Thursday, October 5, 2017

::: ختم ءنبوت کے حلف میں ترمیم سے میں نے کیا سیکھا ؟ :::

::: ختم ءنبوت کے حلف میں ترمیم سے میں نے کیا سیکھا  ؟  :::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
ہمارے ’’’ اِسلامی  جمہوریہ پاکِستان‘‘‘ کی’’’ مُسلم اکثریت ‘‘‘ پر مبنی ’’’ مُسلم حکومت ‘‘‘ نے اپنے ’’’ غیرت مند مُسلمان‘‘‘ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ، اپنی حقیقت پر سے مزید پردہ اُٹھاتے ہوئے ،  واضح کر دِیا ہے کہ اُس حکومت میں شامل ، اُس حکومت کی مجلسوں (پارلمینٹس ، اسمبلیز) میں جا کر بیٹھنے والے سب ہی لوگ خواہ وہ دِین داری کے لبادے میں ہوں یا دُنیا داری کے پیرہن میں ، سب  کے سب  میرے وطن کے تقریباً سب ہی باسیوں کی طرح ذِہنی غُلام ہیں ،
جِنہوں نے اِن مجلس نشینوں کو چُنا وہ اِن کے غلام ہیں ، اور یہ مجلس نشین اُن کے غلام ہیں جِن کے اِشاروں پر وہ حرکت کرتے ہیں ،
اِس موضوع پر بہت سے احباب بہت کچھ کہہ چکے ،  اور کہہ رہے ہیں ، اور کہیں گے کہ ، ہمارے ’’’اِسلامی‘‘‘ پاکِستان کے آئین میں ، کِسی قِسم کے حلف نامے یا  اقرار نامے کے اِلفاظ میں تبدیلی کرنے سے آئینی ،قانونی اور دُنیاوی  طور پر کِس کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے ،  اور یہ سب کچھ کیوں کیا گیا ؟
میں اِس بحث میں داخل  نہیں ہونا چاہتا کیونکہ یہ بہت واضح ہے کہ یہ سب کچھ صِرف ایک ایسے شخص کی سربراہی کو بحال کرنے کے لیے  کیا  گیا جو  آئینی اور قانونی طور پر  سیاست و سیادات کے لیے نا اھل قرار پا چکا ، اور سیاست و سیادات بھی وہ جو فقط دُنیا کی غلاظتوں میں لُتھڑی ہوئی ہے ،
میں  تو اپنے ہم وطنوں کی توجہ اِس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ذرا اپنی ذہنی غُلامی کا معیار پہچانیے ،  اپنے اِیمان کو جانچیے ،
کیا واقعتا آپ آزاد ہیں ؟
ہم سب  اکثر اِس قِسم کی باتیں کرتے ہیں کہ ’’’ اللہ کو حساب دینا ہے ‘‘‘،
کیا واقعتا  ہم  روزء حساب پر اِیمان رکھتے ہیں ؟
اگر ہاں تو پھر یہ سوچیے کہ جب اللہ عزّو جلّ کے سامنے حاضری ہو گی اور یہ سوال ہو گا کہ ، ہم نے بتا دِیا تھا کہ ہم نے ہمارے رسول محمد  کو تم لوگوں کے پاس اِس لیے بھیجا تھا کہ ((( لِتُؤمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکرَۃً وَاَصِیلاً::: تا کہ تُم لوگ اللہ پر اِیمان لاؤ اور رسول پر اور میرے رسول کی عِزت کرو اور اُس کی توقیر کرو اور صُبح اورشام اللہ  کی پاکیزگی بیان کرو)))[1]
تو تم لوگوں نے کیا کِیا؟؟؟ میرے رسول کی کیا عِزت  کی؟؟؟ میرے رسول کی کیا توقیر کی ؟؟؟
تمہارا اِیمان ، تمہاری حُبء رسول تو تمہارے اختیار کردہ لیڈرز، جماعتوں ، اور افکار کے غلام تھے ، کہ میرے رسول کی رسالت کے بعد میری طرف سے کوئی دلیل کوئی بُرھان  نہ ہوتے ہوئے ، بلکہ میرے فرمان  (((مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا::: محمد تم لوگوں میں سے کسی  بھی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول ہیں ،  اور سب نبیوں کے (سلسلے کا  )اختتام کرنے والے ہیں ، اور الله ہر بات  کو خُوب عِلم رکھتا ہے))) [2]،  کا کُفر کر تے ہوئے کِسی اور کو نبی ماننے والوں کا ساتھ دینے والوں کو اور تمہاری دُنیا اور آخرت لوٹنے والوں  کو اپنا راہبر بنائے رکھا ،  اور یہاں تک جا پہنچے کہ ایسے کفار کو اپنے سربراہ بنا لینے پر بھی راضی ہو گئے ،
یہ سوال ہر ایک مُسلمان سے ہونا ہے ، خواہ وہ کِسی بھی مسلک و مذھب کا سالک رہا ہو، کیونکہ سب کا نبی ایک وہی آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہے ، جِس کے بعد نہ کوئی نبی تھا نہ کوئی معصوم ،
پس میرے بھائیوں ، میری بہنو،  اپنی آخرت کی فِکرکرتے ہوئے ، اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عِزت و توقیر کے لیے ، اُن لاکھوں لوگوں کی قُربان کردہ جانوں ، مال، اور عِزتوں کی تکریم کرتے ہوئے ، جنہوں نے ’’’ پاکِستان کا مطلب کیا ، لا اِلہَ اِلا اللہ ‘‘‘ کے لیے قُربانیاں دِیں ، اپنے اِس نام نہاد ’’’اِسلامی‘‘‘ پاکستان پر کِسی کافر، کِسی چور، کِسی لُٹیرے کی سربراہی کے امکانات تک بھی نہ ہونے دیجیے ،
یاد رکھیے ، بلکہ یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی بھی دُوسرا آپ کے کِسی کام نہیں آئے گا ، اور یہ بھی یاد رکھیے یہ جِس نام نہاد جمہوریت کے لیے آپ اپنی دُنیا اور آخرت کی رسوائیاں مول لے رہے ہیں یہ آپ جمہور کی آزادی کا خاتمہ ہے ،
دیکھیے جِن لوگوں کو آپ اپنے راہبر اپناتے ہیں وہ آپ کو کون سی راہوں پر دھکیلے چلے جا رہے ہیں ؟
اپنے اذہان کو اِس غلامی سے آزاد کروایے ، اپنے قُلوب کو اِس غلامی سے پاک کیجیے ، اللہ جلّ و عُلا اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غُلامی اپنایے ، اِسی میں دُنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی ہے ،
آج ہم بحیثت قوم اپنے  رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان کے عین مُطابق دِکھائی دے رہے ہیں کہ  (((یُوشِکُ الاُمَمُ اَن تَدَاعَی عَلَیکُم کما تَدَاعَی الاَکَلَۃُ اِلی قَصعَتِہَا ::: بہت قریب ہے کہ(کافر)قومیں تُم لوگوں کے خِلاف (ہر قِسم کی کاروائیاں کرنے کے لیے )اِس طرح ایک دوسرے کو دعوت دیں گی جیسے کھانا کھانے والوں کو اُس کے حلقے (دستر خوان ) کی طرف دعوت دی جاتی ہے)))،
 کِسی(صحابی رضی اللہ عنہ ُ) نے عرض کیا """ کیا ہم لوگ اُس دِن(یعنی اُس وقت تعداد میں)کم ہوں گے ؟"""،
 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشادفرمایا((( بَل اَنتُم یَومَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُم غُثَاء ٌ کَغُثَاء ِ السَّیلِ وَلَیَنزَعَنَّ اللَّہ من صُدُورِ عَدُوِّکُم المَہَابَۃَ مِنکُم وَلَیَقذِفَنَّ اللَّہ فی قُلُوبِکُم الوَھنَ::: (نہیں )بلکہ تُم لوگ تو اُس وقت دِن (یعنی اُس وقت )بہت زیادہ ہوگے، لیکن تُم لوگ سیلاب کی (یعنی سیلاب کے پانی میں بہنے والی ) بُھس (خشک گھاس پھونس )کی طرح ہو گے ، اور ضرور اللہ تعالیٰ تُمہارے دُشمنوں کے دِلوں میں سے تُمہارا خوف اُتار دے گا اورضرور اللہ تُم لوگوں کے دِلوں میں وھن ڈال دے گا )))،
تو کِسی(صحابی رضی اللہ عنہ ُ)نے عرض کِیا """اے اللہ کے رسول اوریہ وھن کیا ہے ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِرشاد فرمایا(((حُبُّ الدُّنیَا وَکَرَاھِیَۃُ المَوتِ:::دُنیا کی محبت اور موت سے کراہت (یعنی ناپسندیدگی)))[3] ،
جی ہاں، یہ حقیقت  آج واقعاتی طور پر ثابت ہو رہی ہے ، کہ ، مُسلمانوں کی بہت ہی بڑی اکثریت اِس بیماری کا شِکار نظر آ رہی ہے ، ہر طرف سے کافر  اور اُن کے حلیف نام نہاد مُسلمان ایک دُوسرے کو دعوت دے دے کر مُسلمانوں کے خِلاف کاروائیاں کر رہی ہیں ، کہیں مُسلمان کی قدامت پسندی کے خِلاف ، کہیں مُسلمان کی بُنیاد پرستی کے خِلاف ، کہیں مُسلمان  عورت   کے پردے کو اُس کے لیے قید کہہ کہہ کر، اور کہیں مُسلمان عورت کی پردہ داری کی وجہ سے اُس مُسلمان عورت کو بے وقعتی کہہ کہہ کر، کہیں مُسلمانوں کی غیر سُودی معیشت کے خِلاف ، کہیں قُران کریم کے خِلاف کہ وہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ، کہیں مُسلمانوں کے دِینی مدراس کے خِلاف کہ وہاں دہشت گرد بنائے جاتے ہیں ،اور  کہیں مُسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف کہ اُن کی رسالت و نبوت میں حصہ دار اور اُن کے بعد بھی کِسی اور کو نبی یا رسول ماننے والوں کو اپنے بھائی  کہہ کر ، ایسے لوگوں کو اپنے راہبر بنا نے کے راستے کھو ل کر ، ،،،،،
اور ہم مُسلمان محبتِ رسول  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دعوے کرتے ہوئے اِک دُوجے کا گریبان پھاڑنے میں مشغول ہیں ، اللہ کے واسطے اپنے لا یعنی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجیے ، اپنی اپنی جماعتوں اور لیڈرز کے چنگل سے نکل آیے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی فتح و نصرت والا راستہ اپنایے کہ در حقیقت یہی راستہ آپ کی دُنیا اور آخرت میں آپ کے لیے فلاح و کامیابی والا راستہ ہے ،
اور یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ حکومت کا اِس ترمیم کو واپس کر دینا ، اُس بےہودگی کا خاتمہ نہیں ہے جو اِس ترمیم کا سبب و محرک ہے ، چور ، بد دیانت ، جھوٹے ، مُنافق ، اور اِسلام دُشمن لوگ اپنی کاروائیوں میں مسلسل مشغول ہیں ، اور مشغول رہیں گے ،  حق و باطل، حلال و حرام ، جائز و ناجائز کی یہ معرکہ آرائی قیامت تک ہوتی رہے گی،
ہمیں اپنے اِرد گِرد ، پائے جانے والوں میں سے  حق  کی اِتباع کرنے والوں کو پہچاننا ہی ہو گا ، اور اُس کا ہی ساتھ دینا ہو گا ، ورنہ آخرت سے پہلے دُنیا کی ذِلت و رُسوائی  ، بے سُکونی اور پریشانی کے عِلاوہ کچھ اور نہ پائیں گے،
اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے  اُس کے سامنے حاضر ہو کر اُس کی رضا پانے والوں میں سے بنائے ، والسلام علیکم ،
طلب گارء دُعاء ،
 عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 14/01/1338 ہجری، بمُطابق، 04/10/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]   سُورت الفتح(48)/آیت 9،
[2]   سُورت الاحزاب (33)/آیت 40،
[3]   سُنن ابن ماجہ /حدیث 4297/کتاب الملاحم /باب5 ، السلسلۃ الصحیحۃ / حدیث 958،

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔