Sunday, September 1, 2013

::::::: شکوہ اور صبر ::::::::

::::::: شکوہ اور صبر ::::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ، ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
ہم لوگ اکثر اپنے حالات کے بارے میں شکوہ کرتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں ، کبھی کہیں والدین اولاد کے رویے کے بارے میں شکوہ شکایت کرتے ہیں ، کہیں اولاد والدین کے رویے کے بارے میں ، کہیں میاں بیوی کے بارے میں ، کہیں بیوی میاں کے بارے میں ، کہیں ملازم آجر کے بارے میں ، اور کہیں آجر ملازم کے بارے میں ، غرضیکہ زندگی  کے ہر شعبے میں یہ معاملہ دکھائی دیتا ہی ہے ،
ایسی صُورت حال دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا  خود پر آئی ہوئی کسی مصیبت یا پریشانی کے بارے میں کسی دوسرے شخص سے شکوہ  شکایت کرنا، اپنی ز ُبوں حالی بیان کرنا صبر کے منافی تو نہیں ؟؟؟
اس سوال کا جواب  جاننے سے پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ""" صبر """ کسے کہتے ہیں ؟
اور ، شکوہ کیا ہوتا ہے؟
::::::: """ صبر """  کا معنی ٰ اور مفہوم ::::::::
::::::: صبر کا لغوی معنیٰ ہے"""کسی خوشی ،  مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھنا """
 ::::::: صبر کا شرعی مفہوم  ہے """ کسی خوشی ، مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا   """،
[[[صبر کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون بہت پہلے نشر کیا جا چکا ہے ، جِس کا مطالعہ درج ذیل لنک پر کیا جا سکتا ہے :::  صبر ، انتہائی میٹھے پھلوں والا کڑوا کام ]]]
::::::: """ شکوہ """  کا معنی ٰ اور مفہوم ::::::::
کہا جاتا ہے کہ """شکوہ کا معنی ہے کہ اپنے آپ کو پیش آنے والے کسی برے ، تکلیف دہ کام کے بارے میں خبر  کرنا """(عمدۃ القاری  شرح صحیح البخاری/ کتاب الوضوء / باب 4 کی پہلی حدیث کی شرح میں)،
::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کی طرف شکوہ یا شکایت کرنے کا ذِکر ہو تو اِس کا مطلب ہے کہ اِنسان اپنی مشکل ، مصیبت ، دُکھ ، تکلیف بیماری ، فقر و فاقے وغیرہ کا حال اللہ کے سامنے پیش کرے ، اور کسی بھی قِسم کی نا شکری یا اعتراض کی کیفیت کے بغیر پیش کرے ،  
:::::::  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے اِنسان اپنی مشکل ، مصیبت ، دُکھ ، تکلیف بیماری ، فقر و فاقے وغیرہ کا حال کا ذِکر کرنا ، اُس کی خبر  دینا بھی شکوہ ہوتا ہے ،
لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے ، بلکہ یہ کہنا بھی نا دُرست نہ ہو گا کہ تکلیف اور دُکھ کی حالت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگ صِرف اپنی مصیبت یا پریشانی کی خبر ہی نہیں دیتے بلکہ کچھ ایسے الفاظ بھی ادا کرتے ہیں جو، غلط بیانی پر مشتمل ہوتے ہیں ، کسی کی حق تلفی  والے ہوتے ہیں ، یا عِزت و عِفت  پر حملہ ہوتے ہیں ، اور تو اور ایسی باتیں بھی کر دی جاتی ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کاموں پر اعتراض ہوتے ہیں ، مثلاً کسی کی کم عمری کی موت پر اکثر کچھ اس طرح کی باتیں  سننے میں آتی ہیں کہ""" ابھی اس کی عمر  ہی کیا تھی ؟ ابھی تو اس نے کچھ دیکھا ہی نہ تھا ، ہائے موت نے اسی کو لینا تھا """ وغیرہ وغیرہ ،
"صبر " اور "شکوہ" کی تعریف جاننے کے بعد ہم اپنے پہلے سوال کی طرف واپس  آتے ہیں ، اور اس  کا جواب کتاب اللہ ، اور سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں  تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اپنے حال کا اللہ کی طرف شکوہ کرنا جائز ہے ، اور صبر کے منافی نہیں ،
ہمیں  قران حکیم میں خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعے کے بارے میں  اللہ جلّ و عُلا کا یہ فرمان نظر آتا ہے کہ جب انہوں  نے  اپنے خاوند أوس بن صامت رضی اللہ عنہ ُ کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی خدمت میں پیش کی اور اپنے دُکھ اور پریشانی کا شکوہ اللہ کی طرف کیا تو اللہ جل جلالہ نے یہ فرمان مبارک نازل فرمایا کہ(((((قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ :::یقیناً اللہ نے اُس عورت کی بات سن لی جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑا(شکایت اور بحث) کر رہی تھی اور اللہ کی طرف شکوہ کر رہی تھی، اور اللہ آپ دونوں کی گفتگو سُن رہا تھا ، یقیناً اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے)))))سُورت المجادلہ / پہلی آیت ،
غور فرمایے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں براہ راست  اپنی اُس بندی کو شکوہ شکایت سے منع فرمایا ، اور نہ ہی اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے منع کروایا ،  اور نہ ہی کوئی ایسی بات فرمائی یا کہلوائی جس  سے یہ سبق ملتا ہو کہ ایسی شکایت اور شکوہ صبر کے منافی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی ایوب علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہے کہ (((((وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ:::اور ایوب ، جب اُس نے اپنے رب کو پکارا (اور کہا ) بے شک مجھے تکلیف نے آن پکڑا ہے اور تُو ہی سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الأنبیاء(21)/آیت 83،
اس آیت شریفہ میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ ایوب علیہ السلام نے اپنے حال کی خبر اللہ کے سامنے پیش کی ، جب کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھنےو الا ہے ، اپنے حال کا شکوہ اللہ طرف کیا ، اس کے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُن علیہ السلام کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ (((((إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ:::بے شک ہم نے اُسے صبر کرنے والا پایا ، بہت اچھا بندہ تھا  اور بے شک اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا))))) سُورت ص(38)/آیت 44، 
::::::: اِن دونوں آیات مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ اگر اپنے دُکھ تکلیف پریشانی وغیرہ کی شکایت ، اُس کا شکوہ اللہ کی طرف کیا جائے ، اللہ سے کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ اُس میں اللہ کے فیصلوں اور کاموں پر کوئی اعتراض نہ ہو ، نا شکری والی کوئی بات نہ ہو تو وہ شکوہ ، وہ شکایت صبر کے منافی نہیں ،
::::::: اور اِسی طرح، مدد ، مشورے اور علاج کے لیے  اِنسانوں کا ایک دوسرے  کے سامنے اپنی پریشانی یا مُصیبت ، یا بیماری وغیرہ کا شکوہ اور  شکایت کرنا بھی صبر کے منافی نہیں ،
دالائل ذیل میں ملاحظہ فرمایے :::
::::::: قبیصہ رضی اللہ عنہ ُ  بن المخارق سے روایت ہے کہ ایک دفعہ اُنہوں نے کسی کے لیے کوئی دیت ، یا جرمانہ وغیرہ ادا کرنے  کی ذمہ داری اُٹھا لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس معاملے کی خبر کی  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا::: (مدینہ منورہ میں)قیام کرو یہاں تک ہمارے پاس صدقہ آئے تو ہم اُس میں سے تمہیں دیں))))))،  اور پھر اِرشاد فرمایا(((((يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ لأَحَدِ ثَلاَثَةٍ (1) رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ وَ(2) رَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ ،- أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ ، وَ(3) رَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلاَثَةٌ مِنْ ذَوِى الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلاَنًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ -،أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ - ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا :::اے قبیصہ ، سوائے تین قِسم کے لوگوں کے کسی  لیے بھی (دوسروں سے )سوال کرنا حلال نہیں ، (1)وہ شخص جس نے کسی کے لیے دیت یا جرمانے وغیرہ کی ادائیگی کی ذإہ داری اُٹھا لی ہو ، تو اس شخص کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ذمہ لیے ہوئے کام سے فارغ ہو جائے ، تو پھر اُس کے بعد وہ سوال کرنے سے رُک جائے، اور (2)وہ شخص  جس کے مال (پیسہ،کھیتی باڑی ،پھل پھول وغیرہ) کو کسی  آفت نے تباہ کر دِیا ہو تو اُس شخص کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ اُسے زندگی گذارانے کے لیے کچھ مل جائے، اور (3) وہ شخص جو (پہلے مالدار ہولیکن کسی سبب سے )فاقے تک آن پہنچے ، یہاں تک کہ اُس کی قوم میں سے تین دُرست عقل والے (اورسچے لوگ)یہ گواہی دیں کہ اُس شخص کو فاقے نے آن پکڑا ہے تو اُس شخص  کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ اُسے زندگی گذارانے کے لیے کچھ مل جائے، اور جو سوال اِن معاملات کے علاوہ کیا جاتا ہے اے قبیصہ (اور اس کے بدلے میں جو مال لیا جاتا ہے )تو وہ حرام ہے جسے سوال کرنے والا کھاتا ہے ہے ، حرام ہے)))))صحیح مُسلم /حدیث/2451کتاب الزکاۃ /باب37،
::::::: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تکلیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے شکوہ کرتے ہوئے فرمایا"""وَارَأسَاهُ:::آہ میرا سر"""، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا ،  بلکہ خوداپنی تکلیف کا حال بتاتے ہوئے فرمایا (((((بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَارَأْسَاهُ::: بلکہ اے عائشہ  میں یہ کہتا ہوں کہ آہ میرا سر)))))سُنن ابن ماجہ  /حدیث/1532کتاب الجنائز /باب9،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، سعد  رضی اللہ عنہ ُبن ابی وقاص  کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، تو سعد رضی اللہ عنہ ُ نے اپنی تکلیف اور بیماری کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا """ إِنِّى قَدْ بَلَغَ بِى مِنَ الْوَجَعِ ::: مجھے شدید درد ہو رہی ہے"""" ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا ، صحیح البخاری /حدیث/1295کتاب الجنائز /باب36،
ان سب دلائل کی موجودگی میں ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ اپنی کسی تکلیف ، دُکھ ، پریشانی اور بیماری کی شکایت کرنا صبر کے منافی نہیں ،
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا  کرنا صبر کے منافی ہے اور وہ اپنی بات کی دلیل میں درج ذیل حدیث قدسی شریف پیش کرتے ہیں:::
(((((إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ، وَلَمْ يَشْكُنِي إِلَى عُوَّادِهِ أَطْلَقْتُهُ مِنْ أَسَارِي، ثُمَّ أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ، وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ، ثُمَّ يُسْتَأْنَفُ الْعَمَلَ::: اگر میں اپنے (کسی) بندے کوبیماری میں ڈالتا ہوں اور وہ بندہ اپنے تیمار داروں کے سامنے میرے بارے میں شکوہ شکایت نہیں کرتا تو میں اُسے اُس بیماری سے نجات دے دیتا ہوں ، پھر اُس کو اُس کے گوشت سے اچھا گوشت ، اور اُس کے خُون سے اچھا خُون  بدل کر دے دیتا ہوں، پھر وہ (اپنے کام)نئے سرے سے کرتا ہے)))))مستدرک الحاکم /حدیث/1290کتاب الجنائز،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث272،
اگر ہم اس حدیث شریف میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان میں تدبر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ممانعت اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے بارے میں شکوہ و شکایت کرنے کی ہے ، نہ کہ اپنے حال اور تکلیف کی شکایت کرنے کی ،
امام ابن القیم رحمہُ اللہ نے فرمایا"""""لما كان الصبر حبس اللسان عن الشكوى إلى غير الله، والقلب عن التسخط، والجوارح عن اللطم وشق الثياب ونحوها، كان ما يضاده واقعًا على هذه الجملة، فمنه الشكوى إلى المخلوق، فإذا شكا العبد ربه إلى مخلوق مثله، فقد شكا من يرحمه إلى من لا يرحمه، ولا تضاده الشكوى إلى الله، وأما إخبار المخلوق بالحال، فإن كان للاستعانة بإرشاده أو معاونته، والتوصل إلى زوال ضرره، لم يقدح ذلك في الصبر، كإخبار المريض للطبيب بشكايته، وإخبار المظلوم لمن ينتصر به بحاله، وإخبار المبتلى ببلائه، لمن كان يرجو أن يكون فرجه على يديه، نتبين من ذلك أن الشكوى تجوز في بعض الأحوال، وتعارض الصبر في أحوال أخرى ::: تو جب صبر اللہ کے علاوہ کسی اور سے شکوہ کرنے سے ز ُبان کو روکنا ہے ، اور دِ ل کو (کسی مُصیبت آنے  کی صُورت میں اللہ کے فیصلوں پر)ناراض ہونے سے روکنا ہے ، اور جسم کے أعضاء کو پیٹنے اور گریبان پھاڑنے وغیرہ سے روکنا ہے تو جو کچھ اس سے ملتا جلتا ہو گا وہ اسی میں شامل ہو گا ، اور اسی میں سے مخلوق کے سامنا شکوہ شکایت کرنا ہے ،پس  اگر بندہ اپنے ہی جیسی کسی مخلوق کے سامنے اللہ کے بارے میں شکوہ شکایت کرے تو اُس نے اُس کے بارے میں شکوہ کیا جو اُس پر رحم کرتا ہے اورایسے کے سامنے کیا جو اُس پر رحم نہیں کرتا ، اللہ کے سامنے شکوہ کرنا اس معاملے سے الگ ہے ، اور مخلوق کو اپنے حال کی خبر دینا (بھی الگ ہے ) اور اگر یہ خبر دینا کسی مدد کی طلب کے لیے ہو یا کسی مشورے اور تعاون کے حصول کے لیے ہو ، اور خود کو ملنے والی مُصیبت دُور کرنے کی کوشش میں ہو تو پھر یہ صبر کے منافی نہیں ، جیسے کہ کوئی مریض طبیب کو (اپنے مرض کے بارے میں)شکایت کرتا ہے، اور کوئی مظلوم کسی مددگار کو اپنے حال کی خبر کرتا ہے ، اور جیسا کی کوئی مُصیبت زدہ اپنی مُصیبت کے بارے میں کسی ایسے کو  خبر کرتا ہے جِس کے بارے میں وہ یہ اُمید رکھتا ہو اُس کے ذریعے اُس کی مُصیبت دُور ہو سکتی ہے، ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ حالات میں شکوہ کرنا جائز ہوتا ہے(یعنی صبر کے منافی نہیں ہوتا) اور کچھ حالات میں صبر کے منافی ہوتا ہے"""""،عدۃ الصابرین و ذخیرۃ  الشاکرین/باب الخامس و عشرون،
لہذا دُرست یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ""" اپنی کسی تکلیف ، دُکھ ، پریشانی اور بیماری کی شکایت کرنا صبر کے منافی نہیں ، ممانعت اُس شکایت کی ہے جو اللہ جلّ و عُلا کے بارے میں ہو ، شکایت اور دکھ کےاظہار کے اُس انداز کی ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نا فرمانی ہو """۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اُس کا ، اور اس کے رسول کا قولی اور عملی تابع فرمان بننے کی ہمت عطاء فرمائے اور اسی تابع فرمانی کی حالت میں اُس کے سامنے حاضر فرمائے ۔ والسلام علیکم۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد دھانی ::: اس مضمون""" شکوہ اور صبر"""" کے ساتھ """ صبر ، انتہائی میٹھے پھلوں والا کڑوا کام """ کا مطالعہ بھی فرمایے ۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔