Saturday, August 15, 2020

::: وطن ، وطنیت، وطن سے مُحبت، وطن کی خاطر موت وغیرہ کی اِسلامی حیثت :::

 


:::     وطن ، وطنیت، وطن سے مُحبت، وطن کی خاطر موت وغیرہ کی اِسلامی حیثت  :::

أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::

میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے ،  جو کہ دُنیا اور آخرت میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے،

اللہ کی   رحمتیں اور سلامتی  ہو  اُس کے عِزت مآب رسول محمد پر، اُن کی آپ پر، اُن کے صحابہ پر، اُن کی پاکیزہ بیگمات پر ، اور جِس جِس نے اِن سب کی دُرُست طور پر پیروی کی اُن سب پر بھی اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

وطن ، یعنی ، زمین کا وہ ٹُکڑا جِس میں کِسی اِنسان کی پیدائش و پرورش ہوئی ہو،

وطن کی مُحبت بھی، کسی بھی اور مُحبت کی طرح بنیادی طور پر دو اسباب سے ہوسکتی ہے،

::: (1) :::  ایک تو اِنسان کی فِطرت میں موجود کسی چیز کے لیے  اپنائیت اور اُنسیت کی وجہ سے ، اور،

::: (2) :::  دُوسرا ،   کِسی عقیدے  کی وجہ سے،

مُسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنی  لیے چُنی ہوئی، اپنائی ہوئی، ہر سوچ ، ہر فِکر وغیرہ  کو ہمارے لیے، اللہ عزّ و جلّ ، اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے  احکام کے مُطابق ، اور اُن کی  مقرر کردہ حُدود کے اندر رہتے ہوئے پرکھنا لازم ہے،

کیونکہ یہ سوچیں اور أفکار ہی دھیرے دھیرے  عقیدہ بن جاتے ہیں، جو اِنسان کی دُنیا اور آخرت میں کامیابی یا ناکامی کی اصل بنیاد ہوتا ہے،

اوپر ذِکر کردہ پہلے سبب سے ہونے والی وطن سے مُحبت ہماری اِسلامی شریعت میں  جائز ہے، جب تک کہ وہ مُحبت کِسی گناہ کا سبب نہ بن جائے، یا کسی طور شریعت کے کِسی حکم کے مخالف نہ ہو جائے،

وطن کے لیے  فِطری مُحبت  کی موجودگی کی دلیل اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک میں ہے کہ﴿ وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ ::: اور اگر ہم اُن لوگوں پر یہ فرض کرتے کہ ، یا تو اپنے آپ کو قتل کر دو، یا ، اپنے گھروں سے نکل (کر کہیں اور آباد ہو)جاؤ، تو اُن میں سے بہت ہی کم لوگ ایسا کرتےسُورت النِساء(4)/آیت66،

کیونکہ اپنی جان اور اپنے گھر اور وطن سے مُحبت اِنسان کی فِطرت میں ہے، اورایسی مُحبتیں عموماً اُن کاموں کو کرنے کی ہمت نہیں ہونے دیتیں جو کام محبوب سے جدائی کا سبب ہوں،

اور اگر وہ کام اللہ کے احکام  ہوں تو پھر تو اُن پر عمل صِرف اور صِرف سچے پکے اِیمان والے ہی کر پاتے  ہیں،

یہاں تک یہ واضح ہو گیا کہ، وطن سے مُحبت اِنسان کی فِطرت میں شامل ہے، اور اِسلام میں اِس کی موجودگی پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں ،جب تک کہ وہ مُحبت کِسی گناہ کا سبب نہ بن جائے، یا کسی طور شریعت کے کِسی حکم کی مخالف نہ ہو جائے، جِس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ :::

وطن کے لیے جان و مال قربان کرنے کے اِرادے اور اِن اِرادوں پر عمل ، جب کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ، اُس کے دِین ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدد ، عِزت اور کامیابی  کےعِلاوہ کِسی بھی اور کے لیے جان و مال  قربان کرنا جائز نہیں ،

جی مُسلمانوں کے کِسی بھی وطن کی حفاظت کے لیے  اپنی جان ، اپنا مال ، اپنے وسائل  ، اُس میں بسنے والے مُسلمانوں کے اِیمان ،  عِزت و عِفت، جان ومال ،کی حفاظت ، اور اللہ کے دِین کے نفاذ کے لیے  کرنے کی نیت سے خرچ کیے جائیں تو جائز ہے،

فرق صِرف اِس نیت کا ہے ، جو ایک ہی عمل کو جائز یا ناجائز بنا دیتی ہے ، نیکی یا گناہ بنا دیتی ہے ،

اِیمان پر مبنی عمل ، یا شرک پر مبنی عمل بنا دیتی ہے ،

اب آتے ہیں ،  دُوسرے سبب کی طرف ،

یعنی ، کسی عقیدے کی وجہ سے  وطن سے مُحبت  کرنا،

وطن کی فِطری مُحبت کو اِسلام میں کسی بھی طور کو ئی فضیلت ، کوئی قدر و منزلت نہیں دی گئی، بلکہ اِس کا فِطری مُحبت کے عِلاوہ کسی اور انداز میں کوئی ذِکر تک نہیں، لہذا اِسے کسی عقیدے کا سبب بنانے کی کوئی گنجائش نہیں، یا اِسے اِسلامی عقائد و اعمال میں شُمار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں،

 کچھ لوگ رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےدو فرامین مُبارکہ کو اِستعمال کر کے وطن کے لیے پائی جانے والی فِطری مُحبت کو ، دِینی معاملہ  بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،

وہ فرمان مُبارکہ درج ذیل ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مکہ المکرمہ سے ہجرت کرتے ہوئے، مکہ المکرمہ  سے باہر تشریف لانے کے بعد فرمایا کہ:::

::: (1) ::: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَىَّ وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمِى أَخْرَجُونِى مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ::: میرے نزدیک تُم سے زیادہ پاکیزہ اور محبوب شہر اور کوئی نہیں ، اور اگر میری قوم مجھے تُم میں سے نہ نکالتی تو تمہارے عِلاوہ کہیں اور رہائش اختیار نہ کرتاسُنن الترمذی/حدیث/4305کتاب المناقب/باب69، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے،

::: (2) ::: عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ ُ نے بتایا کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ﴿ وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ وَلَوْلاَ أَنِّى أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ ::: اللہ کی قسم ، تُو اللہ  کی زمین میں سب سے زیادہ خیر والی ہے، اور اللہ کی زمین سے  اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اگر مجھے تُم  میں  سے نکالا نہ جاتا تو میں تم میں سے نہیں نکلتاسُنن ابن ماجہ /حدیث3227/کتاب المناسک/باب103، سُنن الترمذی/حدیث/4304کتاب المناقب/باب69، دونوں روایات کو إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے،

اِن دونوں احادیث شریفہ  کے بارے کچھ لمبی چوڑی بات کرنے کی ضرورت نہیں، پہلی والی حدیث شریف کی وضاحت اور شرح دُوسری والی حدیث شریف میں فرما دی گئی ہے،

جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  اِلفاظ صاف صاف سمجھا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  مکہ المکرمہ سے مُحبت ، اور مکہ المکرمہ سے نہ نکلنے کی خواہش کا اِظہار مکہ المکرمہ کا اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ خیر والی، اور اللہ کو سب سے زیادہ محبُوب ہونے کی وجہ سے فرمایا تھا، نہ کہ اپنا وطن ہونے کی وجہ سے وطن کی مُحبت میں  فرمایا،

اگر معاملہ وطن کی مُحبت کا  ہوتا، یا وطن کی مُحبت کاکوئی شرعی مُقام ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فتح مکہ کے بعد واپس تشریف لے آتے،

اور اگر یہ کہا جائے کہ اُنہیں تو ہجرت کا حکم اللہ نے دِیا تھا، اور واپس آنے کا حکم یا اجازت نہیں دی گئی تھی ، تو،

میں یہ کہوں گا کہ اِس بات پر کوئی بحث کیے بغیر اِسے مان بھی لیں تو بھی، ناقابل واپسی ہجرت کا حکم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے تھا، اُن کے ساتھیوں رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے تو نہیں،

 پس ، اگر وطن کی مُحبت کوئی شرعی معاملہ ہوتی، وطن کے کوئی شرعی حقوق ہوتے،  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو واپس جانے  کا حکم فرماتے،

یا کم سے کم واپس جا کر آزاد شُدہ اِسلامی مکہ میں آباد ہونے کی ترغیب ہی فرماتے کہ جایے اب آپ کا وطن آزاد ہو گیا ہے، وہاں واپس جایے،

جب ہم قُران کریم ، اور صحیح احادیث شریفہ کے ذخیرے پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں کہیں اِشارۃً بھی وطن کی مُحبت، کے بارے میں کسی فضلیت، کوئی قدر ومنزلت وغیرہ کی کوئی خبر نہیں ملتی،  چہ جائیکہ اُس کے لزوم کی کوئی بات ہو،

پس یہ بھی واضح ہوا کہ اِسلامی عقائد میں سے کوئی عقیدہ ایسا نہیں جو کِسی مُسلمان کو اُس کے وطن سے مُحبت کا پابند کرتا ہو، یا کسی طور اِس کی ترغیب ہی دیتا ہو،

ماضی قریب میں ، وطنیت، حُب الوطنی ، وطن کے حقوق، وغیرہ قِسم کے نعروں کی گونج بھی بلند اور متکرر  کر دی گئی ہے، جِس کا ایک نتیجہ تو خُود مُسلمانوں میں ہی تقسیم نظر آ تا ہے،

کوئی یہ سوچنے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ وطن کی یہ مُحبت مُسلمانوں میں اِسلامی أخوت اور ایک مِلت کی تمام تر تعلیمات کو ختم کرنے کے لیے اُجاگر کی جا رہی ہے، تا  کہ،مُسلمان اپنی جغرافیائی تقسیم کی وجہ سے ایک دُوسرے کے جان مال اور عِزت کے دُشمن ہوجانے  کو وطن کی محبت میں حق جانتے ر ہیں ،

اگر کوئی صاحب میری اِس بات  پر کوئی رد کرنا چاہیں تو ، اُنہیں چاہیے کہ وہ کسی بھی اور طرف دیکھنے یا سوچنے سے پہلے اپنے اِرد گِرد اور پھر ساری دُنیا کے مُسلمانوں کے فی الواقع معاملات کو دیکھیں ،

کیا واقعتا مُسلمان ، اِسلامی أخوت اور مسلم مِلت کی جڑیں کاٹنے کے لیے وطنیت کی آری اِستعمال نہیں کر رہے؟؟؟

اور تو اور ، ایک ہی وطن میں تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے، اپنے پاکستان میں ہی دیکھ لیجیے، صُوبوں کی پہچان کو وطنیت بنایا جا رہا ہے اور اِس وطنیت کی بِناء پر  ایک ہی مُلک کے ، ایک ہی دِین کے لوگ ، یعنی ، پاکستانی مُسلمان  اُس نام نہاد  حُب الوطنی کے گرداب میں  چکر ا چکرا  ایک دُوسرے کے ہی دُشمن ہوئے جا رہے ہیں ،

ملک سے باہر ہو کر دیکھیے،اپنے پروسی ملک کو ہی دکھ لیجیے ،  مُسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت  اپنے مُلک کے مفاد اور فائدے کو اولین ترجیح دے رہی ہے ، خواہ  اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ کچھ بھی کرنا پڑے، پہلے  اپنا وطن ہے ، اور پھر کوئی دُوسرا،  اور اِس وطن پرستی میں مُسلم کافر کی بھی تمیز رَوا نہیں،

عربوں کو دیکھیے، پہلے """الوطن العربی، عربی وطن""" کا ذِکر ہوتا ہے، اور پھر """اسلامی وطن ، الوطن الاسلامی """، کا،

پہلے’’’ عربی اُمت ، الاُمۃ العربیۃ""" کا  پرچار ہوتا ہے، اور پھر کبھی کہیں ’’’ اُمت ء اسلامیۃ ، الاُمۃ الاسلامیۃ ‘‘‘ کا ذِکر ہوتا ہے ، اور عمل بھی اِسی کے مُطابق ، 

یہی ہے وطن سے مُحبت کو دِینی طور پر مُسلمانوں میں رائج کرنے کا نتیجہ،

علامہ اقبال رحمہُ اللہ ، ایک عرصہ تک اِسی مذموم اور خِلاف اِسلام وطینت کے ہم خیال رہے، اور ہندوستان کی وطنیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے رہے،

لیکن  جب اُن پر اِسلام میں ، وطنیت  اورحُب وطن  کی حقیقت آشکار ہوئی تو پھر یہ فرمایا کہ :::

مُسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اور  وطنیت کے بارے میں خاص طور پر ایک الگ نظم لکھی،جِس میں تقریباً سب کچھ ہی دُرست کہا گیا ،  سوائے  ایک مصرعے کے ،  اور آخری سطر میں  اللہ  کو خدا کہنے کے ،

ابھی جِس مصرعے کا ذِکر کیا ہے وہ  مصرعہ درج ذیل  ہے :

’’’ ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے  ‘‘‘

 لیکن اگر اِس مصرعے میں لفظ ’’’ ارشاد ‘‘‘ سے  مُراد  قول  اور بات کی بجائے ، تعلیم و تربیت و عمل سمجھا جائے تو یہ مصرعہ دُرُست مفہوم مہیا کرتا ہے،

بہرحال آیے نظم پڑھتے ، سُنتے ہیں  :::

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اُس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نَوی ہے

غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اِسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اِس بُت کو مِلا دے !

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی

رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی

دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی ،،،،

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

دیکھیے علامہ اقبال رحمہُ اللہ ، کوئی دِینی عالم  تو نہ تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں عام علماء کی نسبت کہیں زیادہ اور دُرست دینی  بصیرت عطاء فرمائی  تھی، اِسی لیے وہ وطن پرستی ، وطنیت، اور حب الوطنی وغیرہ کو ایک باطل معبود قرار دیتے تھے، اور  اُن کا ایسا کرنا بالکل دُرُست تھا،

دُوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی رہے ، اور ہیں ،  جو دِین کے معروف  عالِم قرار دیے گئے تھے، اور جو عالِم سمجھے جاتے ہیں ، لیکن مُسلمانوں کو  وطن  پرستی کا زہر پلانے کے لیے""" حُب الوطن مِن الدِین """جیسی جھوٹی ، مَن گھڑت روایت  گھوٹ گھوٹ کر پلاتے رہے،اور اب بھی پلاتے ہیں ، اور طرح طرح کی دوسری باتیں بھی کرتے ہیں، حب الوطنی کے طور پر ، وطن کی آزادی کا شکر ادا کرنے کے طور پر مختلف عبادات کرنے کی تلقین کرتے ہیں ، جب کہ ایسا کچھ بھی کرنا کِسی بھی طور اِسلام میں سے نہیں ، بلکہ محض مَن گھڑت باتیں ہیں ،

اب  ہم وطن کے معاملے کو ایک اور رُخ سے سمجھتے ہیں ،

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کفرستان مُسلمان کا وطن نہیں ہوتا ، مسلم ریاست ہی مسلمان کا وطن ہوتی ہے ، اور اس کا مسلمان کا پرحق ہوتا ہے،

تو ،میں کہوں گا کہ ، اِس بات سے دو مفہوم ملتے ہیں،

جِن میں ایک صحیح اور دُوسرا غلط ہے،

صحیح مفہوم تو یہ ہوا کہ ، یہ  بات کہنے والا تحریک پاکستان کی،حُب وطن  کی وجہ سے مخالفت کرنے والے عُلماء کو غلط مان رہا ہے، خواہ وہ کسی بھی مسلک   یا مذھب سے رہے ہوں، تو اُس کا ایسا کہنا ٹھیک ہے ،

اور غلط مفہوم یہ ہوا کہ ،  چونکہ قران و صحیح سُنت میں کہیں مُسلمان کے  وطن کی کوئی نشانی مذکور نہیں ، بلکہ وطن کا کوئی ذِکر ہی نہیں ،  شرعی عُلوم میں بھی وطن کو عام معروف لُغوی مفہوم کے مُطابق ہی ذِکر کیا گیا ہے، مُسلمان کے لیے صِرف ایسی ہی جگہ وطن ہونے کا ذِکر نہیں جہاں اِسلامی قانون ہی نافذ ہو،  لہذا یہ کوئی بات نہیں کہ ،  کفرستان مُسلمان کا وطن نہیں ہوتا ،

کوئی مُسلمان جہاں پیدا ہوا ، پلا بڑھا ، وہ لغوی اعتبار سے اُس کا وطن ہے خواہ کفرستان ہی ہو ،

رہامعاملہ وطن کے حق کا تو ، کِسی مسلمان کا وطن کوئی مسلم ریاست ہو ، یا کوئی کفرستان ،  بہر طور کِسی بھی وطن کے لیے فطری محبت سے بڑھ کر کوئی محبت رکھنا مُسلمان کے لیے دُرُست نہیں ، خاص طور پر جب وہ محبت اللہ اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی نافرمانی پر مائل کرے ، یا کوئی نافرمانی کروائے، یا ، اِسلامی اخوت اور اُمت اِسلامیہ میں کمزوری اور رخنے کا سبب ہو جائے تو پھر وہ محبت شرعاً ناجائز ہو جاتی ہے ،  

رہامعاملہ کفرستان میں بسنے والے مسلمانوں کا تو ، جہاں اللہ اور رسول اللہ محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرنے میں تکلیف ہو، وہاں سے ہجرت کرنے کا کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان پاک ہے کہ  ﴿ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا :::کیا اللہ کی زمین (اتنی )وسیع نہ تھی کہ تُم لوگ اُس میں ہجرت کرتےسُورت النِساء(4)/آیت66،

آج کے دور میں ملکی قوانین کی وجہ سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت کرنا تقریباً ناممکن ہے، ایسی صُورت میں مسلمان اپنے ہی ملک میں کسی ایسی جگہ جا بسنے کی کوشش تو کر سکتا ہے جہاں اسے اللہ اور اُس کے آخری رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت گذاری والی زندگی بسر کرنے میں آسانی ہو،

اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو پھر جِس قدر بھی ممکن ہو اطاعت اختیار کیے رکھے، اور اللہ جل جلالہ اور اُس کے آخری رسول اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کے نفاذ کے لیے کوشش کرتا رہے، لیکن اُن کی ہی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے ،

ہجرت کے  مسئلے کے بارے میں یہ بھی اچھی طرح سے یاد رکھیے قارئین کرام کہ ،   کافروں کے ساتھ مُستقل رہائش اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے،

اِس موضوع کو الحمد للہ ، تفصیل کے ساتھ """کُفار کے ممالک میں رہائش اختیار کرنا""" میں بیان کر چُکا ہوں ،  یہ مضمون درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :    http://bit.ly/2ifFYlr

وطن کی اِس محبت میں گمراہ کرنے والوں نے مُسلمانوں کو یہاں تک پہنچا دِیا ہے کہ وہ """وطن کی خاطر """مرنے کو شہادت سمجھتے ہیں،

جبکہ اللہ جلّ و عَلا، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور اللہ کے دِین کی سربلندی کے عِلاوہ  کسی بھی اور کی خاطر مرنے والے کی موت اِسلام میں شہادت نہیں ہوتی،

اِس موضوع کو بھی الحمد للہ """شہادت ، شہید ، تعریف اور اِقسام""" میں بیان کر چُکا ہوں، یہاں اُن باتوں کو دہرا کر رواں موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتا، شہادت کی تفصیل جاننے کے لیے مذکورہ بالا مضمون کا مطالعہ فرما لیجیے،

یہ مضمون درج ذیل ربط پر میسر ہے :

http://bit.ly/1afE49X

یہاں صرف اتنا کہنا اِن شاء اللہ کافی ہو گا کہ ، اگر، کوئی مُسلمان کسی خطہ ء زمین  کی حفاظت میں اِس لیے لڑتا ہے کہ اُس خطہ ء زمین پر اُس کے مُسلمان بھائی بہن آباد ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی عِبادت ہوتی ہے، پس  اُس خطہء زمین کو کافروں، مُشرکوں  اور کفر و شِرک  کے تسلط سے محفوظ رکھنا ہے، تا کہ اُس کے مُسلمان بھائی بہنوں کا اِیمان ،  جان ، مال اور عِزت محفوظ رہیں ، اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا دِین نافذ ہو ، اور نافذ رہے ، اور صِرف اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ  کی ہی عِبادت ہوتی رہے، اور اِس لڑائی میں وہ مارا جائے، تو اِن شاء اللہ ، وہ شہید ہو گا،

لیکن اگر صِرف اپنے وطن کی محبت میں مارا جائے، وطن کی خاطر مارا جائے تو پھر اُس کی شہادت کی اُمید بھی بہت دُور کی بات ہے،

نیت کے مُطابق ہی بدلہ ملے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُمید کرتا ہوں کہ ، تمام قارئین کے لیے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو گیا ہو گا، کہ ایک فِطری  جذبے کی حد تک وطن سے مُحبت  پر کوئی ممانعت نہیں ، اور نہ ہی اِس میں کوئی برائی ہے، میں بھی اپنے وطن سے مُحبت کرتا ہوں، لیکن اُس مُحبت کی وجہ سے کوئی ایسا عقیدہ ، قول یا  فعل اختیار نہیں  کیا ، اور نہ ہی کرنا چاہتا ہوں ، اور  نہ ہی  اِن شاء اللہ کروں گا جو اللہ تبارک و تعالیٰ ، اور ، اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام، تعلیمات اور مقرر کردہ حُدود میں سے کِسی کی کِسی بھی طور کوئی مخالفت رکھتا ہو،

اور اُمید کرتا ہوں کہ میرے سب ہی محترم و مکرم قارئین بھی میرے ساتھ اِس بات پر اتفاق کرتے ہوئے اپنی اپنی مُحبتء وطن کی اِصلاح کرنے کی کوشش فرمائیں گے،

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کوہر ضِد،  ہرتعصب ، اور ہر شر سے بچنے کی ہمت عطاء فرمائے، حق جاننے، سمجھنے، ماننے ، اور اپنانے کی جرأت عطاء فرمائے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے،

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی ،

عادِل سُہیل ظفر۔  

تاریخ کتابت : 22-01-1438 ہجری، بمُطابق، 14-08-2017 عیسوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی نُسخے کا ربط :

https://bit.ly/3156dBs

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخے (آڈیو فائل ) کا ربط :

https://archive.org/details/20200814_20200814_2130

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وڈیو کا ربط :

https://youtu.be/Ysoxq3xbzhc  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درج ذیل مضامین کا مطالعہ  بھی ضرور فرمایے : 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::: جشنء آزادی سے پہلے آزادی بھی تو چاہیے :::

http://bit.ly/1p2om9A

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::: جشنء آزادی ، جائز یا ، ناجائز ؟ :::

https://bit.ly/2DZ2cWD

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::: پاکِستانی کا پیغام ، پاکِستانی کے نام :::

   http://bit.ly/1IQG8mV      ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔