باندھنے کا حُکم فرمایا
جاتا ہے جبکہ عورت کا سینہ تو اللہ نے
ابھرا ہوا رکھا ہے اب اگر وہ ہاتھ بھی سینے پر رکھتی ہے تو ڈھک چُھپ کر نماز
پڑھانے کا خیال نا دُرست ہو جاتا ہے ، قطع نظر اِس کے کہ اِس فرق کی بھی
قُران و سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ، اور
نہ ہی مرد کے لیے ناف پر یا سینے کے عِلاوہ کہیں بھی اور ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح
دلیل ہے ،
میرے مسلمان بھائی بہنو، اللہ تعالی کا فرمان ہے ((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا
تَرفَعُوا أَصوَاتَکُم فَوق َ صَوتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجہَرُوا لَہُ بِالقَولِ
کَجَہرِ بَعضِکُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمَالُکُم وَأَنتُم لَا تَشعُرُون::: اے ( لوگو) جو
أیمان لائے ہو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند مت کرو اور نہ ہی اُس سے
اونچی آواز میں بات کرو جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ( ایسا نہ ہو کہ )
تمہارے أعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ ہو ))) سُورت الحجرات / دُوسری آیت
،
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کا
مطلب ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور حکموں کو ماننے
اور اُن پر عمل کرنے کی بجائے اپنی یا کِسی اور کی رائے ، فتوے ، خیال یا بہانے
بازی کرنا ہے ، اور اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد اُن صلی
اللہ علیہ وسلم کی آواز سے مراد اُنکے فرمان ہیں جو اب تک نقل ہو کر آ رہے ہیں
گویا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن رہے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ
وسلم کی آواز سے آواز بلند کرنا اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار یا اُن صلی
اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بلائے جانے کو کِسی عام آدمی کی پکار سمجھ کر لاپرواہی
کرنا ، اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر کِسی بھی اور کی بات کو أپنانا
حرام ہے ،اور اِسکا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفت یا عذاب کی صورت میں ظاہر
ہوتا ہے ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایاہے ((( لَا تَجعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَینَکُم
کَدُعَاء بَعضِکُم بَعضاً قَد یَعلَمُ
اللَّہُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنکُم لِوَاذاً فَلیَحذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ
عَن أَمرِہِ أَن تُصِیبَہُم فِتنَۃٌ أَو یُصِیبَہُم عَذَابٌ أَلِیمٌ ::: تُم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بلانے کو ایسا بلانا مت بناؤ جیسا
کہ تُم لوگوں کا ایک دوسرے کو بلانا ہوتا ہے ، تُم میں سے اللہ اُنہیں خوب جانتا
ہے جو ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بلاوے پر ) نظر بچا کر چُپکے سے کِھسک
جاتے ہیں لہذا جو لوگ اُس (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں
وہ خبردار رہیں کہ ( کہیں ) اُن پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا ( کہیں ) اُنہیں کوئی
عذاب نہ آ پکڑے )))سُورت
النور /آیت 63،
اللہ کرے کہ ہم لوگ تبلیغِ دِین سے پہلے عِلمِ دِین کا کچھ بُنیادی
حصہ تو حاصل کر لیں ، کم از کم اتنا جان لیں کہ جو بات ہم کہہ یا لکھ رہے ہیں وہ
اللہ او ررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کِسی دلیل پر مبنی ہے کہ نہیں ،،
کم از کم دلیل تو جان لی جائے اُس کو دُرُست طور پر اِستعمال کِیا جا رہا ہے یا نہیں
یہ جاننا دوسرا مرحلہ ہے ، لیکن جب دلیل تک جاننے کی زحمت نہ جائے تو پھر جِس کا جیسے
جی چاہے اور جہاں جی چاہے ہمیں لیے چلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کو دِین
اِسلام جاننے سیکھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور اِسلامی مذاھب میں سے
دُرست اور غیر دُرُست کی پہچان عطاء فرمائے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ،
عادِل سُہیل ظفر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔