Wednesday, October 2, 2013

::::ضعیف روایات کو بطور حدیث استعمال کرنا :::::use of unathenticated ahadeeth

::::ضعیف ، یعنی کمزور ، ناقابل اعتماد ، ناقابل حجت روایات کو بطور حدیث استعمال کرنا :::::
 السلام علیکم  ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترمہ بہن ام محمد ،
ضعیف احادیث کے استعمال کے بارے میں آپ کے سوال کا سیدھا اور مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ جِن عُلماء نے فضائل کے باب میں ضعیف احادیث کا استعمال جائز قرار دیا ہے یہ اُن کا ذاتی اجتھاد ہے جس کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس اجتھاد کی کوئی ایسی شرعی دلیل میسر ہوتی ہے کہ جس کی بنا پر وہ ایسا فتویٰ صادر فرماتے ، لیکن ، قدر اللہ ما شاء و فعل ،
کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی بات کی نا  درستگی اور اس کے سچے نہ ہونے کا علم رکھنے کے بعد بھی اس کو دوسروں میں بیان کرے ، خواہ اس کے جواز کا فتویٰ دینے والا کوئی بھی رہا ہو،
بہن جی ، اس مختصر جواب کے بعد کچھ تفصیل بھی پیش کرنا چاہوں گا  اللہ کرے کہ  غیر ثابت شدہ خبریں اور باتیں پھیلانے والے ہمارے کلمہ گو بھائی اور بہنیں میری ان گذراشات سے سبق حاصل کر سکیں ،
ضعیف احادیث کا استعمال اور ان پر عمل کا چلن کچھ نیا نہیں ، ہمارے جو بھائی بہن اس چلن کا شکار ہیں انہیں مندرجہ ذیل باتوں کے ذریعے نصیحت فرمایے ، اللہ جِس کو چاہے گا حق سمجھا دے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ضعیف یعنی کمزور حدیث کا مطلب وہ روایت ہے جو محدثین کی علمی اور دیدہ ریز چھان بین کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے ثابت نہ ہوتی ہو ، خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری ،
دوسرے الفاظ میں یہ ایسی روایت ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے غلط طور پر منسوب کی گئی ہوتی ہے ، کیونکہ اس کا سچائی کے ساتھ منسوب ہونا ثابت نہیں ہوتا ،
اس میں تو کسی مسلمان کو کوئی شک نہ ہو گا کہ جھوٹ کبیرہ گناہ ہے ،اور اللہ کے ہاں کسی کے جھوٹا ہو جانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اس کی حقیقت اور سچائی کی پرکھ کیے بغیر آگے سناتا چلے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مبارک ہے کہ(((((كَفَى بِالمَرءِ كَذِبًا أَن يُحَدِّثَ بِكُلِّ ما سَمعَ  :::کسی انسان کے(اللہ کے ہاں) جھوٹے ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ  سنے وہ سناتا جائے)))))صحیح مُسلم/حدیث5 /باب3 ،
جھوٹ تو ہے ہی کبیرہ گناہ ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا تو کبیرہ گناہوں میں سے ایسے گناہوں میں شامل ہوتا ہے جس کا یقینی نتیجہ جہنم کا باسی بن جانا ہے ،
سوائے اس کے کہ، اگر کوئی شخص اس کام سےتوبہ کر لے اور اپنے پھیلائے ہوئے جھوٹ اور غیر ثابت شدہ روایات کی صفائی کی کوشش کرتے ہوئے اس کا خاتمہ ہو تو اللہ کی رحمت سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو معاف فرما دے ، و اللہ أعلم ،
ایسے مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں غیر ثابت شدہ روایات کو بیان کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ بات یا یہ قول اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتا ، انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے یہ مذکورہ ذیل فرامین مبارکہ ہمیشہ یاد رکھنے چاہیئں :::
::::::: أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ (((((مَن تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَليَتَبَوَّأ مَقعَدَهُ مِن النَّارِ::: جِس نے اِرادۃً  (یعنی جانتے بوجھ  کر)میرے بارے میں  جھوٹ بولا تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا )))))متفقٌ علیہ ،
::::::  صحیحین میں ہی اِلفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ  بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم  سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَليَتَبَوَّأ مَقعَدَهُ من النَّارِ::: جِس نے اِرادۃً  (یعنی جانتے بوجھ  کر)میرے بارے میں  جھوٹ بولا تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا )))))
::::::: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيس كَكَذِبٍ عَلىَ أَحَدٍ مَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَليَتَبَوَّأ مَقعَدَهُ مِن النَّارِ::: میرے بارے میں جھوٹ بولنا کسی بھی اور کے بارے میں جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ، جِس نے میرے بارے میں جان بوجھتے ہوئے جھوٹ بولا تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا)))))صحیح البُخاری /حدیث1229 /کتاب الجنائز /باب33 ، صحیح مُسلم /حدیث 3/باب2،
یہ معاملہ صرف جان بوجھ کر جھوٹ بولنے تک ہی محدود نہیں کہ کسی کو پتہ نہ تھا کہ حدیث کمزور غیر ثابت شدہ ہے یا من گھڑت ہے بس حدیث سمجھ کر سنا دی ، بلکہ حدیث کی درستگی اور صحت کا عِلم حاصل کیے بغیر بس سنا دینے یا لکھ دینے کا معاملہ بھی اسے درجے کا گناہ ہے ، خاص طور پر ایسی روایات جن کے بارے میں أئمہ محدثین رحمہم اللہ نے کمزور یعنی غیر ثابت شدہ ہونے کا حُکم دے رکھا ہو انہیں نشر کرنے کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے جھوٹ منسوب کرنے کے جیسا ہی ہے ،
توجہ سے پڑھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے (((((مَن حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الكَاذِبِينَ ::: جِس نے میرے بارے میں ایسی بات بیان کی جو جھوٹ محسوس ہوتی ہو تو بے شک ایسا کرنے والا جھوٹوں میں سے ایک ہے))))) صحیح مُسلم / پہلے باب میں ،
اور ارشاد فرمایا ہے (((((مَن يَقُل عَلَيَّ ما لم أَقُل فَليَتَبَوَّأ مَقعَدَهُ مِن النَّارِ::: جِس نے میرے بارے میں ایسی بات کہی جو میں نے نہ کہی ہو تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا )))))صحیح البُخاری /کتاب العِلم /باب38،
ان مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں  یہ وضاحت میسر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں کوئی غیر ثابت شدہ بات منسوب کرنا ، اس بات کو پھیلانا ،جہنمی بن جانے کا سبب ہے ،
خواہ کسی نے یہ کام کسی بھی نیت سے جان بوجھ کر کیا ہو ،
یا محض حسنء ظن کی بنا پر بات کی پرکھ کیے بغیر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث مان لیا ہواور پھر اسے بطور حدیث پھیلاتا ہو ،      
یعنی جان بوجھ کر غیر ثابت شدہ بات منسوب کرنا، یا انجانے میں کسی طور بھی اس برے کام کا انجام جہنمی ہونا ہی فرمایا گیا  ہے ،
اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تو جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے ، ہمیں کیا پتہ کہ کونسی حدیث صحیح ہے اور کونسی ضعیف یعنی کمزور ، ہم تو عُلماء کرام کے بیان کے مطابق بیان کر دیتے ہیں ،
تو ان کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ :::
::::::: عُلماء کرام سے حُسن ء ظن کی بنا پر ان سے سن کر یا  ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی روایات پڑھ کر ان روایات کی صحت جانے بغیر ان روایات کو فضائل کے باب میں رکھ کر ، یا نیک کاموں کی ترغیب کی نیت سے ، یا برے کاموں سے ترھیب کی نیت سے غیر ثابت شدہ روایات آگے بڑھانے والے ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے غیر ثابت شدہ بات منسوب کرنے کے گناہ سے بچنے کے لیے أئمہ محدیثن رحمہم اللہ نے تمام تر روایات اسناد کے ساتھ ذِکر فرمائی ہیں تا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جسے عِلم دیا ہے وہ اسناد کو دیکھ کر جان لے کہ یہ روایت صحیح ثابت شدہ ہے کہ نہیں ، اور جو یہ عِلم نہیں رکھتا وہ اُن ائمہ رحمہم اللہ کی تحقیق سے استفادہ کرے جنہیں اللہ نے اس عِلم میں امام بنایا ،
::::::: عُلماء کرام سے حُسن ء ظن کی بنا پر ان سے سن کر یا  ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی روایات پڑھ کر ان روایات کی صحت جانے بغیر ان روایات کو آگے بڑھانے والے ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین ذہن نشین کر لینا چاہیئں ، اور یہ فرمان بھی یاد رکھنا چاہیے  :::
 ::::::: أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے (((((لَا تَكذِبُوا عَلَيَّ فإنه مَن كَذَبَ عَلَيَّ فَليَلِج النَّارَ  ::: میرے بارے میں جھوٹ مت بولو ، بے شک جو میرے بارے میں جھوٹ بولے گا وہ جہنم میں جائے گا ))))) متفقٌ علیہ ،
پس عُلماء کرام سے حسنء ظن اپنی جگہ لیکن کسی خبر کی تصدیق کیے بغیر محض حُسنء ظن کی بنا پر اسے نشر کرنا اپنی جگہ ، کسی بھی خبر کو ماننے اور اسے آگے بڑھانے سےپہلے لازم ہے کہ ہم اُس کی سچائی کی تصدیق حاصل کریں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا حُکم ہے (((((يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إن جَاءَكُم فَاسِقٌ بنبأ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَومًا بِجَهَالَةٍ فَتُصبِحُوا على ما فَعَلتُم نَادِمِينَ::: اے اِیمان لانے والو اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو (اُس خبر کو ماننے اور اسے پھیلانے سے پہلے )خوب تحقیق کرلیا کرو  تا کہ (کہیں) نادانی سے(ایسا نہ ہو کہ اس کو مان کر اور پھیلا کر)تُم لوگ کسی قوم کو نقصان پہنچا دو،(اور ) پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے)))))سورت الحُجرات /آیت 6،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب کونسی خبر کونسے اور کیسے اشخاص کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے  اس کا عِلم ہمیں أئمہ محدثین رحمہم اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق خبر کی سند میں موجود روایوں کی پرکھ سے ہوتا ہے ، اگر اس پرکھ کو ترک کردیا جائے یا اس پر اعتماد نہ کیا جائے اور فضائل یا ترغیب و ترھیب کے لیے غیر ثابت شدہ روایات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب مان پر پھیلایا جائے تو ایسا کرنے والے  مذکورہ بالا  احادیث کی روشنی اللہ کے ہاں جھوٹے بن جانے  والوں میں  سے ہو گئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے غیر ثابت شدہ باتیں اور کام منسوب کرنے والوں میں سے ہوگئے ،  اور مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی روشنی میں اپنی جہالت کی بنا پر لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے والے ہوگئے اور ان سے پہلے خود بھی فتنے میں مبتلا ہو گئے ،
ان سب معلومات کی روشنی میں اب یہ سوچیے کہ جس کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس قدر شدید سختی سے منع فرمایا کہ اس کے نتیجے میں جہنمی ہونے کا حکم فرما یا  ، اس کام کو کسی حیلے بہانے سے کرنے کی اجازت دینے والے  کیا معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے زیادہ رتبے والے ہیں ؟؟؟
یا  اللہ نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ بغیر کسی صریح دلیل کے  ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلے میں  سے کچھ مستثنیٰ قرار دے لیں ؟؟؟
یہ بھی غور فرمایے کہ الحمد للہ ہر نیک عمل کی ترغیب اور ہر برے عمل سے ترھیب کے لیے ہمیں با کثرت صحیح احادیث میسر ہیں تو پھر ان کی موجودگی میں ہم جھوٹی ، غیر ثابت شدہ روایات کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے کیوں منسوب کرتے ہیں ؟؟؟
جھوٹ سنا سنا کر  اگر ہم کسی کو کسی  نیکی پر مائل کر بھی لے اور وہ اُس نیکی پر عمل پیرا ہو بھی جائے تو کیا اسے اس کاوہ اجر ملے گا جو ہم نے جھوٹ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی طرف سے اسے سنا یا ؟؟؟
اللہ کے سامنے اس کے اس عمل کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ جس کی بنیاد ہی ہمارے بتائی ہوئی جھوٹی غیر ثابت شدہ خبریں تھیں !!!
ان جھوٹی خبروں پر عمل کرنے والاتو شاید اپنی نیک نیتی کی بنا پر  اللہ کے عذاب سے بچ جائے ، لیکن جو حضرات اسے جھوٹے غیر ثابت شدہ فضائل  سنا سنا کر اس سے اعمال کرواتے رہے ان کا کیا بنے گا ؟؟؟
" نیکیوں پر مائل "کرنے کا حیلہ انہیں ، سچ چھوڑ کر جھوٹ استعمال کرنے کے گناہ سے  بچا  تو نہ سکے گا ،تو ،
کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر ان لوگوں  کے پاس کچھ مقبول نیکیاں ہوں تو وہ ان لوگوں میں بانٹ دی جائیں جنہیں یہ غیر ثابت شدہ """ احادیث """ سنا سنا کر نیکیوں کی طرف مائل کرتے رہے ، اور وہ ان کی باتوں میں آکر ان کے بتائے ہوئے اجر و ثواب کے حصول کے لیے وہی  اعمال  کرتے رہے جن کےفضائل یہ سناتے رہے ،
اللہ تعالیٰ  کے اس فرمان مبارک پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور اِن شاء اللہ یہ خیر والا خاتمہ ہو گا  (((((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوا عَنهُ وَأَنتُم تَسمَعُونَ ::: اے ایمان لانے والو اللہ  اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور حُکم سے روگردانی نہ کرو جب کہ تُم لوگ وہ حُکم سنتے ہو  o وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعنَا وَهُم لَا يَسمَعُونَ ::: اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے حکم سن لیا مگر (حقیقت میں وہ لوگ)نہیں سنتے)))))سورت الانفال /آیات20،21۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ طلب گارء دُعاء ، آپ کا عادل بھائی۔27/08/2010۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

2 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ بہت بہترین
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
آمین

Adil Suhail Zaffar عادل سھیل ظفر نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر سے نوازے سعود بھائی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔