Friday, May 23, 2014

::::::دنیا کے پھل اور پھول تباہ کن ہیں ::::::

:::::::      دُنیا کے پھل اور  پُھول تباہ کُن ہیں  :::::::

أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
دُنیا کے پُھول ، اس دُنیا میں ملنے والی ، نظر آنے والی ہر ایک ایسی  چیز  کو جو حق سے دُور کر دے ،کنایۃً دُنیا کے پھول کہا جاتا ہے ، کیونکہ اُن چیزوں کا حُسن و جمال اُن کی دلکشی ، قوت جاذبیت ،اور پھر جلد ہی اُن کا گل سڑ جانا کسی پھول کی طرح ہی ہوتا ہے ،
 دُنیا کی رعنائیوں اور راحتوں کو یہ نام اُن کے خالق اور مالک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دِیا ہے ﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلَى مَا مَتَّعنَا بِهِ أَزوَاجاً مِّنهُم زَهرَةَ الحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفتِنَهُم فِيهِ وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى:::اور (اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ اپنی نگاہیں اُن(چیزوں) کی طرف مت پھیلایےجِس کے ذریعے ہم نے  کچھ لوگوں کو فائدے دے رکھے ہیں (یہ چیزیں تو صِرف )دُنیا کی زندگی کے پھول ہیں اور (بے شک)آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہےسورت طہ /آیت 131،
اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دُنیا  میں موجود تہذیب و تمدن، مال و دولت  سے اور اُن کے مصادر سےدُور ، صحراؤں کے درمیان، زمین کے اندرونی اور بیرونی اور خزانوں اور دُنیا کے پھولوں اور پھلوں سے  تقریباً عاری ایک بستی میں کاءنات کی سب سے مقدس ہستی  کو دِکھایا گیا کہ دُنیا کی کنجیاں اُنہیں ، اُن  کے ساتھیوں اور  اُن سے منسوب بعد میں آتے رہنے والے لوگوں کو دی جائیں گی ، دُنیا کی زندگی کی خیر ان کے سامنے چشموں کی طرح  پُھوٹ پڑے گی ،پس مال و جاہ ، دُنیاوی عِزت و حشمت ، اور اس کے پھل اور پھول ان کے ہاتھوں کے درمیان  نہروں اور دریاؤں کی طرح بہہ اُٹھیں گے ،
قیامت تک آنے والے اپنے نام لیواؤں سے بے پناہ محبت کرنے والے ، ان پر شفقت و رحمت کرنے والے ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جاننے کے بعد اپنی امت کے لیے خوف زدہ ہوگئے کہ دُنیا کے پھل اور پھول سجاوٹ اور چکا چوند انہیں فتنے اور امتحانات میں مبتلا کر دے گی ، اور دُنیا کا مال اور حکمرانی خواہ وہ کسی ایک فرد پر ہی ہو ، کا مزہ انہیں اللہ سے بغاوت کی طرف لے جائے گا ، اور وہ دنیا کے پھول حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور زیادہ ہوجانے میں اپنی قوتیں صرف کرنے لگیں گے ، اور اس کوشش میں حق داروں کی  حق تلفی کرنے لگیں گے ، اور ایک دوسرے کی جان مال عزت کا خیال بھی نہ کریں گے اور طویل و عریض جھگڑوں میں رہ کر دُنیا کی بھلائی بھی نہ پا سکیں گے اور آخرت کی رسوائی کے بھی مستحق ہو جائیں گے ،
روؤف رحیم ، نبی کریم ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی فکر کو لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوسامنے کھڑے ہوئے اور اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی عطاء کردہ مٹھاس اور محبت سے لبریز  دِل سے مبارک زبان پر سےیہ الفاظ فرمائے :::
﴿لَا واللَّه ما أَخشَى عَلَيكُم أَيُّهَا الناس إلَّا ما يُخرِجُ الله لَكُم مِن زَهرَةِ الدُّنيَا::: نہیں ، اللہ کی قَسم ، اے لوگو میں تُمہارے بارے میں نہیں ڈرتا ، سوائے اُس سے(کہ )جو اللہ تُم لوگوں کے لیے دُنیا کے پھولوں میں سے نکال (کر تم لوگوں کو) دے گا صحیح مُسلم / حدیث  1052/ کتاب  الزکاۃ/باب 41،
روؤف اور رحیم رسول صلی اللہ علیہ وعلی  آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس دُنیا کے پھلوں اور پھولوں کی حقیقت صرف ایک ہی دفعہ نہیں بتائی بلکہ کئی مواقع پر بتاتے رہے جیسا کہ عَمر و بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد  فرمایا﴿ فَأَبشِرُوا وَأَمِّلُوا ما يَسُرُّكُم فَوَاللَّهِ ما الفَقرَ أَخشَى عَلَيكُم وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم أَن تُبسَطَ الدُّنيَا عَلَيكُم كما بُسِطَت عَلى مَن كان قَبلَكُم فَتَنَافَسُوهَا كما تَنَافَسُوهَا وَتُهلِكَكُم كما أَهلَكَتهُم :::پس تُم لوگ خوش خبری لو اور بھر جاؤ اُس سے جوتمہیں خوش کرتا ہے ، اللہ کی قسم میں تُم لوگوں کے  بارے میں تُمارے لیے غُربت  ہونےکی وجہ سے نہیں ڈرتا ہوں بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگوں پر دُنیاکھول دی جائے جیسا کہ تُم لوگوں سے پہلے والوں پر کھولی گئی اور پھر ان لوگوں نے اُس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کے لیے کوشش کی ، جیسے بھی کی ، اور (اس بات سے ڈرتا ہوں کہ)یہ  دُنیا  تُم لوگوں کو بھی اسی  طرح  تباہ  کر  دے جس طرح  اُن  لوگوں  کو  تباہ  کیاصحیح البخاری / حدیث 6061/ کتاب الرقاق / باب 7 ،  صحیح مُسلم / حدیث  2961/ کتاب  الزھد و الرقائق ،
قارئین کرام ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین مبارکہ ، اور خاص طور پر پہلے فرمان پر غور کیجیے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےانکار فرمایا ﴿ لا ::: نہیں،
اور پھر  اللہ کی قسم فرمائی ﴿واللَّہ ::: اللہ کی قسم،
 پھر ایک اور انکار فرمایا ﴿ما أَخشَى عَلَيكُم::: لوگو میں تُمہارے بارے میں نہیں ڈرتا،
اور پھر اس انکار میں سے ایک معاملے کو مستثنیٰ فرمایا ﴿إلَّا:::سوائے اُس سے،
  ایک ہی بات میں تاکید  کےمختلف اسلوب اختیار فرمانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت سے کتنی محبت تھی اور وہ اس کے لیے کتنے فِکر مند رہا کرتے تھے اور اس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے کتنا ڈرتے تھے ، اور ہم آج اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور کاموں سے راہ فرار اختیار کرنے کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات گھڑتے ہیں اور پھر بھی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کے دعویٰ دار ہیں اور ان کی شفاعت حاصل ہونے کا یقین رکھتے ہیں ،
جی تو بات ہو رہی تھی کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت کے لیے اُس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے ڈرتے تھے ، نہ تو اُس پر غربت کے فتنے سے ڈرتے تھے اور نہ ہی اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت اُن کے بعد  اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے کافر یا مُشرک بن جائے گی ، جیسا کہ عُقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ""""" صَلّى رُسول  ُاللَّهِ صَلّی اللَّہ عَلِیہ ِ    وعَلی آلہِ   وسلّم على قَتلَى أُحُدٍ ثُمَّ صَعِدَ المِنبَرَ كَالمُوَدِّعِ لِلأَحيَاءِ وَالأَموَاتِ فقال  ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُحد میں قتل ہوجانے والوں کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہوئے گویا کہ وہ زندہ اور مُردہ کو الواداع فرما رہے ہوں ، تو اِرشاد فرمایا ﴿ إني فَرَطُكُم علَىَ الحَوضِ وَإِنَّ عَرضَهُ كما بَين آيلة إلى الجُحفَةِ إني لَستُ أَخشَى عَلَيكُم أَن تُشرِكُوا بَعدِي وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم الدُّنيَا أَن تَنَافَسُوا فيها وَتَقتَتِلُوا فَتَهلِكُوا كما هَلَكَ مَن كان قَبلَكُم   :::  میں (قیامت والے دِن اپنے )حوض پر تُم لوگوں  کا انتظار کروں گا اور اُس کی چوڑائی آیلہ سے جُحفہ تک کے برابر ہے ، میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تُم لوگ میرے بعد (اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے) شرک کرو گے لیکن میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگ دُنیا (کے مال و متاع ) کے لیے  ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے اور ایک دوجے کوقتل کرو پس تباہ ہو جاو گے جیسے کہ تُم لوگوں سے پہلے والے تباہ ہوئے
قال عُقبَةُ فَكَانَت آخِرَ ما رأيت رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ ِ    وعَلی آلہِ   وسلّم عَلى المِنبَرِ ::: عُقبہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ، یہ آخری موقع تھا جب میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا منبر پر آخری دیدار کیا """"" صحیح مسلم /حدیث 2296/کتاب  الفضائل/ باب 9،
::: ایک وضاحت ::: یہ واقعہ جہاد اُحد کے آٹھ سال بعد کا ہے ، پس  اس روایت پر عقل مندوں کے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ، سنن البیہقی الکُبریٰ کی حدیث 6601/ کتاب  الجنائز/ جماع أبواب غسل المیّت / باب52، میں  یہ وضاحت موجود ہے :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے ذریعے دی ہوئی خبر سچ ہوچکی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت دُنیا کے پھولوں کے فتنے میں گم ہوچکی اور دِن بَدِن اُس میں مزید گِھرتی جارہی ہے ، کہ اب ہمارے سامنے میڈیا اور جدید سائنسی وسائل اور ایجادات کے ذریعے یہ پھول مزید خوبصورت اور واضح انداز میں آتے ہیں ، اور ان تک رسائی کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے ،
اِیمان اور اخلاق کو تباہ کرنے کے وسائل پہلے سے کہیں زیادہ اور آسانی کے ساتھ میسر ہو چکے ہیں اور تقریباً ہر ایک مُسلمان کی زندگی میں کسی نہ کسی طور داخل ہو چکے ہیں ، جہاں وہ نہ چاہتے  ہوئےبھی اُن کی دراندازی سے محفوظ نہیں رہ پاتا ، اور ایک سچا مُسلمان اُس حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس فرمان مُبارک میں بیان فرمایا  ﴿ يَأتِي عَلىَ النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ على دِينِهِ كَالْقَابِضِ على الْجَمْرِ :::لوگوں پر ایسا وقت (بھی) آئے گا (کہ) جِس میں اپنے دِین پر صبر کرنے والامٹھی میں انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگاسنن الترمذی /حدیث 2260/کتاب   الفِتَن/باب 73 ، السلسلہ الاحادیث  الصحیحہ /حدیث 945 ،
اور ایسے وقت میں اپنے دِین پر قائم رہنے والے مُسلمان کے اجر وثواب کے بارے میں یہ خوشخبری عطا فرمائی ﴿ إِنَّ مِن وَرَائِكُم زَمَانَ صَبرٍ لِلمُتَمَسِّكِ فيه أَجرُ خَمسِينَ شَهِيدًا:::بے شک تُم لوگوں کے بعد  ایسا صبر کرنے والا وقت (آنا) ہے جِس میں (اسلام ) تھامے رہنے والے کے لیے پچاس شہداء کا ثواب ہو گا،
تو عُمر رضی اللہ عنہُ نے دریافت فرمایا  """ يا رَسُولَ اللَّهِ مِنَّا أو منهم  ::: یا رسول اللہ ہم میں سے (پچاس شہداء) یا اُن میں سے (پچاس شُہدا ء کا ثواب؟)"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿مِنكُم ::: تُم لوگوں میں سےالمعجم الکبیر للطبرانی / حدیث 10394/ و مِن مُسند عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ/آخری باب ، صحيح الجامع  الصغیر و زیادتہ/حدیث 2234 ،
اب ہم ایسے ہی پر فتن زمانے میں ہیں کہ جس میں اپنے دِین کے خلاف عقائد ، عبادات ، معاملات ہر طرف ہی بکھرے پڑے ہیں اور خوب خُوب سجے سنورے ، بنے ٹھنے ، اِٹھلا اِٹھلا کر ہمیں ہمارے دِین اسلام سے دُور ہی دُور لیے جانے کی بھر پُور کوشش میں ہیں اور صد افسوس کی ہماری اکثریت دُنیا کے وقتی پھلوں کی آرائش اور دلپیذیری کا شکار ہو چکی ہے ، اور اُن میں جو اب اپنے دِین اسلام کو اسی طرح  تھامے ہوئے ہیں جِس طرح اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے تو ان شاء اللہ اُس کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے پچاس شہیدوں کا ثواب ہے ، 
کیا ہمارے لیے اتنی بڑی خوشخبری کافی نہیں؟
 کیا دُنیا کے اِن عارضی فنا ہو جانے والے  وقتی لذت والےپھلوں کی بجائے ﴿ وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى::: اور (بے شک)آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہےاختیار کرنا اچھا نہیں ؟ ۔
اللہ سُبحانہُ  و تعالیٰ ہر مسلمان کودُنیا کے پُر آفریب  فانی اور خوفناک نتائج والے پھولوں کے فریب میں آنے سے محفوظ رکھے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 17/07/1430ہجری، بمطابق09/07/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید : 18/07/1435ہجری ، بمطابق 17/05/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسرہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, May 17, 2014

::::::: سجاوٹ والے امتحان :::::::


:::::   سجاوٹ والے اِمتحان  :::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ جلّ جلالہُ کا اِرشاد گرامی ہے کہ(((زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالبَنِينَ وَالقَنَاطِيرِ المُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وَالخَيلِ المُسَوَّمَةِ وَالأَنعَامِ وَالحَرثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الحَيَاةِ الدُّنيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسنُ المَآبِ O قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذَلِكُم لِلَّذِينَ اتَّقَوا عِندَ رَبِّهِم جَنَّاتٌ تَجرِي مِن تَحتِهَا الأَنهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالعِبَادِ ::: لوگوں کے لیے عورتوں ، بیٹوں ، سونے اور چاندی کے خزانوں میں اور پالتو نشان لگائے گھوڑوں اور مویشیوں  میں اور کھیتی باڑی میں لالچ سجا دیے گئے ، یہ سب دُنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اور اللہ کے پاس (جو کچھ )ہے (وہ)بہترین ٹھکانہ اور ثواب ہے O آپ فرمایے کیا میں تم لوگوں کو اس سے زیادہ خیر والی خبر نہ بتاوں (کہ)جو تقویٰ والے ہیں اُن کے لیے ان کے رب کے ہاں باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہیں جہاں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور (وہاں ) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اور اللہ اپنے بندوں (اور ان کے اعمال ) کو دیکھتا ہے))) سُورت آل عمران(3)/آیت 14–15،
ان دو مذکورہ بالا  آیات مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں دی گئی مخلتف لذتوں میں سے اُن لذتوں کی خبر عطا فرمائی ہے جو لوگوں کے لیے سجا دی گئی ہیں ، یعنی لوگوں کے لیے بہت پر کشش اور محبوب بنا دی گئی ہیں ، وہ لذتیں عورتوں اور بیٹوں اور مال و مویشی سے متعلق ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے یہاں سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ دُنیا کے فتنوں یعنی امتحانات میں سب سے بڑا امتحان عورت ہے کہ اس کے ذریعے دِین دُنیا اور آخرت سب ہی کچھ خطرے میں پڑجاتے ہیں اور بسا اوقات تباہ ہو جاتے ہیں ، لہذا عورت سے بڑھ کر فتنہ اور کوئی نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((( مَا تَركتُ بَعدِي فَتنَة أضَرُ عَلٰى الرِّجَالِ مِن النِّساءِ  ::: میرے بعد مَردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ امتحان اور کوئی نہیں ہوگا)))صحیح بخاری/حدیث/5096کتاب النکاح /باب17، صحیح مُسلم/حدیث/7121کتاب الرقاق/پہلا باب،
لیکن اس حدیث شریف سے یہ مطلب لینا ہر گِز دُرُست نہیں کہ عورت بہر صورت ، ہمیشہ پریشانی اور نقصان کا باعث ہی بنتی ہے ،  بلکہ عورت بہت خیر اور برکت کا باعث بھی ہوتی ہے اور اگرعورتوں کے ذریعے اپنی عِزت اور عفت کو برقرار رکھنا ، اور اولاد کی کثرت کا ارادہ  ہو تو یہ کام نہ صرف جائز بلکہ مطلوب اور پسندیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ (((الدُّنيَا مَتَاعٌ وَخَيرُ مَتَاعِ الدُّنيَا المَرأَةُ الصَّالِحَةُ ::: دُنیا (آخرت کا )سامان ہے اور اِس کے سامان میں سب سے زیادہ خیر والی چیز نیک بیوی ہے )))صحیح مُسلم / کتاب الرضاع /باب 17،
ایسی ہی تابع فرمان نیک عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے (((حُبِّبَ إلي من الدُّنيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَينِي في الصَّلَاةِ:::میرے لیے  عورتیں اور خُوشبُو پسندیدہ بنائی گئی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنائی گئی )))‏‏سنن النسائی / حدیث 8887/کتاب عِشرۃ النِساء /باب اول ، صحیح سنن النسائی / حدیث 3939 ،
اِن سب فرامین کی روشنی میں عورت کو بحیثیتِ جنس امتحان اور فتنہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے ،
 بلکہ اللہ تعالیٰ کا مذکورہ بالا فرمان، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  مذکورہ بالا احادیث میں سے  پہلی حدیث شریف   ایک عمومی خبر رکھتے ہیں ،  جس  خبر کے ذریعے یہ یقینی علم ملتا ہے کہ اِس جِنس کی اکثریت فتنے کا سبب ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں ،
عورت کے بعد اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں دُوسرے نمبر پر بیٹوں کا ذِکر فرمایا ہے ، کہ بیٹوں کی چاہت اور اُن کے ہونے کی محبت بھی اِنسان کے لیے پر کشش اور خوشنما بنا دی گئی ہے ،
اِس کے بھی دو سبب سمجھ میں آتے ہیں ایک تو سب ہی اِنسانوں میں مُشترک ہے ، اور دُوسرا  نیکو کار ایمان والوں کے  ساتھ مخصوص ،
پہلا سبب دُنیاوی فخر اور فوائد کے حصول کے لیے بیٹوں کی خواہش اور محبت ،
دُوسرا سبب محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت میں نیک موحد اور مجاھد اِیمان والوں کی کثرت کی خواہش کی وجہ سے بیٹوں کے حصول کی محبت ، اور یہ محبت مطلوب ہے ، محمود ہے ، ممدوح ہے ، مرغوب ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((( تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُم الأمَمَ‏:::محبت کرنے والیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والیوں سے نکاح کرو کہ میں قیامت والے دن تم لوگوں کی کثرت کی وجہ سے دُوسری اُمتوں سے کثرت میں ہوں گا)))سنن ابی داود / حدیث 2050 /کتاب النکاح / باب 5 ، اِمام البانی رحمہُ اللہ نے "حَسن صحیح "قرار دِیا ،
پس بیٹوں کی محبت ، یعنی ان کے ہونے کی محبت اور چاہت اگر پہلے سبب سے ہو تو فتنہ ، اور اگر دُوسرے سبب سے ہو تو قابل ستائش اور دُنیا اور آخرت کی خیر والی ، ان شاء اللہ ،
اسی طرح مال سونا چاندی پالتو جانور مویشی وغیرہ کی خواہش اور اس کی محبت ہے ، اس کا معاملہ بھی بیٹوں کی محبت جسیا ہے ، یعنی ستائش اور دُنیا اور آخرت کی خیر والی ، ان شاء اللہ ،
اِسی طرح مال سونا چاندی پالتو جانور مویشی وغیرہ کی خواہش اور اُس کی محبت ہے ، اِس کا معاملہ بھی بیٹوں کی محبت جیسا ہے ، یعنی اِس کے بھی وہی دو بنیادی سبب نظر آتے ہیں ،
پہلا تو یہ کہ مال کی خواہش اور مال کی محبت عموماً فخر اور تکبر کے لیے ہوتی ہے ، کمزور اور غریب لوگوں پر رعب اور دھونس جبر و ستم کے لیے ہوتی ہے،
اور دُوسرا یہ کہ مال کی خواہش اور محبت نیک ایمان والوں کے ہاں اللہ کے قرب کے حصول کے ذریعے کے طور پر ہوتی ہے کہ وہ لوگ  نیک کاموں کے میں ، اللہ کے دین کی سُرخرُوئی کے لیے وہ مال خرچ کر کے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اور ایسے ہی اِیمان والوں کی نشانیوں میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ ((( و مِمَّا رَزقناھُم یُنفِقُون ::: اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا اُس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں )))سورت البقرۃ (2)آیت 3،
مال کے ذکر میں اللہ تعالی نے ایک خاص مقدار ((( قنطار )))کا ذِکر فرمایا ہے ، اِس مقدار کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ ایک قنطار کتنا ہوتا ہے ،
مثلا کہا گیا کہ قنطار ، ایک ہزار دینار ، اور کہا گیا ایک ہزار دو سو دینار ، اور  کہا گیا بارہ ہزار ، اور کہا گیا چالیس ہزار ، اور کہا گیا ساٹھ ہزار اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں ، لیکن اس معاملے میں سب سے اچھی بات اور بہتر قول امام الضحاک رحمہ اللہ کا ہے کہ """ قنطار بہت زیادہ مال کو کہا جاتا ہے """  
اللہ تعالیٰ نے قنطار کا جو ذِکر فرمایا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ ایک قنطار سے کم مال کی محبت یا اس کو جمع رکھنا قابل گرفت نہ ہوگا بلکہ اس کے ذِکر کا مطلب یہ ہے بہت زیادہ مال جمع کرنے کی محبت عموماً اِنسان کو ھلاکت کی طرف لے جاتی ہے ،
اس کے علاوہ اللہ تبارک و تعالی نے گھوڑوں کی محبت کا ذِکر فرمایا ، اور اُن گھوڑوں کی صِفت کے طور پر اُن کو (((المسومہ))) فرمایا ہے ،
((( المسومہ)))کی تفیسر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے """پالتو """ فرمائی ،
پالتو گھوڑوں سے محبت کے تین سبب ہیں ،
::::: (1) پہلا سبب  :::::  کبھی تو یہ محبت اللہ کی ر اہ میں جہاد کے لیے ہوتی ہے کہ ایمان والے اپنے بہترین نشان لگے ، تحجیل والے گھوڑے (یعنی ایسے گھوڑے جن کی آنکھوں اور پیروں وغیرہ کے گرد حلقے ہوتے ہیں) وہ گھوڑے تیار رکھتے ہیں کہ کسی بھی وقت اللہ کی راہ میں استعمال کی ضرورت پیش آجائے تو تاخیر نہ ہو ،
یہ لوگ اپنے اس عمل پر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے بہترین اجر پائیں گے ، کیونکہ اللہ کا حُکم ہے کہ ‏((( وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا استَطَعتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الخَيلِ تُرهِبُونَ بِهِ عَدوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُم وَآخَرِينَ مِن دُونِهِم لاَ تَعلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعلَمُهُم وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لاَ تُظلَمُونَ ::: اور کافروں کے تیار رکھو طاقت میں سے جو تمارے اختیار میں ہو اور بندھے ہوئے تیار گھوڑوں میں سے جس کے ذریعے تُم لوگ خوف زدہ کر سکو اللہ کے دُشمنوں اور تُمارے دُشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں جنہیں تم لوگ نہیں جانتے اللہ ہی انہیں جانتا ہے ، اور تُم لوگ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو وہ تم لوگوں کی طرف وفا (کے ساتھ پلٹا دیا جائے ) گا اور تُم لوگوں پر ظُلُم نہ کیا جائے گا )))سورت  الأنفال(8) / آیت 60 ‏،
::::: (2) دُوسرا سبب :::::  اور کبھی گھوڑوں کی پرورش اپنی سیفد پوشی کے لیے ہوتی ہے اور گھوڑوں کی نسل بڑھانے کے لیے ہوتی ہے ، یہ لوگ اگر مسلمان ہوں اور  ان جانوروں کا حق ادا کرتے ہوں تو ان شاء اللہ آخرت میں ان کے لیے فائدہ مند ہو گا ،
::::: (3) تِیسرا سبب :::::  اور کبھی گھوڑے پالے جاتے ہیں ایک دُوسرے کے سامنے تکبر اور فخر کرنے کے لیے یا اسلام اور مسلمانوں کےخلاف استعمال کرنے لے لیے  پالے جاتے ہیں ، ایسا کرنا کرنے والوں کے آخرت میں عذاب کا سبب ہو گا ،
اللہ تعالیٰ کے فرمان میں (((و الأنعام:::مویشی)))سے مراد اُونٹ گائے بکری وغیرہ ہیں ، اور ((( الحرث:::کھیتی باڑی ، زراعت)))سے مُراد ایسی زمین ہے جِسے کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،
اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نےاِرشاد فرمایا (((ذَلِكَ مَتَاعُ الحَيَاةِ الدُّنيَا:::یہ سب دُنیا کی زندگی کا سامان ہے )))یعنی یہ سب کچھ صرف دُنیا کی زندگی میں ہی ہے ، اور صرف اسی زندگی کی سجاوٹ اور دل پذیری کا سبب ہے ، جسے ایک دِن زائل ہونا ہی ہے ، ختم ہونا ہی ہے ،
(((وَاللَّهُ عِندَهُ حُسنُ المَآبِ ::: اور اللہ کے پاس (جو کچھ )ہے (وہ) بہترین ٹھکانہ اور ثواب ہے )))،
امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ """ جب ((( زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ )))نازل ہوئی تو میں نے کہا ، اب اے ہمارے رب جب کہ آپ نے اسے ہمارے لیے سجا دیا ، تو پھر(((قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذَلِكُم لِلَّذِينَ اتَّقَوا)))نازل ہوئی """
اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنّت میں موجود نعمتوں کا ذِکر فرما کر لوگوں کو اس کی جنّت کی ترغیب دلاتے ہوئے بتایا کہ جو کچھ اللہ پاس ہے وہ دُنیا کی ظاہری اور ختم ہوجانے والے زینت سے کہیں زیادہ بہترین ہے اور وہ جنت ہے جس میں اس کے باغات کے نیچے دریا بہتے ہیں ، دودھ ، شہد ، شراب اور پانی اور طرح طرح کے مشروبات کے دریا ، اور اس میں وہ کچھ ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں کسی دل کان نے سُنا نہیں اور نہ ہی کسی اِنسان کے دل میں اس کا گمان بھی گذرا ہے ، وہاں ان دریاوں والی جنّت میں ، ایسی پاکیزہ بیویوں کے ساتھ جو دُنیا کی عورتوں کے طرح حیض و نفاس وغیرہ جیسی علتوں سے پاک ہوں گی ، اور ان سب نعمتوں سے بڑھ کر اور عظیم بڑی نعمت ‏(((وَرِضوَانٌ مِنَ اللَّهِ أكبر)))اللہ کی رضا اور خوشی کے ساتھ وہاں رہیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ اُن پر ناراض ہو گا ، اور نہ ہی وہ لوگ اُن نعمتوں سے خارج ہوں گے ،
 آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (((وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالعِبَادِ)))یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک کو وہ کچھ عطا کرے گا جس کا وہ اپنے اعمال کے مُطابق مُستحق ہو گا ۔
 اللہ تعالی اپنے لطف و کرم سے ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ کی جنّت میں داخل ہونے کا مُستحق ہو جائے ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، 
طلب گارء دُعا ، آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر۔
 تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 27/03/1431ہجری، بمُطابق13/03/2010عیسوئی،
تاریخ تجدید : 18/07/1435ہجری ، بمُطابق 17/05/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔