:::::زمانے کو برا کہنا، اللہ کی مشیئت ، إذن ، أمر اور رضا :::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد ::: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
عموماً کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ """جو اللہ کی مرضی"""،
جب کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے نہیں ہوتا،
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ """سب کچھ اللہ کرتا ہے"""،
جب کہ اللہ عزّ و جلّ صِرف اور صِرف خیر کرتا ہے، کوئی گناہ، کوئی شر والا کام اللہ تبارک وتعالیٰ نہیں کرتا،
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ """ إِن اللَّہ خالق الخیر و الشَّر، و لن یفعل إِلّا الخیر::: بے شک اللہ خیر اور شر کا خالق ہے، لیکن سوائے خیر کے کچھ اور ہر گز نہیں کرتا"""،
"""سب کچھ اللہ کرتا ہے"""، کہنے والے عموماً زمانے کو برا نہ کہنے والی حدیث قُدسی سے استدلال کرتے ہیں، جو کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب میں مروی ہے،
(((قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِى ابْنُ آدَمَ ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ ، بِيَدِى الأَمْرُ ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ::: اللہ نے فرمایا ہے، آدم کی اولاد مجھے تکلیف دیتی ہے کہ زمانے(وقت) کو برا کہتی ہے، اور میں زمانہ (وقت)ہوں،میرے ہاتھ میں ہی اُس کی تدبیر ہے، میں ہی رات اور دِن کو پلٹاتا ہوں)))صحیح بخاری/حدیث/4826کتاب التفسیر/باب وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ،
(((قَالَ اللَّهُ يَسُبُّ بَنُو آدَمَ الدَّهْرَ ، وَأَنَا الدَّهْرُ ، بِيَدِى اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ ::: اللہ نے فرمایا ہے، آدم کی اولاد زمانے(وقت) کو برا کہتی ہے، اور میں زمانہ (وقت)ہوں، رات اور دِن میرے ہاتھ میں ہیں)))صحیح بخاری/حدیث/6181کتاب الأدب/باب101،
(((لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ:::زمانے (وقت)کو بُرا مت کہو، کیونکہ اللہ زمانہ ہے))) صحیح مُسلم/حدیث/6003کتاب الالفاظ من الأدب/باب1،
اِن احادیث کے الفاظ سے بھی صاف پتہ چلتا ہے ، اور اِن کی شرح میں عُلماء کرام نے بھی یہی لکھا ہے کہ"""میں زمانہ ہوں""" کا معنی ٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی زمانے کا خالق ہے اور اُسی کی تدبیر کے مُطابق رات اور دِن چلتے ہیں ، اور اُسی کی تدبیر اور مشیئت کے مُطابق زمانے میں کام واقع ہوتے ہیں،
زمانہ یعنی وقت بذات خود کچھ کر سکنے یا کروا سکنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا،
پس زمانے کو برا کہنا درحقیقت اُس کے خالق اور مدبر کو برا کہنا ہے، اِسی لیے ایسا کہنے سے منع کیا گیاہے،
یہ مذکورہ بالا مسئلہ ، اور اِس سے متعلق دو سرا مسئلہ جس کا ذِکر آغاز میں کیا گیا ،یعنی، ہر کام کا اللہ کی مرضی سے ہونا، یہ دونوں مسائل ہمارے اِسلامی عقائد کے بنیادی مسائل میں شامل ہوتے ہیں ،
کیونکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صِفات کی پہچان سے متعلق ہیں،
اوراللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور اُس کی صِفات کے بارے میں غلط فہمی کفر تک پہنچا دیتی ،
لیکن عموماً لوگ اِس معاملے کو سمجھتے نہیں ، اور اپنی لاعلمی یا کم علمی کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی کی ذات و صِفات پر الزامات لگاتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ، جزاء و سزاء کا اِنکار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کے أمور اُس کی مخلوق کے اختیار میں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، اللہ کی سلطنت میں اُس کے ساجھی اور وزیر و مشیر مقرر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، اور ، اور ، اور ،
"""ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے""" یا"""جو اللہ کی مرضی""" جیسی باتیں اِسی لا عِلمی یا کم عِلمی کی وجہ سے ہوتی ہیں ،
جی ہاں ، اِس میں ادنیٰ سے بھی شک کی گنجائش نہیں کہ پوری کی پوری کائنات میں کوئی معمولی سے معمولی ترین کام بھی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے چاہے بغیر اور اُس کی اجازت کے بغیر واقع نہیں ہوتا ،
حسنء ظن سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اِس """چاہنے """ اور """اِجازت """کو اللہ کی """ مرضی """ یعنی """ رضا مندی """ کا نام دینا محض لغوی مفاہیم کی غلط فہمی ہے ،
اور اسی غلط فہمی کی بنا پر بہت سے اشکالات اور سوالات پیدا ہوتے ہیں ،
خوب سمجھنے اور اِیمان رکھنے کی بات ہے کہ اِنسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ تو مکمل خود مختار بنایا ہے ، اور نہ ہی مجبورء محض ،
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اُن کی زندگی کے اعمال اختیار اور مکمل کرنے کی قوت بھی دے رکھی اور ، اپنی بے عیب حِکمت سے اور اپنے بندوں پر رحمت و شفقت سے اپنی مشئیت اور اِرادے کے مُطابق اُن کے لیے حلال و حرام مقرر فرمائے ،
اور اپنے بندوں کو اُن کے اعمال میں سے اللہ کی پسند اور نا پسند والےاعمال اور اُن اعمال کے انجام کی خوب اچھے اور واضح انداز میں خبر بھی کر رکھی ہے ،
دیکھیے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بہت سی مخلوقات کو ، قوت اِرادہ ، اور اِرادوں پر عمل کی قوت عطاء کی ہے ، مخلوق اُن عطاء کردہ قوتوں کے مُطابق عمل کرتی ہے لیکن نتیجہ وہی ظاہر ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے ،اور جس کے واقع ہونے کی اللہ کی طرف سے اجازت ہوتی ہے ، ورنہ مخلوق توبہت کچھ چاہتی رہتی ہے ، لیکن وقوع پذیر صرف وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے ،
عربی میں اِسی فعل ، اِسی عمل"""چاہنے """کو"""مشیئت """ کہا جاتا ہے ، جِس میں"""رضا مندی ، دُوسرے الفاظ میں ، مرضی """ کی شمیولیت قطعا لازمی نہیں ،
پس ہر عمل ، ہر فعل جو اِس کائنات میں واقع ہوتا ہے وہ اللہ کی مشیئت سے ہوتا ہے ، اگر اللہ اُس کا واقع ہونا نہ چاہے تو واقع ہو ہی نہیں سکتا ، ،،،،لیکن،،،،، کسی واقع ہونے والے عمل میں اللہ کی """ رضا مندی ، دُوسرے الفاظ میں ، مرضی """ کا شامل ہونا یا نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے ،
::::::: پس یاد رکھیے کہ نیک عمل بھی اللہ کی مشیئت سے ہی ، اُس کی اجازت سے ہی واقع ہوتے ہیں ،،،،، لیکن ،،،،، اُن کے واقع ہونے میں اللہ کی """رضا مندی ، دُوسرے الفاظ میں ، مرضی """ شامل ہوتی ہے ،
لہذا وہ اُن کے واقع ہونے پر خوش ہوتا ہے ، اور جو اُن کو واقع کرنے کا سبب بنتے ہیں ، اُن کی نیک نیتی ،یعنی اخلاص اور اتباعءِ سُنّت کے مُطابق اُنہیں دُنیا اور آخرت میں بہترین اجر و ثواب سے بھی نوازتا ہے، اور جس کے لیے جتنا چاہے اتنا بڑھاتا ہے ،
بالکل اِسی طرح ، گناہ بھی اللہ کی مشیئت سے ہی واقع ہوتے ہیں ،اُس کی اجازت سے ہی واقع ہوتے ہیں،،،،، لیکن،،،، اُن میں اللہ کی """رضا مندی ، دُوسرے الفاظ میں ، مرضی """ شامل نہیں ہوتی ،
لہذا وہ اِن کاموں کے واقع ہونے پر ناراض ہوتا ہے ، اور اُن کو واقع کرنے کا سبب بننے والوں کو دُنیا اور آخرت میں سزا و عذاب دے گا ، اور اپنی مکمل اور بے عیب حِکمت کے مُطابق بسا اوقات دُنیا میں بھی طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرتا ہے ،
اِن معاملات کو اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے درج ذیل کلام مُبارک سے سمجھیے :::
(((((وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ::: تُم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اُس کے جو اللہ تمام جہانوں کا رب چاہے)))))سورت التکویر /آیت 29،
یعنی حتمی طور پر نفاذ صِرف اللہ کی مشیئت کا ہوتا ہے ،
مخلوق میں سے کسی کی بھی مشیئت حتمی نفاذ کا اختیار نہیں رکھتی ، ا للہ تبارک و تعالیٰ کی اِس صفت ، اور اِس کے بارے میں اِس مذکورہ بالا صحیح عقیدے کے دلائل قران اور صحیح سُنّت مبارکہ میں با کثرت مُوجود ہیں ،
قارئین کرام ،اللہ تعالیٰ نے اُس کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حکم دِیا (((وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا O إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ:::اور آپ کسی چیز کے بارے میں ہر گز یہ مت کہیے کہ میں کل ایسا کروں گاO سوائے اِس کے کہ (ساتھ یہ بھی کہیے کہ)اگر اللہ نے چاہا تو)))سُورت الکہف (18)/آیات 23،24،
اور یہ حکم اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کے لیے بھی ہے ، کہ ، جب ہم کسی کام کے کرنے کی بات کریں تو یہ کہیں کہ """اِ ن شاء اللہ ، یعنی اگر اللہ نے چاہا تو """،
جبکہ عام معمول کے کاموں میں یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ اِنسان کو جب اپنی استطاعت کے مُطابق کسی کام کو کر گذرنے کا مکمل یقین ہوتا ہے تو پھر اُس میں اِن شاء اللہ کی کیا بات ہوئی !
پس جب ہم اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا حُکم میں تھوڑا سا تدبر کرتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اِس حکم کے ذریعے ہمارے عقیدے کی اِصلاح فرمائی گئی ہے، ہمیں عقیدے کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مُخلوق میں سے کسی کی مشیئت کا نفاذ نہیں ہوتا بلکہ مُخلوق کے اعمال اللہ کی مشیئت کے مُطابق نافذ ہوتے ہیں ، پس کہیں کوئی یہ خیال نہ رکھے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے ،
یہ تو آپ سب ہی جانتے ہوں گے کہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہدایت یافتہ لوگوں کو پسند کرتا ہے ، لیکن وہی ہے جو جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے ،
اور یہ بھی کہ ، اللہ نے اپنی کتاب کو ہدایت بنا کر نازل فرمایا ہے لیکن جسے چاہتا ہے اُسی کتاب کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اُسی کتاب کے ذریعے گمراہ کرتا ہے ،
اور یہ بھی کہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے لیکن جسے چاہتا ہے رحم کرنے کی توفیق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے اس کے ظالمانہ کاموں کی تکمیل کے اسباب مہیا کرتا ہے ،
یہ سب کیوں ہے !!!؟؟؟
اِس سوال کا جواب اللہ تعالٰی کے اِس فرمان میں بھی میسر ہے کہ (((((وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ::: تُم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اُس کے جو اللہ چاہے بے شک اللہ بہت زیادہ( اور مکمل ترین )عِلم رکھتا ہے (اور مکمل بے عیب )حِکمت والا ہے)))))سورت الانسان /آیت 30،
جی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خود اُن سے زیادہ جانتا ہے اور اپنی بے عیب حِکمت کے مُطابق ان کے اعمال کی تکمیل کے لیے جو چاہتا ہے کرتا ہے ،
اور اِس فرمان مُبارک میں بھی کہ(((((وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ :::اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے)))))سُورت اِبراہیم/آیت27 ،
اور جو کچھ وہ کرتا ہے اُس سے سوال نہیں کیا جا سکتا (((((لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ :::اللہ جو کچھ کرتا ہے اس سے سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ اِن (انسانوں)سے سوال کیا جائے گا)))))سُورت الانبیاء /آیت23 ،
پس محترم قارئین ، مُخلوق کے افعال اللہ کی """مشیئت یعنی اُس کے چاہنے کے مُطابق"""نافذ ہوتے ہیں ، اور اُس چاہنے میں اُس کی """مرضی یعنی رضا مندی""" کا ہونا یا نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے ،
اللہ جلّ ثناوہُ کی صِفات سے لاعِلمی ، یا کم عِلمی، اور اُس کے ساتھ ساتھ اِلفاظ کا نا دُرُست جگہ پر نا دُرُست مفاہیم کے ساتھ اِستعمال ایسی نادُرُست باتوں کا سبب ہیں جن کا ذِکر آغاز میں کیا گیا ،
کسی گناہ کے واقع ہونے میں اللہ کی""" مرضی یعنی رضا مندی """ شامل نہیں ہوتی ، پس کسی گناہ کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں یہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ """جو اللہ کی مرضی """یہ کہنا اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ کے کئی فرامین کا اِنکار بن جاتا ہے ، لہذا یہ کہنا چاہیے کہ """ جو اللہ نے چاہا ، جو اللہ کی مشیئت """ ایسے کہنے میں اللہ کی اِس صِفت کا اُسی طرح اقرار ہوتا ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے بارے میں خبر فرمائی ہے ۔
خوب اچی طرح سے سمجھ لیجیے کہ گناہ گار اپنے گناہ کو اختیار کرنے اور اُس کو مکمل کرنے میں اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو صَرف کرنے میں خود مختار ہوتا ہے ، لیکن اُس کا گناہ اللہ کی """ مشیئت """ سے ہی واقع ہوتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی """رضا """ کا حامل نہیں ہوتا ، اِس لیے اُسے اُس عمل کی سزا دینے کی خبریں دی گئی ہیں ،
اور نیکو کار اپنی نیکی کو اختیار کرنے اور اُس کو مکمل کرنے میں اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو صَرف کرنے میں خود مختار ہوتا ہے ، لیکن اُس کی نیکی اللہ کی """ مشیئت """ سے ہی واقع ہوتی ہے ، اور اُس میں اللہ کی """ رضا """ بھی شامل ہوتی ہے ، اِس لیے ایسا عمل کرنے والے کو اجر و ثواب کی خبریں دی گئی ہیں ۔
اِس کے بعد کچھ مختصر سی بات چند دیگر اِلفاظ کے بارے میں بھی پیش کرتا چلوں ، کیونکہ اُن اِلفاظ کے معنی ٰ اور مفہوم کے بارے میں بھی کچھ غلط فہمی پائی جاتی ہے ،
’’’ مشیئت‘‘‘ ، ’’’ إذن ‘‘‘ ، ’’’ امر‘‘‘ اور ’’’ رضا ‘‘‘
مشیئت کو عام طور پر ’ چاہنا‘ کہا جاتا ہے، اور اِسی وجہ سے شاید اِسے رضا مندی کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے۔
جبکہ مشیئت اور رضا مختلف ہیں ، اِس کی تفصیل الگ موضوع کے طور پر شانع کی جا چکی ہے
لغوی اعتبار سے إذن ، أمر اور مشیئت تقریبا ہم معنیٰ اور ہم مفہوم الفاظ ہیں ،
جی ، کسی جملے میں ، کِسی بات میں سیاق و سباق کی بِناء پر ان کی کیفیات میں کچھ فرق کیا جا سکتا ہے ،
جو کچھ یُوں ہو سکتا ہے کہ :
’’’ إذن ‘‘‘ ، ’’’ مشیئت ‘‘‘:
کِسی کام کی اجازت دینا ، جِس میں رضامندی کا شامل ہونا قطعاً لازم نہیں آتا ،
’’’ إذن ‘‘‘ ، ’’’ أمر ‘‘‘ : کِسی کام کا حکم دینا ،
حکم دینے کے مفہوم میں اِن دونوں اِلفاظ کو ’’’ مشئیت ‘‘‘سے فقط اتنا مختلف کیا جا سکتا ہے کہ عموماً ’’’ أمر ‘‘‘ منطوق یا مکتوب ہوتا ہے،
جبکہ ’’’ مشیئت ‘‘‘ صِرف ’’’ اِرادہ ‘‘‘ کی صُورت میں داخل در شخصیت ہوتی ہے، اور پھر اُس اِرادے کے نفاذ ، اُس کی تکمیل کے لیے اللہ جیسے اور جِس کیفیت میں چاہے کوئی ’’’ إذن ‘‘‘ یا ’’’ أمر ‘‘‘ صادر فرمائے،
’’’ أمر ‘‘‘ یعنی ’’’ حکم دینے میں ‘‘‘ میں مزید باریک فرق یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ناجائز کام، کِسی ایسے کام کا جِس پر وہ راضی نہ ہو، اُس کام کا ’’’ أمر ‘‘‘ صادر نہیں فرماتا ، اُس کا ہر حکم فقط جائز کام کے لیے ہوتا ہے ، اُس کی رضا مندی کے ساتھ ہوتا ہے ،
اور ’’’ أمر ‘‘‘ کا ایک مفہوم ’’’ معاملات کی تدبیر ‘‘‘ کرنا بھی ہے ، جو کہ ایک بالکل معاملہ ہے ۔
اُمید ہے کہ یہ معلومات قارئین کے اذہان میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو زمانہ یا وقت سمجھنے ، اور ہر کام کو اللہ کی مرضی کے ساتھ واقع ہونے کی حقیقت کو واضح کرنے کا سبب ہوں گی،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے،
والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعا،عادل سہیل ظفر
تاریخ کتابت :02/04/1432ہجری،بمُطابق07/03/2011عیسوئی۔
تاریخ تجدید و تحدیث : 01/01/1422 ہجری ، بمُطابق ، 18/09/2020 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی کتابی نُسخہ (PDF) :