بِسَّمِ اللہِ و الحَمدُ للہِ وَحدہُ
و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبی بَعدہ ُ
اللہ کے نام سے
آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے
لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
::::::: دِلوں میں اِیمان کو تازہ رکھنے کا ایک مجرب نُسخہ :::::::
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
عبداللہ
بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنھُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نےارشاد فرمایا (((((إِنَّ الْإِيمَانَ
لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ الْخَلِقُ،
فَاسْأَلُوا اللَّهَ أَنْ يُجَدِّدَ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ:::بے شک تُم لوگوں کے سینے میں اِیمان مَیل
زدہ ہوتا رہتا ہے جس طرح
کہ کپڑا مَیلا ہوتا ہے ، لہذا تُم لوگ اللہ سے سوال کیا کرو کہ وہ تمہارے
دِلوں میں اِیمان کو تازہ کر دیا کرے))))) المستدرک الحاکم ، صحیح
الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 1590 ،
اللہ
تعالیٰ نے اِیمان والے بندوں کو اس طرح
ایک مسسلسل جِہاد میں ڈال رکھا ہے کہ ہر وقت انہیں اپنے اِیمان کی حالت اور
اُس میں کمزوری کی صورت میں اُس کی تجدید کی مشقت میں رہیں،
اس
حدیث میں ہمیں یہ مذکورہ بالا سبق بھی دیا گیا ہے ، اور یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ
اِیمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ، اور اُس کے گھٹنے کو کِسی کپڑے کے مَیل زدہ ہونے سے
مشابہت دے کر سمجھایا گیا ہے کہ اِیمان پر بھی گناہوں کی مَیل چڑھ جاتی ہے اور اُس کا نُور کم ہوجاتا
ہے ، اُس کی قوت گھٹ جاتی ہے ، اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ اِیمان کے گھٹنے کی صورت
میں اس کی تجدید اور تازگی کے لیے ہمیں اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا ہے،
نیک زمانوں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ """
میں نے اپنے نفس پر چالیس سال تک جہاد کیا یہاں تک کہ وہ اللہ کے دِین پر استقامت
پا گیا """ یہ بات دوسرے بزرگوں تک پہنچی تو انہوں نے کہا
""" اگر اُس کا نفس اِستقامت پا گیا ہے تو اُس کے لیے تو بڑی خوش خبری ہے ، مجھے تو اپنے نفس پر جِہاد کرتے ہوئے چالیس سال سے
زیادہ ہو گئے لیکن وہ اِستقامت والا نہیں ہوا """
یہ
ان لوگوں کا حال تھا جو بلا شبہ ساری اُمت میں سے افضل ترین لوگوں میں سے تھے، اور
جن کا ماحول تاریخء اسلام کے صاف ترین ماحول میں پلے بڑھے تھے ، اور ان کے مجاھدہ
ء نفس کا یہ عالم تھا، توذرا غور فرمایے
کہ آج ہمارے دِل اور اس میں ہمارے اِیمان
کی کیا حالت ہو گی ؟ کہ ہمارے چاروں طرف ہر وقت گمراہ کُن دلچسپیاں اور خیالات اور
مشغولیات ہیں ،
اُس
زمانے میں گناہ کرنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سامانء گناہ حاصل کرنا پڑتا تھا ،
اور اسےاِستعمال کرنے کے لیے کہیں کوئی بہت ڈھکا چُھپا سی جگہ تلاش کرنا پڑتی تھی
، لیکن اب ہمارے زمانے میں تو گناہ
اور برائی خود سے ہمارے دِلوں اور زندگیوں میں گھسی جاتی ہے، صِرف ایک نظر اُٹھایے
، اپنی اُنگلیوں اور ز ُبان کو تھوڑی سے حرکت دیجیے ، گناہ کا سامان میسر ہو جاتا
ہے ، رہا مسئلہ جگہ کا تو اب بے گناہ
زندگی بسر کرنے کے لیے جگہ تلاش کرنا پڑتی ہے ، اِنَّا للہ و اِنَّا اِلیہِ رَاجعُون
،
پس
یاد رکھیے کہ دِلوں کی سختی جو کہ اِیمان کی کمزوری کا بڑا سبب ہے ، اِس سختی کے
بڑے اسباب میں سے ایک سبب ایسے ماحول ومُعاشرے میں رہنا ہے جس میں گناہ کی کثرت ہو
اور اگر گناہ سر عام ہو تو یہ دوہری مصیبت ہے ،
اِس
کمزوری سے بچنے کے لیے سب سے أہم طریقہ اللہ سبحانہ ُ وتعالی کا ذِکر ہے ، جی ہاں
، اللہ کا ذِکر ، اللہ کی محبت اور اللہ
سے خوف اور اللہ کے تقویٰ کو زندہ رکھتا ہے ، مضبوط کرتا ہے، جو اِیمان میں
اضافے اور اُس کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے ،
اور
اللہ کے ذِکر کا سب بڑا اور بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ اللہ کی کتاب قران الکریم
کا تدبر کے ساتھ مُطالعہ ہے ،
ذِکر
و عِلم کی محفلیں ، اہل اللہ عُلماءکی
مجالس ، اللہ کی مخلوق میں غور و فِکر ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث مُبارک کے مُطابق اللہ سے
دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب مذکورہ بالا
نیک کام کرنے سے اِیمان پر لگ جانے والی
مَیل کچیل صاف ہوتی ہے اور اِیمان کی
تجدید اور تازگی ہوتی ہے ،
اور
اپنے لُطف و کرم سے اللہ تعالیٰ ایسے
لوگوں کے دِلوں میں اِیمان کو محبوب بنا دیتا ہے جو اِیمان کو اپنے دِلوں میں قائم
رکھنے ، ز ُبانوں پر جاری رکھنے ، اور اپنے اعمال میں ظاہر رکھنے کی کوشش کرتے ہی
رہتے ہیں ،
یہاں یہ بات خُوب یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ کا ذِکر عِبادت ہے اور اللہ کے ہاں
کوئی عِبادت بھی اِخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت
مبارکہ کی موافقت کے بغیر قُبول نہیں ہوتی ، لہذا ، اللہ کے ذِکر سے مُراد خود ساختہ، اور
ایسے اذکار، چِلّہ کشیاں ، اوراد، اور
عِبادات ہر گِز نہیں ہیں ، جِن کی کوئی تائید و تصدیق اللہ پاک ، یا اُس کے خلیل
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے مُیسر نہ ہو ، اور ہی صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کی طرف سے ،
لہذا ذِکر کرتے ہوئے خود ساختہ اوراد ، چلّے ، نامکمل عبارات جیسا کہ اللہ
تبارک و تعالٰی سے کچھ مانگے بغیر اُس کے ناموں سے اُسے بس پکارتے رہنا ،وغیرہ ، سے دُور رہیے ،
اللہ تعالیٰ ہمیں اُن اِیمان
والوں میں سے بنائے جو اپنے اِیمان کی حالت کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں اور اُس کی
صفائی ، تازگی اور قوت کو برقرار رکھنے کی
کوشش میں رہتے ہیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و
برکاتہ،
طلب گارء دُعا ء ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 18/01/1432ہجری، بمُطابق،24/12/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل
ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔