:::::::میاں
بیوی ایک دوسرے کے ہر معاملے میں دخل اندازی کا حق نہیں رکھتے ::::::
بِسمِ اللَّہِ
الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ
اِلاَّ ھُو ، و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ
قِیلا ، و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ
بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و
رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی
ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ
کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ
واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے
اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے
مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے ، اور جنہوں
نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر دی۔
::::: سوال ::::: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہ ،
کیا میاں بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے
کے موبائل یا کمپیوٹر وغیرہ کی خفیہ ارقام (پاسورڈز)وغیرہ حاصل کر لیں یا اُنہیں
کھول کر ایک دوسرے کے اِن آلات میں تاک جھانک کرلیں ؟؟؟
اکثر
لوگ اپنے موبائل فونز اور کمپیوٹرز وغیرہ پر پاسورڈز لگائے رکھتے ہیں ، کئی جوڑے
یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کے ایسے آلات کے پاسورڈز حاصل کرنے یا انہیں کھولنے کی
کوشش کرتے ہیں اور اپنے رشتے کی بنا پر ایسا کرنا جائز بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں
، کیا یہ عمل درست ہے ؟؟؟ ہماری پاکیزہ اسلامی شریعت میں اس کا کیا حکم ہے
؟؟؟
::::: جواب ::::: و علیکم السلام و رحمۃُ اللہ
و برکاتہ ،
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله،
عام طور
پر کسی تجسس کا سبب سوء ظن ہوتا ہے (یعنی
جب کسی کو کسی کے بارے میں کوئی منفی یا برا گُمان ہوتا ہے تو ہی وہ اس کے
بارے میں تجسس کرتا ہے ) پس ایسا کرنے والاکسی ایک ممنوع کام کا مرتکب نہیں ہوتا
بلکہ اکثر اوقات دو واضح طور پر ممنوع کام
کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ،
کیونکہ
شریعت مطہرہ میں اِیمان والوں کے معاملات میں تجسس رکھنا (یعنی اُن کی
جاسوسی کرنا)ممنوع ہے ، اور اس کے سے پہلے بُرے گمان سے بچنے کا حکم ہے ، کیونکہ گُمان
بازی میں اکثر کچھ گمان ایسے ہوتے ہیں جو بُرے ہوتے ہیں اور
تجسس کا سبب بن جاتے ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا
كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ
أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا
اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ:::اے ایمان والو بہت سی بدگمانیوں سے بچتے
رہو کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے
غیبت کیا کرے کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے
سواس کو توتم ناپسند کرتے ہو اور الله سے ڈرو بے شک الله بڑا توبہ قبول کرنے والا
نہایت رحم والا ہے﴾سورت الحُجرات(49)/آیت 12،
اور
نبی اللہ ، محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے﴿ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ
فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ
تَنَافَسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَكُونُوا
عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا :::خبردار گُمان سے باز رہنا کیونکہ گُمان یقیناً سب سے بڑھ کر جھوٹی
بات ہے ، اور (اس لیے)تُم لوگ(آپس میں ) ایک دوسرے کے(مُعاملات جاننے کے
لیے ان کے ) بارے میں سُن گُن نہ لیا کرنا
، اور نہ ہی( ایک دوسرے کی )جاسوسی کرنا ، اور نہ ہی( ایک دوسرے سے) تنافس کرنا اور
نہ حسد کرنا ، اور نہ ہی( تُم لوگوں کے درمیان )آپس میں نفرت پیدا کرنے والے کام
کرنا ، اور نہ ہی(ایک دو سرے کی ضرورت میں مدد کرنے سے) پیٹھ پھیرنا اور اللہ کے
بندے ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہنا ﴾ صحیح مسلم حدیث6701/ کتاب البر الصلۃ و لآداب/باب9 ،
صحیح
البخاری میں یہ کئی مُقامات پر روایت منقول ہے ، جس میں """ولا تنافسوا """ کا ذِکر
نہیں ،اور/کتاب البر و الصلۃ /باب 58 میں """ولاتناجشوا """مذکور ہے ، کتاب النکاح /باب 46میں یہ اضافی الفاظ بھی منقول
ہیں کہ﴿ولا
يخطب الرجل على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك::: اور
نہ ہی کوئی(مُسلمان)مرد اپنے(مُسلمان)بھائی
کے(شادی کے لیےطے شدہ ) رشتے(یا جہاں رشتے کی بات ہو رہی ہو، وہیں) پر(اپنے یا کسی
اور کے) رشتے کی بات کرے ، یہاں تک کہ پہلے والا یا تو نکاح کر لے ، یا رشتہ چھوڑ
دے﴾
پس کسی کی جاسوسی کرنے والا دو ممنوع کاموں یعنی دو گناہوں کا شِکار ہوتا ہے ، پہلے سوء ظن کا ، اور پھر اس کے مُطابق جاسوسی کرنے کا، خواہ کوئی ایسا کرنے والے
آپس میں میاں بیوی ہی ہوں ،
تجربے
اور مشاہدے سے ثابت شدہ معاملہ ہے کہ
""" تحسّس """ اور """ تجسّس """ آپس میں بغض و عناد کا سبب بنتا ہے ، جس
سے اس مذکورہ بالا حدیث شریف میں منع فرمایا گیا ہے ،
[[[ الحمد للہ ، اِس موضوع کو ایک الگ
مضمون """:::::::راز داری عقل اور
عِزت والے مؤمنین کی صفت ہے:::::::"""
میں بیان کیا گیا ہے، جو اِس ربط پر نشر کیا جا چکا ہے http://bit.ly/1Pgrw8D ]]]
عین
ممکن ہے کہ خواتین کے موبائل فونز میں
اُن کی دوستوں کے خصوصی ذاتی معاملات پر
مبنی پیغامات ہوں ، اگر کوئی عورت اپنا
موبائل اپنے خاوند کو استعمال کرنے اور اس کی چھان بین کرنے کی اجازت دیے بھی رکھے
تو اس کی دوستوں کے ایسے پیغامات کی اطلاع حاصل کرنا اس کے خاوند کے لیے جائز نہیں
(اور ایسے پیغامات کی موجودگی میں بیوی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کو
اپنے موبائل میں داخل ہونے کی اجازت دے) کیونکہ یہ کسی کے ذاتی معاملات کی سُن گُن
حاصل کرنے اور اس کے جاسوسی کرنے کے مترادف ہے ، اور دونوں ہی ممنوع کام ہیں ،
بالکل
یہی معاملہ خاوند کے موبائل میں بیوی کی دخل اندازی کا ہے ، (جی، اگر کسی کے
موبائل میں اس کے یا اُس کی دوستوں کے ذاتی معاملات پر مبنی پیغامات نہ آتے ہوں تو
وہ اپنی بیوی یا اپنے خاوند کو اپنے موبائل میں داخلے کی اجازت دینا چاہے تو دے)
مذکورہ
بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف ان واضح احکام میں سے ہیں جن میں اِیمان والوں کے
اندرونی اور ذاتی معاملات کے بارے میں تحسّس اور تجسس سے منع فرمایا گیا ہے ، اور ان احکام سے کسی کو استثناء حاصل نہیں
خواہ میاں بیوی ہی ہوں ،
یہ
کافی افسوس ناک غلط فہمی ہے کہ نکاح کا معاہدہ
میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کے لیے وہ
سب ہی کچھ حلال کر دیتا ہے جو
شریعت میں اِس رشتے کی غیر موجودگی میں حرام ہوتا ہے ،
یہ مذکورہ بالا خیال فاسد ہے ، اِس سے مکمل
اجتناب برتا جانا چاہیے (اور شریعت کے احکام کو صحیح فہم کے مطابق سمجھا جانا
چاہیے نہ کہ اپنے ذاتی خیالات کے مطابق، اور نہ لوگوں سے حسنء ظن کی وجہ سے اُن کے
خیالات اور آراء کے مُطابق)،
ہر مُسلمان
کو (اُس کی ہرمعاشرتی حیثیت کے بارے میں شریعت میں مقرر کردہ )اسکی حدود کے اندر
ہی رہنا چاہیے ، اور تمام فاسد اور غلط اقوال و اعمال کے بارے میں خبردار رہنا
چاہیے ،
بسا اوقات
لوگ اپنے یا اپنی شریک حیات کے بارے تحسساور تجسس کرنے کا عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ اُنہیں اپنے یا اپنی شریک حیات کے معاملات کے بارے میں شک ہوتا ہے ،
لیکن وہ لوگ غالباًیہ نہیں جانتے ، یا جانتے ہوئے بھی بھول
جاتے ہیں ، یا جان بوجھ کر بھول جاتے ہیں کہ یہ
شک وہی گُمان ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع
فرمایا ہے ،
کبھی
کوئی یہ بھی سمجھے ہوئے ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس نے اپنے یا اپنی شریک حیات کے
بارے میں معلوم کیا ہے وہ ثابت شدہ ہے ، تو اُس کے لیے ہماری نصیحت یہ ہے کہ،ایسی
صُورت میں اُس پر واجب ہے کہ حسبء حال و
واقع اور ضرورت کے مُطابق ، اِصلاح اور
أمر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا راستہ اختیار کرے،اور اپنے یا اپنی شریک حیات کی اِصلاح کی کوشش کرے اور برائی کو
روکنے کی کوشش کرے ،
جیسا
کہ ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت شدہ حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ ﴿ مَنْ رَأَى
مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ
فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ:::تُم لوگوں میں سے جو کوئی بھی کوئی بُرائی
دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے(اچھائی میں )تبدیل کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی
زُبان سےایسا کرے ، اور اگر ز ُبان سے بھی نہ کر سکے تو اپنے دِل سے کرے(یعنی کم
از کم دِل میں تو اُس بُرائی کو بُرائی مانتا رہے)اور یہ سب سے زیادہ کمزور اِیمان ہے ﴾صحیح
مسلم /حدیث 186/کتاب الایمان/باب22 ،
لیکن
کوئی ایسی راہ نہ اختیار کرے جو مزید برائی یا فساد کا سبب ہو،
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو ہر بُرائی سے محفوظ رکھے ۔
ڈاکٹر سعد بن مطر العتیبی کے جواب سے ماخوذ ۔
، و السلام علیکم۔ طلب
گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ
کتابت : 04/04/1434 ہجری ، بمطابق ، 14/02/2013عیسوئی،
تاریخ
تجدید : 22/07/1436 ہجری ، بمطابق ، 11/05/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔