Thursday, March 1, 2018

::: اللہ ہماری تو سُنتا ہی نہیں ،دُعاء قُبول ، نہ قُبول ہونے کے اسباب :::


 

::: اللہ ہماری تو سُنتا ہی  نہیں ،دُعاء قُبول ، نہ قُبول ہونے کے اسباب :::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم

الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،

شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،

سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،

السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،

اکثر لوگوں کی یہ شکایت سُننے میں آتی ہے کہ ’’’ اللہ ہماری  تو سُنتا ہی نہیں ‘‘‘ یہ بات کلمہ کفر ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ اور ہر بات ہر آواز سننے کی صفت کا اِنکار ہے ،

افسوس کہ لا علمی کی وجہ سے،  اور کبھی تعصب کی وجہ سے ہم اپنے اکیلے لا شریک معبودِ حق اللہ تقدس أسماوہ  کے ناموں اور صِفات کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں کہ وہ ’’’تعطیل ::: یعنی اُس نام یا صِفت کو ختم ہی کر دینے والی ‘‘‘ ہوتی ہیں ، اور پھر اُن تاویلات کو دُرست ثابت کرنے کے لیے مزید تاویلات کی جاتی ہیں ، یہاں تک یہ سلسلہ لا متناہیت کی شکل اختیار کیے نظر آتا ہے ،

بے شک  اللہ ہی جِسے چاہتا ہے حق قُبُول کرنے کی ہمت و حوصلہ عطاء کرتا ہے ،

 شیطانی وساوس میں سے ایک وسوسہ ہمیشہ سے اِنسان کو گھیرے ہوئے ہے ﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ:::اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا اُس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں ہم تو اُس کی پیروی کریں گے جِس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور چاہے اُن کے باپ دادا نہ کِسی بات کی سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پائے ہوئے ہوں سُورت البقرۃ(2) /آیت 170،

آج ہم بھی اِسی قِسم کے جوابات دیتے ہیں ، کہ ، ہمارے عُلماء کا یہ کہنا ہے اور تُمہارے عُلماء کا یہ کہنا ہے ،

 لہذا ،   یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ  اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا کیا ہے ؟؟؟

ہم اپنے اپنے عُلماء کی تشریحات پر موقوف ہیں اور کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ اور رسول اللہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا معنی   ٰ ، مفہوم اور مقصود خود اللہ کے کلام میں کیا ملتا ہے  ؟؟؟

اللہ کے رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور عملی سُنّت میں کیا ملتا ہے؟ ؟؟

 اللہ تعالیٰ  کی طرف سے چنی گئی صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے  اقوال و افعال میں کیا ملتا ہے ؟؟؟

ز ُبانی طور پر ہم خواہ کچھ بھی دعوے کرتے رہیں ، لیکن عملی طور پر  اِن سب سوالات کے لیے  ہمارا جواب وہی ہے کہ ﴿ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ، یعنی ، عملی طور پر ہم یہی کرتے ہیں کہ  ہمارے لیے ہمارے بزرگ اور  عُلماء اور تُمہارے لیے تُمہارے بزرگ اور  عُلماء ، اِنّا لِلَّہِ و اِنَّا إِلیہِ رَاجِعُون ،  إِلیہِ نَشتکی و ھُو المُستعان ،

ہم مُسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید میں سے اللہ کے ناموں اور صِفات کی توحیدمیں سب سے زیادہ انحراف کا شِکار کیا گیا ہے اور اِس کا بڑا بنیادی  سبب فلسفہ اور عِلم الکلام وغیرہ کے اثر کو قران و سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کی حُدود سے خارج ہو کر سمجھنا اور قُبُول  کرنا  ہے ، اور اپنی اپنی عقلوں کو کسوٹی بنانا ہے ،

 پس ہماری صفوں میں ایسے لوگ پائے گئے اور پائے جاتے ہیں جو اللہ کی صِفات کا اِنکار کرتے ہیں ، واضح طور پر نہیں تو عجیب و غریب غلط تاویلات کے ذریعے ، ایسی تاویلات  جو قران و صحیح سُنّت کے خِلاف ہیں ، اور اِن صِفات میں سے ایک کا اِنکار اِس طرح کیا جاتا ہے کہ ’’’’’ اللہ ہماری تو سُنتا ہی نہیں ‘‘‘‘‘

 اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں چالیس دفعہ یہ خبر دی ہے کہ وہ  ’’’’’ سمیع ‘‘‘‘‘ یعنی سننے والا ہے ،

اور صرف ’’’’’ سمیع ‘‘‘‘‘ ہی نہیں ، بلکہ ، ’’’’’ سمیعٌ بصیرٌ ::: سُننے والا دیکھنے والا ، یعنی سب کچھ دیکھ بھی رہا ہے اور سُن بھی رہا ہے ‘‘‘‘‘ ،

’’’’’ سمیعٌ عَلِیمٌ ::: یعنی سب کچھ سنتا بھی ہے اور جو کچھ کہا جاتا ہے، اور  کیوں کہا جاتا ہے ، اور جو کچھ نہیں کہا جاتا دِلوں اور دِماغوں میں رہتا ہے وہ  سب ہی کچھ جانتا ہے ‘‘‘‘‘ ،

  اور’’’’’ سمیعٌ قَرِیبٌ ::: سُننے والا اور بہت نزدیک ہے ‘‘‘‘‘  ،

اور  ’’’’’ سمیعُ الدُّعاء ::: دُعاء سُننے والا ہے ‘‘‘‘‘ ،

 یعنی جب اللہ تعالیٰ کو  اُس کے ناموں میں سے کِسی نام کے ساتھ پُکارا جاتا ہے ، دُعاء کی جاتی ہے تو اللہ یقینا وہ دُعاء سنتا ہے ،( یہاں یہ معاملہ بھی خُوب اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے والا کہ ،   اگر کِسی اور نام سے اللہ کو پکارا جائے تو وہ اُس  پکار، اُس دُعاء کو  بھی سنتا ہے لیکن اُس دُعاء کی قُبُولیت نہیں ہوتی، لہذا کِسی مَن گھڑت خود ساختہ جھوٹے باطل معبود کو، جیسا کہ ’’’ خُدا ‘‘‘ ہے ،  ایسے باطل معبود سے کی گئی دُعاء ، اللہ کو ایسے نام سے پُکار کر کی گئی دُعاء جو نام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں  نہیں ، اللہ  ایسی دُعاء بھی سُنتا ہے ، لیکن اُس دُعاء کو  اپنی رضا کے ساتھ قُبول نہیں کرتا، جی، یہ عین ممکن ہے اللہ تعالیٰ کِسی ایسی پُکار ، ایسی دُعاء کرنے والے کا وہ کام پُورا کروا دے جس کا اُس شخص نے سوال کیا ہو، لیکن یہ اللہ کی رضا کے ساتھ نہیں ہوتا ، یہ کچھ ایسا ہی جیسا کہ کوئی غیر مُسلم اپنے کِسی باطل معبود سے دُعاء کرتا ہے اور اُس کا وہ کام پورا ہو جاتا ہے ، بے شک وہ کام ہوتا تو اللہ کی مشئیت سے ہی ہے، لیکن اُس شخص کی باطل معبود سے کی گئی دُعاء  کی تکمیل میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہوتی، کیونکہ کِسی باطل معبود کو پُکارنا ، کِسی باطل معبود کا نام اللہ کو دے کر اُس نام سے اللہ کو پُکارنا ، اللہ سے دُعاء کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خِلاف ورزی ہے لہذا اِس میں اللہ کی رضا کا شامل ہونا ممکن نہیں ، اِس موضوع کو سمجھنے کے لیے میرے مضمون ’’’ اللہ نہیں خُدا ‘‘‘ کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ مسئلہ وضاحت سے سمجھ میں آجائے گا ، اور اِن شاء اللہ خیرکا سبب ہو گا ،

یہ مضمون درج ذیل ربط پر مُسیر ہے : http://bit.ly/1pRDuWN      ‘‘‘‘‘ ،

محترم سامعین ، خُوب اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ،  اللہ تعالیٰ کی ذات ، ناموں اور صِفات کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کِسی فرمان کے خِلاف ہو ، نا جائز ہے ، خواہ کہنے والا کا مقصد کچھ بھی ، بات ذو معنی  ٰ  نہیں ہونی چاہیے ، صاف صاف واضح بات کی جانی چاہیے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دِیا ہے کہ ﴿ إذا قُمتَ فی صَلَاتِکَ فَصَلِّ صَلَاۃَ مُوَدِّعٍ ولا تَکَلَّم بِکَلَامٍ تَعتَذِرُ مِنہ ُ غَداً ، وَأَجمِع الیَأسَ عَمَّا فی أَیدِی النَّاسِ ::: جب تُم نماز میں کھڑے ہو تو اِس طرح نماز پڑہو گویا کہ وہ تُمہاری آخری نماز ہے اور ایسی بات مت کرو جِس کی وجہ سے کل کو (لوگوں کے سامنے )عُذرپیش کرنے پڑیں (کہ میرے کہنے کا مقصد یا مطلب یہ تھا ، وہ تھا وغیرہ )، اور جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اُس (حاصل کرنے )سے مایوسی اختیار کیے رکھومُسند احمد /حدیث 23545/ حدیث ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ  کی پہلی حدیث ،سُنن اِبن ماجہ /حدیث4171/کتاب الزھد /باب 15،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث401،

لہذا ہمیں اپنی پر بات ہر ممکن حد تک اتنی صاف اور واضح رکھنی چاہیے کہ سننے پڑہنے والوں کو بالکل وہی معنی  ٰ و مفہوم سمجھ آ جائے جو ہم نے کہا ، نہ کہ ایسی بات کہ جِس کی تشریح اور مفہوم کی بعد میں وضاحت کرنی پڑے اور اُس کے منفی پہلوؤں اور مفاہیم پر معذرت کرنا پڑے ،  کہ جی  نہیں ، ہم خُدا سے مُراد اللہ لیتے ہیں ، ہم خدا کو ،یا یزداں کو پکارتے ہیں تو اُس سے مُراد اللہ کی ذات ہوتی ہے ، یا ،،یہ کہ خُدا تو اللہ کے نام کا ترجمہ  ہے ،، وغیرہ وغیرہ، 

اِن سب تاویلات و تشریحات میں داخل ہونے کے سبب کو ہی ختم کیجیے ، اور اللہ تعالیٰ کو اُس کے اُن ناموں سے ہی پکاریے ،  جو نام اُس نے اپنے لیے بتائے ہیں ،یا اپنے آخری رسول اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروائے ہیں،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُس کی  توحید سمجھنے ، اُسے ماننے ، اپنانے ، کی توفیق عطاء فرمائے ،

 اپنی اِس رواں  گفتگو کے موضوع کی طرف واپس آتے  ہیں ،

اور اللہ جلّ جلالہ ُ کے کچھ فرامین مُبارکہ پڑھتے اور سمجھتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،

اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے  اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ::: کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دِن کی روشنی میں کھلم کھلا چلے پھرے (اللہ تعالی کے لیے سب ہی کیفیات) برابر ہیں سورت الرعد(13)/آیت10،

اور اِرشاد فرمایا ہے کہ  ﴿ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا::: یقیناً اللہ نے اُس عورت کی بات سُن لی ہے جو اپنے خاوند کی شکایت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ  جھگڑے جیسی گفتگو  کر رہی تھی ، اور اللہ سے شکوہ کر رہی تھی، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا سورت المجادلۃ(58)/آیت1،

الحمد للہ، ہم نے  اللہ پاک کے کلام کے ذریعے ہی یہ جان لیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ، سمیعٌ بصیرٌ ہے ،اور سمیعٌ عَلِیمٌ   ہے ،اور سمیعٌ قَرِیبٌ   ہے ،  اور سمیعٌ الدُّعاء   ہے ، 

لہذا  یہ کہنا کہ’’’ اللہ ہماری تو سُنتا نہیں ‘‘‘  اللہ تبارک و تعالی کی ایک ایسی صِفت کا اِنکار ہے جِس صِفت کے دائمی طور پر موجود اور فعال ہونے میں کِسی ادنی   ٰ سے شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں ،

’’’ اللہ ہماری تو سُنتا نہیں ‘‘‘ کہنے والے ایک تاویل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایک اور تاویل کرتے ہوئے ، اپنی اِس بات کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ ’’’ اُنکی دُعائیں قُبُول نہیں ہوتیں ‘‘‘،

 ایسا کہنے والے ہمارے مُسلمان بھائی اور بہنیں نہ تو پہلی بات کا خطر ناک انجام جانتے ہیں اور نہ ہی اپنی اُس بات کی اِس تاویل کاسبب ، کہ کیوں کِسی کی دُعا قُبُول نہیں ہوتی ،   

اِس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ، ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ،دُعاء کی قُبولیت کے کیا  أسباب  ہیں  ؟؟؟

اور ،

دُعاء قُبول نہ ہونے کے کیا أسباب ہیں ؟؟؟

تا کہ ہم اپنی دُعاؤں کی حقیقت پہچان سکیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی کِسی صِفت کے انکار پر مبنی کوئی کفریہ بات کہنے کی بجائے  اپنی کمی کو دُور کر سکیں ،

اگر میں اِن اسباب کو تفصیل سے بیان کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی ، لہذا میں مختصر طور پر اِن کا ذِکر کروں گا اِن شاء اللہ،

::: دُعاء کی قُبُولیت کے دو  أہم بُنیادی أسباب :::

::::: (1) :::::   اللہ تبارک و تعالیٰ   سے قُبُولیت  کے  مکمل یقین  کے ساتھ دُعاء کی جائے  ،

::::: (2)  :::::  اللہ عزّ و جلّ کی  طرف مکمل توجہ سے ، دِل و دماغ کی حاضری کے ساتھ دُعاء کی جائے ،

:::::  دلیل  ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لاَهٍ::: اللہ سے  قُبُو لیت کے مکمل یقین کے ساتھ دُعاء کرو، اور  جان لو کہ اللہ  غافل اور بے توجہ  دِل  سے (کی گئی ) دُعاء قُبُول نہیں فرماتا سُنن الترمذی /حدیث /3814کتاب الدعوات/باب 66،إِمام البانی رحمہُ اللہ نے "حَسن " قرار دِیا ،تفصیل کے لیے دیکھیے ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث رقم 594،

دِل کی بے توجہی ، اور غفلت کا بنیادی  سبب  گناہ  ہیں ، اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی ذات شریف ، اور  صِفات مُبارکہ کے عِلم نہ ہونا، یا ، ٹھیک سے عِلم نہ ہونا، یا ، اُن پر مکمل یقین نہ ہونا ہے ،

الحمد للہ ، اِس موضوع کو ’’’ اللہ  کے ہاں دُعاء کی قُبولیت کے    نُسخہ جات  ‘‘‘  میں الگ سے بیان کیا  گیا ہے، جو درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :

http://bit.ly/2Gy2XTd    

::: دُعاء کی قُبولیت کی ایک  اہم شرط :::

دُعاء کی قُبُولیت کے لیے کچھ شرطیں ہیں ، آئیے اُن میں ایک اہم ترین شرط کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کرتے ہیں  ، اور وہ شرط ہے ’’’ حلال رِزق ‘‘‘ ،

جی ہاں ’’’ حلال رِزق ‘‘‘ ، جِس کے بارے میں آج مُسلمانوں کی اکثریت غفلت اور کوتاہی کا بُری طرح شِکار ہے ،

 یاد رکھیے کہ ’’’ رِزق ‘‘‘   صِرف مال و دولت ہی نہیں، بلکہ اِنسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے ، جو کچھ بھی وہ حاصل کرتا ہے وہ سب اُس کا رِزق ہو تا ہے ، اور مُسلمان اِس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی ہر ممکنہ کوشش کر کے صِرف حلال چیزیں حاصل کرے ،  اور اپنے معاملات کو حلال    طور طریقوں پر رہتے ہوئے مکمل کرے ،

اگر کِسی کی اپنی کمائی تو حلال ہو ، لیکن اُس  حلال کمائی سے وہ حرام خوراک اور لباس اِستعمال کرتا ہو ، تو یہ حرام خورا ک جو اُس کے جِسم کا حصہ بن  جاتی ہے ، اور  حرام لباس  جو اُس کے جِسم پر چڑھا ہوتا ہے  ، اور لوگوں کے حقوق جو  وہ غصب کیے ہوتا ہے ، اِن سب کی موجودگی میں دُعا ء کے لیے  قُبُولیت کے دروازےنہیں کُھلتے ،

:::::  دلیل  ::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿ أَیُّہَا الناس إِنَّ اللَّہَ طَیِّبٌ لَا یَقبَلُ إلا طَیِّبًا وَإِنَّ اللَّہَ أَمَرَ المُؤمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِہِ المُرسَلِینَ فقال ﴿  یا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا من الطَّیِّبَاتِ وَاعمَلُوا صَالِحًا إنی بِمَا تَعمَلُونَ عَلِیمٌ وقال ﴿  یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا من طَیِّبَاتِ ما رَزَقنَاکُم ثُمَّ ذَکَرَ ﴿  الرَّجُلَ  یُطِیلُ السَّفَرَ أَشعَثَ أَغبَرَ یَمُدُّ یَدَیہِ إلی السَّمَاء ِ یا رَبِّ یا رَبِّ وَمَطعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بِالحَرَامِ فَأَنَّی یُستَجَابُ لِذَلِکَ ::: اے لوگو بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (چیز ، عمل و قول ) کے عِلاوہ کچھ قُبُول نہیں کرتا ، اور بے شک اللہ نے اِیمان والوں کو وہی حُکم دِیا ہے جو رسولوں کو دِیا اور فرمایا ﴿ اے رسولو  ، پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو بے شک تم جو کچھ کرتے ہو میں اُس کی خوب خبر رکھتا ہوں اور فرمایا ﴿ اے اِیمان لانے والو ہم نے جو پاک رزق تمہیں دِیا ہے اُس میں سے کھاؤ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذِکر کہ کہ ،  وہ بہت لمبا سفر کرتا ہے جِس میں اُسکے سر اور پاؤں مٹی سے بھر جاتے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بُلند کر کے پُکارتا ہے اے میرے رب ، اے میرے رب ، لیکن اُسکا کھانا حرام (میں سے ) ہوتا ہے ، اور اُسکا پینا حرام (میں سے ) ہوتا ہے ، اور اُسکا لباس حرام (میں سے ) ہوتا ہے ، اور وہ حرام سے پلا ہوا ہوتا ہے تو بھلا اِسکی دُعا کیسے قُبُول ہو گی صحیح مُسلم/حدیث 1015 /کتاب الزکاۃ /باب 19،

حرام کمائی کا ذِکر ہوا ہے تو مختصر طور پر کچھ ایسے حرام ذرائع معاش(کمائی کے طریقوں ) کا ذِکر کرتا چلوں جنہیں ہماری اکثریت  اپنے رب  اللہ جلّ وعُلا   کے    دِین سے دُوری کے سبب جائز سمجھتی ہے جو کہ حرام ہیں ، اور اُن ذرائع سے کماتے ہیں اور کھاتے ہیں اور کِھلاتے ہیں ، پلتے ہیں اور پالتے ہیں ،بلکہ بسا اوقات تو اچھے خاصے نمازی اور دِینی حلیے اور دِینی مشغولیات والے بھائی بہنیں بھی اِنکے ذریعے کمائی کرتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں ، جب کمائی ایسی ہو گی تو ، پھر دُعائیں بھلا کیونکر  قُبُول ہوں گی  ؟؟؟

:::  (1) :::  تصویروں والی کتابیں ، رسالے وغیرہ کی خرید و فروخت ، جبکہ عُلماء کی طرف سے یہ بات کافی وضاحت سے بیان  کی جاتی ہے کہ بلا ضرورت تصویر بنانا و بنوانا حرام ہے ، اور ایسی کتابوں اور رسالوں وغیرہ کی خرید و فروخت جِنکی ضرورت نہیں اور جِن کو استعمال کرنا مجبوری نہیں ، خاص طور پر جِن میں ایسی تصویریں ہوں جو گُناہ کی طرف مائل کرنے اور گناہ کر گذرنے کا سبب ہوتی ہیں ، ایسی کتابوں ، رسالوں اخباروں وغیرہ کی خرید و فروخت حرام ہے ، اور ظاہر ہے اِس حرام کمائی پر پلنے والے کی دُعا کیسے قُبُول ہو سکتی ہے ؟؟؟

:::  (2) ::: موسیقی  کے آلات اور موسیقی نشر کرنے کے اسباب ، جیسا کہ موسیقی والی کیسٹس ، سی ڈیز ، وغیرہ کی خرید و فروخت ، خواہ اُن پراِسلامی  ہونے کا لیبل ہی لگا ہو ،

موسیقی کے حرام ہونے میں بھی کوئی شک نہیں اور اِس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون جمادی الاول 1428میں شائع ہو چکا ہے ،

:::  (3) :::  سگریٹ اور تمباکو کی خرید و فروخت ، تمباکو نوشی ،  کی کئی صُورتیں ہیں ، جِن میں سے سب سے زیادہ عام سگریٹ نوشی ہے ، سگریٹ ایسی چیز ہے جِس کے اِستعمال میں چار حرام کام اکھٹے ہوتے ہیں ،

:::   (1) :::   اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ،

جبکہ  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ وَأَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللّہِ وَلاَ تُلقُوا بِأَیْدِیکُم إِلَی التَّہلُکَۃِ وَأَحسِنُوَا إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ المُحسِنِینَ:::  اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اورخود کو ہلاکت میں مت ڈالو اور اچھے کام کرو بے شک اللہ تعالیٰ اچھائی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے سورت البقرۃ (2)  /آیت 195 ،

پس اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ کی روشنی میں سگریٹ نوشی کرنے والے ایک  حرام کام، یعنی اپنی جان کو ھلکات میں ڈالنے کا  شکار ہوتے ہیں ،

:::  (2) :::   یہ بات تو تقریبا ہر شخص ہی جانتا ہے کہ سگریٹ نوشی میں اِنسان کی جان اور مال  کی ہلاکت ہی ہلاکت ہے ایک معمولی سا بھی فائدہ یا صحت مندی نہیں ، اور ایسے کام میں خرچ کرنا جِس میں کوئی فائدہ نہیں ، نہ دِینی نہ دُنیاوی ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہر گِز نہیں ، بلکہ اللہ کے حُکم میں کے خِلاف خرچ کرنا اللہ اور اِیمان والوں کے دُشمن شیطان کی راہ میں خرچ کرنا ہے ، اور ہر وہ کام جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے  حُکم کے خِلاف ہے حرام ہے ،

اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ إِنَّ المُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراً  :::  بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور بے شک شیطان اپنے رب کا کفر کرنے والا ہے سُورت بنی اِسرائیل (الاِسراء ) /آیت 27،

یعنی فضول کرچی کرنا شیطان کے سیکھائے ہوئے کاموں میں سے ہے اور ایسا کرنے والے اُس کے بھائی ہیں کیونکہ وہ اُس کی بات پر عمل کرتے ہیں ، اور جِس طرح شیطان اپنے رب کا کفر کرتا ہے یعنی نافرمانی کرتا ہے اُسی طرح اُس کی بات پر عمل کرنے والے بھی اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہیں ، اور سگریٹ نوشی میں خرچ کرنا ، سراسر فضول خرچی ہے کیونکہ یہ ایسا کام ہے جِسکی اِنسان کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں ، صدیوں سے اِنسان اِس کے بغیر رہتے چلے آئے ہیں ، اور اب بھی کڑوڑوں اِنسان اِس کے بغیر اپنی زندگی بغیر کِسی کمی اور نقص کے مکمل طور پر بسر کر رہے ہیں ، لیکن جِن پر شیطان کا داؤ چل جاتا ہے وہ اُس کے وساوس کا شِکار ہو جاتے ہیں اور یہ فضول خرچی کرنے لگتے ہیں ، اللہ کی نافرمانی جو سراسر حرام کام ہے ،اُس  کا شکار ہو کر اللہ کے ہاں شیطان کے بھائی ہو جاتے ہیں ،

:::  (3) :::  اپنے اِرد گِرد مُسلمانوں ، اور دیگر اِنسانوں کوجانی نقصان ، اور،

 :::  (4) :::   ذہنی و نفسیاتی اذیت اور دُکھ پہنچانا ،

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ﴿ مَن أَکَلَ ثُومًا أو بَصَلًا فَلیَعتَزِلنَا أو قَالَ فَلیَعتَزِل مَسجِدَنَا وَلیَقعُد فی بَیتِہِ ::: جِس نے ثوم (لہسن) یا پیاز کھایا ہو وہ ہم سے دُور رہے یا فرمایا وہ ہماری مسجد سے دُور رہے اور اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے صحیح البُخاری /حدیث 817 /کتاب صفۃ الصلاۃ /باب 76 ، صحیح مسلم /حدیث 567/ کتاب المساجد و مواضعیھا /باب 17،

دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم ، دُوسروں کو تکلیف و اذیت سے بچانے کیلیے حلال چیز کھا کر بھی  دُوسروں سے اور خاص طور پر ایسی جگہ سے دُور رہنے کا حُکم دے رہے ہیں جہاں زیادہ لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ، تو پھر ایسی چیز کا کیا حال ہے جو بذاتِ خود حرام ہو ، کیونکہ وہ ہلاکت کا سبب ہے ، اور دُوسروں کو اُس کی بدبو اور اُس کے دیگر خطرناک اثرات پینے والے کی طرح ہی نُقصان پہنچاتے ہیں ، ڈاکٹرز کی تحقیق میں یہ ثابت ہوچکا کہ سگریٹ نوش کے ارد گِرد والے اُس کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے اُس کی نسبت زیادہ نُقصان اُٹھاتے ہیں، اِس طرح یہ سگریٹ نوش اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کے ساتھ دُوسروں کی جان کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور بدبو کی وجہ سے نفسیاتی اذیت کا باعث بھی بنتا ہے ، اور مزید دو حرام کاموں کا شِکار ہو جاتا ہے،

یہاں تک کی بات سے یہ واضح ہوا کہ سگریٹ نوشی ایک ایسا کام ہے جِس کو کرنے والا چار حرام کاموں کا شکار ہو جاتا ہے ، اور سگریٹ بیچنے والے ، سگریٹ پینے والوں کے لیے اِن حرام کاموں کا شکار ہونے کا بنیادی سبب ہوتے ہیں ، کیونکہ بیچنے والے ہی وہ ہیں جو پینے والوں کو اِن حرام کاموں کا شکار بننے کا ذریعہ بنتے ہیں،

اب ذرا غور کیجیے  تو پتہ چل جاتا ہے کہ جو کچھ وہ اِس تجارت میں کماتے ہیں حرام ہوتا ہے ، جب کمائی اور اُس کمائی پر پرورش شدہ جِسم و جان حرام ہو گی تو پھر دُعاء کیسے قُبُول ہو گی ؟؟؟

::: آخر میں دُعاء کے کچھ بنیادی آداب بھی ذِکر کرتا چلوں :::

:::::  اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء کے ساتھ دُعاء کا آغاز کیا جائے ،

:::::   دُعاء کا آغاز اور اختتام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر صلاۃ (دُرُود) کے ساتھ کیا جائے ،

:::::   اپنے گناہوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا جائے ،

:::::   اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا اعتراف کیا جائے ، اور اُن پر اللہ کا شُکر ادا کیا جائے ،

:::::   دونوں ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کی جائے ،

دُعاء کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا خِلاف سُنّت ہے ، اور نہ ہی دُعاء کا حصہ  ہے ، الحمد للہ  اِس مسئلے کی تحقیق  الگ مضمون کی صُورت میں پیش کی جا چکی ہے،

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اُس کی اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے اپنی زندگیوں کے معاملات نمٹائیں ، حلال رزق کمائیں اور اُن میں سے بن سکیں جِن کی دُعائیں قُبول ہوتی ہیں ،

والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،

طلب گارء دُعاء ،  

عادِل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت : 23/09/1429ہجری، بمُطابق، 23/09/2008 عیسوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ (PDF) :

http://bit.ly/2oGUtk9 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب (MP4) :

 https://youtu.be/Vtw1pz7VaRg 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔