Tuesday, September 16, 2014

:::::: عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہ ُ اللہ کے بارے میں تحقیق ::::::

:::::: عبداللہ  بن نافع الصائغ رحمہ ُ اللہ کے بارے میں تحقیق  ::::::
بِسمِ اللَّہِ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللَّہِ مُحمدٍ ، و عَلیٰ آلہِ و أَصحابہِ و أَزاوجِہِ و مَن تَبِعَھُم بِإِحسانٍ إِلیَ یَومِ الدِّین
السلام علیکم ور حمۃ اللہ و برکاتہ  ،
الحمد للہ کافی عرصہ پہلے میں نے اپنے رب اللہ جلّ و عُلا کی ذات پاک سے متعلق ایک بنیادی عقیدے کو قران کریم  کی گیارہ 11آیات مُبارکہ ،رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پندرہ 15 صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین اور تبع تابعین ، اور اُمت کے دیگر أئمہ کرام رحمہم اللہ کے بہت سے اقوال کی روشنی میں ایک کتاب کی صُورت میں نشر کیا تھا ، اُس کتاب کا عنوان ہے """ اللہ کہاں ہے ؟ """،
اُس کتاب میں إِمام   دار الھجرہ ، إِمام   مالک بن أنس رحمہُ اللہ کا ایک قول بھی مذکور ہے ،
کل ایک محترم بھائی نے ، کسی اور بھائی کی طرف سے إِمام  مالک رحمہُ اللہ کے اُس قول کی تحقیق پر مبنی ایک ویڈیو کلپ ارسال کیا اور اُس میں پیش کی گئی تحقیق کے بارے میں جاننا چاہا ،
إِمام  مالک رحمہ اللہ کا وہ قول یہ ہے کہ """ اللَّہُ فی السِّماءِ و عِلمہُ فی کُلِّ مکان ::: اللہ آسمان پر ہے اور اُس کا عِلم ہر جگہ ہے اور اُس کے عِلم سے کوئی چیز خارج نہیں """،
اِس قول کو إِمام  مالک رحمہ ُ اللہ کے ایک ہونہار شاگرد اور طویل ترین عرصے کے ساتھی جناب عبداللہ بن نافع الصائغ نے روایت کیا ہے ،
میرے ایک مُسلمان بھائی نے اپنے مذھب ومسلک کے عقائد اور اپنے دِل و دِماغ میں آنے والے  معانی و مفاہیم کو دُرُست  دِکھانے کے لیے اِن  عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش میں نا مکمل معلومات پر مبنی کچھ باتیں ، بطورِ تحقیق اِس ویڈیو کلپ میں پیش کِیں ،
اُن باتوں کی حقیقت کے بیان کے طور پر کچھ معلومات پیش کر رہا ہوں ،
سب سے پہلے تو یہ  بات اچھی طرح سے ذہن نشین فرما لیجیے کہ ،
إِمام  مالک رحمہُ اللہ کے اس قول کو ضعیف مانا جائے تو بھی  نا مکمل معلومات بتا بتا کر یک طرفہ قسم  کی نام نہادتحقیق پیش کرنے والے میرے اس کلمہ گو بھائی اور اُن کے ہم عقیدے بھائیوں بہنوں کے لیے کوئی حجت میسر نہیں ہوتی ،
 کیونکہ وہ لوگ """اللہ فی السماء""" کا ترجمہ """اللہ آسمانوں میں ہے """سمجھ کر ، شدید غلط فہمی کا شکار ہیں ، اوراس غلط فہمی پر مبنی ترجمے کی وجہ سے ، وہ صاحبان یہ سمجھ رہے کہ ، اِس عبارت میں  اللہ تبارک وتعالیٰ کو کسی مکان یعنی کسی جگہ  میں محصور کہا گیا ہے ،
 اور پھر اپنی اِس غلط فہمی کی بنا پر ہی اللہ تعالیٰ کو مکان سے منزہ کرنے کی کوشش میں إِمام   مالک رحمہُ اللہ کے اس قول کو ضعیف بنانے کے لیے کافی غلط بیانی سے کام لیا ہے ،
""" اللہُ فی السماء """کا لفظی ترجمہ تو یہ ہی بنتا ہے کہ """ اللہ آسمان میں ہے """ ، لیکن قران کریم کی آیات اور احادیث شریفہ کی روشنی میں اِس کا یہ مفہوم نہیں بنتا ،  اور """ اللہُ فی السماء """ کہنے سے کسی بھی طور اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے کوئی مکان ، کوئی جگہ ، کوئی سِمت وغیرہ مخصوص ، مختص یا معین  نہیں ہوتی ،
ایسا سوچنا ، سوچنے والوں کی کم علمی کی دلیل ہے ،
کیونکہ لفظ """ فی """  کا معنی  اور مفہوم صِرف """ میں """ ہی نہیں ،
بلکہ اللہ کے کلام مُبارک میں اِس کا معنیٰ اور مفہوم """پر،  کے اوپر، سے اوپر """بھی ملتا ہے ،
جیسا کہ فرمایا ﴿ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ::: فرمایے(اے محمد، کہ) زمین پر چلو پھرو، پھر دیکھو کہ (اللہ کے فرامین اور پیغامات  کو)جُھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ سورت الانعام(6)/آیت 11،
اور جیسا کہ فرعون کی دھمکیوں کاذِکر فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ﴿ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ::: اور یقیناً میں تُم لوگوں کو کھجور کے تنوں پر پھانسی لٹکا دوں گا سورت طہٰ(20)/آیت 71،
اب اگر  لفظ """فی """ کا معنی  صِرف """میں""" ہی  مانا جائے اور اِسی پر ضِد کی جائے ، تو اِن مذکورہ بالا آیات شریفہ کا کیا مفہوم بنے گا ؟؟؟
کیا پہلی آیت مُبارکہ سے یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین کو چیر پھاڑ کر اُس """میں""" گھس کر چلنے پھرنے کی دعوت دے رہا ہے ؟؟؟
اور کیا دُوسری آیت شریفہ سے یہ سمجھا  جائے گا کہ کھجوروں کے تنوں کو کاٹ کر اُن """ میں """پھانسی لٹکانے کا ذِکر ہوا ہے ؟؟؟
﴿ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ::: لہذا اے بصیرت رکھنے والو  عبرت حاصل کرو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ  کو اُس کی تمام مخلوق سے الگ اور جدا اور بلند ثابت کرنے والے دلائل کی تاویلات کرنےو الوں کی طرف سے اللہ کے لیے کوئی مکان ، جگہ ، یا سِمت وغیرہ  متعین کرنے اور دیگر  شکوک و شبہات کے جوابات """اللہ کہاں ہے ؟""" میں کافی تفصیل سے میسر ہیں ، جو بھائی یا بہن ضِد اور تعصب کے بغیر واقعتاً حق جاننا چاہے وہ توجہ اور تحمل سے اس کتاب کا مطالعہ کرے ،
اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
اب آتے ہیں عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں ، نا مکمل معلومات پر مشتمل یک طرفہ تحقیق کی طرف ،
جس میں اُن محقق ، یعنی تحقیق کرنے والے میرے کلمہ گو بھائی صاحب نے عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں نا مکمل معلومات پیش کی ہیں ،
بھائی  صاحب نے إِمام   ابن عدی رحمہُ اللہ کی""" الکامل فی ضعفاء الرجال """کے حوالے سے ذکر کیا،کہ،
 إِمام ابن عدی نے اس راوی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں کہا کہ، إِمام   بخاری رحمہُ اللہ نے اِس کے بارے میں کہا کہ """ فِی حِفظہِ شیء ::: اُس کے حفظ میں کچھ کمی (کمزوری ) ہے """،
 اور إِمام  ابن عدی رحمہُ اللہ کی طرف پیش کردہ معلومات میں سے صِرف ایک یہ حصہ سنا کر گویا یہ ثابت کر دِیا کہ یہ راوی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ ضعیف ہے ،
لیکن میرے اس محقق بھائی نے  یہ نہیں بتایا ، کہ ،
 إِمام   ابن عدی رحمہُ اللہ نے اِسی کتاب میں ، اِسی جگہ پر یہ ، إِمام  بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ """تُعرَف حِفظُهُ وتُنكَر:::اُس کا حفظ مانا بھی جائے گا اور اُس پر انکار بھی کیا جائے گا """،
کاش کے میرے محقق بھائی صاحب یہ جاننے اور بتانے کی کوشش بھی فرما لیتے کہ إِمام  بخاری رحمہُ اللہ نے یہ بات کہاں کہی ؟؟؟ اور پوری بات کیا کہی ؟؟؟
اس کا ذِکر ابھی کروں گا اِن شاء اللہ ،
فی الحال تو آپ یہ جانیے اور سمجھیے کہ إِمام  ابن عدی رحمہُ اللہ نے اپنی اِسی کتاب """الکامل فی ضعفاء الرجال"""کے اِسی مقام پر اور میرے اس محقق بھائی کی بتائی ہوئی بات کے بالکل ساتھ ہی ، انہی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں إِمام بُخاری رحمہُ اللہ کے ایک اُستاد إِمام یحیی بن معین رحمہُ اللہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ """ ثقۃٌ ::: با اعتماد ہے"""،
اور پھر بھائی صاحب کو اِسی جگہ ، إِمام  ابن عدی رحمہُ اللہ  کی طرف سے اِس راوی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں پیش کردہ جرح کا آخری حصہ جسے فیصلہ بھی کہا جا سکتا ہے ، شاید دکھائی نہیں دِیا ، یا سجھائی نہیں دِیا یا اپنے عقیدے اور غلط فہمی  کو ٹھیک دِکھانے کی کوشش میں  جان بوجھ کر اُس کا ذِکر نہیں کیا کہ إِمام   ابن عدی رحمہُ اللہ نے آخر میں یہ لکھا ہے کہ """ وعبد الله بن نافع قد رَوى عن مالك غرائب ورَوى عن غيره مِن أهل المدينة، وَهو في رواياته مُستقيم الحديث:::  اور عبداللہ بن نافع نے(إِمام) مالک(رحمہُ اللہ) کی طرف سے اور دیگر اھل مدینہ کی طرف سے عجیب(اجنبی ، غیر معروف) باتیں روایات کیں ، اور وہ اپنی روایات میں مستقیم ہے """،
غور فرمایے کہ إِمام ابن عدی رحمہ اللہ عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے یہ فیصلہ دے رہے کہ وہ یعنی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ مستقم الحدیث ہیں ،
کیا ہی بھلا ہو کہ میرے یہ محقق بھائی ہمیں یہ سمجھا سکیں کہ محدثین کے ہاں ، یا مصطلح الحدیث میں """ مُستقیم الحدیث """ کسے کہا جاتا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر میرے بھائی نے ، إِمام ابن عدی رحمہُ اللہ کی بات کے آخری حصے کا صرف پہلا حصہ  إِمام  شمس الدین الذھبی رحمہُ اللہ کی """سیرا علام النبلاء """ کا ذِکر کرتے ہوئے ، یہ فرما کر ذکر کیا  کہ،
 إِمام الذھبی رحمہُ اللہ نے اس راوی یعنی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں إِمام  ابن عدی کے حوالے سے کہا """ رَوَى عَنْ مَالِكٍ غَرَائِبَ::: اِس نے(إِمام ) مالک(رحمہُ اللہ) کے ذریعے سے عجیب (اجنبی ، غیر معروف)باتیں روایت کیں"""،
لیکن میرے بھائی کو، یہیں اِسی مقام میں ، إِمام   الذھبی رحمہُ اللہ کی طرف سے پیش کردہ دیگر إِمام  وں کی آراء دکھائی نہیں دِیں ،
جن میں سب سے پہلے قاضی عیاض رحمہُ اللہ (جن کا ذِکر میرے بھائی نے اپنی بات کے اختتام میں بڑے اعتماد کے ساتھ کیا ہے، اور کسی سند کے ذکر کے بغیر اُن کی ایک بات کو اپنے لیے دلیل بنانے کی کوشش کی)اِنہی قاضی عیاض رحمہُ اللہ کی طرف سے اِن عبداللہ بن الصائغ رحمہُ اللہ کو ثقہ یعنی با اعتماد قرار دینا بھی شاید نظر نہیں آیا ،
اور شاید یہ بھی پڑھا نہیں جا سکا کہ إِمام قاضی عیاض رحمہُ اللہ نے عبداللہ بن نافع الزبیری رحمہ اللہ اور عبداللہ بن نافع الصائغ کی إِمام  مالک رحمہُ اللہ سے کئی گئی روایات کے لیے عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کو زیادہ با اعتماد قرار دیا ہے ،
قارئین ، اس نکتے کو ذرا اچھی طرح سے یاد رکھیے گا ، اور سمجھ لیجیے گا کہعبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کا إِمام مالک رحمہُ اللہ سے روایت کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور دیگر روایات کے بارے میں اُن کے حفظ کی کمزوری کے بارے میں خبر  ایک الگ معاملہ ہے ،
ان شاء اللہ اس کی وضاحت بھی ابھی سامنے آیا چاہتی ہے ،
اس کے علاوہ اِسی """ سیر اعلام النبلاء ""' میں یہیں اِنہی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے ترجمے میں اِنہی إِمام   الذھبی رحمہُ اللہ نے دیگر إِماموں کی طرف سے عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں جرح کے ساتھ توثیق بھی نقل کی ہے ،
جیسا کہ إِمام  ابو حاتم الرازی رحمہُ اللہ کا یہ قول ذکر کیا کہ""" هُوَ لَيِّنٌ فِي حِفْظِهِ، وَكِتَابُهُ أَصَحُّ ::: اُس کے حفظ میں تو نرمی ہے اور(لیکن)اُس  کا لکھا ہوا حفظ کی نسبت زیادہ دُرُست ہے """
إِمام  ابو حاتم رحمہ ُ اللہ کا یہ مذکورہ بالا  قول عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے حفظ کی کمزوری کو واضح کرنے والا ہے، کہ،
عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے حفظ میں کچھ نرمی تو تھی، لیکن کوئی ایسی کمزوری نہ تھی جو ان کی ہر روایت کو یکسر رد کرنے کا سبب ہو ، اور یہی بات إِمام بخاری رحمہُ اللہ کے قول """ فِی حِفظہِ شیء :::اُس کے حفظ میں کچھ کمی (کمزوری )ہے """میں بیان ہوئی ہے،
رہا إِمام  مالک رحمہ اللہ کی طرف سے ، یا اُن سے روایت کرنا تو اِن عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے تراجم میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ انہوں نے إِمام  مالک رحمہُ اللہ کے ساتھ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ گذاریا ،
اور إِمام مالک رحمہُ اللہ اُن پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ اُنہیں اپنا نائب مقرر فرمایا تھا ، یہ بات بھی إِمام  قاضی عیاض رحمہُ اللہ کے حوالے اُسی """سیر اعلام النبلاء """ میں إِمام الذھبی رحمہُ اللہ نے اُسی مقام میں، یعنی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہ ُ اللہ کے ترجمے میں نقل کی ہے ، اور عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے ترجمے کے آغاز میں ہی ذکر کی ہے ،  جہاں سے میرے اِن محقق بھائی صاحب نے صِرف ایک نا مکمل بات ذِکر کی دی ، ولا حول ولا قوۃ الا  باللہ ،
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے محقق بھائی نے إِمام  قاضی عیاض رحمہُ اللہ کی  اس مذکورہ بالا بات کا ذکر کرنا پسند کیوں نے فرمایا ؟؟؟
اِسکے ساتھ ساتھ ، میرے محترم قارئین ، یہ بھی غور فرمایے کہ إِمام  ابو حاتم رحمہ ُ اللہ کا یہ مذکورہ بالا قول یہ صراحت بھی لیے ہوئے کہ عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کی لکھ کر محفوظ کردہ روایات زبانی بیان کردہ روایات سے زیادہ قابل اعتماد ہیں ، یعنی ، ایسا نہیں کہ اُن کی ہر روایت کو بس اُن کا نام سن کر رد کر دیا جائے ، جیسا کہ میرے اس محقق بھائی نے کیا ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ ، و ھو المستعان،
محترم سامعین و قارئین ، اِن  عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں إِمام بخاری رحمہُ اللہ نے بھی اپنی """ تاریخ الکبیر/ترجمہ رقم 687""' میں یہ ہی کہا ہے کہ """ يُعرَفُ حِفظُه ويُنكَرُ، وَكِتَابُهُ أَصَحُّ:::اُس کا حفظ مانا بھی جائے گا  اور اُس پر انکار بھی کیا جائےگا ، اور اُس کا لکھا ہوا زیادہ دُرُست ہے """ میرے محقق بھائی صاحب نے شاید اس کا مطالعہ بھی نہیں فرمایا ،،،،، یا ،،،،،،،،،، خود کو، اپنی غلط فہمی کو ، اپنے مذھب و مسلک کو سچا ثابت کرنے کے لیے صرف آدھی بات بتائی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ، میرے محقق بھائی نے إِمام  ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ کے نام سے بھی إِمام  احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ کا قول ذکر کیا ، کہ یہ عبداللہ بن نافع الصائغ ضعیف ہے ،
لیکن یہ نہیں  بتایا کہ إِمام   ابن حِجر رحمہُ اللہ نے وہ قول کہاں ذکر کیا ہے ؟؟؟
کیوں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال آیے پڑھیے ، سمجھیے اور جانیے کہ إِمام  ابن حِجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے اِن عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہ ُ اللہ کے بارے میں کہاں کیا لکھاہے ؟؟؟
 کیا فیصلہ دِیا ہے ؟؟؟
إِمام  ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے""" لسان المیزان، بتحقیق ابو غدہ/ ترجمہ رقم 1492 """ میں ان عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں اپنا یہ فیصلہ لکھا کہ ""' اس شخص کو با اعتماد ماننے پر ہی عمل جاری ہے """،
 اور اس طرح کہ إِمام   ابن حَجر رحمہُ اللہ کے ترجمے کے آغاز میں اِن کے نام کے ساتھ (صحح) درج کیا ،
لسان المیزان کے محقق عبدالفتاح ابو غدہ کا کہنا ہے کہ إِمام   صاحب رحمہُ اللہ نے خود """ تھذیب الکمال """ میں اِس اشارے یعنی (صحح) کے بارے میں لکھا ہے  کہ """" إذا كتبت (صح) أول الاسم فهي إشارة إلى أنَّ العمل على توثيق ذلك الرجل ::: اگر میں نام کے شروع میں (صحح)لکھوں تو یہ اس معاملے کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کو بااعتماد ماننے پر ہی(أئمہ اورعُلماء کی اکثریت کا)عمل جاری ہے""""،
اس کے علاوہ دیکھیے """ميزان الاعتدال في نقد الرجال، بتحقیق شيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود/ترجمہ رقم 465"""،
پس إِمام  ابن حِجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے بھی ان عبداللہ بن نافع الصائغ کا اکژیت کے ہاں با اعتماد ہونے کو ہی اختیار فرمایا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ذِکر کیے گئے إِماموں رحمہم اللہ کی باتوں کو نا مکمل طور پر ذکر کرنے کے علاوہ، نامکمل تحقیق پیش کرنےو الے میرے اِس بھائی نے ماضی قریب کے ایک محدث ، إِمام  محمد ناصر الدین الالبانی رحمہُ اللہ کی باتوں کو بھی اِسی طرح نا مکمل طور پر پیش کیا ، اور اِس انداز اور ایسے تبصروں کے ساتھ پیش کیا جو صاف طور پر یہ سمجھاتے ہیں کہ اِن بھائی صاحب کو إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ سے کوئی خاص لگاؤ ہے،
اِن شاء اللہ ، ابھی ہر منصف مزاج قاری اور سامع کو یہ سمجھ آ جائے گا کہ میرے اِس محقق بھائی نے إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ کی جو عیب جوئی کی وہ عیب إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ میں تو نہیں ، و للہ الحمد، لیکن میرے اس محقق بھائی میں اُن کا ہونا محقق ہوتا ہے ،
بھائی صاحب نے إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ کی طرف سے ، ضعیف ابو داود/ حدیث رقم /78 جلد اول صفحہ 173 میں ، اِس راوی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ  کے بارے پیش کی گئی بات کو نا مکمل طور پر پیش کر کے جو کچھ کہا سو کہا ،  فی الحال ہم اُن کی اُن نا دُرُست  باتوں  سے صَرفء نظر کرتے ہوئے ، یہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں ، اِن شاء اللہ کہ إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ نے وہاں کیا لکھا ہے :
إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ نے سُنن  ابو داؤد میں منقول ایک روایت کی تحقیق میں ، اُس روایت کی ایک اور سند  کا ذکر کرتے ہوئے اُس سند میں اِن عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے بارے میں لکھا کہ::
""" تفرد به ، عبد الله بن نافع ،قلت: وهو ضعيف مِن قِبل حفظه، وقد خالفه ابن وهب الثقة الحجة، فلايحتج به مع هذه المخالفة ::: اس روایت کو صِرف عبداللہ بن نافع نے روایت کیا ہے ، اور میں کہتا ہوں کہ اُن کا حافظہ کمزور تھا ، اور جب کہ اُن کی(اِس روایت)کی مخالفت ابن وھب (رحمہُ اللہ )نے کی ہے جو کہ با اعتماد اور حجت ہیں ، لہذا ایسی مخالفت کی موجودگی میں عبداللہ بن نافع (کی روایت )کو حجت نہیں بنایا جا سکتا """،
اِن الفاظ میں صاف صاف بیان ہے کہ، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ، یہاں عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کی اِس روایت کو حجت نہ ماننے کا سبب اُن سے زیادہ ثقہ اور حجت والے راوی کے طرف سے اِس روایت کے خلاف روایت بیان کرنا بتایا ہے ،
یعنی ، جب عبداللہ بن نافع الصائغ کی کسی روایت کی مخالفت اُن سے زیادہ قابل اعتماد راوی کی طرف سے نہ ہو تو اُن کی روایت کو مانا جا سکتا ہے ،
اب یہاں ، پہلے ذکر کی گئی باتوں کو ذہن میں لایے اور سمجھیے کہ إِمام   مالک رحمہ ُ اللہ کے بارے میں کچھ روایت کرنے میں عبداللہ بن نافع الصائغ کو سب سے زیادہ ثقہ مانا جاتا ہے کیونکہ وہ إِمام   مالک رحمہ اللہ کے ساتھ تقریبا ً چالیس سال رہے اور إِمام   مالک رحمہ ُ اللہ نے انہیں اپنا نائب بھی مقرر فرمایا ،
اور غور فرمایے کہ إِمام   الالبانی رحمہُ اللہ نے عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کے حافظے کی کمزوری کی وہی بات کی ہے جو اُن سے پہلے والے إِماموں رحمہم اللہ نے کہا ،  اور جن کی باتوں میں سے صرف چند باتیں میرے محقق بھائی نے لوگوں کے سامنے رکھ دِیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس کے عِلاوہ میرے محقق بھائی نے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کی طرف سے اِس راوی کو کمزور کہنے کا ایک اور غلط حوالہ دِیا، کہ إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ نے اُن کی کتاب """سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة""" کی جلد 24، کے صفحہ رقم 890میں اِس  راوی عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کو ضعیف کہا ہے ،
محترم قارئین ، توجہ ، توجہ ، توجہ ،
میرے محقق بھائی کو شاید کسی نے وہ کاغذ لکھ دیا تھا جس پر سے انہوں نے یہ حوالہ پڑھ مارا،  کیونکہ إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ کی اس مذکورہ بالا کتاب  کے صرف 14 والیوم پرنٹ ہوئے ہیں ، اور چودہویں والیوم کے تین حصے ہیں ، اور صِرف یہی مارکیٹ میں دستیاب ہیں ،  
جب کہ محقق بھائی نے اسے چوبیس والیوم تک پہنچا دِیا ہے ، اگر بھائی صاحب کے بعد 14ویں والیوم کے بعد مزید دس والیومز بھی ہیں تو اُن کا بڑا احسان ہو گا کہ وہ اُنہیں ہمارے لیے بھی دستیاب فرما دیں ،
بہرحال ،،،،،چودہویں والیوم  کے صفحہ نمبر 890میں کہیں عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کا ذِکر نہیں ہے ، بلکہ صفحہ رقم 898پر مذکور روایت نمبر 6885 کی  سند میں اُن کا نام ہے ، اور إِمام  الالبانی رحمہُ اللہ نے اِس روایت کی تخریج و تحقیق میں کہیں بھی اِن عبداللہ بن نافع الصائغ رحمہُ اللہ کا تذکرہ نہیں کیا ،
اُمید ہے کہ ہر ایک منصف مزاج اور سلیم العقل شخص یہ معلومات جاننے کے بعد سمجھ جائے گا کہ کون اپنے مذھب اور عقائد کی خاطر نا مکمل معلومات پیش کر کے حق چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور کون اپنی ضرورت کے مطابق اپنے معیار تبدیل کر کے روایات قبول یا رَد کرتا ہے ،
آخر میں ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرواتا چلوں کہ """ اللہ کہاں ہے ؟ """ کا غور و تدبر کے ساتھ مطالعہ فرمانا مت بھولیے گا ،
اللہ جلّ ثناوہ ہم سب کو بے جا اور نا جائز ضد اور تعصب سے محفوط رکھے اور حق پہچاننے ، جاننے ماننے اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔    
تاریخ کتابت : 21/11/1435ہجری ، بمُطابق، 16/09/2014عیسوئی۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔