::::::: حدیث الجاریہ ، ایک حدیث میں 11 گیارہ مسائل
کا بیان :::::::
بِسّمِ
اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ
لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ
أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ
وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ
لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک
خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب
کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی
جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی
گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا
نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود
نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک
محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
میں یہاں جِس حدیث شریف کو
پیش کر رہا ہوں ، اسے عام طور پر حدیث الجاریۃ
کہا جاتا ہے ، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
اعلیٰ ترین اخلاق کے بہترین نمونوں میں سے ایک ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
طرف سے سکھائے گئے نماز کے احکام میں سے ایک حُکم لیے ہوئے ہے ، اور اسلامی عقائد
میں سے کئی أہم عقائد اور متعلقہ احکام لیے ہوئے ہے ،
اس حدیث میں موجود فوائد کی
بنا پر میں اکثر جزوی طور پر یہ حدیث ذکر کرتا رہتا ہوں ، اِن
شاء اللہ آج اس حدیث کو ہم مکمل طور پر پڑھتے ہیں ،
معاویہ بن الحکم السلمی رضی
اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ"""بَیْنَا
أنا أُصَلِّی مع رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ
من الْقَوْمِ فقلت یَرْحَمُکَ اللَّہ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِھِمْ فقلت
واثکل أُمِّیَاہْ ما شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إلی فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ
بِأَیْدِیہِمْ علی أَفْخَاذِھِمْ فلما رَأَیْتُہُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَکِنِّی
سَکَتُّ فلما صلی رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَبِأَبِی ھُوَ
وَأُمِّی ما رأیت مُعَلِّمًا قَبْلَہُ ولا بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا منہ
فَوَاللَّہِ ما کَہَرَنِی ولا ضَرَبَنِی ولا شَتَمَنِی ::: ایک
دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھ تھا کہ
نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا """اللہ تُم پر رحم
کرے"""تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا """میری
ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو """تو ان سب
نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے
ہیں تو میں خاموش ہو گیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے
فاغ ہوئے ، تو میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے
اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، انہوں
نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ،
بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ﴿ إِنَّ ھَذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من
کَلَامِ الناس إنما ھُوَ التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ﴾ أو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم ::: یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ(نماز
) تو تسبیح ہے تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہے﴾یا جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا
،
میں نے پھر عرض کیا"""یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاھلِیَّۃٍ وقد جاء
اللَّہُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ ::: یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے
کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں """،
تو ارشاد فرمایا﴿ فلا
تَأْتِہِمْ :::تُم اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا﴾،
میں نے پھر عرض کیا"""وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ :::ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں
کے ذریعے شگون لیتے ہیں"""(جیسا کہ کالا کوا دیکھ لیا تو واپس
ہوگئے، پرندہ الٹے ہاتھ کو اُڑا تو کام چھوڑ دِیا، بلی راستہ کاٹ گئی تو واپس ہو
لیے وغیرہ )،
تو اِرشاد فرمایا﴿ قال
ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ ::: یہ ایسی
چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں (اپنے
کاموں ) سے روکے نہیں﴾(یعنی شگون وغیرہ مت
لیا کریں ورنہ اس بد عقیدگی کی وجہ سے
شگون بازی کرنے والے لوگ اپنے کاموں سے رُک
جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ) ،
قال بن الصَّبَّاحِ ﴿ فلا یَصُدَّنَّکُمْ ﴾
ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ
اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ)کا کہنا ہے کہ﴿ یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں)سے مت روکے ﴾،
(آگے پھر معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں
نے مزید عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ :::ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """(یعنی زائچہ بازی
کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے)،
تو اِرشاد فرمایا﴿ کان
نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ ::: نبیوں (علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی(علیہ
السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے﴾
(یہ ایک ناممکن
کام ہے ، تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کرتا ہوں)
پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ """ وَکَانَتْ لی جَارِیَۃٌ تَرْعَی غَنَمًا لی قِبَلَ أُحُدٍ
وَالْجَوَّانِیَّۃِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فإذا الذِّئبُ قد ذَھَبَ بِشَاۃٍ
مِن غَنَمِہَا وأنا رَجُلٌ مِن بنی آدَمَ آسَفُ کما یَأْسَفُونَ لَکِنِّی
صَکَکْتُہَا صَکَّۃً فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وعَلی آلہ وسلم
فَعَظَّمَ ذلک عَلَیَّ قلت یا رَسُولَ اللَّہِ أَفَلَا أُعْتِقُہَا ::: میرے ایک باندی ہے جو
اُحد (پہاڑ)کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے
دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا
، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں
بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں )اسے ایک تھپڑ مار دِیا ،
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں
نے عرض کیا """اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ """،
تو اِرشاد فرمایا﴿ ائْتِنِی
بہا ::: اُس
باندی کو میرے پاس لاؤ﴾،
فَأَتَیْتُہُ بہا :::
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت
فرمایا﴿ أَیْنَ اللہ ::: اللہ کہاں ہے ؟ ﴾
قالت فی السَّمَاء
ِ :::اس باندی نے جواباً عرض کیا """آسمان
پر """،
پھر دریافت فرمایا﴿ مَن أنا :::میں کون ہوں ؟﴾
قالت أنت رسول اللَّہِ ::: اس باندی نے جواباً عرض کیا """"""آپ
اللہ کے رسول ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم
فرمایا ﴿ أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ :::اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے﴾صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7 بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی
الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
::::::: فقہ الحدیث :::::::
] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور بہترین تعلیم دینے
والا کوئی نہیں ،
] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم انتہائی کامیاب انداز میں ایک ہی بات
میں ایک سے زیادہ باتوں کی تعلیم دیتے اوراسطرح کہ سننے والا خود اپنی عقل کو
استعمال کر کے اپنی قوت فیصلہ کو استعمال کر کے اسی نتیجہ پر پہنچے جس کی تعلیم دی
جا رہی ہے ، آج تعلیم دینے کے جدید اطوار میں یہ طریقہ بھی استعمال کیا جاتاہے ،
اور افسوس کی اسے کفار کی عقلمندی اور ذہانت کا نتیجہ جانا جاتا ہے جبکہ یہ طریقہ
انسان کو ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سکھایا ، لیکن ہم ان کے
امتی ان کی تعلیم اور سُنّت سے علمی اور عملی طور پر اس قدر دور اور نا واقف ہیں
کہ ان کے طریقوں کو غیروں کے پاس دیکھ کر غیروں کاسمجھ کر ان غیروں سے مرعوب ہو
جاتے ہیں ، و اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون ، اسی طرح ایک اور طریقہ بھی ہے اور وہ
یہ کہ ،
] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم عِبادت تک میں واقع ہونے والی غلطی پر بھی سختی والا معاملہ نہ
فرماتے تھے اور ہم بات بے بات ، حتیٰ کہ اپنے خود ساختہ افکار اور اپنی ذاتی آراء
کے خلاف بات پر بھی بدزبانی ، طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں ، حتیٰ کہ کفر و شرک کے
فتوے تک صادر فرمانے لگتے ہیں ، و اللہ المستعان ،
:::::کسی شاعر نے
خوب کہا اور بہت ہی خوب کہا :::::
تیرے
حُسنءِ خُلق کی اِک رَمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اِسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دَر و بام کو تو سَجا دِیا
میں اِسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دَر و بام کو تو سَجا دِیا
] نماز میں اللہ کی تسبیح ،
تکبیر ( تحمید، تہلیل، اللہ کا ذکر وغیرہ)اور قران کی قرأت ہی کی جاسکتی ہے ، ایسی
کوئی بات کرنا جائز نہیں جو عبادت کے زُمرے میں نہ آتی ہو ،
] کاہنوں ، یعنی نجومیوں، دست
شناسوں ،ستارہ شناسوں کے پاس جانا ممنوع ہے ، لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ ان لوگوں کے
پاس تو نہ جایا جائے لیکن ان کی باتوں تک رسائی حاصل کی جائے ، یہ سب کام ممنوع
ہیں اور کبھی تو کفر تک لے جاتے ہیں ، اس موضوع کو کافی تفصیل سے """ستارے سیارے اور ان کی چال"""میں
بیان کر چکا ہوں ،تفصیل کے لیے اُسکا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ، اور اسی طرح """جادُو
"""سے متعلقہ مضامین کامطالعہ بھی ان شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
] شگون لینا جائز نہیں ہے ،
شگون بازی کی بنا پر کسی کام سے رُک جانابھی ممنوع ہے ، کیونکہ یہ اللہ پر توکل
اور اللہ کے قادر مطلق ہونے کے عقیدے کے خِلاف ہے ،
] لکیریں وغیرہ بنا کر، جسے ہمارے ہاں عام طور پر زائچہ بنانا کہا جاتا ہے اور
جس کے ذریعے مستقبل یا غائب ماضی کی خبر دینے کے دھوکے میں ایمان لوٹا جاتا ہے ،
یہ زائچہ بازی بھی ناجائز ہے ، کرنا بھی اور کروانا بھی ،
] یہ عِلم صرف ایک نبی علیہ
السلام کو دیا گیا تھا اور کسی دوسرے کا اُس نبی کے اِس عِلم کے موافق ہونا نا
ممکن ہے ،کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور ان کو
دیے جانے والے خصوصی علوم میں سے یہ ایک علم ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا
،لہذا اس علم کا حصول جو صرف وحی کے ذریعے کسی نبی یا رسول کو خاص طور پر دیا گیا ہو ، کسی غیر نبی کے لیے نا ممکن ہے، اور یہی بات
سمجھانے کے لیے یہاں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اندازء بیان اختیار فرمایا ہے،
] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے عقیدے کا یہ سبق دیتے ہوئے ایک انتہائی منطقی انداز میں ، سوال کرنے
والے اور سب سننے والوں کو اس زائچہ بازی کے جھوٹ ہونے کی تعلیم فرمائی ، یہ انداز
تعلیم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا ، اب
ہم اپنے ہی رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت سے اس قدر لا عِلم ہیں کہ
کسی اور سے اس طرح تعلیم دینے کی بات سنتے ہیں تو اسے دُنیا کا سب سے بڑا ذہین اور
تجربہ کار معلم سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، ایسے ہی امتیوں کی بدولت اس اُمت
کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں
، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
] صحابہ رضی اللہ عنہم کا
اِیمان اور اللہ سے خوف اس قدر تھا کہ ذرا سی غلطی بھی ان کو پچھتاوا لگا دیتی اور
فوراً اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ،
] اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں ایک انتہائی أہم اور بنیادی
عقیدے کی تعلیم ، جسے رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِیمان ہونے یا نہ ہونے
کی ایک کسوٹی کے طور پر ظاہر فرمایا ، اور وہ عقیدہ ہے کہ"""اللہ
تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند، الگ اور جُدا آسمانوں
کے اوپر ہے ؟ """،
اس أہم موضوع پر میری ایک
کتاب"""اللہ کہاں ہے ؟http://bit.ly/1IxNUWR"""الحمد للہ برقیاتی
ذرائع نشر واشاعت پر نشر ہو چکی ہے ، ان شاء اللہ اس کتاب کا مطالعہ سے عقیدے کے
اس بنیادی موضوع کو درست کرنے میں کافی مددگار ہو سکتا ہے ۔والسلام علیکم ۔
تاریخ کتابت :14/08/1430ہجری،
بمُطابق،05/08/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :08/10/1436ہجری،
بُمطابق،24/07/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل
ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاہنوں ، نجومیوں ، اور ستارہ شناسوں کے بارے
میں جاننے کے لیے """وہ ہم میں سے
نہیں /سولہواں کام""" کا مطالعہ فرمایے:http://bit.ly/1JgaCOH
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستاروں سیاروں کے وجود اور
اُن کی چالوں اور حرکات کا مخلوق پر کیا اثر ہوتا ہے ، اِس کی تفصیل جاننے کے لیے
درج ذیل مضمون کا مطالعہ فرمایے """ستارے
سیارے اور اُن کی چال """ :http://bit.ly/181q9Bn
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جادُو کے بارے میں جِس مضمون
کا ذِکر کیا گیا ہے ، وہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔