Sunday, April 21, 2013

::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (7) آخری حصہ :::

::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (7) آخری حصہ :::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ  ، دی لاسٹ فائر """
بِسم اللَّہ ،و السَّلام علی مَن اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
گذشتہ سے پیوستہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ :::
کتوں کی وکالت کرنے والے جھوٹے خیانت زدہ اعتراضات اور خُرافات پر مبنی مضمون کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہوئے  اِن شاء اللہ ہم مضمون لکھنے والے جھوٹے اور خائن کےجھوٹے اعتراضات  اورخیانتوں پر آخری ٹارگٹڈ فائر کرتے ہوئے  اُس آیت شریفہ کا اور اُس کی تفسیر کا مطالعہ کرتے ہیں جِس آیت مبارکہ کو اعتراض کرنے والے نےجھوٹ ، خیانت ، اور""" قران و سُنّت کے انکار پر مبنی """ سوچوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے ۔
::::::: سورت الانعام کی آیت شریفہ رقم 151کی قرانی تفسیر :::::::
گو کہ ایک صحیح ثابت شدہ  حدیث شریف میں مذکور ایک اجمالی حکم کی شرح ، تفصیل اور سبب دوسری صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں مل جانے سے اعتراض کرنےو الے  کے اعتراض کی کچھ وقعت نہیں رہتی کیونکہ وہ یا تو جہالت پر مبنی ہے یا قران و  حدیث سے  دُشمنی پر ، اور  اب تک سامنے آنے والی قرانی معلومات کے مطابق دوسرا سبب زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے ، 
پھر بھی اعتراض کرنے والے نے سورت الانعام کی آیت شریفہ رقم 151کو صحیح ثابت شدہ  احادیث شریفہ کا انکار کرنے ، اُن کا مذاق اڑانے کی دلیل بنانے کی جو بے ہودہ اوربھونڈی حرکت کی ، اُس کی علمی حقیقت سمجھنے کے لیے ہم نے اُس آیت کریمہ کے بارے میں بھی کچھ سمجھ لیتے ہیں ،
یاد رکھیے محترم قارئین ، کہ ، ہم مُسلمانوں میں قران کریم کی تفسیر کے درج ذیل طریقے رائج چلے آرہے ہیں ،
::: (1) :::  قران کریم کی تفسیر قران کریم کے ذریعے ،
::: (2) :::  قران کریم کی تفسیر صحیح ثابت شُدہ قولی، فعلی اور تقریری سُنّت مُبارکہ کے ذریعے،
::: (3) :::  قران کریم کی تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کے ذریعے،
::: (4) :::  قران کریم کی تفسیرتابعین رحمہم اللہ جمعیاً کے اقوال کے ذریعے ،
::: (5) :::  قران کریم کی تفسیرتبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً کے اقوال کے ذریعے ،
::: (6) :::  قران کریم کی تفسیر صِرف لغت کے اعتبار سے ، اور ،
::: (7) :::  قران کریم کی تفسیر اپنی آراء کے ذریعے ،
اِن مذکورہ بالا سات طریقوں میں سے  پہلے پانچ طریقے تو مُسلمانوں میں متفق علیہا ہیں ، یعنی اِن طریقوں کو اپنانے اور ان کے مطابق قران کریم کی تفسیر سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں ، اور دو آخر الذِکر طریقوں کو صِرف کچھ مددگاری کی حد تک قابل قبول سمجھا جاتا ہے ، اور سب سے آخری طریقے کے مطابق کی گئی کسی تفسیر کو صِرف اُس صورت میں مانا جاتا ہے جب پہلےپانچ طریقوں میں سے کسی کے خلاف نہ ہو ، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہیے کہ پہلے پانچ طریقوں میں سے کسی ایک کی موافقت پانے والی ہو ، یعنی  وہ تفسیر قران کریم کی کسی بھی آیت مُبارکہ یا رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ ، یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے کسی قول ، یاتابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین ، کے اجتماعی  اقوال کے خلاف نہ ہو ،
اب اِن شاء اللہ ، ہم  اِسلامی علوم  میں سے تفسیر القران کے بارے میں اِن مذکورہ بالا طے شدہ اور مقبول قوانین و قواعد کے مطابق پہلے قانون ، پہلے ذریعے یعنی """ تفسیر القران بالقران ::: قران کریم کی تفسیر قران کریم کے ذریعے """ کے مطابق، اعتراض کرنے والے کی طرف سے اپنے اعتراض کی دلیل بنائی جانے والی سورت الانعام کی  آیت شریفہ رقم 151کی تفسیر پڑھتے اور سمجھتے ہیں ،
اِس آیت مُبارکہ کو ذِکر کر کے ، اعتراض کرنےوالے نے اپنی سوچوں کی آڑ بنانے کی کوشش میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ  کے اِس  اِرشاد گرامی قدر کو استعمال کیا ہے (((((وَلَا تَقْتُلُواالنَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ:::اورتُم لوگ اُس جان کو قتل مت کرنا  جِس  جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، سوائے حق کے ساتھ)))))،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا یہ فرمان  مُبارک تین حصوں پر مشتمل ہے ،
:::::::  پہلا حصہ ایک حکم ہے کہ(((((وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ :::اورتُم لوگ اُس جان کو قتل مت کرنا )))))،
::::::: دوسرا حصہ اِس حکم سے متعلق ایک  اجمالی خبر ہے کہ (((((الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ::: جِس  جان کو (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے)))))،
::::::: اور تیسرا حصہ اُس حکم سے استثناء کے بارے میں ایک اجمالی خبر ہے کہ (((((إِلَّا بِالْحَقِّ::: سوائے حق کے ساتھ)))))،
یعنی مجموعی طور پر یہ حکم اجمالی حکم ہوا ، جِس پر عمل کرنے سے پہلے لازم ہے کہ ہم اس کی تفصیل جانیں ورنہ ہم اللہ تعالیٰ  کی مُراد کے مطابق اس پر عمل کرنے کی بجائے کچھ اور ہی کرتے رہیں گے ،
لہذا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی اِسی کتاب قران کریم میں ہی تلاش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس اجمال کی کیا تفصیل بیان فرمائی ہے ، تو ، ہمیں قران کریم میں ایک اور  مقام پر یہ حکم نظر آتا ہے ،
(((((وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا:::اورتُم لوگ اُس جان کو قتل مت کرنا  جِس  جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، سوائے (اُس جان کو قتل کرنے کے)حق کے ساتھ، اور جسے مظلومانہ قتل کیا جائے گا ، تو یقیناً ہم نے اُس مقتول کے ولی کے لیے (قصاص لینے کا)اختیاردیا ہے ، لہذا قتل (کا قصاص لینے )میں حد  سے تجاوز نہ کیا جائے،(تو پھر )یقیناً وہ (ولی)مدد یافتہ ہو گا)))))سُورت ا لاِسراء(بنی اِسرائیل17)/آیت 33،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بھی اللہ جلّ و عُلا نے اُس حکم کو اُسی طرح بیان فرمایا ہے ،  جِس طرح سُورت الانعام کی آیت شریفہ رقم 151میں ، یعنی دونوں ہی آیات مبارکہ میں دی گئی اجمالی خبروں اور اجمالی حُکم کی تفصیل بیان نہیں فرمائی ، جی ، ایک اور مسئلے کو ساتھ میں  اِرشاد فرما دِِیا ہے ، اور وہ ہے مظلومانہ طور پر قتل کیے جانے والا کا قصاص لینا  اس مقتول کے ولیوں کا حق ہے ، یہاں سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ جِن جانوں کو قتل کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حرام ہے وہ انسانی جانیں ہیں ، کیونکہ قصاص انسانی جان کا لیا جاتا ہے ، جانوروں کا نہیں ،
اب اگر کوئی بد دیانت یہ کہے کہ"""کیا جانور نفس یعنی جان نہیں ہوتی؟؟؟ کیسے ثابت کرسکتے ہو کہ لا تقتلوا النفس التی کے حکم میں انسان ہی شامل ہیں ، جانور نہیں۔۔
اوریہ جو سورہ بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں قصاص کا معاملہ بیان کیا گیا ہے ، یہ حکم تو ہم آپ پہ بھی فٹ حکم فٹ کرسکتے ہیں کہ چونکہ آپ نے کسی شخص کا کتا مار ڈالا ہے تو اب کتے کا مالک آپ پر اسی آیت کی رو سے ‘‘قتل النفس‘‘ کا حکم لاگو کرتے ہوئے آپ سے قصاص یا دیت طلب کرے۔۔۔ کیا خیال ہے؟؟؟"""
تو الحمد للہ ، یہ مذکورہ بالا بیان  اُس شخص کی بد دیانتی کا  اور اللہ کے کلام شریف کو اُس کی مُراد سے ہٹا کر اُس میں معنوی تحریف کرنے کا  اوراقرار ہے ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اُسی سے کروا دِیا ہے ،
کوئی اس خائن سے یہ تو پوچھے کہ نباتات میں بھی تو جان ہوتی ہے ، کیا اِس لفظ"""نفس """کے مفہوم میں سے نباتات کو خارج کرنے کی کوئی قرانی دلیل ہے اس کے پاس ؟؟؟
تو کیا پھر اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا کوئی پودا ، کوئی درخت ، کوئی جڑی بوٹی کاٹ ڈالے ، تو کاٹنے والے سے قصاص لیا جائے گا ؟؟؟
محترم قارئین ، ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر یہ قران کریم نازل ہوا، جن رضی اللہ عنہم پر قران کریم میں نازل کیے گئے احکام کا نفاذ  سب سے پہلے  ہوا ، اُن سے لے کر آج تک کبھی کسی صحیح العقیدہ اور راسخ العلم مسلمان عالِم کی طرف سے ایسی کوئی بات نہیں کی گئی ، کہ کسی جانور کو قتل کرنے والے سے بھی اُسی طرح قصاص لیا جائے گا جِس طرح کسی انسان کو قتل کرنے والے سے لیا جانا چاہیے ،
اور یہ  اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اللہ جلّ و عُلا نے قصاص کا حکم انسانی جان کے لیے دِیا ، اور پھر اس حکم میں کافر اور مسلمان کی جان کے قصاص کے بارے میں مزید تفصیلات اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے خبر کروائیں ، جِس طرح اپنے دیگر بہت سے اجمالی احکام کی تفصیلات اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے خبر کروائیں ،
اب اگر کوئی بے چارہ اپنی عقل کو کسوٹی بنا کر ، چند تراجم پڑھ کر قران فہمی کے زعم میں مبتلا ہو کر اللہ کے مقرر کردہ مفسر اور شارح ء قران  محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان پر اعتراضات کرنے لگے تو اس کے اعتراضا ت سوائے دیوانے کی بَڑوں کے اور کچھ نہیں ،
جانوروں کے بدلے میں انسانوں کی جان بطور قصاص لینے کی بات کرنے والا پرلے درجے کا احمق ہی ہو سکتا ہے ، جو اللہ تبارک و تعالی ٰ کی حِکمت اور عدل پر مبنی احکام اور فیصلوں کی کچھ خبر نہیں رکھتا اور اللہ صرف اپنے نفس کی اتباع کرتے ہوئے اپنی بے مہار سوچوں کو دُرُست دِکھانے کے لیے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات انسان ،کو ادنی مخلوق قتل کرنے پر قصاص میں اشرف المخلوقات کی جان لینے کا حکم دیتا ہے ،
جب کہ  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے خود ہی  اُن جانوروں کو اشرف المخلوقات کے لیے مسخر کیا ہے ، ،
یہی بات سمجھانے کے لیے میں نے اپنے ایک مراسلے میں اعتراض کرنے والے کو لکھا تھا کہ """پس معاملہ بالکل واضح ہے کہ سورت الانعام کی آیت مبارکہ رقم 151 میں مذکور حکم انسانوں کے بارے میں ہے نہ کہ جانوروں کے بارے میں، لہذا وہ حدیث مبارکہ جس میں کچھ جانوروں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے قران کریم کی کسی بھی آیت شریفہ کے خلاف نہیں """،
اور یہ کہ """ اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ سورت الانعام کی آیت مبارکہ رقم 151 میں مذکور حکم میں جانور بھی شامل ہیں تو پھر اعتراض کرنے والے کو یہ چاہیے کہ آیت مبارکہ میں جو ((((( حرَّمَ اللَّہُ ::: اللہ نے حرام کیا))))) فرمایا گیا ہے ، اس کے مطابق قران شریف میں سے یہ ثابت کرے کہ وہ جانور جنہیں حدیث شریف میں قتل کرنے کا حکم ہے انہیں اللہ کی طرف سے قتل کرنا حرام قرار دیا گیا ہے ؟؟؟؟؟
اور اسی آیت کریمہ میں (((((إِلَّا بِالْحَقِّ:::سوائے حق کے ساتھ))))) کی روشنی میں جو جانور قتل کیے جا سکتے ہیں ان کی تفصیل بھی قران کریم میں سے بتائے ،
ھَاتُوا بُرھَانَکُم إِن کُنتُم صَادِقِین ،
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
ان شاء اللہ ، جس طرح میرے پہلے سوال کے جواب میں سوائے بد تہذیبی کے کچھ اور نہیں کیا ، اسی طرح ان سوالات کے جوابات میں بھی کچھ اور نہیں کر سکیں گے ، والحمد للہ الذی لا تتم الصالحات الا بتوفیقہ """،   
 جِس کے جواب میں اعتراض کرنے والے  نے، میرے اس مذکورہ بالا پیغام کے آخری حصے پر عمل کرتے ہوئے یعنی بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، حدیث شریف اور محدثین کرام رحمہم اللہ و رفع درجاتہم کے خلاف اپنا غصہ اور بغض ظاہر کرتے ہوئے  لکھا """ مولوی عادل سہیل صاحب! یہ آیت مبارکہ میں جو وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي یعنی ‘‘نفس‘‘ کا ذکر ہے۔۔ اس میں آپ نے جانور نکال کر صرف انسان کیسے ٹھونس دیے؟؟؟ کیا جانور نفس یعنی جان نہیں ہوتی؟؟؟ کیسے ثابت کرسکتے ہو کہ لا تقتلوا النفس التی کے حکم میں انسان ہی شامل ہیں ، جانور نہیں۔۔
اوریہ جو سورہ بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں قصاص کا معاملہ بیان کیا گیا ہے ، یہ حکم تو ہم آپ پہ بھی فٹ حکم فٹ کرسکتے ہیں کہ چونکہ آپ نے کسی شخص کا کتا مار ڈالا ہے تو اب کتے کا مالک آپ پر اسی آیت کی رو سے ‘‘قتل النفس‘‘ کا حکم لاگو کرتے ہوئے آپ سے قصاص یا دیت طلب کرے۔۔۔ کیا خیال ہے؟؟؟
اور یہ جو قرآن نے کسی جاندار (نفس) کے قتل کے معاملہ میں الا بالحق کی شرط لگائی ہے۔۔ کہ حق بنتا تھا کہ اسے مارا جائے۔۔ آپ قرآن سے ثابت کیجیے کہ کتا ، گرگٹ اور سانپ وغیرہ کو مارنے کا حق قرآن کی کونسی آیت کی رو سے بنتا تھا؟؟؟
نزول قرآن سے صدیوں بعد لکھی جانیوالی حدیث کی کتابوں یعنی ایرانی کذب فیکٹریوں کے مال سے دلیل نہ دی جائے بلکہ قرآن سے ان جانوروں کا قتلِ عام ’’بالحق‘‘ ثابت کیا جائے ہمیں۔۔۔ ورنہ اگر آپ قرآن سے ان جانوروں کا قتل بالحق ثابت نہیں کرپائے تو ان جانوروں کے قاتلوں پہ وہی قصاص کا حکم لاگو ہوگا۔۔ کہ چونکہ کتے کو بلاوجہ مار ڈالا ہے،اس لیے آپ کی بھی گردن اڑائی جائیگی۔۔
چلو دو ثبوت قرآن سے۔۔۔ اور اپنا یہ عربی خطبہ مختصر رکھتے ہوئے غیر ضروری تمہیدوں اوراناپ شناپ بکنے کے بجائے صرف ٹو دی پوائنٹ مبنی بردلیل بات ہی کی جائے۔۔۔ شکریہ۔ """،  
قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے کے منقولہ بالا الفاظ سے واضح ہے کہ وہ شخص صرف جہالت زدہ ہی نہیں بلکہ اپنے تعصب میں اس قدر گمراہ ہو چکا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام میں معنوی تحریف کرتے ہوئے  اپنے مقصد کی تکمیل کی کوشش میں اللہ کے کلام کو اس کے مُقام سے ہٹا کر کسی پر بھی فٹ کر نے میں ہچکچاتا نہیں ، اسی لیے تو اللہ القوی العزیز نے اُس اعتراض کرنے والے سے یہ اعتراف لکھوا دِیا""" یہ حکم تو ہم آپ پہ بھی فٹ حکم فٹ کرسکتے ہیں """،
ایسی  ہی دبدیانتی کو اللہ تبارک  و تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذِکر فرمایا ہے (((((يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ::: اور  وہ بات کو اُس کے مقام سے ہٹا دیتے ہیں))))) اور الحمد للہ کہ اُس نے ہم سب کو یہ دِکھا دیا ہے کہ اُس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ پر اعتراضات کرنے والے ، اُمت کے اماموں اور علماء پر جھوٹے الزامات لگانے والے  یہ لوگ جو اُس کی کتاب قران کریم کی محبت اور عزت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ دعویٰ جھوٹا ہے ، بد دیانتی پر مشتمل ہے ، درحقیقت وہ لوگ  اُس کی کتاب کا نام لے کر ، اُس کی کتاب میں نازل کیے گئے اس کے احکام اور فرامین کی مخالفت کرنے والے ، اور اپنے جھوٹے الزامات کی آڑ میں اُن کا  انکار کرنے والے  ہیں ،
اعتراض کرنے والے اور اس کے ہم مسلک ، ہم مذھب ، ہم خیال لوگوں پر اللہ جلّ شانہُ کا یہ فرمان مبارک پورا اُترتا ہے کہ (((((وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ::: اور یقیناً اُن میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو کتاب (پڑھنے ) میں اپنی زبانوں کو کروٹیں دیتے ہیں تا کہ تُم لوگ اُن کے پڑھے ہوئے کو کتاب میں سے سمجھو ، اور وہ (پڑھا ہوا )کتاب میں سے نہیں ، اور (اپنے جھوٹ اورخیانت کو  دُرست دِکھانے ، سمجھانے کے لیے)وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے پاس سے ہے ، اور(جبکہ در حقیقت )وہ اللہ کے پاس سے نہیں (ہوتا)، اور (حق یہ ہے کہ )وہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے  اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں)))))سُورت آل عِمران (3)/آیت78،
اور یہ ایک گناہ ہی اُن کی آخرت کی تباہی کے لیے کافی ہے (((((انْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا:::دیکھیے  تو سہی (اے محمد)یہ لوگ کس طرح اللہ پر(بھی)جھوٹے الزام لگاتے ہیں ، اور یہ (ایک کام ) ہی صاف کھلا واضح گناہ(ان کی آخرت کی تباہی کے لیے)کافی ہے)))))سُورت النِساء(4)/آیت50،
اور جو لوگ حق جانے بغیر ، اپنی جہالت کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور اپنی خام خیالیوں کی گمراہی میں اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ، اور جو لوگ اپنے اس ظلم پر قائم ہی رہیں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا(((((فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ:::پس (اپنی جان پر )اُس سے بڑا ظلم کرنے والا اور  کون ہے  جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تا کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور وہ کوئی عِلم نہیں رکھتا (یعنی اپنی جہالت اور نفس کی پُوجا میں حق جانے بغیر اللہ پر جھوٹ باندھ کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے)، یقینا ً اللہ ظلم کرنے والوں  کو ہدایت نہیں دیتا)))))سُورت الانعام (6)/آیت144،
اور نہ ایسے لوگوں کو اللہ کی طرف سے کوئی خیر ملنے والی ہے (((((وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ::: پس (اپنی جان پر )اُس سے بڑا ظلم کرنے والا اور  کون ہے  جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے ، یا ، اللہ کی آیات کو جُھٹلاتا ہے ، یقیناً اللہ ظلم کرنے والوں کو خیر نہیں دیتا ))))) سُورت الانعام (6)/آیت21،
سوائے ان لوگوں کے جو  اپنی ہوائے نفس ، ضد ، اور جہالت کو ترک کر کے ، اللہ کی آیات پر اسی طرح ایمان  لے آئیں جس طرح اللہ کو مطلوب ہے ، حق قبول کر لیں اور سچی توبہ کرتے ہوئے اپنے اللہ کی طرف واپس ہو جائیں (((((إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا::: سوائے اُس کے جو توبہ کر لے ، اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے  تو  اللہ اُن لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا ، اور  اللہ (تو)بخشنے والا (اور)بہت رحم کرنے والا ہے))))) سُورت  الفرقان (25)/آیت70 ،
(((((وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ:::اور جو لوگ ہدایت پر آ گئے ، اللہ انہیں مزید ہدایت عطاء فرماتا ہے ، اور انہیں اُن (کے حصے)کا تقویٰ عطاء فرماتا ہے)))))سُورت مُحمد(47)/آیت17،
اللہ ہی اس پر قادر ہے کہ اُن لوگوں کو ہدایت دے دے ،اور یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے باز آجائیں ،میں اپنے اللہ جلّ و عُلا سے دُعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اُن کے نفوس کے تکبر اور گمراہی کی پہچان کرنے اور ان سے نجات پانے کی، اور حق ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہنے کی  ہمت عطاء کر دے ، اور  اگر اللہ کی مشئیت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں ہے تو میری دُعا ء ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی تمام تر مخلوق کو ان لوگوں کی شر سے ہمیشہ کے لیے نجات دے دے ۔
و السلام علی من اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔

 اس مضمون کا برقی نسخہ"""یہاں""" سے اتارا جا سکتا ہے۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔