Thursday, September 28, 2017

::::: یہ ہے غیرتِ مُسلماں جو قصہء پارینہ ہوئی :::::

::::: یہ ہے غیرتِ مُسلماں جو قصہء پارینہ ہوئی  :::::
 286 ہجری میں الری کے قاضی مُوسیٰ بن اِسحاق کی عدالت میں ایک عورت نے اپنے خاوند کے خِلاف مقدمہ دائر کیا کہ اُس کے خاوند  نے اُس کا طے شُدہ مہر پانچ سو دینار ابھی تک ادا نہیں کِیا ،
قاضی صاحب نے عورت کے وکیل سے گواہ طلب کیے ، گواہوں کے آنے پر قاضی صاحب نے کچھ گواہوں کو کہا کہ" وہ عورت کو دیکھ لیں تا کہ گواہی کے دوران اُس کی طرف اِشارہ کر کے اپنی بات کریں" ،
 اور عورت کو حُکم دِیا کہ وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو جائے ،
یہ سب کچھ دیکھ کر اُس عورت کے خاوند نے پوچھا " یہ سب کیا اور کیوں کیا جا رہا ہے ؟"،
عورت کے وکیل نے بتایا " گواہی کی دُرُستگی اور تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ گواہان تمہاری بیوی کو دیکھ کر گواہی دیں
یہ جان کراُس شخص نے کہا"قاضی صاحب میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میری بیوی کا دعویٰ سچا ہے ، اِس کا چہرہ بے پردہ نہ کیا جائے "،
یہ سُن کر عورت نے کہا"قاضی صاحب میں آپ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میرا جو مہر میرے خاوند کی طرف واجب الادا ہے وہ میں اُسے دُنیا اور آخرت میں معاف کرتی ہوں
قاضی صاحب اُن دونوں  کی غیرت و حیاء سے شدید متاثر ہوئے اور کہا " یہ واقعہ بہترین (اِسلامی)اخلاق والے واقعات میں لکھ لیا جائے " ،
(بحوالہ : تاریخ بغداد و ذیولہ، ترجمہ رقم 7022، مُوسىٰ بن إسحاق بن مُوسىٰ بن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بن يزيد، أبو بكر الأنصاري الخطمي،
کیا خوب کہا ہے کسی نے ::: أصونُ عِرضی بِمَالی لا أُدنِّسُہُ   :::  لا بارکَ اللَّہُ بعد العِرضِ بالمَالِ
میں اپنے مال سے اپنی عِفت کی حفاظت کرتا ہوں نہ کہ اُسے گندہ کرتا ہوں  :::  اللہ اُس مال میں برکت نہیں دیتا جو عِفت جانے کے بعد رہ جائے ،
کیا اب ہمارے مُسلم معاشرے میں کہیں ایسی غیرت اور حیاء کی کوئی رمق سُجھائی بھی دیتی ہے ؟
سچ ہی کہا گیا ہے کہ :
ماتت الغَیرۃ عِند الرَّجال ، فأنتَحرت الحیاء عِند النِساء
مَردوں کے ہاں غیرت مر گئی، تو عورتوں کے ہاں حیاء نے خود کُشی کر لی ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔