Tuesday, July 19, 2016

::::: دِلوں کے سخت ہو جانے کے تین بُنیادی اسباب ::::::



:::::: دِلوں کے سخت ہو جانے کے تین بُنیادی اسباب ::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
کِسی بھی مُسلمان پر واجب کاموں میں سے ایک أہم کام اُس کے اپنے دِل کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا بھی ہے،
خاص طور ہر ہمارے اس دور میں جب کہ دِلوں کی خرابی اور سختی کے اسباب ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، اور دِن بدِن اُن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور نئے نئے انداز و اطوار میں وہ اسباب ظاہر ہو رہے ہیں ،
پس بندے کے لیے اِس کے عِلاوہ اور کوئی دُوسرا ذریعہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اللہ ہی کی عطاء کردہ توفیق سے دِل کی اِصلاح اور حفاظت کے وہ اسباب اختیار کرے جو پہلے بھلے وقت کے مُسلمان اختیار کیا کرتے تھے،
اُس بھلے وقت کے مُسلمان اپنے دِلوں کی اِصلاح اور اُن کو سختی سے بچانے کے لیے خصوصی کوشش کیا کرتے تھے،کیونکہ اُنہیں اِس بات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ اگر دِل سخت ہو جائیں تو پھر نفس گناہوں کی طرف مائل ہونے ، بلکہ گناہ کرنے میں دلیر ہو جاتا ہے،اور بندہ ھلاکت میں جا پڑتا ہے،
اُن بھلےوقتوں کےمُسلمانوں میں ایسے اِیمان والوں کی کثرت تھی جو کسی کوتاہی کے واقع ہونے پر، کسی گناہ کے سر زد ہونے پر اپنے نفس پر گرفت کرتے تھے، اوراُس کوتاہی، اُس گناہ کی وجہ سے  اپنے رب اللہ عزّ وجلّ سے دُور ہو جانے پر تڑپتے تھے، جبکہ اُن لوگوں کی مالی، بدنی ، روحانی عِبادات بہت زیادہ ہوتی تھیں ، اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کی حُدود میں ہوتی تھیں ، اور وہ لوگ حرام سے بچے رہنے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے، اور ہرنیکی میں سے زیادہ سے زیادہ پانے کی کوشش کرتے تھے ،
:::::: دِلوں کی سختی اور کالے ہوجانے  کا  پہلا اور سب سے بڑا بنیادی سبب گناہ ہیں ::::::
گناہوں کا سب سے بڑا ذریعہ اِنسان کے جسم کے اعضاء ہیں ، یہ سب اعضاء اِنسان کی دِل میں کھلنے والی کھڑکیاں ہیں، جن کے ذریعے اِنسان کے دِل میں گناہوں کا اثر داخل ہوتا ہے ، اور دِل میں سے اِیمان کی روشنی ختم ہونے لگتی ہے، اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت اور اطاعت کی مٹھاس اور نرمی ختم ہونے لگتی ہے ، اورگناہوں ، کفر، شرک اور بِدعات کے اندھیرے، کڑواہٹ اور سختی داخل ہوتے ہوتے دِل بالکل پتھر ہو جاتے ہیں،
قارئین کرام ، میں نے ابھی کہا کہ اِنسان کے اعضاءاِنسان کی دِل میں کھلنے والی کھڑکیاں ہیں، جی ہاں ، ایسا ہی ہے،
اب یہ اِنسان پر منحصر ہے کہ وہ اِن کھڑکیوں سے اپنے دِل تک کیا پہنچاتا ہے، خیر یا شر، نیکی یا گناہ،
جیسا کہ آنکھ ، اگر کوئی اِنسان  آنکھ کا اِستعمال حرام دیکھنے میں کرے گا تو اپنے دِل تک اُس حرام کو پہنچائے گا، اور اپنے دِل کو سخت کرتا چلا جائے گا، اندھیر کرتا جائے گا،
اِسی طرح کان ، کہ، اگر کوئی اِنسان اپنے کانوں سے حرام آوازیں سُنے گا تو اپنے دِل کو اُس حرام کی آماجگاہ بناتا چلا جائے گا، اپنے دِل کو سخت کرتا چلا جائے گا ، اندھیر کرتا جائے گا،
اور اگر ایسا ہی کرتا رہا تو ایک وقت آ کر ہی رہے گا کہ اُس کا دِل پتھر کی طرح سخت اور اندھیر ہو کر رہ جائے گا، کوئی خیر، کوئی نیکی اُس پر اثر نہ کر پائے گی،
اور اگر انہی کھڑکیوں سے اپنے دِل تک حلال اور پاکیزہ چیزوں کا صوتی اور صُوری عکس پہنچائے گا تو اپنے دِل کو نرم کرتا چلے گا، روشن کرتا چلے گا،
اِسی طرح ز ُبان، کہ ، اگر وہ ز ُبان کو جھوٹ، غیبت، بے حیائی پر مبنی باتوں، اور اِسی قِسم کی دیگر باتوں کے لیے اِستعمال کرے گا تو اپنے دِل تک اُنہی باتوں کے منفی اور برے اثرات ہی پہنچائے گا، اپنے دِل کو سخت اور اندھیر ہی کرے گا،
اِسی طرح ہاتھ ، کہ ، اگر وہ اپنے ہاتھوں کو  کِسی کی جان، عِزت اور مال وغیرہ لوٹنے ،بلا حق مار پیٹ کرنے، اور دیگر حرام کاموں کی تکمیل کے لیے اِستعمال کرے گا تو  اپنے دِل کو سخت اور اندھیر  ہی کرے گا ،
اِنہی مثالوں کو جسم کے دیگر اعضاء کے بارے میں بھی سمجھیے تو یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ اِنسان کے جسم کے أعضاء اُس کے دِل پر کھلنے والی وہ کھڑکیاں ہیں جو دِل کو نرم ، روشن اور حق قُبُول کرنے والابنانے کا سبب بھی بن سکتی ہیں ، اور سخت، اندھیر اور حق کو قُبُول نہ کرنے اور باطل کو  اپنانے والا بنانے کا بھی ،
ہمیں یہ بات کائنات کے سب سے سچے اِنسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتا دِی ہے کہ ﴿أَلاَ وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ . أَلاَ وَهِىَ الْقَلْبُ ::: خبردار ، اور جِسم میں ایک دھکیلنے والی چیز ہے جو اگر اِصلاح پائی ہو جائے تو سار ا ہی جِسم اِصلاح پا جاتا ہے ، اور اگر اُس چیز میں فساد پیدا ہوجائے تو سارا ہی جِسم فساد والا ہو جاتا ہےصحیح بُخاری /حدیث /52کتاب الایمان/باب32، صحیح مُسلم/حدیث /4178کتاب المساقاۃ    /باب20،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ سلم نے یہ فرمان اِنسان کے دِل کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے ، اور یہ حق ہے ، دِل ہی اِنسان کے جِسم ایسی چیز ہے جِس کی اِصلاح اِنسان کے سارے جِسم کی ظاہری اور باطنی اِصلاح کا سبب ہے ، اور جِس میں فساد بپا ہونا اِنسان کے جِسم میں ظاہری اور باطنی فساد کا سبب ہے ،
پس جب دِل سخت اور کالا ہو جاتا ہے تو پھر وہ ہر لحاظ سے فساد کا سبب ہی بنتا ہے ، اور جن أعضاء نے اُسے اِس حال تک پہنچایا ہوتا ہے وہ أعضاء سب ہی اُس کے تابع ہو کر مزید فساد میں مشغول ہوجاتے ہیں ،
::::::: دِلوں کی سختی کا دُوسرا بڑا سبب ، اللہ کی کتاب کی طرف رُجوع نہ کرنا:::::::
اللہ تبارک وتعالیٰ نے  بنی إِسرائیل کی تباہی کے بہت سے اسباب بیان فرمائے ہیں جِن میں ایک یہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ:::کیا اِیمان لانے والوں کے لیے ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذِکر کے لیے اور جو کچھ اللہ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ، اُس کے لیے ڈر جائیں ، اور یہ اِیمان لانے والے اُن کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اِن سے پہلے  کتاب دِی گئی اور( اُن لوگوں نے اُس کتاب سے تعلق توڑ لیا ،اور اِسی حالت میں اُن لوگوں پر)لمبا عرصہ گذر گیا، تو اُن کے دِل (اللہ کی کتاب سے لا تعلقی کی )وجہ سے سخت ہو گئے،اور (اسی وجہ سے اب )اُن کی اکثریت فاسق ہےسُورت  الحدید(57)/آیت 16،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اِس مذکورہ بالا فرمان میں ہمیں یہ بتایا اور سمجھایا ہے کہ اُس کی کتاب قران کریم سے لا تعلقی دِلوں کی سختی کا سبب ہے جس کا یقینی انجام فاسق ہو جانا ہے ،
اللہ کی کتاب سے لاتعلقی مختلف انداز میں ہوتی ہے ، اُس کتاب کی تلاوت نہ کرنا، اُس کو اللہ کے مطلُوب کے مُطابق سمجھنے کی بجائے اپنی عقل فلسفے اور باطل تاویلات وغیرہ کے مُطابق  سمجھنا، اُس میں نازل فرمودہ احکام کی تعمیل نہ کرنا،یہ سب کچھ اللہ کی کتاب سے لا تعلقی میں آتا ہے ،
اللہ عزّ و جلّ نے اپنی اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ میں ہمیں بنی إِسرائیل کی تباہی کے بڑے سبب ، یعنی دِلوں کے سخت ہوجانے کا سبب بتایا ہے ، تا کہ ہم اِس کو جان اور پہچان سکیں اور اِس کا شِکار ہونے سے بچ سکیں ،
پس ہمیں  اللہ کی کتاب قران کریم کو اپنی زندگی کے ہر ایک معاملے میں پہلا  راہنماءو رہبر بنانا ہی چاہیے اور اُس میں اللہ پاک نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کو اللہ کی ہی مُراد کے مطابق سمجھ کر اُن پر عمل کرتے ہی رہنا چاہیے ، اِسی میں ہماری دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر ، حقیقی عِزت اور کامیابی ہے ،
قارئین کرام ، اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جِس طرح بنی إِسرائیل اللہ تعالیٰ کی قُدرت کی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اللہ عزّ و جلّ اور اُن لوگوں کی طرف بھیجے گئے  اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی بات نہیں مانتے تھے ہم لوگ بھی کچھ اُسی طرح اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کی طرف آنے کی بجائے بے کار، بے ہودہ اورناکارہ قِسم کے فلسفوں، تاویلوں، منطقوں، عقل بازیوں، قیاس آرائیوں، آراء،اور أھواء کا شِکار ہوتے جا رہے ہیں ،
اور اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب قران کریم سے ہماری لا تعلقی اِسی طرح رہی تو معاذ اللہ، دِین کے معاملات میں ہم لوگوں کا حال بھی  بنی إِسرائیل سے مختلف نہ ہو گا ،
دیکھیے جب بنی إِسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مُصیبتوں، پریشانیوں ، تکلیفوں اور امتحانوں میں مبتلا کیا گیا تو اُنہوں نے اللہ کی طرف رُجوع کرنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی والے راستے اپنائے ، جیسا کہ اب ہم کرتے ہیں ، زلزلے آتے ہیں ، سیلاب آتے ہیں ، وبائیں پھوٹتی ہیں تو ہم صَرف مادی وسائل پر ہی بھروسہ اور توکل کرتے ہیں اور اُنہی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم فُلاں فُلاں کام کر کے مستقبل میں اِن مصیبتوں سے بچ جائیں گے اور اللہ کی نافرمانیوں میں کچھ بھی کمی کرنے کا سوچتے تک نہیں ،
ایسا ہی بنی إِسرائیل  بھی کیا کرتے تھے تو اُن کا حال کیا ہوا، اللہ تعالیٰ نے ہی بتایا ہے کہ ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ :::پھر(وہ سب واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی) تم لوگوں کے دل سخت ہوگئے، گویا کہ وہ پتھر ہوں ، یا پتھروں سے بھی سخت، اور پتھروں میں سے کچھ ایسے(بھی) ہوتے ہیں جِن میں سے اللہ کے ڈر کی وجہ سے دریا بہنے لگتے ہیں ، اور کچھ ایسے(بھی) ہوتے ہیں جِن میں سے(اللہ کے ڈر کی وجہ سے)سے پانی نکلنے لگتا ہے،اور کچھ ایسے (بھی) ہوتے ہیں، جو (اللہ کے ڈر کی وجہ سے)لڑھکنے لگتے ہیں، (لیکن تُم لوگوں پر کچھ اثر نہیں ہو رہا )اور  جو کچھ بھی تُم لوگ کرتے ہو، اللہ اُس سے غافل نہیں ہےسُورت البقرہ(2)/آیت74،
::::::: دِلوں کی سختی کا تیسرا بڑا سبب، اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار  نہ کرنا :::::::
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِس مذکورہ بالا  آیت سے پہلے والی آیات میں بنی اِسرائیل کی دِلوں کی سختی کا سبب مُصیبتوں، پریشانیوں ، تکلیفوں اور امتحانوں  میں مبتلا کرناذِکر  فرمایا ہے ،
اور  اپنے کلام مُبارک قران الحکیم میں صِرف اِسی کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ اِس کی حِکمت بھی یہ بیان فرما دِی کہ اِس سے مطلوب اللہ کی طرف رُجوع کرنا ہوتا ہے ، جِس کا سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ ، بلا شک و شبہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ پر اللہ ہی کی مُراد اور مطلوب کے مُطابق عمل کرنا ہے،  جیسا کہ ہمیں ، اُمتء محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کو مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ(715) ::: اور یقیناً ہم تُم لوگوں کو خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور پھلوں (کھیتیوں) کی کمی میں مبتلا کر کے آزمائیں گے ، اور(اے محمد) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے(155)یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی مُصیبت آن پکڑتی ہے تو (اللہ کی طرف رُجوع کرتے ہوئے) کہتے ہیں یقیناً ہم اللہ ہی کے لیے  ہیں(یعنی اُسی کی ملکیت ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور حق کرتا ہے) ، اور یقیناً ہم نے اللہ ہی کی طرف واپس جانا ہے(156)یہ ہیں وہ لوگ جِن پر اُن کے رب  کی مہربانیاں ہوتی ہیں اور اُن  پر رحم  کیا جاتا ہے،اور یہ ہی لوگ ہدایت پائے ہوئے ہیں(715)سُورت البقرہ(2) ،
اور جو لوگ اللہ کی طرف سے  کسی بھی قسم کی انفرادی یا اجتماعی مُصیبت یا امتحان آنے کی صُورت میں اللہ کی طرف رُجوع نہیں کرتے ، بلکہ اپنے مختلف کاموں کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں ، اچھا سمجھتے ہیں اُن کاموں پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں ،
اور ایسا نہ کرنا بھی دِلوں کی سختی اور حق قُبُول نہ کرنے کا ایک بڑا سبب ہے ،
اللہ جلّ و عُلا نے یہ بھی بتایا ہے﴿ فَلَوْلا إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ::: پھر کیوں نہ ہوا کہ جب اُن پر ہماری (طرف سے)سختی آئی تو(اللہ کے سامنے ) عاجزی و انکساری اختیار کرتے ،(لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا)اور اُن کے دِل سخت ہو گئے اور شیطان نے انہیں وہ کام آراستہ کر دکھائے جو وہ کرتے تھےسُورت الانعام(6)/آیت43 ،
اِس آیت مُبارکہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ ، جب دِل سخت ہوجاتے ہیں تو پھر شیطان کو مزید مواقع مل جاتے ہیں کہ وہ اِنسانوں کو اُن کے کاموں کو اچھا کر کر کے دِکھاتا ہے اور اِنسان اپنے اکیلے لا شریک خالق و مالک کی طرف رُجوع کرنے کی بجائے ، اُس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کر کے اُس سے مدد مانگنے کی بجائے اپنے کاموں پر توکل کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اُسے اُسی کی اپنائی ہوئی راہ پر چھوڑ دیتا ہے ، اور وہ شخص شیطان کے فتنے میں پھسنتااور دھسنتا ہی جاتا ہے ،
جی ہاں یہ بھی ہمارے اللہ پاک نے ہی ہمیں بتا دِیا ہے  
﴿ لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ::: (اللہ تعالیٰ  اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے)تاکہ شیطان کی ڈالی ہُوئی خرابی کواُن لوگوں کے لیے آزمائش بنا دے جِن لوگوں کے دِلوں میں (منافقت کی ) بیماری ہوتی ہے ، اور جِن کے دِل سخت ہو چکے ہوتے ہیں ، اور حقیقت تو یہ ہی ہے کہ یہ (اپنی جانوں پر)ظُلم کرنے والے لوگ (حق سے اور اللہ کی رحمت سے )بہت دُور ہو چکے ہیںسُورت الحج(22)/آیت53 ،      
جو لوگ دِلوں کی سختی کا شِکار ہو جاتے ہیں ، اُن کے لیے اللہ  تعالیٰ نے آخرت میں تباہی کی وعید نازل فرمائی ہے ﴿أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ::: کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اِسلام کے لیے کھول دیاہو ،  اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر( چل رہا)ہو، (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا دِل سخت ہو چکا ہو اور وہ اللہ کی باتوں سے کچھ نہ  سمجھتا اورسیکھتا ہو؟ پس)تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جِن کے دل اللہ کی( طرف سے آنے والی) نصیحت(سُن کر بھی) سخت ہو گئے وہ لوگ  واضح  گمراہی میں پڑے ہوئے ہیںسُورت الزُمر(39)/آیت 22،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہمارے سب کو ، دِلوں کی سختی  کے اسباب سمجھنے اور اُن سے بچنے کی ہمت عطاء فرمائے ، اور اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں سے بننے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 16/09/1437ہجری، بمُطابق،21/06/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔