Monday, January 12, 2015

::::::: سجدہ سھو ، سجدہ سہو ، کے احکام ::::::

::::::: سجدہ سھو  کے احکام  :::::::

بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اکثر  نمازیوں سے نماز میں کوئی  کمی یا زیادتی ہو جاتی ہے ،  اور عام طور پر یہ معروف ہے کہ کسی بھی کمی یا زیادتی کی صُورت میں  نمازی کو  نماز کے آخر میں دواضافی  سجدے  کرنا ہوتے ہیں ، جنہیں """سجدہ سھو """ کہا جاتا ہے ،
اِس مضمون میں ، اِن شاء اللہ ، میں آپ کی خدمت میں """سجدہ سھو """ کے بارے میں معلومات پیش کروں گا ، جو صِرف اللہ کی کتاب قران اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مہیا کردہ تعلیمات کی روشنی میں ہوں گی ،
گو کہ ہم براہ راست بھی """سجدہ سھو"""کے احکام اور طریقے کی معلومات کی طرف چل سکتے ہیں ، لیکن اِن شاء اللہ یہ زیادہ مُناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ """سھو """کے بارے میں ایک وضاحت  کا مطالعہ کرتےچلیں ، تو اِن شاء اللہ زیادہ خیر کا سبب ہو گا ،  
"""سھو""" کو عام طور پر""" بھُول جانا """ کہا جاتا ہے ، جو کہ  بات کو عام فہم رکھنے میں مددگار ہے، اور عام فہم گفتگو کے لیے غلط نہیں ،  
 لیکن  لغت کے اعتبار سے حقیقتا""" سھو""" اور""" بھُول جانے""" میں فرق ہے ،
"""بھُول  جانا  """ ، عموماً ایسا ہوتا  ہے  کہ یاد کروانے پر بھولا ہوا کام یا بات یاد آجائے ،
اور """سھو """ غفلت ہوتی ہے ، کہ اِنسان کسی کام یا بات کے بارے میں غافل ہو جائے ، اور  عموماً یاد کروانے پر بھی اُس کام یا بات کو یاد نہ کر پائے ،
مزید یہ کہ """سھو """ دو طرح سے ہوتا ہے،
ایک ، کسی چیز ، کسی کام ، کسی بات میں"""سھو """ ،
اور ، دوسرا ، کسی چیز ، کسی کام ، کسی بات کے بارے میں """سھو """ ،
پہلے والا """سھو """ مذموم  نہیں ، یعنی اُسے برا نہیں کہا گیا ،  کیونکہ یہ کسی چیز ، کسی کام ، کسی بات کی ادائیگی اور تکمیل میں جان بوجھ کر   نہ کی جانے والی غفلت ہے ،
اور دُوسرے والا """سھو """ مذموم ہے ، یعنی اُسے برا کہا گیا ہے ،  کیونکہ یہ کسی چیز ، کسی کام ، کسی بات کی ادائیگی اور تکمیل میں جان بوجھ  کر کی جانے والی غفلت ہے ،
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اِس فرمان میں ہے کہ﴿ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَOالَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ:::لہذا ایسے نمازیوں کی تباہی ہےOجو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیںسُورت الماعُون(107)/آیات 4،5،
پس یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لی جانی چاہیے کہ نماز میں ہونے والا """سھو """درحقیقت """بھُول""" نہیں ، بلکہ غفلت ہے ، اور وہ نماز میں غفلت ہے ، نہ کہ نماز کے بارے میں غفلت ، یعنی پہلی قِسم کا """ سھو """ ہے ، نہ کی دُوسری قِسم کا،
 ہم جیسوں کی نماز میں غفلت کا ظاہر ہونا ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے بے عیب اور کامل عِلم میں تھا ،پس اللہ جلّ و عُلا نے اپنی خاص شفقت اور رحمت عطاء فرماتے ہوئے ہماری اِس غفلت کی وجہ سے ہماری نماز میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کا طریقہ عطاء فرمایا ، اور اِس طرح عطاء فرمایا کہ  اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز میں ایسی غفلت کا اظہار کروایا ،
اور پھر اُس""" سھو """ کی وجہ سے نماز کے اجر و ثواب میں  ہونے والی کمی دُور کرنے کے طریقے کا اظہار بھی اُن ہی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذریعے فرمایا ،
لہذا ہمیں  صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ میں یہ ملتا ہے کہ چند ایک دفعہ  رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز میں """ سھو """ ظاہر  ہوا ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے یاد دہانی پر ، اور اُس """ سھو """کے ذِکر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس کے ازالے کا طریقہ بیان فرمایا ،
میں نے اپنی بات کے آغاز میں کہا تھا کہ """ عام طور پر یہ معروف ہے کہ کسی بھی کمی یا زیادتی کی صُورت میں  نمازی کو  نماز کے آخر میں دواضافی  سجدے  کرنا ہوتے ہیں """، اب میں جو کچھ بیان کرنے والا ہوں ، اِن شاء اللہ اُس کی روشنی میں میری اِس بات کا سبب بھی پتہ چل جائے گا ،
::: سجدہ سھو کے اسباب :::
سجدہ سھو کے تین سبب ہیں :::
::: (1) :::زیادتی، اضافہ :::  مثلاً  اگر کوئی اپنی نماز میں رکوع ، یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کی تعداد میں اضافہ کر دے ،
::: (2) :::کمی::: مثلاً اگر کوئی اپنی نماز میں کوئی رُکن یا واجب ادا نہ کرے ، 
::: (3) :::شک ::: مثلاً اگر کسی کو شک ہو کہ اُس نے کوئی رکن یا واجب ادا نہیں کیا ، یا رکعت کی تعداد میں شک ہو ،
::: (1) :::زیادتی، اضافہ واقع ہونے کا حُکم:::  اگر تو کِسی نے اپنی نماز میں جان بُوجھ کر ، تکبیر ، رکوع، سجدے ،قیام  یا جلسے (بیٹھنے)کا اضافہ کیا،جیسا کہ کچھ لوگ اپنے بنائے ہوئے طریقے پر وتر ادا کرنے کے لیے  تیسری رکعت میں ایک تکبیر کا اضافہ کرتے ہیں، تو ایسا کرنے والی کی نماز باطل ہو جاتی ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ مَن عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا ، فَهْوَ رَدٌّ:::جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے کام کے مُطابق نہیں تو اُس کا کام مَردُود ہے صحیح البخاری/کتاب الاعتصام بالکتاب/باب 20،صحیح مُسلم/حدیث 4590/کتاب الأقضیۃ/باب 8،
اور اگر یہ زیادتی ، یا اضافہ غفلت کی وجہ سے ہوا ہے ، تو اُس کی نماز باطل نہیں ہوتی ،  لیکن اِس غفلت کی وجہ سے ہونے والی تبدیلی کے نقصان کو دُور کرنے کے اُسے دو سجدے کرنا ہوتے ہیں ، 
جِس کی دلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کی یہ روایت ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ظہر کی نماز میں ایک رکعت زیادہ پڑھائی ، اور نماز سے فارغ ہو کر تشریف فرما ہوگئے ، تو اُن سے عرض کیا گیا کہ """ کیا نماز میں اضافہ کر دِیا گیا ہے ؟"""،
تو اُنہوں نے د ریافت فرمایا  ::: اور وہ کیا ہے ؟ ،
بتایا  گیا کہ"""آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھی ہے"""،
﴿تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پاؤں مُبارک سمیٹے اور سھو کے دوسجدے کیے صحیح بخاری /حدیث /1226کتاب السھو/باب 2، صحیح مُسلم /حدیث /1309کتاب المساجد/باب20،
 یہ معاملہ اُس کا ہوا جسے نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ  پتہ چلا  کہ اُس نے نماز میں  ایک رکعت کا اضافہ کر دِیا ہے ،
عُلماء کرام نے اِسی پر قیاس کرتے ہوئے ،  یہ  کہا کہ اگر کسی کو نماز   کے دوران ہی پتہ چل  جائے کہ وہ اضافی رکعت میں ہے تو اُسے فوراً تشھد میں بیٹھ جانا چاہیے ، اور اگر تشھد میں ہی ہو تو تشھد مکمل کر کے دو سجدے سھو کے کرے اور پھر سلام پھیرے ،
::: (2) :::کمی واقع ہونے کا حُکم::: 
اگر کسی کی نماز میں غفلت (بھُول)کی وجہ سےکوئی رُکن رہ جائے ، جیسا کہ رکوع یا سجدہ ،   اور اگلی رکعت میں جانے سے پہلے اسے یاد آ جائے، یا اگلی رکعت کی قرأت شروع کرنے سے پہلے یاد آ جائے تو  پہلے اپنا چھوڑا ہوا رکن ادا کرے گا ، اور پھر وہیں سے ترتیب کے ساتھ اپنی نماز مکمل کرے گا ،
اگر اگلی رکعت کی قرأت شروع کرنے کے بعد یاد آئے تو اُس کی وہ رکعت ضائع ہو گئی جس کا رُکن چھوڑا تھا ، اور موجودہ رکعت اُس کی جگہ گنی جائے گی ، اور اِسی کے مُطابق وہ اپنی باقی نماز کی رکعات پوری کرے گا ، یعنی اُس رکعت کو نہیں گنے گا جِس کا رُکن چھوڑا تھا ،
دونوں ہی صُورتوں میں وہ شخص اپنی نما ز کے آخری تشھد کے بعد ، سلام سے پہلے سجدہ سھو کرے گا ،
اور اگر وہ رُکن تکبیرۃ الاحرام ہو، یعنی نماز کی ابتداء کرنے والی تکبیر ہو تو ایسی صُورت میں اُس کی نماز ہی نہیں ہوتی ،  لہذا جہاں بھی اُسے یاد آئے گا ، وہیں سے موجودہ نماز چھوڑ کر ، نئے سرے سے نماز شروع کرے گا ، تکبیر تحریمہ کے بغیر والی نماز کو جاری رکھ کر ، سجدہ سھو کر کے اُس کی کمی پوری نہیں ہو گی ،
اور اگر واجبات میں کمی ہو ، مثلاً اگر کوئی رکوع کی تسبیحات نہیں کرتا ، یا سجدے کی تسبیح نہیں کرتا ، یا رکوع اور سجدے میں جاتے ہوئے یا اُٹھتے ہوئے تکبیر نہیں کہتا ، یا سمع اللہ لم حمدہ نہیں کہتا ،  اور اگلی رکعت میں جا کر اسے یاد آتا ہے کہ اُس نے رکوع یا سجدے کی تسبیح نہیں کی ،  یا اُن کے اذکار میں سے کچھ چھوڑ آیا ہے ، تو وہ اپنی نماز کو جاری رکھے گا ،  لیکن آخر میں سلام سے پہلے دو سجدے سھو کے کرے گا ۔
جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے  پہلا تشھد نہیں کیا ، اور دوسری رکعت کے بعد قیام میں کھڑے ہوگئے ، لیکن تشھد کی ادائیگی کے لیے واپس نہیں ہوئے ، بلکہ اگلی دو رکعت مکمل فرما کر دو سجدے سھو کے فرما کر سلام پھیر دِیا ،، صحیح بخاری /حدیث /1224کتاب السھو/باب 1،
اور اگر  ایک یا دو  رکعت ہی چھوٹ گئی ہوں ، اور نمازی اپنی نماز والی جگہ سے ہٹ کر  مسجد میں ہی کسی اور جگہ بھی چلا جائے تو ایسی صُورت میں  جب اُسے پتہ چلے تو رہ جانے والی رکعات ادا کرے گا ، اور  سلام کے بعد دو سجدے سھو کے کرے گا ،
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت میں بیان ہوا کہ ، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دِیا اور مسجد  کے اگلے حصے میں موجود دایک لکڑی پر اپنے ہاتھ مُبارک رکھ کر کھڑے ہو گئے ، اور  اُن کے چہرہ مُبارک پر غصہ تھا ، لوگوں میں ابو بکر اور عُمر رضی اللہ عنہما بھی تھے ، لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بات کرنے سے ڈر رہے تھے ، لوگوں میں  سے جلدی نکلنے والے (مسجد سے )نکل کر یہ کہنے لگے کہ ، کیا نماز کم کر دی گئی ہے ؟
تو ایک شخص جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ذو الیدین کہتے تھے ، نے عرض کی کہ """کیا آپ بھُول گئے ہیں ، یا نماز کم کر دی گئی ہے؟"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ::: نہ تو بھُولا ہوں اور نہ ہی نماز میں کمی کی گئی ہے،
ذوالیدین نے پھر عرض کی کہ """جی  نہیں، بلکہ  آپ بھُولے ہیں """،
﴿تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ذوالیدین کی بات کی تصدیق فرمانے کے بعد ،  دو رکعت ادا فرمائیں اور سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیےصحیح بخاری /حدیث /1229کتاب السھو/باب5، اِلفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ ، کچھ اضافوں کے ساتھ اور کچھ کمی کے ساتھ یہ واقعہ صحیح مُسلم ، صحیح ابن حبان ، سنن ابن ماجہ ، سنن ابو داؤد ، سنن الترمذی ، سنن النسائی ، مُسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ۔    
::: (3) :::شک ہونے کی صُورت  حکم ::: مثلاً اگر کسی کو یہ شک ہو جائے کہ شاید اُس نے ایک رکعت زیادہ پڑھی ہے  ، یا ایک رکعت کم پڑھی ہے ، یا ایک سجدہ یا رکوع زیادہ یا کم کیا ہے ، یا تشھد زیادہ  یا کم کیا ہے ، تو ایسی صُورت میں وہ اپنے دِل و دِماغ کو اچھی طرح سے ٹٹولے اور اپنے یقین کے مُطابق، کمی یا زیادتی کے مُطابق، نماز مکمل کر کے دو سجدے سھو کے کرے ،
جِس کی ایک دلیل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک ہے کہ﴿ إِذَا زَادَ الرَّجُلُ أَوْ نَقَصَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ:::اگر کسی نے (اپنی نماز میں)کوئی اضافہ کیا ، یا کمی کی تو وہ دو سجدے کرےصحیح مُسلم/حدیث 1315/کتاب المساجد/باب 20
اور دُوسرا فرمان شریف  جِس میں اِس  مسئلے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے ، یہ ہے کہ ﴿ إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِى صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ::: اگر تُم لوگوں میں سے کسی کو اُس کی نماز کے بارے میں شک ہو جائے اور  ی نہ جان سکے کہ اُس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو شک کو چھوڑے اور جِس پر اُس کا یقین ہو اُس کے مطابق (نماز مکمل)کرے ، اور پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے صحیح مُسلم/حدیث 1300/کتاب المساجد/باب 20 ، اِلفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت اور بھی کئی کتب حدیث میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ،
اور اگر جماعت کی نماز ہو اور دوران نماز إِمام کو اُس کی طرف سے ہونے والے اضافے یا کمی  کا احساس نہ ہو سکے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ إِمام کو آگاہ کریں ، مَرد حضرات باآواز بلند تسبیح کر کے ، یعنی سُبحان اللہ کہہ کر إِمام کو متوجہ کریں گے ، اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ مار کر إِمام کو آگاہ کریں گی ،
ایسی صُورت میں إِمام کو اپنی نماز پر توجہ دے کر اپنے یقین کے مُطابق عمل کرنا چاہیے ،یعنی ، اگر اسے یقین ہو کہ اُس نے کوئی اضافہ  یا کمی نہیں کی تو نماز مکمل کر لے اور سجدہ سھو نہیں کرے ، اور اگر اسے یقین ہو جائے  کہ اُس سے کوئی کمی یا زیادتی ہو ئی ہے ، تو ہونے والی کمی یا زیادتی کے مُطابق دو سجدے سھو کے کرے گا ۔
:::قرأت میں کمی یا غلطی  ہونے کی صُورت میں  حکم :::
کچھ نمازی ، قرأت میں کسی بھی غلطی یا کمی یا زیادتی کی صُورت میں بھی سجدہ سھو کرتے ہیں  ، جبکہ ایسا کرنے کوئی دلیل نہیں ،
اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چار یا تین رکعت والی نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورت فاتحہ کے عِلاوہ قرأت کی گئی تو سجدہ سھو کرنا لازم ہے ، جبکہ یہ  بات ، یہ فتویٰ خِلاف سُنّت ہے ،
ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز میں قرأت کے بارے میں  بتایا ہے کہ ﴿كَانَ يَقْرَأُ فِى صَلاَةِ الظُّهْرِ فِى الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ فِى كُلِّ رَكْعَةٍ قَدْرَ ثَلاَثِينَ آيَةً وَفِى الأُخْرَيَيْنِ قَدْرَ خَمْسَ عَشَرَةَ آيَةً أَوْ قَالَ نِصْفَ ذَلِكَ وَفِى الْعَصْرِ فِى الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ فِى كُلِّ رَكْعَةٍ قَدْرَ قِرَاءَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً وَفِى الأُخْرَيَيْنِ قَدْرَ نِصْفِ ذَلِكَ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ظہر کی نماز  کی پہلی دو رکعت میں قرأت فرمایا کرتے تھے، ہر ایک رکعت میں تقریباً  تیس آیات کے برابر ، اور دوسری  دو(یعنی تیسری اور چوتھی رکعت )میں تقریباً پندرہ آیات کے برابر ، یا یہ کہا کہ پہلی سے آدھی کے برابر ،اور عصر کی دونوں پہلی رکعتوں میں پندرہ آیات کے برابر ، اور دوسری دو(یعنی تیسری اور چوتھی رکعت )میں  اُس سے آدھی کے برابرصحیح مُسلم/حدیث 1043/کتاب الصلاۃ/باب 34 ، مُسند احمد /حدیث /12122مسند ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم846 ،
اِس مذکورہ  بالا حدیث شریف کے ذریعے یہ مسئلہ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے کہ پہلی دو رکعت کے بعد والی رکعتوں میں سورت فاتحہ کے علاوہ کوئی اور قرأت نہیں کی جا سکتی ، بلکہ سُنّت شریفہ کے مُطابق ایسا ہونا چاہیے کہ کبھی قرأت کی جائے اور کبھی نہ کی جائے ، کیونکہ دونوں طریقے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ میں موجود ہیں ،
اب واپس آتے ہیں ، قرأت میں ہونے والی کمی یا غلطی ، یا زیادتی کی وجہ سے سجدہ سھو کرنے کے مسئلے کی طرف ،
تو اِس کے بارے میں عُلماء کرام کی مختلف باتوں میں دُرست ترین بات یہ ہے کہ ،
اگر تو سُورت فاتحہ پڑھنے میں کوئی ایسی  غلطی  ہوئی ہو جِس سے معنی میں تبدیلی واقع ہوتی  ہو ، یا کمی ہوئی ہو یعنی کوئی آیت ہی چھوڑ دی ہو ، تو نمازی کو پوری سورت فاتحہ دوبارہ پڑھنی ہو گی ،
 اور اگر پڑھنے والا اگلی رکعت میں داخل ہو چکا ہو ، اگلی رکعت کی قرأت شروع کر چکا ہو، تو پچھلی رکعت کو نہیں گنے گا ، بلکہ اِس رکعت کو پچھلی کی جگہ رکھے گا اور ٹھیک طور پر کسی غلطی اور کمی کے بغیر سورت فاتحہ کی قرأت مکمل کرے گا ،
اور اگر نماز سے فارغ ہوچکنے کے بعد پتہ چلا ہو کہ اُس نے سورت فاتحہ میں کوئی ایسی غلطی کی ہے جس سے معنی میں تبدیلی ہوتی ہے ، یا کوئی آیت ہی چھوڑ دی ہے ،  تو پوری نماز دوبارہ سے پڑھے گا ،
یہ سب مسائل سورت فاتحہ کی قرأت  کے بارے میں ہیں ، کیونکہ صِرف سورت فاتحہ کی قرأت ہی واجب ہے ، اُس کے علاوہ قرأت سُنّت ہے ،  لہذا واجب میں  کمی کرنے والی غلطی ، یا کمی  ہونے کی وجہ سے سجدہ سھو کرنا ہو گا ،
رہا سورت فاتحہ کے علاوہ دیگر آیات شریفہ کی قرأت کا تو ، اُن میں ہونے والی  غلطی یا کمی کی صُورت میں نماز باطل نہیں ہو تی ، اور نہ ہی سجدہ سھو کرنا ہوتا ہے ، لیکن اگر ا یسا ہو کہ پڑھنے والے کو اُسی رکعت میں اپنی غلطی یا کمی کا احساس ہو جائے جس رکعت میں اُس سے غلطی یا کمی ہوئی ہے تو وہ اپنی اُس غلطی کی اصلاح کر کے اُس آیت کو دوبارہ پڑھے ، اور اگر کمی ہوئی ہے ، کوئی آیت چھوڑ دی ہے تو اُس کو دوبارہ پڑھے کر اپنی قرأت کو مکمل کرے ،
اور اگر اگلی رکعت میں جا کر ، یا نماز کے آخر میں پتہ چلا تو اپنی نماز پوری کرے اور کوئی سجدہ سھو نہیں کیا جائے گا ، اور اِسی طرح نماز کے بعد پتہ چلنے پر بھی کوئی سجدہ سھو نہیں کرنا ہوگا ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اُس کے دِین کے مسائل اور احکام کسی ضد اور تعصب کے بغیر سمجھنے ماننے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت :20/03/1436ہجری،بمُطابق،11/01/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل پتے پر سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔